Saturday, 25 May 2013

تیسرا کلمہ تمجید۔۔۔فضائل و برکات



تیسرا کلمہ تمجید۔۔۔فضائل و برکات



عصرِ حاضر میں اہلِ اسلام کی پریشانیوں کی عمومی وجوہات  دین سے دوری، اسلامی تعلیمات  پر عمل نہ کرنا، اللہ تعالٰی  کی ناراضگی اور رسول اکرم ﷺ کی شریعت و سنت کے خلاف ورزی ہیں۔   بقا کو چھوڑ کر فنا ہونے والی دنیا کی پوجا،  نفس پرستی، اللہ کی رضا کی بجائے اپنی منشاء و رضا مندی کے حصول کی کوشش، کتاب و سنت کو خود پر نافذ کرنے کی بجائے اسلام کو اپنی مرضی کی زاویے سے دیکھنا، اپنی سہولت کے لئیے دین میں نرمی اور آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش اور اصلاح کرنے والے سے یہ امید رکھنا کہ وہ ہماری مرضی کے مطابق دین و شریعت کو بیان کرے،  طرزِ معاشرت، آداب زندگی، شرعی قوانین، فقہی مسائل،  انبیاء کرام علیہم السلام، اصحاب و الیاء کرام علیہم الرضوان کی تعلیمات سے فیض یاب ہونے کی بجائے اپنی اصطلاحات کو متعارف کروانا اور پھر اس پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنا۔  یہ وہ تمام مسائل ہیں جنہوں نے اہلِ اسلام کی زندگی میں رکاوٹیں، پریشانیاں اور نفسیاتی مسائل کے پہاڑ کھڑے کر دئیے ہیں۔  اس سلسلہ میں انفرادی طور پر ہم بھی مجرم ہیں اور امت کی قیادت بھی برابر کی شریک ہے۔

روحانی علاج  کے سلسلہ میں دنیا بھر میں موجود بہنیں اور بھائی رابطہ کرتے ہیں۔  اکثریت کا مسئلہ ذہنی پریشانی اور بے سکونی سے ہی شروع ہوتا ہے۔   جب شیطان ذہن پر حاوی ہوتا ہے پھر میاں بیوی کے جھگڑے، اولاد کی نافرمانیاں، نماز میں دل نہ لگنا،  کاروبار میں بے برکتی، شادی و نکاح میں رکاوٹ، صحت کی خرابی،  دماغی کیفیت میں رد و بدل اور بہت کچھ۔  جب کسی کے دل سے رحمت اٹھ جائے،   احکامِ الٰہیہ کہ خلاف ورزی شروع ہو جائے تو پھر شیطان اپنے راستے ہموار کر لیتا ہے۔  اس ساری کیفیت کو ہمارے لوگ جادو سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ حقیقت میں یہ جادو نہیں ہوتا بلکہ شیطان کا حملہ ہوتا ہے۔   ایسے لوگ جب عاملین سے رابطہ کرتے ہیں تو بہت سارے عامل اس پریشانی میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔   کوئی اسے جنّات کا حملہ کہے گا تو کوئی کالا اور سفلی علم۔  اس سے لوگوں کی پریشانی  میں شدید اضافہ ہو جاتا ہے۔  لوٹنے والے عامل پیسے مانگتے ہیں اور ہزاروں روپے غرق کر دئیے جاتے ہیں۔   

حقیقت تو یہ ہے کہ ان ساری پریشانیوں سے نجات کے لئیے  قرآن و سنت کے مطابق اور اولیاء کاملین کے فرامین پر عمل کر کے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔  بنیادی طور پر ان مسائل میں مبتلا لوگوں کو اللہ کے قریب لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔  ایسے لوگوں کو اگر سوا لاکھ کلمہ پڑھنے کی ہدایت کر دی جائے اور قرآن کریم کی لمبی لمبی سورتیں پڑھنے کو بتا دی جائیں تو وہ کبھی بھی اس پر عمل نہیں کریں گے۔  جو بندہ نماز کے لئیے وضو کرنے کو تیار نہیں وہ   لمبے لمبے وظائف کیسے کرے گا؟  ایسوں کو ابتدائی طور پر توبہ و استغفار کی طرف لایا جائے اور کسی ولی ِ کامل کی بارگاہ سے اس کی بھلائی کی دعا کروائی جائے تاکہ اس کے دل کی حالت بدلے اور وہ ہدایت پا جائے۔
میں نے  جب سے ہوش سنبھالا عملیات و وظائف کو اپنے  آس پاس دیکھا۔  والدِ گرامی سے لےکر مرشدِ کریم   حضور نائبِ محدث اعظم، شیخ الحدیث  والفقہ والتفسیر علامہ مفتی پیر محمد عبد الرشید قادری ر ضوی رحمۃ اللہ علیہم تک یہ تجربات و مشاہدات سامنے آتے رہے۔  میں نے تمام بزرگان سے ایک سبق سیکھا کہ ذہنی، نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کے شکار ہر انسان کو اللہ کے قریب لاؤ۔  توبہ و استغفار کی طرف راغب کرو۔  اس سلسلہ میں استغفار کی کثرت اور تیسرا کلمہ کا ورد اکسیر ثابت ہوا۔  حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ، آپ کے جانشین پیر ابو الحسن محمد غوث رضوی صاحب دامت برکاتہم العالیہ سمیت کئی بزرگوں کو دیکھا کہ وہ روحانی علاج  استغفار اور تیسرا کلمہ سے شروع فرماتے ہیں۔    تیسرا کلمہ کیا ہے؟  اس کی برکات کیا ہیں؟  ملاحظہ فرمائیے اور اپنی زندگی میں اس کا تجربہ کیجئیے۔
تیسرا کلمہ  پانچ اوراد اور وظائف کا مجموعہ ہے۔
1- سبحان اللہ۔ 2- الحمدللہ۔ 3- اللہ اکبر۔
یہ تینوں وہ کلمات ہیں جن کو تسبیحِ فاطمی بھی کہا جاتا ہے۔ مخدومہ کائنات ہمارے آقا ﷺ کے جگر کا ٹکڑا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے۔ پھر رسول رحمت ﷺ نے جب یہ وظیفہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو عطا فرمایا تو اس وقت یہ کرم بھی فرمایا کہ اس کے بدلے میں اللہ تعالٰی سو غلاموں کو آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا۔ سبحان اللہ۔   (ہر نماز کے بعد بالترتیب 33-33-34 مرتبہ) ۔

اسی طرح اس میں کلمہ طیبہ کا جز بھی شامل ہے۔ "لاالہ اللہ ۔ پھر آخر میں "لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم"۔ اللہ کی تسبیح، حمد، کبریائی کے ساتھ ساتھ اس کے معبودِ برحق ہونے اور ہر تقدیر پر قادر ہونے کا اعتراف و اقرار بھی اس میں موجود ہے۔

اسی طرح علماء کرام نے اس کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ  حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عرش بنایا اور فرشتوں کو اسے اٹھانے کا حکم دیا تو فرشتوں کو عرش بہت وزنی محسوس ہوا اس وقت فرشتوں کو سبحان اللہ پڑھنے کو کہا چنانچہ اس کو پڑھتے ہی عرش اٹھانا آسان ہوگیا فرشتے برابر اس کلمے کو پڑھتے رہے یہاں تک کہ حضرت آدم علیہ السلام وجود میں آئے اور ان کو چھینک آئی تو الحمدللہ پڑھنے کا حکم دیا اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا یرحمک اللہ۔  فرشتوں نے یہ کلمہ سنا تو سبحان اللہ کے ساتھ الحمدللہ بھی پڑھنے لگے،    حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ آیا تو بت پرستی کیخلاف اللہ نے حکم دیا کہ قوم کو لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی تلقین کرو۔  فرشتوں نے اس کو بھی ملا کر پڑھنا شروع کردیا حتیٰ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ آیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم ملا۔  تعمیل کرنے لگے تو جنت سے جبرائیل علیہ السلام دنبہ لیکر آئے کہ اسماعیل علیہ السلام کی جگہ اس کو قربان کردو۔  حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے خوشی سے نکلا اللہ اکبر۔  فرشتوں نے اس کو بھی ملالیا اور یوں پڑھنے لگے یہاں تک کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا زمانہ آیا۔  حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ واقعہ آپ ﷺ کو سنایا تو آپ ﷺ نے اظہار تعجب کیلئے فرمایا  لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ  فرشتوں نے یہ بھی ساتھ ملا لیا اور یوں تیسرا کلمہ مکمل ہوا۔

صاحبِ  "جمع الفوائد " لکھتے ہیں کہ  "آقائے دوجہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو احد پہاڑ کے برابر عمل کرلیا کرے؟  عرض کی کہ وہ کیسے یارسول اللہ ﷺ؟  آپﷺ نے فرمایا کہ ہر شخص کرسکتا ہے کیونکہ سبحان اللہ پڑھنے کا ثواب احد سے زیادہ ہے۔  لاالہ الا اللہ کا ثواب احد سے زیادہ ہے۔  الحمدللہ کا ثواب احد سے زیادہ ہے۔  اللہ اکبر کا ثواب احد سے زیادہ ہے
رسولِ رحمت ﷺ کی زبان مبارک اور پھر اولیاء صالحین و کاملین کے عمل سے ثابت ہوا کہ اس کلمہ میں کوئی انمول خزینہ ضرور چھپا ہوا ہے کہ مدینے والا آقاﷺ نے تو اس میں موجود کلمات کو احد جیسے  بلند مرتبت پہاڑ سے بھی زیادہ با برکت قرار دیا۔   بزرگانِ دین  نے اس کے بہت سے فضائل لکھے۔ میں اپنے تجربات پیش کرتا ہوں۔
میں نے خود اپنی زندگی میں آزمایا اور  اب تک ہزاروں لوگوں کو بتا چکا ہوں، الحمدللہ برکتیں  نصیب ہوئیں۔ اگر کہیں کمی ہو تو وہ اپنے یقین اور اعتماد میں ہوتی ہے۔

ذہنی سکون، گھریلو پریشانیاں، میاں بیوی کے اختلافات، رزق میں تنگی،  کاموں میں رکاوٹ، مقدمات میں پریشانی، عبادات میں دل لگانے کے لئیے، روحانی ترقی پانے کے لئیے،  جادو، شیطانی اثرات اور جنات سے نجات پانے کے لئیے الغرض ایک مسلمان کے ہر روحانی مسئلے کے حل کے لئیے تیسرا کلمہ ایک عظیم نعمت ہے۔   میرے والدِ گرامی جنات کی حاضری تک کے لئیے تیسرا کلمہ کی مدد لیتے ہیں اور بھرپور کامیابی و فائدہ ہوتا ہے۔  جس قدر ایمان پختہ اور یقین مضبوط ہو گا اتنی ہی لذت و حلاوت محسوس ہو گی۔
طریقہ عمل:
ذہنی، کاروباری اور بد اثرات کے مسائل کے لئیے، نمازِ فجر سے پہلے یا بعد میں 100 بار درود شریف، پھر 100 بار تیسرا کلمہ پڑھیں۔  اسی طرح عشاء کے بعد یہ عمل کریں۔

اگر کوئی مشکل کام درپیش ہو، سختی کا وقت ہو یا کوئی مہم در پیش ہو ، حاسدین  سے حفاظت کی ضرورت ہو تو بعد نمازِ عشاء 111 بار "یاحی یا قیوم برحمتک استغیث" کے ساتھ ملا کر پڑھیں۔ انشاء اللہ رحمت کا نزول ہو گا۔
تمام خواتین و حضرات  جو روحانی علاج کے طالب ہیں ، روزانہ صبح شام تیسرا کلمہ اپنے ورد میں شامل کر لیں۔   ہر نماز کے بعد کم از کم 11 بار یا 3 بار اپنے معمول میں شامل کر لیں۔   اگر اللہ کی تسبیح و تحمید اور استغفار  آپ کے معمول میں شامل رہے تو انشاء اللہ کسی  کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔   نہ آپ کا پیسہ ضائع ہو گا اور نہ ہی آپ کے کسی میں رکاوٹ  ہو گی۔ انشاء اللہ۔

فی سبیل اللہ روحانی علاج کے لئیے آپ ہمیں ای میل، سکائپ اور فیس بک کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں۔ الحمد للہ علیٰ احسانہ  کہ پوری دنیا میں یہ سلسلہ عام ہو رہا ہے۔  اس کی کوئی فیس نہیں ہے۔    میں عام ملاقات نہیں کر سکتا اس لئیے ای میل، فون اور سکائپ کے ذریعہ یہ خدمت جاری ہے ۔  بعض اوقات اگر کسی کو کئی تعویذ وغیرہ بھجوانے  کی ضرورت پیش آئے تو اس کا انتظام  ضرورتمند پر ہوتا ہے تاہم کسی قسم کی کوئی فیس وغیرہ نہیں لی جاتی۔ الحمدللہ۔ 


اس خدمت کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لئیے آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اللہ کریم ہمیں حاسدین اور شریروں کے 
شر سے بچائے اور مخلوقِ خدا کی خدمت جاری رہے۔

ہمارے فیس بک پیجز: https://www.facebook.com/elaj.roohani

Email:  mi.hasan@outlook.com
Skype: mi.hasan

Monday, 20 May 2013

اردو پاکستان کی قومی زبان؟







اردو پاکستان کی قومی زبان؟

یہ مضمون اس سے قبل شائع دیگر ذرائع پر شائع ہو چکا ہے۔ اپنے قارئین کی دلچسپی کے لئیے بلاگ پر شائع کر دیا۔


اردو پاکستان کی قومی اور بر صغیر میں بولی جانی والی سب سے بڑی زبان ہے۔ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے اس عظیم زبان
 کا معدہ اور نظام ہضم بہت متحرک اور مضبوط ہے۔ فارسی، عربی ، ترکی، ہندی، پنجابی، سنسکرت غرض جس زبان سے بھی ہجرت کر کہ کوئی لفظ اس تک پہنچا اس نے او ج و کمال پایا۔ اردو دنیا کی چند بڑی زبانوں میں سے ایک ہے اور اس کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ یہ بر صغیر میں بسنے والی مختلف قوموں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ ہمارے افغان بھائی بھی اردو سمجھتے اور بولتے ہیں وہ الگ بات ہے کہ اردو میں تذکیر و تانیث کہ اصولوں کی دھجیاں پختونوں سے بہتر کوئی نہی اڑا سکتا۔ تا ہم احمد فراز اور قتیل شفائی جیسے اردو کے عالم فاضل خیبر پختونخواہ سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ بنگلہ دیش میں بھی اردو کے اثرات ابھی باقی ہیں، خصوصا مذہبی طبقہ جن کے روحانی یا سیاسی مراکز ہندوستان اور پاکستان میں ہیں وہ بخوبی اردو سمجھتے ہیں۔ ہمیں بنگلہ دیش جانے کا تو اتفاق نہی ہوا (ابھی تک) مگر بنگالیوں سے ہمارا واسطہ اکثر رہتا ہے۔ ابھی پچھلے کل کی بات ہے ہمارے گھر پہ برقیات کی ترسیل میں کچھ خرابی پیدا ہوئی، پڑوس میں ہی ایک بنگالی بھائی برقی آلات کی مرمت کا کام کرتے ہیں، انہیں مدد کے لئیے بلایا، بولے کیا آپ جانتے ہیں ہمارا اصلی نام کیا ہے؟ ہم نے کہا لوگ تو آپ کو "شاہ نواز" ہی پکارتے ہیں۔ بولے نہی، ہمارا یہ نام اردو بولنے والوں کے لیئے ہے۔ بنگالی میں ہمارا نام "توہین" ہے۔ جس کا اردو میں اچھا مطلب نہی لیا جاتا۔ یعنی " توہین عدالت " جس کی سزا مسکن و مخدر ادویات کی فروخت میں ملوث موسیٰ گیلانی صاحب کے جد کریم سید یوسف رضا گیلانی صاحب ملتان شریف والے بھگت رہے ہیں۔ تو ثابت ہوا کہ بنگلہ دیش والے بھی اردو کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں۔ اور تو اور ایک مرتبہ ایک عمانی باشندے سے کسی بات پر ہمارا اختلاف ہو گیا، طنز کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے " یا عزیزی انت واجد سیانا"۔ حصول روزگار کے متلاشی سمندر پار پاکستانیوں نے عربوں کو بھی اردو سکھا دی ہے۔ اسی طرح ایک عرب ملک کی سبزی منڈی جانا ہوا، ایک پاکستانی ٹرک ڈرائیور مشہور قوالی "دما دم مست قلندر" سن کر مست و بے خود ہو رہا تھا، اسی اثناء میں ایک عرب جوان وارد ہوا اور وہ بھی شریک رقص ہو گیا، اب خدا جانے یہ وجد تھا یا پھر اس کی مستی کہ وہ بھی یوں اس کا ہمنوا ہوا " دما دم مست سلنڈر"۔ لیجیئے قلندر کی جگہ سلنڈر نے لے لی۔ ہم سے اپنی محبوبہ "اردو" کے ساتھ یہ زیادتی برداشت نا ہوئی، عرض کیا یہ قلندر ہے نا کہ سلنڈر، عرب چونکہ حاضر دماغ بھی ہوتے ہیں فورا جواب دیا " یا شیخ لا فرق بین القلندر والسلنڈر"۔ تو قوالی، شاعری اور اردو کے محبین نے اسے دور دراز ممالک تک پہنچا دیا ہے۔ حتیٰ کہ اردو سے نا بلد حنا ربانی کھر جو کہ اردو بولنے والوں کی وزیر خارجہ ہیں، کی سہیلی ہیلری بی بی بھی اردو کے ایک لفظ "ساس" کے معنی جانتی ہیں، شاید اس لئیے کہ کچھ لوگوں کے نزدیک ان کا پاکستان سے تعلق بھی کچھ اس نوعیت ہی کا ہے۔

اردو کو بہت اچھے اچھے خدمت گار بھی میسر آئے۔ تا ہم اردو کا ادراک اور فہم پاکستان میں عام نا ہو سکا اور یہ خواص کی محافل و مجالس تک ہی محدود رہی۔ من حیث القوم ہم نے اردو کو نہی اپنایا۔ سندھ میں آج بھی سرکاری مکاتب میں اردو کی جگہ سندھی ہی لکھی اور بولی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ سندھ میں اردو کی حیثیت ایک متنازعہ سیاسی فریق کی سی ہے۔ اسی طرح عدالتوں نظام میں آج تک انگریزی ہے رائج ہے۔ جس کی وجہ سے ایک عام آدمی کو عدالتی معاملات سمجھنے میں اچھی خاصی پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑھتا ہے۔ طلبا و طالبات اردو کو کوئی اہمیت نہی دیتے کیونکہ سکول جس کو اردو میں مدرسہ کہتے ہیں وہاں اساتذہ بچوں کو یہ سمجھانے میں ہی ناکام ہیں کہ قومی زبان کی کیا افادیت ہے۔ توہم پرستی کا شکار پاکستانی قوم اور اس کے رہبر یہ سمجھتے ہیں کہ اردو ہماری ترقی میں رکاوٹ ہے۔ جب کہ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ ہمیں سابقہ روسی اتحاد کے زیر اثر رہنے والی ریاستوں کے سفر کا موقع ملا۔ ان میں سے بیشتر ایسی ریاستیں ہیں جن کے ناموں کے درست تلفظ بھی ہمارے پاکستانی نہی جانتے۔ وہ پسماندہ اور بعید از کائنات سمجھی جانے والی ریاستیں اپنی علاقائی اور ریاستی زبانوں میں ہی ترقی کر رہی ہیں۔ حتیٰ کہ کمپییوٹر کے تمام سوفٹ ویئر بھی انہوں نے اپنی زبانوں میں ہی بنا رکھے ہیں۔ جس سے ان کی قومی سلامتی کو مزید تقویت ملتی ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک چین کے صدر اور وزیر اعظم پڑھے لکھے اور زہین و فطین اشخاص ہیں۔ آپ نے کبھی بھی ان کو کسی غیر ملکی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے نہی سنا ہو گا، حالانکہ وہ بخوبی انگریزی سے واقف ہیں۔ پورا عرب اور اس کی قیادت اپنی زبان میں ہی کلام کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ طب، ہندسہ، ارضیات، صحافت، معاشرت، مذہب، سیاسیات اور قانون کے علوم کے حصول کا ذریعہ بھی قومی زبان ہی ہے۔ یہ ممالک کس لحاظ سے پیچھے ہیں؟ دنیا مین تیل کی پچھہتر فیصد ضرورت عرب سے ہی پوری ہوتی ہے۔ 

پاکستان میں صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے۔ صدر مملکت، آئیندہ قربانی کے لئیے تیار جناب وزیر اعظم، اراکین اسمبلی سمیت دیگر بڑے عہدوں پہ متمکن اشراف اردو سے نا بلد ہیں۔ انگریزی کو باعث عزت سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اردو سے تو نا واقف ہوتے ہیں وہ اپنا رعب و مرتبہ بڑھانے کے لئیے انگریزی کی بھی "تیتی پھیتی" اڑا دیتے ہیں۔ ان پاکستانیوں کی انگریزی بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسے افغانستان سے ہجرت کر پاکستان آنے والے پختونوں کی اردو ہوتی تھی۔ اردو کو بگاڑنے اور اس کو پیچھے دھکیلنے میں سب سے اہم کردار برقی صحافت کا ہے۔ صبح سویرے انگریزی لباس میں ملبوس خواتین میزبان منہ بگاڑ بگاڑ کر اردو کا جو حال کرتی ہیں اس سے بالیقین اردو کے پیٹ میں شدید "وٹ" پڑھتے اور "مروڑ" اٹھتے ہوں گے۔ اخبارات، رسائل، جرائد اور دیگر تحریری مواد میں بھی لسانیات کے قواعد کی خلاف ورزی نے اردو کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ تعلیمی نظام، عدالت، صحافت، معاشرہ اور ریاست کو زبانوں کے اس نا مناسب استعمال کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کے پاکستانی اردو ٹھیک طرح سے سمجھتے ہیں اور نا ہی انگریزی۔ 

اب پیغام رسانی کا نیا زریعہ جو اب قدرے پرانا ہو چکا جس کو ایس ایم ایس کہتے ہیں اس نے تو اردو کو اور بھی کمزور کر دیا ہے۔ نستعلیق کی جگہ رومن اردو نے لے لی ہے۔ بلکہ اقبال کے کئی ایسے شاہین ہیں جو خالص اردو میں لکھی ہوئی عبارت کو سمجھنے کے لئیے اسے رومن اردو میں لکھ کر پڑھتے ہیں۔ حاکمانِ وقت کو چاہیئے کہ اردو زبان کو بالاتفاق بطور قومی زبان نافذ کریں۔ تمام سرکاری معاملات میں اردو رائج کی جائے۔ اس سے باہمی اتفاق اور یگانگت ہیدا ہو گی۔ 

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بین الاقوامی سطح پہ انگریزی کی اہمیت مسلمہ ہے۔ حصول روزگار و کاروبار کے لئیے، تعلیم و فن کے فروغ کے لئیے عالمی سطح پہ ہمیں انگریزی کی ضرورت بہر کیف ہے۔ تا ہم اپنی ثقافت و تشخص، اقدار و تاریخ کا دفاع اور فروغ صرف اور صرف اردو ہی میں کر سکتے ہیں۔ اسلامی علوم کا عظیم و ضخیم ذخیرہ جتنا عربی زبان میں تھا اتنا ہی آج اردو میں دستیاب ہے۔ فصاحت و بلاغت کی اس شاہکار زبان کو اپنا کر ہی ہم اپنے تشخص کو مجروح ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ 

 https://www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi

Thursday, 16 May 2013

میری ماں جھوٹی تھی



میری ماں جھوٹی تھی

میری ماں جھوٹی تھی۔۔۔ جی وہ جھوٹی تھی۔۔۔ اس کے جھوٹ کا درجہ کیا تھا؟ بس وہ جھوٹی تھی۔۔۔ یہی پتہ ہے۔۔۔ جھوٹ تو اللہ کو پسند نہیں مگر ماں کا جھوٹ  اس زمرے میں داخل نہیں۔  ماں جھوٹی تھی اس کا احساس تو مجھے  اسی دن ہو گیا تھا جب اس کا سایہ اٹھا  تھا  کہ اس کے بنے ہوئے سارے خواب  وہ ساتھ لے گئی تھی۔ میری اب تک کی زندگی کا سب سے بڑا سچ، سب سے بڑی تلخی، سب سے کربناک کہانی، اور غم و آلام کے پہاڑوں تلے دفن داستان    یہی "جھوٹی" ماں ہی ہے۔  یہ وہ موضوع ہے جس پر لکھتے وقت میرا قلم  معذور ہو جاتا، آنکھیں دھندلا جاتیں، ہاتھوں میں رعشہ اور دماغ میں موجود تمام مواد    منجمند  ہو جاتا ہے۔   اس عنوان کی ترغیب مجھے ایک دوست کی تحریر سے ملی۔  اور میں نے اپنے دل کا غبار نکالنے کا ارادہ کیا۔   ایک لکھاری، شاعر یا مصنف کے ہر کام کے پسِ پردہ کوئی نا کوئی راز ہوتا ہے جو اسے مثبت، منفی، تعمیری یا تنقیدی  سوچ کو ورق پر منتقل کرنے کا جذبہ دیتا ہے۔  لکھنے والوں کی اکثریت اپنے گھر میں بے قدری،  بے عزتی اور  "دال برابر"  والی  صف میں شمار ہوتی ہے۔    اعصابی و ذہنی ، معاشرتی و روحانی طور پر  مجروح یہ طبقہ  لکھنے کے سوا کر بھی کیا سکتا ہے۔  اپنی تلخیوں کو الفاظ کی مالا میں پرو کر دوسروں کے لئیے فرحت و مسرت کا باعث بن جاتے ہیں، کسی کی تفریح کا سامان ہو جاتا ہے اور کسی کو اپنے غم تازہ کرنے کو موقع میسر آتا ہے۔ اللہ میرے الفاظ کو بھی کسی کے لئیے تسکینِ قلب و روح کا ذریعہ کر دے۔ آمین

پہلا جھوٹ اس دن  بولا   جب  سوا نیزے پر موجود سورج بھر پور آگ برسا رہا تھا، زمین کی چھاتی سے   آگ کے بگولے اٹھ رہے تھے اور انسانی آنکھیں اس  قدر تیز دھوپ میں زمین پر جمتی نہیں تھیں۔    اتنا یاد ہے کہ ایک دکان پر لے کر گئی،  وہاں سے جوتے خرید کر دیے،  میری ضد تھی کہ میں اپنی پسند کے جوتے خریدنا چاہتا ہوں مگر اس نے  کہا کہ تیری پسند اچھی نہیں،  جو جوتے میں پسند کر رہی ہوں وہ زیادہ اچھے ہیں۔   جبکہ یہ جھوٹ تھا۔  شاید اپنے گھر  کے بجٹ کی حدود میں رہنا چاہتی تھی یا پھر کوئی اور مجبوری۔ لیکن جھوٹ بول کر  مجھے خوش کر لیا۔ جوتے بھی خرید کر دئیے اور خود کو سخت احتساب سے بھی بچانے کی کوشش کی۔ (یہ نہیں  معلوم کہ وہ احتساب سے بچ پائی یا نہیں)۔

 پھر ایک بار سردیوں کی رات میں  ننھیال سے ددھیال کے سفر میں اس نے جھوٹ بولا۔  افرا تفری اور "ہنگامی بنیادوں" پر   سفر کے ملنے والے اس حکم کی وجہ سے وہ گرم کپڑوں کا بھی انتظام نہ کر سکی۔ میری بد قسمتی کہیں یا لا چاری کہ میں اس کی ترجمانی کے قابل نہیں تھا۔  ٹھٹھرتی رات میں اس نے اپنی چادر میں مجھے لپیٹا تو میں نے کہا تو خود کو ڈھانپ لے مجھے چادر کی ضرورت نہیں۔ اس پر وہ بولی " نہیں میرا بچہ تو چادر اوڑھ لے، مجھے سردی نہیں لگتی"۔ یہ بھی ایک جھوٹ تھا۔

جب میرے شفیق و کریم چچا مجھے اپنے ساتھ کشمیر لے جانے کے لئیے آئے تو وہ گھر پر موجود نہیں تھی۔  شاید کسی جرم کی سزا بھگتنے کے لئیے ننھیال میں تھی۔  چچا جی مجھے اپنے ساتھ کشمیر لے گئے۔  کچھ عرصہ بعد میں گاؤں واپس آیا تو سب ہی بہت محبتوں سے ملے۔   ہر کوئی مثلِ گلاب  پکڑتا، چومتا اور  مجھے اپنے پیار کا احساس دلاتا۔  شاید رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور وہ گاؤں کی دیگر نمازی خواتین کے ساتھ تسبیح نماز میں مشغول تھی۔    نماز سے فارغ ہو کر آئی تو مجھے زمین سے اٹھا کر گلے لگا کر خوب بھینچا۔   ماتھا چومنے کے بعد پھر گلے سے لپٹی رہی۔ دیر تک۔۔۔ اور  پھر جب گلے سے لگاتے ہوئے میں اس کا چہرا نہیں دیکھ پا رہا تھا تو باتیں کرتے کرتے اس کی آواز بھرا گئی۔۔۔ میں سمجھ گیا کہ ماں نمدیدہ ہو چکی ہے۔۔۔ کچھ لمحات بعد مجھے نیچے اتارا تو فوراً  منہ  دوسری طرف پھیر لیا۔   میں اپنی طرف مخاطب کرتا تو وہ رخ بدل لیتی۔   چند لمحات بعد پھر مجھے گود لیا میں نے دیکھا کہ آنکھوں میں سرخی تھی۔  میں نے پوچھا ماں تو رو رہی ہے ،  کیا میرے بغیر اداس ہو گئی تھی؟؟؟  تو بولی نہ ہی اداس ہوں اور نہ ہی روئی ہوں۔  میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔  جب کہ عین اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر خود کو روکنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔   اس کے ان الفاظ میں بھی جھوٹ موجود تھا۔   اس کی صحت ٹھیک نہیں تھی۔ ایک سنجیدہ قسم کے آپریشن  کے بعد وہ  بیمار تھی۔  اور میری عدم موجودگی میں میرا ایک چھوٹا بھائی بھی دنیا سے جا چکا تھا۔  اس نے تمام غموں اور تکلیفوں پر پردہ ڈالا اور خود کو  خوش  ظاہر کیا۔۔۔۔ مگر یہ جھوٹ تھا۔

جان لیوا  گرم لو چل رہی تھی موسم گرما کی  چھٹیاں تھیں، میری کسی شرارت پر غصہ ہو گئی،  میں ڈر کا مارا گھر سے بھاگا،   ایک کمرے پر مشتمل سرکاری پرائمری سکول کی دیوار کے عقب میں چھپ گیا۔   محلے کے کسی بچے سے  میری خبر پا کر وہاں پہنچی،  میں نے تپتی زمین پر ماں کو خوب گھمایا۔  آوازیں دیتی رہے کہ گرمی بہت ہے،  دھوپ تیز ہے،  تجھے بخار ہو جائے گا،  تو بیمار پڑ  جائے گا،  تو نے جوتے بھی نہیں پہنے ہوئے،  تیرا سر ننگا ہے۔  میں تجھے نہیں ماروں گی بلکہ میں تجھے گھر لے جانے کے لئیے آئی ہوں۔  لیکن میں نے اس گلی گلی گھمایا،  خوب پریشان کیا،  اپنی بیماری کی وجہ سے تھک گئی اور مجبور ہو کر گھر چلی گئی۔   دادا ابو سے شکایت کر دی،   ماں سے تو بچ نکلا مگر دادا جی کے  فوجی   حملے نے مجھے کہیں بھاگنے نہ  دیا۔   گھر لے جا کر مجھے ایک چار پائی پر "نلکی کے دھاگے" سے باندھ دیا۔  کیا خوب نفسیاتی قید کیا۔  تھوڑی دیر کے بعد چھوٹی بہن کے ہاتھوں  شکر کا ٹھنڈا شربت بھجوایا۔  میں نے پینے  سے انکار کیا تو بہن کہنے لگی امی نے بنا کر دیا ہے۔  تیرے بھائی کو پیاس لگی ہو گی۔  پھر تھوڑی دیر کے بعد خود آئی۔  سر پہ ہاتھ رکھ کر بولی "ظالما تیرے سر سے آگ نکل رہی ہے، کہیں تو بیمار تو نہیں پڑ گیا"۔   تب پتہ چلا کہ پچھلے کئی گھنٹوں سے وہ  جو  اپنا غصہ دکھا رہی تھی وہ بھی جھوٹ ہی تھا۔

جس دن راہیِ عدم ہونا تھا اس روز  ہمارے سمیت گھر کو خوب سنوارا،    غیر معمولی طور پر  اقرباء و اعزاء سے ملی۔  چہرے پر غیر معمولی خوشی کے تاثرات تھے اور رات میں دیر تک جاگتی رہی۔  اگلی صبح یہ احساس ہوا کہ مالک الملک کا بلاوا تھا،   اپنے چمن کے اجڑنے کے  غم،  موقع اور احساس کو بانپتے ہوئے وہ تبسم و اطمینان کا جو احساس دلا رہی تھی  وہ بھی ایک جھوٹ ہی تھا۔

اولاد کو خوش دیکھنا،  ان کا مستقبل ہرا بھرا دیکھنا،  اپنے گھر کو پر امن و سلامت دیکھنا اس کا خواب تھا۔  اس کا ہر ہر خواب  ایک بار نہیں ہزار بار ٹوٹا،  ٹوٹ کے  بکھرا،  ان کرچیوں کو جمع کرتے ہوئے کئی بار ہمارے ہاتھ زخمی ہوئے ۔  یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور قدرت کے کارخانے میں آزمائشوں اور تجربوں کی بنیاد پر  تعمیر حیات  جاری ہے۔  عزم   و وفا، بقا اور ارتقاء کی  راہیں دشوار ضرور مگر اسی  کی تربت سے ہو کر آنے والی ہوائیں ہمارے لئیے آکسیجن کا کام کر رہی ہیں۔

ایک تازہ ترین جھوٹ یہ ہے کہ گزشتہ صبح فجر کے بعد وہ مجھے ملنے آگئی۔     کسی اجڑے ہوئے  گلستان میں بیٹھی،  چہرے پر اداسی اور نقاہت کے وہی اثرات جو اس کی آخری زندگی میں بھی نمایاں رہے۔   میری زباں تو کند رہی مگر اس نے بھی کلام کا تکلف نہ کیا۔   جب قریب جا کر کچھ عرض کرنے کا  قصد کیا  تو  پھر بچھڑ گئی۔  میری بد قسمتی کہئیے یا مجبوری کہ میں اس کی تربت سے دور ہوں۔  بہت دیر  تک  وجدانی کیفیت رہی ،  روحانی طور پر احساسات کا آنا جانا رہا،   پھر میں نے  ہر لحاظ سے اسی کی مثل و مثال  اس کی بیٹی کو فون کر  کے  فاتحہ و ایصالِ ثواب کے لئیے کہا۔   عین اگلے  لمحے آ کر بتا گئی میں تم لوگوں سے خوش ہوں۔ تب سمجھ آئی ۔۔۔ اس کا مطلب کل جو ناراضگی دکھائی تھی وہ بھی جھوٹ تھا۔۔۔

تیری     ناراضگی کتنی عارضی ہوتی ہے۔   جو اللہ تیرے جیسی ستّر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے  وہ  فردوس  کے بلند درجات میں تجھے  عزتیں اور عظمتیں بخشے۔  جب تو ہمارے پاس تھی تب راضی و ناراضی کے معیار کو ہم سمجھتے نہیں تھے۔   اب تیری رضا صرف ایک دعا میں ہے۔  تیری تربت پہ کروڑوں رحمتیں ہوں۔  تیری نسلوں میں حمیت و غیرت موجود رہے۔   جب تو یہاں موجود تھی  اس وقت کے آنسو تو ہمیں یاد نہیں، اور جو یاد ہیں وہ تو پونچھ لیا کرتی تھی۔۔۔ اب جو  آنکھوں سے  برس رہے انہیں کس کا آنچل  آکر پونچھے گا؟؟؟  اللہ تیرے جھوٹوں کا صدقہ ہمارے حال پر رحم کرے۔۔۔۔

Friday, 10 May 2013

وضو کا طریقہ بمع سنن و فرائض






وضو کا طریقہ مع سنن و فرائض




الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين وعلٰی الہ واصحابہ اجمعین

کچھ دن قبل وضو کی برکتیں آپ پڑھ چکے۔ روحانی تسکین  کا ایک خزانہ اس وضو میں پوشیدہ ہے۔ وضو کے فضائل و برکات پر مزید گفتگو کئیے بغیر آج آپ وضو کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں گے۔ کوشش کیجئیے اس پورے مضمون کو اوّل تا آخر مکمل پڑھ  لیجئیے۔  بہت ساری غلطیوں کی نشاندہی ہو جائے گی۔ انشاء اللہ۔ اگر آپ کا وضو ٹھیک ہو گیا تو عبادت میں دل بھی لگے گا، قبول بھی ہو گی اور روحانی سکون بھی میسر آئے گا انشاء اللہ۔ وضو تمام عبادتوں کی بنیاد اور کنجی ہے۔ وضو ٹھیک ہے تو پھر اللہ کی رحمت کے سہارے یہ امید اور یقین کیا جا سکتا ہے کہ عبادات درجہ قبولیت کو پہنچیں گی۔ انشاء اللہ


سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے والد گرامی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے وضو کا پانی طلب فرمایا۔ میں نے وضو کا پانی لا کر حاضر خدمت کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے وضو فرمانا شروع کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے قبل دونوں ہاتھوں کو تین دفعہ دھویا۔ اس کے بعد تین مرتبہ کلی فرمائی اور تین دفعہ ناک صاف فرمائی بعد ازاں آپ نے منہ کو تین دفعہ دھویا پھر آپ نے دائیں ہاتھ کو کہنی تک تین مرتبہ دھویا پھر بائیں ہاتھ کو اسی طرح دھویا پھر آپ نے اپنے سر مبارک پر ایک دفعہ مسح فرمایا۔ اس کے بعد دائیں پاؤں کو ٹخنوں تک تین دفعہ دھویا پھر ایسے ہی بائیں کو اس کے بعد آپ نے کھڑے ہو کر پانی لانے کا حکم صادر فرمایا۔ میں نے برتن جس میں وضو کا بچا ہوا پانی تھا، حاضر خدمت کیا تو آپ نے کھڑے کھڑے اس سے پانی پی لیا۔ میں حیران ہوا تو پھر آپ نے مجھے دیکھ کر ارشاد فرمایا : ’’حیران نہ ہوں کیونکہ میں نے آپ کے نانا جان کو ایسے ہی کرتے ہوئے دیکھا جیسے تم مجھے کرتا دیکھ رہے ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح وضو فرماتے اور آپ وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پیتے تھے۔‘‘
نسائی، السنن، کتاب الطهارة، باب صفة الوضوء، 1 : 51، 52، رقم : 95

اس وضو کے کیا کہنے جو شہنشاہِ ولایتِ علم و حکمت کی سلطنت کے بادشاہ جناب حیدرِ کرار 
علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی اولادِ پاک کو سکھایا۔  اور اس طرح سے بیان فرمایا کہ ہر کسی کو با آسانی سمجھ آجائے۔  اللہ تعالٰی اپنے ان پیاروں کے صدقے ہمیں شرعی احکام کو اچھی طرح سے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے۔آمین۔


وضو کی کچھ مزید تشریح و تفصیل حاضر ہے۔

وضو کے فرائض:

وضو کے چار فرائض ہیں :
1.     چہرے کا دھونا : چہرے کی گولائی، لمبائی کے حدِ طول کے لحاظ سے پیشانی کی سطح کے شروع ہونے کی جگہ سے لے کر ٹھوڑی کے نیچے تک ہے اور عرض (چوڑائی) کے لحاظ سے وہ تمام حصہ جو دونوں کانوں کی لَو کے درمیان ہے۔
2.     دونوں ہاتھوں کا کہنیوں تک دھونا
3.     چوتھائی سر کا مسح کرنا
4.     پاؤں کا ٹخنوں سمیت دھونا
مسلم، الصحيح، کتاب الطهارة، باب استحباب اطالة الغرة والتحجيل فی الوضو، 1 : 216، رقم : 246

مذکورہ چاروں فرائض میں سے کوئی ایک بھی چھوٹ گیا تو وضو مکمل نہیں ہو گا۔


وضو کی سنتیں:

وضو میں سولہ چیزیں سنت ہیں (1) وضو کی نیت کرنی (2) بسم اللہ پڑھنا (3) پہلے دونوں ہاتھوں کو تین دفعہ دھونا (4) مسواک کرنا (5) داہنے ہاتھ سے تین مرتبہ کلی کرنا (6) داہنے ہاتھ سے تین مرتبہ ناک میں پانی چڑھانا (7) بائیں ہاتھ سے ناک صاف کرنا  ( 8 ) داڑھی کا انگلیوں سے خلال کرنا  (9) ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا  (10) ہر عضو کو تین تین بار دھونا  (11) پورے سر کا ایک بار مسح کرنا  (12) ترتیب سے وضو کرنا  (13) داڑھی کے جو بال منہ کے دائرہ کے نیچے ہیں ان پر گیلا ہاتھ پھیرا لینا (14) اعضاء کو لگاتار دھونا کہ ایک عضو سوکھنے سے پہلے ہی دوسرے عضو کو دھولے (15) کانوں کا مسح کرنا  (16) ہر مکروہ بات سے بچنا۔
( عالمگیری و بہار شریعت)

وضو کا عملی طریقہ:

مسنون طریقہ تو یہی ہے کہ کسی مٹی کے برتن میں پانی لے کر وضو کیا جائے مگر فی زمانہ یہ سنت  نبھانا مشکل ہو رہا ہے۔ تاہم عشاقانِ رسول ﷺ تو اپنے آقا ﷺ کی ہر سنت کی اتباع کا بھر پور اہتمام کرتے ہیں۔  قبلہ رخ ہو کر بیٹھیں، اگر واش بیسن پر ہوں تو پھر بھی کوشش کریں کہ قبلہ رو  ہو جائیں ۔ وضو کا پانی پاک جگہ گرائیں اور وضو کرنے سے پہلے بسم اللہ شریف پڑھ لیں۔ پھر دونوں ہاتھ پہنچوں تک تین بار دھوئیں اور اس کا خیال رکھیں کہ انگلیوں کی گھائیاں اور کروٹیں پانی بنے سے تر ہو جائیں  ورنہ  وضو نہ ہوگا۔ پھر تین مرتبہ مسواک کریں، پھر تین بار اس طرح کلی کریں کہ منہ کی تمام جڑوں اور دانتوں کی سب کھڑکیوں میں غرض ہر بار منہ کے اندر اور ہر پرزہ پر پانی بہہ جائے اور روزہ نہ ہو تو غرغرہ کریں اور کلی یا غرغرہ داہنے ہاتھ سے پانی لے کر کریں۔  پھر بائیں ہاتھ کی چھنگلی ناک میں ڈال کر ناک صاف کریں اور تین چلو سے تین بار ناک میں پانی چڑھائیں کہ جہاں تک نرم گوشت ہوتا ہے ہر بار اس پر پانی بہہ جائے۔  اور روزہ نہ ہو تو ناک کی جڑ تک پانی پہنچائیں۔  یہ کام داہنے ہاتھ سے کریں۔  پھر منہ دھونے کےلئے دونوں ہاتھوں سے ماتھے کے سرے پر ایسا پھیلا کر پانی ڈالیں کہ اوپر کا بھی کچھ حصہ دھل جائے اور دونوں رخسار ساتھ ہی ساتھ دھوئیں اور منہ پر پانی لمبائی میں پیشانی کے بالوں کی جڑوں سے تھوڑی کے نیچے تک اور چوڑائی میں ایک کان سے دوسرے کان تک بہائیں۔  پھر پہلے داہنا پھر بایاں، دونوں ہاتھ کہنیوں تک اس طرح دھوئیں کہ پانی کی دھار ناخنوں سے کہنیوں تک برابر پڑتی چلی جائے اور اس کا خیال رکھیں کہ ایک رونگٹا بھی خشک نہ رہے۔  اگر پانی کسی بال کی جڑ کو تر کرتا ہوا بہہ گیا اور اوپری حصہ خشک رہ گیا تو وضو نہ ہوگا۔  تمام اعضاء پر پانی بہانے کے بعد خوب مل لیں اور یقین کر لیں کہ اعضاء اچھی طرح گیلے ہو گئے ہیں۔ پھر پورے سرکا مسح کریں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کا انگوٹھا اور کلمہ کی انگلی چھوڑ کر ایک ہاتھ کی باقی انگلیوں کا سرا دوسرے ہاتھ کی تینوں انگلیوں کے سرے سے ملائیں اور پیشانی کے بال پر رکھ کر گدی تک اس طرح کھینچتے ہوئے لے جائیں کہ ہتھیلیاں سر سے جدا رہیں۔  وہاں سے ہتھیلیوں سے مسح کرتے ہوئے پیشانی تک واپس لائیں اور کلمہ کی انگلی کے پیٹ سے کانوں کے پیٹ کا اور انگوٹھوں کے پیٹ سے کانوں کی پشت کا اور انگلیوں کی پشت سے 
گردن کا مسح کریں۔  

پھر تین تین بار پہلے دایاں، پھر بایاں، دونوں پاؤں ٹخنے کے اوپر نصف پنڈلی تک دھوئیں اور دھونے میں ہر بار پانی پاؤں کے ناخنوں کی طرف سے گٹوں کے اوپر تک لائیں کہ سنت یہی ہے اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے کریں۔ وضو کے بعد بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر قبلہ کی طرف منہ کر پی لیں کہ اس میں شفاء ہوتی ہے۔

وضو، غسل ، نماز اور دیگر بنیادی شرعی و فقہی مسائل سے آگاہی کے لئیے مکتبۃ المدینہ (دعوتِ اسلامی)  کی  شائع کر دہ کتاب "نماز کے احکام" دورِ حاضر کے اردو زبان میں بہترین کتاب ہے۔  تمام قارئین سے گذارش ہے کہ یہ کتاب گھر میں ضرور رکھیں۔   اس کے علاوہ   صدر الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم تصنیف "بہارِ شریعت" فقہی علوم کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی میں پیش آنے والے تمام فقہی و شرعی مسائل کا حل اس کتاب میں موجود ہے۔ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے  مکتبۃ المدینہ نے "بہارِ شریعت" کو آسان اردو، بہترین کتابت اور جلد میں شائع کیا ہے۔ پاکستان، ہندوستان میں یہ کتب با آسانی دستیاب ہیں۔ دیگر مختلف زبانوں میں بھی ان کا ترجمہ کیا جاچکا ہے۔ یہ کتب دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے ڈاؤنلوڈ بھی کی جا سکتی ہیں اس کے لئیے آپ کے کمپیوٹر میں پی ڈی ایف اور ایڈوب ایکروبیٹ کے سافٹ وئیر انسٹال کرنا ضروری ہیں۔



اگر کسی جگہ پر کوئی غلطی نظر آئے تو ضرور مطلع فرمائیں، میں اصلاح کرنے پر آپ کا مشکور بھی ہوں گا اور ڈھیروں دعاؤں کا تحفہ بھی ارسال کروں گا۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو احکامِ شریعت سیکھنے، سمجھنے اور عام لوگوں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس عملِ خیر کے صدقے میں ہماری مشکلات آسان فرمائے اور گناہوں سے نجات عطا کرے۔ آمین  ۔

سبحانک اللھم وبحمدک اشہد الا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک.


رابطہ کے ذرائع

Email: iftikhar.abu.hasaan@gmail.com

Skype: mi.hasan



Sunday, 5 May 2013

کیا ڈیانا مسلمان تھی؟؟؟






کیا ڈیانا مسلمان تھی؟؟؟

ماہِ دسمبر میں جمعہ کا دن اور پھر موسلا دار بارش نے  بارات کو منزل تک پہنچنے میں کافی رکاوٹیں ڈالیں۔  جی ٹی روڈ پر پھسلن کی وجہ سے گاڑیوں کی رفتار آہستہ تھی مگر باراتی منچلوں نے خوب لطف اٹھایا۔ آخر قدرتِ خداوندی اور سلطنتِ الٰہیہ میں خوشی بھی کسی احساس کا نام ہے۔ بارات  وقتِ مقررہ  سے لیٹ ہو چکی تھی۔ "وقت کی پابندی عظیم لوگوں کا شیوہ ہے" یہ شادی کے دعوت نامے پر لکھا ہوتا ہے مگر ہم اس عظمت کو برقرار نا رکھ سکے تھے۔ سسرال نگر سے  مستقبل کے رشتہ داروں کے فون بار بار وقت کی اہمیت کا احساس دلا رہے تھے۔  پھر ایک فون پر مجھے بتایا گیا کہ  آپ مزید تاخیر نا کریں کہ ایک اہم مہمان بھی بارات کے استقبال کے لئیے  بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔  استفسار پر معلوم ہو ا کہ اس اہم مہمان کا نام ڈاکٹر حسنات خان ہے ۔ اس نام نے مجھے چونکا دیا اور ایک  مجھے ایک عجیب کیفیت کا احساس ہونے لگا۔  جہلم شہر میں  شادی  ہال میں بارات پہنچی تو  مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ میرے سسرالی خاندان  کا ایک متوسط طبقے سے تعلق ہونے کے باوجود شہر کی سماجی، کاروباری اور سیاسی شخصیات بارات کے استقبال کے لئیے موجود تھیں۔  پھر  ایک طول القامت، خوبرو چہرہ اور  شرافت و لطافت سے بھر پور شخصیت سے میرا تعارف کروایا گیا اور بتایا گیا کہ یہ ڈاکٹر حسنات خان ہیں۔

جہلم شہر سے نام پیدا کرنے والے ڈاکٹر حسنات برطانیہ سے تشریف لائے تھے اور اس شادی کے فوری بعد وہ واپس چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب برطانیہ اور ملائشیا میں  امراضِ قلب کے ہسپتال چلا رہے ہیں اور دنیا بھر میں اپنے فن اور مہارت کی وجہ سے مانے جاتے ہیں۔  یہ وہی ڈاکٹر حسنات ہیں جن کی خاطر برطانوی شہزادی ڈیانا بھی دلِ نامراد ہار بیٹھی تھی۔  برطانوی ماحول و معاشرہ میں تربیت پانے والے ڈاکٹر کے چہرے پر عاجزی و انکساری واضح تھی۔ تمدن اور تہذیب میں بالکل ایک روایتی پاکستانی ، زبان و بیان میں جہلم کا عکس اور اپنے حلقہ احباب میں انتہائی شفیق و مہربان۔  میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر اسی انسان کو یہ ساری شہرتیں اور رتبے پاکستانی معاشرے میں رہ کر ملتے تو ان کی شخصیت اس سے مختلف ہوتی۔   کیونکہ ہمارا معاشرہ کسی بھی انسان کی خفیہ صلاحیتوں کو قتل کرنے اور برباد کرنے میں بھر پور مہارت رکھتا ہے تاہم بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ہماری کوئی خوبی حوصلہ افزائی اور ستائش کے چند الفاظ  حاصل کر سکے۔

ڈاکٹر حسنات کی وجہ شہرت  ان کا فن تو ہے ہی مگر ان کی زندگی میں ایک بہت بڑا کردار لیڈی ڈیانا کا تھا۔   لندن کے رائل برمپٹن ہسپتال سے شروع ہونے والی یہ داستان زیادہ عرصہ تک نا چل سکی اور ڈیانا پیرس کی سڑکوں پر زندگی کی بازی ہار گئی۔  دنیا کے نزدیک بالعموم اور پاکستانی معاشرہ میں بالخصوص ڈیانا کا تعارف  اس کی محبت تک ہی محدود ہے۔  مگر  معاشرتی و تاریخی علوم کا ایک طالبعلم ہونے کے ناطے میں نے اس خاتون کی زندگی کے کچھ پہلوؤں پر غور کیا تو یہ جان کر خوشگوار احساس ہوا کہ  ڈیانا نے اپنی زندگی کے چھتیس  سالوں میں زیادہ تر وقت فلاحی و معاشرتی کاموں میں گزارا۔  برصغیر کے ناکارہ عاشقوں کے برعکس اس خاتون نے ڈاکٹر حسنات اور دودی الفائد کے ساتھ محبتیں نبھانے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں اپنی فلاحی پراجیکٹ بھی جاری رکھے۔    پاکستانی  اسلامی شریعت کے مطابق یہ ایک "کافرہ" عورت تھی مگر اس عورت کے ساتھ  پاکستان کے سینکڑوں گھروں کی یادیں وابستہ ہیں۔  کبھی کبھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس عورت کے دل میں کہیں اسلام رہتا تھا۔  مگر بامرِ مجبوری مجھے یہ تسلیم کرنا پڑھتا ہے کہ وہ مسلمہ نہیں تھی کہ اس  کے قبولِ اسلام کا کوئی واضح ثبوت  موجود نہیں ہے۔  اس بحث میں پڑھے بغیر کہ وہ مسلمہ تھی یا کافرہ، ضرورت اس بات کی ہے کہ دیکھا جائے کہ اس عورت نے اسلامی ممالک میں خیرات کے کتنے عظیم کام سر انجام دئیے۔    میں جب اس کی زندگی پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے اس کی زندگی کی کتاب بتاتی ہے کہ ویلز کی شہزادی  ہونے کا اعزاز پا کر وہ زیادہ خوش نہیں تھی۔  اس بات کا اظہار اس نے 1983 میں سب کے سامنے کر دیا کہ میں خود کو فلاحی کاموں کے لئیے وقف کرنا چاہتی ہوں۔  ہسپتالوں، یتیم خانوں،  بوڑھوں کے مراکز اور  غریب خواتین کے لئیے قائم مراکز میں جا کر ان کے ساتھ وقت گزارنا لیڈی کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔  اس کی ذاتی زندگی میں کیا اور کتنا برا تھا اس سے قطع نظر ہو کر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس  ایک خاتون کی وجہ سے کتنے پریشان حال لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں آئیں۔

1989 میں بچوں کے لیئے "گریٹ آرمونڈ ہسپتال فار چلڈرن" کے نام سے ادارہ قائم کیا اور اس ہسپتال میں  خیرات کی رقم سے مستحق بچوں کا علاج شروع کیا۔   اس ہسپتال کے قیام کے بعد ڈیانا نے دنیا بھر کے دورے کیئے۔  غریب اور لاوارث بچوں پر اس نے خصوصی توجہ مرکوز کی اور اپنی ذاتی خیرات سے اس فلاحی کام میں حصہ ڈالا۔  پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افریقہ، صومالیہ،  مشرقِ وسطیٰ، سوڈان اور دیگر کئی ممالک میں رنگ و نسل، مذہب و ملت کا فرق کئیے بغیر اس نے مدد کی۔  ڈیانا نے اپنے ساتھ دنیا کے کئی خیراتی اداروں اور مخیر حضرات کو شامل کیا۔   پاکستان میں عمران خان کے شوکت خانم کینسر  ہسپتال کی چندہ مہم میں بھی ڈیانا نے بھر پور کردار ادا کیا۔   پاکستان سمیت مشرقِ وسطٰی اور افریقہ کے متعدد مسلمان ممالک نے ڈیانا سے فائدہ اٹھایا،  ڈیانا نے "کافرہ" ہونے کے باوجود اپنی فلاحی سرگرمیوں کا بیشتر حصہ مسلمانوں کو دیا۔   وہ جہاں جاتی مسلم خواتین اور بچوں کو گلے لگاتی، مسلمانوں کے غریب، کالے اور بظاہر گندے لباس والے بچوں کو اٹھاتی، انہیں اپنی گود میں جگہ دیتی اور مسلمانوں کے بچوں کو ایسے چومتی جیسے وہ اپنے ولیم اور ہیری کو چومتی تھی۔   تاریخ  کے البم میں ایک ایسی تصویر بھی موجود ہے جب ایک پاکستانی بچے کو کالے ماتھے کو چومتے ہوئے ڈیانا کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ 

ڈیانا کے بارے لکھے گئے میرے ان الفاظ کا مقصد کسی برطانوی  یا عیسائی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنا بالکل نہیں مگر حقائق کو تسلیم کرنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔   ہمارے مسلم معاشرے میں عدم برداشت اور ذہنی پستی نے ہمیں  اخلاقی لحاظ سے اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ ہم کسی دوسرے کو خود سے بہتر تسلیم کرنے کے لئیے تیار نہیں  اور پھر مزید ظلم یہ کہ ہم کلمہ پڑھنے کے باوجود اپنے اندر موجود کافر کو مومن نہیں کر پاتے۔    اب اگر غور کیا جائے تو ڈیانا کو یہ فلاحی و اخلاقی تعلیمات کہاں سے میسر آئیں۔   اسے انسانیت سے محبت اور غریبوں کا سہارا بننے کا سبق کس نے پڑھایا تویقیناً اس کے پیچھے محسنِ انسانیت ﷺ کی تعلیمات ہیں۔   یہ ہماری علمی و عملی کمزوری ، دین کو سمجھنے میں غلط تشریحات، ہمارے معاشرے کے مولویوں کی ذاتی  پسند و نا پسند اور  تحقیق کی کمی کی وجہ سے ہے۔   جن لوگوں نے ہمیں دین سمجھانا تھا وہ خود نا سمجھ ہیں۔  ہمارے معاشرے میں ایک خطیب یا امام کی تعلیمی و تحقیقی سطح انتہائی گری ہوئی اور کمزور ہے۔  داڑھی رکھ کر جس نے نورانی قاعدہ پڑھ لیا، راگ الاپنا  آ جائے اور نعرہ بازی کا گر سیکھ جائے تو وہ امام اور خطیب بننے کا اہل ہو جاتا ہے۔  الا ماشاء اللہ۔ 

غیر مسلموں اور ڈیانا جیسے کافروں نے رسول رحمتﷺ کی سیرت کا مطالعہ کیا تھا، انسانیت کی عظمت کس میں ہے، کسی کو اپنا گرویدہ کیسے بنایا جائے،  کسی کا دل کس طرح جیتا جائے، اپنی عظمت کا لوہا کیسے منوایا جائے۔۔۔ یہ سارے وہ سوال ہیں جن کا جواب دنیا کی ہر قوم نے سرکارِ مدینہ ﷺ کی بارگاہ  سے حاصل کیا۔  ڈیانا نے  غیر عیسائی معاشرہ یعنی مسلم معاشرہ میں گھس کر ان کی خدمت کیوں کی؟  اس لئیے کہ اس نے مدینہ کی ریاست کے حاکم ﷺ کی شخصیت کا مطالعہ کیا تھا۔  وہ جانتی تھی کی محمد الرسول اللہ ﷺ وہ عظیم ہستی ہیں جن کے پاس یہودی آیا، رات کو قیام کے وقت سرکارِ مدینہ ﷺ نے اس یہودی کو اپنا بستر پیش کیا، سوتے میں یہودی  سرور کونین ﷺ کے بستر پر پیشاب کر دیتا ہے، صبح اٹھ کر شرم کا مارا بھاگ جاتا ہے۔  پھر یاد کرتا ہے کہ میری تلوار تو محمد ﷺ کے گھر پر ہی رہ گئی۔  شرم کا مارا  واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔۔۔ دل نے کہا وہ رحمت  والا نبی ہے۔۔۔ ہمت اکٹھی کی اور بارگاہِ مصطفیﷺ میں پہنچا۔  مدینہ کے والی ﷺ نے خود آگے بڑھ کر فرمایا یہ تیری تلوار ہے اور تو مت گھبرا۔۔۔ تو نے جس بستر پر پیشاب کر دیا تھا محمد ﷺ نے وہ بستر اپنے ہاتھوں سے دھویا ہے۔

مدینہ کے قرب و جوار میں موجود غیر مسلموں کے بچوں پر حسنین کریمین کے نانا نے اتنا ہی کرم کیا جتنا مسلمانوں کے بچوں پر کیا۔   غیر مسلم خواتین کو بھی وہی عزت دی جو اپنی خواتین کو دی۔  وہ صلہ رحمی، انسانیت کی خدمت کا جذبہ، ہر کسی کے ساتھ مسکرا کر بات کرنا،  سلام و آداب میں پہل کرنا، بیماروں کی خدمت  بلا تفریق رنگ و مذہب کرنا  یہ سب کچھ تو قرآن و صاحبِ قرآن کا مذہب تھا مگر قرآن پڑھنے والے اس بھول گئے،  ڈیانا اور اس کے ہم مذہبوں نے مسلمانوں کے محمد ﷺ کو اپنا لیا۔۔۔ وہ بظاہر کلمہ اسلام نہیں پڑھتے مگر  ان کی ترقی کے پیچھے قرآن و صاحب قرآن کی تعلیمات ہی ہیں۔   ان کی اپنی بائبل تو گستاخیوں اور ترمیمات سے بھرپور ہے مگر اللہ کی واحد محفوظ کتاب قرآن ان غیر مسلموں کے دلوں میں بھی محفوظ ہو گئی۔  مسلمان ایک دوسرے کے خون کا پیاسا، مسلمان ممالک کی حدود پر آہنی دیواریں اور باڑیں، یورپ کے سرحدی حدود ایک دوسرے کے لئیے کھلی، وہاں  مذہب کے نام پر نفرت نہیں بلکہ انسانیت کے نام 
پر خدمت، ہمارے یہاں مذہب سے بھی نیچے جا کر مسلک کے نام پر فیصلے ہوتے ہیں۔

کیا ہمارے پاکستان میں کوئی ایک ایسی خاتون ہے جس نے اپنا مذہب بھی نہ چھوڑا ہو اور اپنا علمی و عملی لوہا بھی منوایا ہو؟   ہمارے یہاں جو بھی نام پیدا کرتا ہے وہ یورپ سے بھیک مانگ کر۔۔۔کہ جیسے اس کا کوئی رہبر و رہنما ہی نہیں۔۔۔ اس ساری گفتگو کے بعد کیا میں یہ سوال پوچھ سکتا ہوں کہ "کیا ڈیانا مسلمان تھی"؟  اس کے فلاحی کاموں کا مرکز مسلم ممالک، جس طرح اس نے انسانیت کی خدمت کی وہ اسلامی تعلیمات اور قرآنی فرمان کےمطابق۔  اگر وہ کافرہ ہو کر بلا تفریق رنگ و مذہب یہ کام کر گئی تو قرآن کے ماننے والوں کے دل کیوں مردہ و پتھر ہیں۔۔۔۔۔"کیا ڈیانا مسلمان تھی؟؟؟


بواسیر کا تعارف، اسباب اور علاج (قسط 1)



بواسیر کا تعارف، اسباب اور علاج (قسط 1)



(یہ آرٹیکل پہلے سے شائع  شدہ ہے، ریکارڈ اور مفاد عامہ کے لئیے بلاگ پر شائع کر دیا)۔


ہم نے محسوس کیا ہے کہ انٹرنیٹ پر شائع ہونے والے ہمارے مضامین اور کالم لوگوں نے پڑھے۔ سیاسی ، معاشرتی اور
 مذہبی مضامین کی نسبت صحت پر لکھے جانے والے مضامین میں لوگوں کی دلچسپی بہت زیادہ ہے۔ زیتون کے بارے ہمارے مضمون کو بہت پسند کیا گیا۔ اس پر آپ کا شکریہ۔ اسی رحجان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ارادہ کیا ہے کہ اپنے تنگ دامن میں جو کچھ نفع بخش معلومات ہیں وہ عوام الناس تک ضرور پہنچا دی جائیں، ملک و قوم کی خدمت بھی، صحت کی تعلیم بھی عام اور اللہ عزوجل و رسول ﷺ بھی خوش۔ سبحان اللہ عزوجل۔

اس سلسلے میں آج ہم جس بیماری کو یہاں ذکر کریں گے وہ ہمارے معاشرے کے علاوہ مشرق بعید اور مغربی ممالک میں بھی بکثرت پائی جاتی ہے۔ اس ناسور اور تگنی کا ناچ نچانے والی بیماری کو ہمارے ہاں عرفِ عام میں "بواسیر" کہا جاتا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ ایک جامع اور مفصّل انداز میں اس بیماری کی تمام متعلقہ پہلوؤں پر کچھ رقم کر سکیں۔


بواسیر عموماً تیس برس کی عمر کے بعد زندگی کے کسی بھی موڑ پر ہو سکتی ہے، تا ہم کچھ نوجوانوں میں تیس سال سے قبل بھی پائی جاتی ہے۔ بواسیر رنگ و نسل، علاقہ و اسکان کا لحاظ کئیے بغیر کسی بھی انسان کو شکار کر لیتی ہے۔ امریکہ، افریقہ، جنوبی ایشیاء، مشرق بعید، سمیت دنیا کے ہر کونے میں یہ مرض موجود ہے۔ عمر رسیدہ افراد کے علاوہ نوجوان لڑکیوں، لڑکوں اور حاملہ عورتوں کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حاملہ عورتوں میں یہ مرض پانچویں مہینے کے بعد شروع ہوتا اور نویں مہینے میں پوری شدّت و حدّت سے ظاہر ہوتا ہے۔ مختلف لوگوں میں اس کی مختلف وجوہات و اسباب ہوتے ہیں۔ اس کی تفصیل ہم اس مضمون کے آخر میں پیش کریں گے۔

بواسیر کیا ہے؟

ایک مرض، جس میں مریض کے مقعد پر ورید کے پھول جانے سے چھالے پڑجاتے ہیں اور اجابت کرتے وقت مریض کو تکلیف ہوتی ہے۔ اس تکلیف کی شدت، بیماری کی نوعیت اور شدت پر منحصر ہے۔


اردو ، عربی اور فارسی میں بواسیر ہی کہا جاتا ہے جب کہ انگریزی اور رائج الوقت میڈیکل سائنس میں hemorrhoidsکہا جاتا ہے۔ عموماً دو اقسام ہی کی ہوتی ہے ایک کو ظاہری یا بیرونی یا خونی کہتے ہیں جبکہ دوسری قسم اندرونی یا بادی کہلاتی ہے۔ اوّل الذکر میں عام طور پر زیادہ تکلیف کا سامنا نہیں ہوتا تا ہم جب مرض مزمّن حالت میں چلا جائے پھر حاجتِ بشری کے وقت دباؤ کی صورت میں مقعد کے اندر موجود مٹر کے دانے نما فضلہ باہر آ کر پھٹ جاتا ہے اس سے خون بھی جاری ہوتا ہے اور اچھی خاصی تکلیف بھی درپیش ہوتی ہے۔


دوسری قسم کو خارجی یا بیرونی بواسیر کہتے ہیں۔ اس میں مقعد کے باہر ایک نرم سوجی ہوئی رسولی محسوس ہوتی ہے۔ رفعِ حاجت کے اوقات میں اس میں شدت واقع ہوتی ہے اور دباؤ پڑھنے پر یہ دانہ نما رسولی پھٹ جاتی ہے، جس سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کا خون خوب سرخ اور چمکیلا ہوتا ہے۔ یہ خون چند لمحوں میں خود بخود بند ہو جاتا ہے اور اس کے بعد مریض خود کو بہت زیادہ پر سکون محسوس کرتا ہے۔ اس کے چہرے پر افاقہ کے واضح اثرات نظر آتے ہیں۔ بواسیر کی اس قسم میں مریض کو مقعد میں شدید خارش کے ساتھ ساتھ انتہائی کربناک درد بھی محسوس ہوتا ہے۔ بار بار رفع حاجت کے لئیے بیت الخلا جاتا ہے تاہم حاجت رفع نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی دباؤ کے نتیجے میں چربی بھی خارج ہوتی ہے۔

اب ہم ذکر کریں گے بواسیر کی وجوہ اور اسباب کا۔

ہمارے معاشرے میں ہیلتھ ایجوکیشن کی کمی تمام بیماریوں کی بنیادی وجہ ہے۔ بواسیر کی اولین وجہ بھی یہی ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے ظاہری حسن و جمال کے لئیے اطباء اور ڈاکٹروں سے مشاورت کرتے ہیں تاہم اس خطرناک بیماری کے بارے میں شرمندگی ان کے آڑے آتی ہے اور نتیجتاً یہ شرمندگی ان کے لئیے وبالِ جان بن جاتی ہے۔ تکلیف اور بیماری جب شدید ہو جائے پھر طبیب سے رجوع کرتے تو ہیں مگر مکمل معائنہ کروانے سے پھربھی گریزاں نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ اس بیماری کو ایک عیب سمجھتے ہیں او ر اس سے متعلق بات کرنے کو اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں۔ جبکہ یہ ایک بیماری ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اچھی اور بری تقدیر کا مالک وہی ہے۔

اسباب اور علاج کے بارے میں انتہائی مفید معلومات اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں۔ اگر آپ اس تحریر اور مضمون کو بار بار پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ آپ کے لئیے اور آپ کے پیاروں کے لئیے انتہائی مفید و معاون ہو گی۔ دوسروں تک پہنچائیے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پائیے۔

رابطہ کے ذرائع؛

Email: iftikhar.abu.hasaan@gmail.com

Skype: mi.hasan


Saturday, 4 May 2013

Spiritual Healing (Magic & JInn)




Spiritual Healing (Magic & Jinn)

Magic  and Jinn, a term with several meanings. In our society it is  used  for "Sehar", "Jadoo" , Bad Eye" and Spiritual disorders. I have written a series of research based articles on this important and social welfare topic. A number of my readers around the world suggested me to write a concise treatment and spiritual solution for magic in English language.

I already have published  a logical article stating the causes of magic, Jinn  and bad eye, majority of those who do not follow or understand Islamic Shariah are not well aware about the reality of Jinn and  Magic. According to my spiritual experience , 95 % of magic cases are self made or come from ours personal sources.  Actually It is a battle between the followers of Holy Prophet Muhammad PBUH and the followers of Satin (Iblees). We have forgotten the righteous way of Islam which is showed by our beloved Prophet Muhammad PBUH and chosen by the one and only God ALLAH Almighty. 

In short , all those who are suffered in magic or Jinn are requested to follow and do below mentioned treatments.

Be neat and clean, wear well cleaned dresses and stay in ablution 24 hours . Do not miss even a single pray and avoid from backbiting. Keep neat and clean your living place, women are requested to concentrate  and advised to through away all disposables being used in your daily life particularly during their monthly periods. Must understand  Islamic methods of ablution  and bath. Music and Haram foods are also harmful and prohibited in Islam.


NO 1-    (This Treatment is specially for Jinn).  The one who is suffered in magic need to follow it, Recite Azan/Athan /اذان 7 times after Fajar and Asar prayer, men and women both can read it, sit towards the Qibla and read it while sitting on prayer sheet.  After reciting Azan recite 7 times  last four verses of Surah Mumnoon۔  .سورہ مؤمنون/ . The verses number 115,116,117 and 118. This treatment can be repeated even hundred times in a day, You can call it SOS treatment, but do not forget to do it twice in a day (after Fajr and Asar).

No 2-     Rectite Al Ikhlas, Al Falaq and Al Naas 11-11 times twice in a day (After Fajr and Asar).

No3-      Recite AL Baqrah once in a day

No 4-     Recite  The verses number 163 & 164 of Al Baqrah after  every prayer (3t times).

May Almighty Allah keep us protected, safe and secured from all evils. Amin

For any particular spiritual  case, Please contact us through our facebook pages, email , blogger and skype. 

Contact Us;
Email: iftikhar.abu.hasaan@gmail.com
Skyep: mi.hasan