Saturday, 28 February 2015

متعہ کی مختصر حقیقت


متعہ کے بارے میں شریعتِ مطہرہ کے احکام واضح، مسلؔم اور مصدق ہیں مگر  امت میں تنازعات پیدا کرنے والے وقتاً فوقتاً ایسے معاملات کو اچھالتے رہتے ہیں۔ علمائے کرام اور ہمارے اسلاف کی تعلیمات ہیں کہ ایسے مسائل جو  شرارت و فتنہ کا باعث بنائیں ان پر خاموشی  اختیار کی جائے یا  پھر کم بحث کی جائے۔    زیرِ نظر مختصر مضمون میں کوشش کر رہا ہوں کہ جامع انداز میں اس حوالہ سے کچھ لکھ دوں۔ میری طرف سے  اس کا کافی سمجھا  جائے کہ تحریری انداز میں یا اخبارات و سوشل میڈیا پر  ایسے موضوع کو طول دینا وقت کی  بربادی اور ایمان کی خرابی کا باعث  بنتا ہے، تاہم اگر کسی کو  اپنی تسلی کی ضرورت باقی محسوس ہو تو بالمشافہ  ملے،  ہم ان تمام اعتراضات کا جواب دیں گے۔ انشاء اللہ عزوجل۔

متعہ کو حلال سمجھنے والے گروہ کے ہاں  سب سے اولین و بڑا اعتراض یہ ہے کہ   نبی کریم ﷺ نے متعہ کو حرام قرار نہیں دیا بلکہ حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں متعہ بند کیا گیا۔ اس سے قبل یہ جائز و حلال تھا۔  انہیں سمجھنا چاہئیے کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا منصب نہیں تھا، متعہ دورِ رسالت مآب ﷺ میں ہی حرام قرار دیا جا چکا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے  اپنے دور خلافت میں اس کی حرمت کو مزید واضح فرمایا تھا۔  جہاں تک اس کے حلال ہونے کا تعلق ہے تو یہ  شارعِ اسلام ﷺ کی حیاتِ ظاہری میں ایک خاص وقت تک جائز رہا، مثلاً  جنگ کے ایام میں اسے حلال کیا گیا، اس دور میں جنگی سفر مہینوں کا اور پیدل ہوتا تھا،  سخت گرمی اور پھر وطن سے دوری کی وجہ سے  اسے مباح قرار دیا گیا لیکن  اس کے بعد فتحِ مکہ کے موقع پر رسولِ رحمت ﷺ نے قیامت تک کے لئیے اسے حرام قرار دے دیا۔

قرآنِ حکیم میں نکاح اور  باندیوں کا ذکر ضرور ملتا ہے تاہم کسی ایک آیت کے چھوٹے سے جز  میں  بھی متعہ کے حلال ہونے کا کوئی بیان ہرگز ہر گز نہیں ہے۔
"تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں خوش آئیں دو ۲دو ۲ اور تین۳ تین۳ اور چار ۴چار۴  پھر اگر ڈرو کہ دوبیبیوں کوبرابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی کرو یا کنیزیں جن کے تم مالک ہو " (النساء 4 : 03)

قضاء شہوت کے لئیے اللہ تعالٰی نے مذکورہ آیت میں  فقط دو صورتیں بیان فرما دیں، اگر متعہ حلال ہوتا تو رب تعالٰی اس کا ذکر بھی اسی آیت کریمہ میں فرما دیتا۔  اپنی نفسانی و شہوانی خواہش کے لئیے ایک سے چار تک بیویاں یا خریدی ہوئی باندیاں اور کنیزیں رکھ سکتے ہو۔  یہی تقوٰی اور پرہیزگاری ہے۔  اللہ عالم الغیب ، علیم و حکیم کا یہاں متعہ کا بیان نہ فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ  یہ حرام ہے، اگر حلال ہوتا یا مستقبل میں اس کے حلال ہونے یا اس کی وقتی ضرورت کی گنجائش ہوتی تو رب تعالٰی قرآنِ مقدس میں اس کا بیان فرما دیتا۔ فتح مکہ سے قبل متعہ کی جو صورتیں جائز یا مباح تھیں اس آیت کے بعد وہ بھی منسوخ ہو گئیں۔

   اب ایک عقلی دلیل ملاحظہ فرمائیں کہ جب حق تعالٰی جل شانہ نے دو ایسی صورتیں بیان فرما دی ہیں جن سے ہر کلمہ گو فائدہ اٹھا سکتا ہے تو متعہ کی حاجت ہی کیوں باقی رہے گی؟   متعہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے انسانی حقوق کی پامالی، جسمانی درندگی،  معاشرتی  بے حسی ،  زنا کاری اور اخلاقی اقدار     کی پستی کی راہ  تو ہموار ہو سکتی ہے تاہم اللہ کی رضا اور انسانیت کی بہتری  ہرگز ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی۔   متعہ میں  عورت کے حقوق معین نہیں ہوتے، اس میں طلاق ہے نہ عدت۔   متعہ میں عورت کو میراث، جاگیر اور جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ملتا،  نہ ہی وہ کسی بھی معاملہ میں مرد جس سے وہ متعہ کرتی ہے اس کی وارث بنتی ہے، یہ صرف اور صرف دو جسموں کا کھیل ہے اور شیطان کی رضامندی۔

اس کی ایک مثال حیاتِ مصطفوی ﷺ  کے ظاہری دور سے لیتے ہیں۔
سیدنا  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ایک روایت کا خلاصہ ہے  کہ  ہم امام المجاہدین  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں گئے ہم تثنیۃ الوداع پر اترے  تو  چراغوں کو دیکھا اور عورتوں کو روتے ہوئے دیکھا  جانِ رحمت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے؟ بتایا گیا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جن سے متعہ کیا گیا تھااور وہ رو رہی ہیں  شمعِ بزمِ ہدایت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ نکاح، طلاق، عدت، اور میراث نے متعہ کو حرام کر دیا ہے۔
مسند ابو يعلی، رقم الحديث: 6594

 جب ایک عورت کو آزادی سے نکاح، پھر طلاق یا خلع، عدت اور  پھر شوہر کی میراث میں سے حصہ بھی شریعت نے مقرر فرما دیا تو اب کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ وہ متعہ کرے؟۔ مرد کے لئیے چار بیویاں، پسند نہ آنے کی صورت میں یا کسی شرعی ضرورت کے تحت  طلاق دینے کا حق بھی دیا گیا،  پھر زمانہ قدیم میں لوگ غرباء کی عورتوں کو خرید لیا کرتے تھے، ان کے ساتھ بھی مباشرت جائز قرار دی گئی تو اب ان تمام سہولیات کے باوجود اگر کوئی متعہ جیسی قبیح حرکت کرے تو اس کی عقل کی خرابی ہی ہو سکتی ہے۔ 

جو لوگ متعہ کو حلال جانتے ہیں وہ   حضرت ِ علی رضی اللہ عنہ کو ہی دینِ کل سمجھتے ہیں۔ ان کے لئیے سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی روایت پیشِ خدمت ہے۔
باب العلم، خیبر شکن،  مولا علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں  کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن عورتوں سے متعہ اور پالتو گدھوں کے گوشت کو حرام  قرار دیا۔
صحيح مسلم، حديث نمبر: 1407

متعہ سے ملتی جلتی ایک گھناؤنی رسم آج کل عرب میں بھی رائج ہے۔ خصوصاً  سعودی عرب کے مرد اس لعنت  کا شکار ہیں۔  سعودیوں نے اپنے گھروں میں کام کاج کے لئیے آنے والی مشرقِ بعید، ہندوستان، بنگلہ دیش اور افریقی ممالک کی لڑکیوں کو اپنی  تسکین کا سامان بنایا ہے۔ ہسپتالوں اور دفاتر میں کام کرنے والی عورتوں کو ہفتے کے مخصوص دنوں میں  جنسی تسکین کے لئیے منگوا لیتے ہیں اور ایک طے شدہ  ریٹ پر  ان کا یہ معاملہ  چند ہفتوں سے کئی سالوں تک چلتا ہے۔  اس میں مدت طے کی جاتی ہے اور ماہوار تنخواہ۔  باقی خامیاں وہی ہیں جو متعہ میں پائی جاتی ہیں۔ عربوں کی منافقت دیکھئیے ایک طرف متعہ کرنے والوں پر فتووں کی بارش اور حرام  کاری کے الزام دوسری طرف اپنی خود ساختہ شریعت میں اپنے ہی دیس میں یہ سب حلال۔  اسے مسیار کا نام دیتے ہیں اور عرب میں اسی قانونی و حکومتی تحفظ حاصل ہے۔
وماعلی الا البلاغ المبین


Thursday, 19 February 2015

آزربائیجان کے سفر کی مختصر داستان

مشرقی یورپ اور   مغربی  ایشیاء کی سرحدوں کو ملانے والے ملک  آذربائیجان   کے  حقائق سے عوام  کم ہی آگاہ ہیں۔    تواریخِ عالم  میں 1918 عیسوی کے اعداد و شمار کے مطابق یہ پہلا مسلم اکثریتی ملک تھا  جس میں  جدید علوم کی جامعات  کے ساتھ مغربی تھیٹر وغیرہ بھی قائم تھے۔  اس کے شمال میں روس، شمال مغرب میں  جارجیا،  مغرب میں آرمینیا اور جنوب میں ایران واقع ہے۔  شمال مغرب میں  ترکی  بھی واقع ہے اور ایک مختصر زمینی حدود بھی دونوں ممالک کے درمیان واقع ہے ۔  اس زمینی حدود کے ذریعے تجارت یا سفر تاحال ممکن نہیں ہے۔  آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ایک ساڑھے پانچ ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ "نخچیون " متنازعہ ہے،  جس پر کئی  بار محاذ آرائی بھی ہو  چکی ہے۔
آذربائیجان 1920 میں سوویت یونین کا حصہ بنا اور اکتوبر 1991 میں سوویت یونین کی تقسیم کے بعد ایک الگ اور خود مختار  ریاست کی شکل میں دنیا کے نقشے پر آیا۔  "باکو" ملک کا دارالحکومت اور واحد بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے۔  تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک کا سمند ر پانیوں کے ساتھ ساتھ تیل بھی اگلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  باکو شہر کے نواح  کا سفر کرتے ہوئے   یا پھر شہر سے باہر نکل کر دیگر علاقوں کی طرف جائیں تو  سمندر میں لگی ہوئی کرینیں  نظر آئیں گی۔ یہ مشینیں تیل کی تلاش کا کام کرتی ہیں۔ 
آذربائیجان میں  بھی آمرانہ نظامِ حکومت ہے  الہام علیوف ملک کے صدر ہیں اور یہ حکمرانی انہوں نے خاندانی طور پر حاصل کی ہے۔  پرویز مشرف کے انداز پر کروائے گئے ریفرنڈم میں وہ کامیاب ہوئے تھے اور اب نہ جانے وہ کب تک  منصبِ صدارت پر متمکن رہیں گے۔  حزبِ اختلاف کے  سرکردہ  قائدین ملک بدر ہیں اور اگر کوئی واپسی کی کوشش کرے تو ائیر پورٹ سے ہی واپس کر دیا جاتا ہے۔ آمرانہ  نظام کی وجہ سے ملک کے اکثر ادارے بد عنوانی  کا شکار ہیں  ۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2012 میں یورپ کے تحقیقاتی اداروں نےآزری صدر کو  "سال کی سب سے بڑی بد عنوان شخصیت" قرار دیا تھا۔  رشوت خوری کا یہ حال ہے کہ باکو کے  انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر  امیگریشن حکام  پاسپورٹ دیکھ کر تعین کرتے ہیں کہ اس سے کتنے ڈالر مانگے جائیں، آپ کے پاس تمام کوائف و کاغذات درست ہونے کی صورت میں  بھی سو  دو  سو  ڈالر یا پھر حسب توفیق پانچ ڈالر دے کر بھی جان چھڑوانا پڑتی ہے۔ اگر آپ کے پاس مغربی پاسپورٹ ہو تو صورتحال اس کے برعکس ہو گی۔   میرے نزدیک اس  رشوت کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان و پاکستان کے نوجوان یورپ جانے  کے چکر میں آذربائیجان جاتے ہیں پھر وہاں سے یورپ نکلنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ آذری حکام جانتے ہیں کہ یہ لوگ کیوں آرہے ہیں، ان کی اس خواہش اور ویزہ کے حصول  میں غلط بیانی ان لوگوں کی کمزوری بن جاتی اور یوں انہیں رشوت دینا لازم ہوتا ہے۔ میرے ساتھ باکو ائیر پورٹ پر  جب اس طرح  سلوک ہونے لگا تو میں نے اپنا تعارفی کارڈ پیش کیا، اس پر امیگریشن  افسر نے خوش اسلوبی  سے نہ صرف  مہر لگائی بلکہ  ادب سے سلام  بھی کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ  اگر ہمارے اپنے معاملے درست ہوں تو ایسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
آذربائیجان اور اس کی ہمسایہ  روس سے آزاد ریاستوں میں  تقریباً ایک صدی تک اسلام اور اہل اسلام      کو مغلوب رکھا گیا ہے، اس کی وجہ وہاں عیسائیوں اور یہودیوں  کا تسلط اور مغرب و روس کی طاقت ہے۔  یہی وجہ ہے کہ آزربائیجان کے کسی بھی باشندے کو آپ ملیں تو اس کی وضع و قطع،  گفت و شنید سے آپ کو مسلم ہونے کا تاثر نہیں ملے گا۔  لوگوں کی اکثریت آذری زبان کے ساتھ ساتھ روسی اور فارسی زبان  بھی  سمجھتی ہے۔   یہ ایک شیعہ اکثریتی ملک ہے اور ایران کے ساتھ انتہائی قریبی عوامی تعلقات ہیں۔ آپ کو سنیؔ مسجد   چراغ لے کر ڈھونڈنی  پڑیں  گی۔   میرے وہاں کے مختصر قیام کے دوران ایک جمعہ آیا، جس کے لئیے مسجد کی تلاش میں مارے  مارے شہر کے ایک علاقے میں پہنچے تو معلوم ہوا اس مسجد میں دھماکہ ہوا تھا، جس پر حکومت نے مسجد کو تالا لگا دیا تھا۔  بعد ازاں یہ خبر بھی ہوئی کہ یہ ایک منصوبہ تھا کہ اہلِ سنت کی مسجد میں ایسی تخریب کاری کی جائے اور یہ ایک مسجد بھی ہمیشہ کے لئیے بند ہو جائے۔
روسی اور مغربی کلچر کے مظہر اس ملک میں  عملاً اسلام دور دور تک نطر نہیں آتا۔  شہر کے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے یا زیرِ زمین میٹرو ٹرین کے سٹیشنز پر جاتے  ہوئے آپ کو جگہ جگہ شراب  کے ٹھیلے نظر آئیں گے،  یہاں شرب پانی کے بھاؤ بکتی ہے اور سرِ بازار کھلے آسمان  تلے رقص و سرود   کا انتظام ہوتا ہے۔    فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ واقع شراب خانوں میں نوجوان لڑکیوں کا ناچنا ایک مکمل انڈسڑی ہے ۔       باکو کے ساحلی علاقوں میں  حیا کے چیتھڑے اڑتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں ۔  یہ مناظر دیکھ کر مجھے بنکاک،  تائیوان، کوالالمپور ،  ہانگ کانگ ،    نیدر لینڈ اور یورپ کے حرام  کاری کے بازار  کم نظر آنے لگے۔   کچھ ایسے پاکستانی بھی نطر آئے جو ماؤں اور بہنوں کا زیور بیچ کر تو کوئی زمین کے ٹکڑے اور مال مویشی بیچ کر وہاں اس لئیے بھیجے گئے تھے کہ رزقِ حلال کما کر لائیں گے مگر انہیں بھی وہاں کی  حسیناؤں کی زلفوں کا اسیر  دیکھا، کچھ تو ایسے تھے جو دن بھر کی کمائی شام کو ان بدن فروشوں پر نچھاور کر دیتے۔   نوجوان لڑکیاں اور لڑکے کسی بھی مغربی ملک سے کہیں زیادہ مادر پدر آزاد اور بے راہ روی کا شکار نظر آئے۔   میری بے چین  روح مجھے اس ملک کا مذہبی جائزہ لینے کے لئیے  کہہ رہی تھی،  مساجد کا  جائزہ لیا تو یہاں کی مساجد کو اسلامی تعلیمات سے عاری پایا،  مرد و زن کا اختلاط،  ادب و احترام  نام کا نہیں اور نمازی   بھی چیدہ  چیدہ۔     باکو شہر میں ایک قبرستان دیکھنے کا اتفاق ہوا،  ہر قبر پر کتبہ کے ساتھ ساتھ قدِ آدم کے برابر مدفون کی تصویر بھی ماربل میں منقش تھی۔   مرنے والی  خوبرو جوان لڑکیوں کی تصاویر نسبتاً زیادہ اہتمام   کے ساتھ  ان کی قبور پر دیکھنے کو ملیں۔   قبور پر تصاویر کا یہ رواج انہوں نے روسیوں سے پایا تھا۔  اس قبرستان سے صرف چند میٹر کے فاصلے پر ایک کسینو، ڈسکو اور   شراب خانہ بھی واقع تھے۔
داڑھی خوف کی علامت ہے،  یہی وجہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں مقیم ایک ادھیڑ عمر خاتون نے میری داڑھی  سے خوفزدہ ہر کر میرے میزبان کو  متنبؔہ بھی کیا۔  میٹرو میں سفر کرتے ہوئے یا بازار میں گھومتے ہوئے سورج اتنی توجہ نہیں پاتا جتنی نظریں آپ کی داڑھی پر جاتی ہیں۔  داڑھی کی شرح میرے مطابق پانچ سو میں ایک ہو گی۔   خواتین دکانیں چلاتی اور کاروبار کرتی ہیں۔  کھانا پینا اور  طرزِ زندگی سو فیصد روسیوں والا ہے۔  باکو ائیر پورٹ  دارالحکومت میں واقع ہے مگر اس سے پاکستان کا ڈیرہ غازیخان ائیر پورٹ اچھا ہے۔  یہاں بنیادی سہولتیں بدحالی کا شکار ہیں۔  بین الاقوامی ائیر لائنز کم ہی جاتی ہیں۔ ترک ائیر لائن، ازبک ائیر لائن، امارات ائیر لائین  اور آزربائیجان کی قومی ائیر لائن  (جو کہ پرانے جہازوں کی وجہ سے بدنام ہے) کی فلائیٹس دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ روسی ائیر لائن "ایرو فلوٹ" بھی چلتی ہے۔  زیادہ تر تجارت استنبول، روس، ایران اور چین کے علاقہ "ارمچی" سے ہوتی ہے۔
حال ہی میں کچھ عرب تجار اور معمار اداروں نے وہاں کاروبار شروع کیا ہے جس سے امید کی جا سکتی ہے کہ رئیل سٹیٹ اور تعمیراتی  صنعت پھلے گی۔ بوسنیا کی کچھ کمپنیوں  نے آذر بائیجان کی سرکاری عمارات اور اداروں کی تعمیر کے ٹھیکے لئیے ہیں۔ ملک میں روزگار، صنعتی  کارخانوں کا فقدان ہے ، خصوصاً غیر ملکیوں کے لئیے  ملازمتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔    شہر میں زیرِ زمین  ریل کا  نظام پہلے سے موجود ہے اور اسے مزید وسعت دی جا رہی ہے۔   آذری کرنسی کا نام "منات" ہے جو تقریباً ایک سو اٹھائیس روپے کے برابر ہے یعنی یہ ڈالر سے بھی زیادہ مستحکم ہے۔