Wednesday, 17 June 2015

آٹھ تراویح پڑھنے والوں سے کچھ سوالات



برصغیر اور اس سے ملحقہ کچھ ممالک میں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی   کچھ شریر اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے امت کو  تقسیم کرنے میں  پورا زور لگاتے ہیں،  ایمان  تازہ کرنے اور نیکیوں کے اس موسم میں نت نئی خرابیوں کے علاوہ ایک اہم مسئلہ  نماز  تراویح کی رکعات کا ہے۔  شروع سے ہی امت میں متفقہ طور پر  بیس رکعات تراویح ادا کی جاتی رہیں مگر ہندوستان کے کچھ  لوگوں  نے  ماضی قریب میں اسے بھی متنازعہ بنا دیا۔   حرمین شریفین ، بلاد عرب ، شرق و غرب اور  کرہ ارض پر    موجود امتِ مسلمہ کی اکثریت بیس رکعات ادا کرتی ہے اور یہ جمہور کا مذہب ہے۔  عوام  الناس  کے ذہنوں میں موجود غلط فہمی اور ان لوگوں کی جہالت کو روکنے کی  نیت سے پہلے کچھ روایات مستند کتبِ حدیث  سے  پیشِ خدمت ہیں جو کہ بیس ترایح پر  دلیل و ثبوت ہیں۔
1۔  امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام سفیان ثوری، ابن مبارک رضی اللہ عنہم وغیرہ بیس رکعت تراویح کے قائل ہیں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں :
و اکثر اهل العلم علی ماروی عن علی و عمر غيرهما من اصحاب النبی صلی الله عليه وآله وسلم عشرين رکعت و هو قول سفيان الثوری، و ابن المبارک و الشافعی و قال الشافعی هکذا ادرکت ببلد مکتة يصلون عشرين رکعت.
(جامع ترمذی، ابواب الصوم، باب ماجاء فی قيام شهر رمضان، جلد 1)
اکثر اہل علم کا عمل اس پر ہے جو حضرت علی و حضرت عمر و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، بیس رکعت۔ یہی حضرت سفیان ثوری، ابن مبارک، امام شافعی کا قول ہے، امام شافعی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے شہر مکہ میں یہی عمل پایا کہ لوگ بیس رکعت پڑھتے ہیں۔

یہ روایت کس واضح اور روشن انداز میں بیان کر رہی ہے کہ  امت کے جلیل القدر  ائمہ کرام رضی اللہ عنہم  متفقہ  طور پر تراویح کی بیس رکعات کے قائل ہیں۔   اس روایت میں  ائمہ اربعہ میں سے ایک امام سیدنا امام مالک رضی اللہ عنہ کا نام شامل نہیں لیکن انہوں نے الگ سے   احادیث شریف پر  عظیم کتاب  "موطا امام مالک" میں  حضرت سائب  بن یزید رضی اللہ عنہ  کے حوالے سے  یہ روایت نقل فرما کر  اس فتنے کو لگام ڈال دی۔
کنا نقوم فی عهد عمر بعشرين رکعت.
(مؤطا امام مالک)
ہم لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت پڑھتے تھے۔

مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبد الرزاق   میں  امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ حکم منقول ہے؛
یحی بن سعید کہتے ہیں کہ
ان عمر بن الخطاب امر رجلا ان يصلی بهم عشرين رکعة.
(مصنف ابن ابی شيبه، 1 : 393، مصنف عبد الرزاق، 1 : 262)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا۔

قارئین کرام توجہ فرمائیے؛ وہ لوگ جو آٹھ تراویح کا شور کرتے ہیں ان کے پاس کوئی ایک ضعیف حدیث بھی نہیں ہے جس میں   صراحت ہو  کہ آٹھ رکعات تراویح پڑھو اور یہاں اللہ کے حبیب ﷺ کے خلیفہ جناب عمر رضی اللہ عنہ حکماً فرما رہے ہیں کہ بیس رکعات تراویح پڑھو۔ سبحان اللہ عزوجل۔
اس کے علاوہ تراویح کی بیس رکعات پر علماء کرام کی تصانیف اور تحقیقات کا ایک  ذخیرہ موجود ہے۔ یہاں میں چند سوالات درج کر رہا ہوں، جو لوگ آپ کے آس پاس میں آٹھ رکعات پڑھنے کے قائل ہیں  ان سے یہ سوالات کیجئیے انشاء  اللہ حق  واضح ہو جائے گا۔

1۔  کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ حرم مکہ اور حرم مدینہ میں کبھی آٹھ رکعات نماز تراویح  با جماعت ادا کی گئی ہو؟
2۔   شریعت اسلامیہ میں عمل کی ایک شرعی حیثیت ہوتی ہے، عمل یا تو  غلط ہوتا ہے  یا  درست، اگر آپ کے نزدیک  آٹھ تراویح درست ہیں تو حرمین شریفین میں  آج بھی بیس رکعات  با جماعت ادا کی جاتی ہیں۔ آپ دونوں میں سے کون غلط؟ حرمین شریفین والے یا آپ؟

3۔  ملتِ اسلامیہ میں اس وقت تقریباً ستاون اسلامی ممالک ہیں، کیا آپ بتا سکتے ہیں کسی ایک ملک میں سرکاری سطح پر  آٹھ رکعات  تروایح ادا کی جاتی ہیں؟
4۔  تروایح کی رکعات میں ہند و پاک کے علماء  پر ہی کیوں اعتراض،  آٹھ تراویح کی وکالت سعودی علماء کے سامنے کیوں نہیں کرتے؟ اور سعودی عرب میں آٹھ تراویح   پڑھانے کے لئیے وہاں کے علماء پر کیوں زور نہیں دیتے؟
5۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بیس تراویح کا حکم جاری فرمایا  ، کیا آپ کوئی ایک ضعیف  روایت بھی دکھا سکتے ہیں جس میں دور ِ عمر  رضی اللہ عنہ یا ان کے بعد کے ائمہ و مشائخ کرام   رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی ایک نے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  کے اس حکم سے ذرہ برابر اختلاف کیا ہو؟
6۔ اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے علماء و اسلاف  اور قرنِ اولٰی کے  ائمہ کو اختلاف نہیں تھا تو آپ کل کی پیداوار ہیں، آپ کس بنیاد پر اختلاف کر رہے ہیں؟
7۔ سعودی عرب میں حرمین شریفین اور تمام بڑی مساجد میں با جماعت بیس رکعات تروایح ادی کی جاتی ہیں، ہندوستانی و پاکستانی   غیر مقلد علماء وہاں موجود ہوتے ہیں، جب آپ کے سامنے ایک غیر شرعی عمل ہو  رہا ہوتا ہے تو آپ کلمہ حق کیوں بلند نہیں کرتے اور ان لوگوں کو بیس رکعات کی ادائیگی سے کیوں نہیں روکتے؟   
8۔  عالمِ اسلام کی عظیم درسگاہ  جامعۃ الازہر کے مفتی، علماء  اور فضلاء بیس رکعات پڑھتے ہیں، کیا آپ نے ہندوستان و پاکستان سے باہر نکل کر کبھی ان علماء کو بھی دعوتِ مناظرہ دی یا صرف  ہند و پاک میں ہی فرقہ پرستی پھیلانا مقصود ہے؟
9۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے    حضرت  ابی بن کعب  رضی اللہ عنہ کی امامت میں تراویح کا  با جماعت عمل شروع کیا، بیس رکعات بھی انہیں سے ثابت،  آپ رضی اللہ عنہ کے دور میں ہزاروں صحابہ کرام علیہم الرضوان حیات و موجود تھے، کسی ایک صحابی نے بیس رکعات پر اعتراض نہیں کیا، کسی ایک کتاب سے کوئی ایک اعتراض ثابت نہیں۔۔۔ تو اب ہم اصحابِ رسول  کے قول  و فعل کا اعتبار کریں گے یا آپ کی تاویلات مبنی بر جہالت  مانیں؟
10۔ ہم اوپر لکھ چکے اور مزید ثابت کرنے کو تیار ہیں کہ امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام مالک رضوان اللہ علیہم اجمعین  سے بھی بیس رکعات ثابت ہیں اور یہی چاروں امام امت اسلامیہ کے لئیے   رہنماء ہیں، حرمین شریفین میں بھی امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کی جاتی ہے تو اس قدری وزنی دلائل اور ائمہ امت کے اقوال کی موجود گی میں کیا یہ ضرورت باقی رہتی ہے کہ ہم  ہندوستان میں پیدا ہونے  والی کسی مولوی کی بات  پر یقین کر کے تراویح کی رکعات  آٹھ مان لیں؟
 سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم (متوفی ۱۹۹۹)  نے  نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب  (التراویحُ أکْثَرُ مِنْ ألْفِ عَامٍ فِی الْمَسْجِدِ النبوی) لک ھی ہے۔ کتاب کے مقدمہ میں تصنیف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسجد نبوی میں نماز تراویح ہورہی ہوتی ہے تو بعض لوگ آٹھ رکعت پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں ، ان کا یہ گمان ہے کہ آٹھ رکعت تراویح پڑھنا بہتر ہے اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے، اس طرح یہ لوگ مسجد نبوی میں بقیہ تراویح کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی اس محرومی کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ،لہٰذا میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں؛ تاکہ ان لوگوں کے شکوک وشبہات ختم ہوں اور ان کو بیس رکعت تراویح پڑھنے کی توفیق ہوجائے․․․․ اس کتاب میں ۱۴۰۰ سالہ تاریخ پر مدلل بحث کرنے کے بعد شیخ عطیہ محمد سالم لکھتے ہیں: اس تفصیلی تجزیہ کے بعد ہم اپنے قراء سے اولاً تو یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ایک ہزار سال سے زائد اس طویل عرصہ میں کسی ایک موقع پر بھی یہ ثابت ہے کہ مسجد نبوی میں مستقل آٹھ تراویح پڑھی جاتی تھیں؟ یا چلیں بیس سے کم تراویح پڑھنا ہی ثابت ہو؟ بلکہ ثابت تو یہ ہے کہ پورے چودہ سو سالہ دور میں بیس یا اس سے زائد ہی پڑھی جاتی تھیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحابی یا ماضی کے کسی ایک عالم نے بھی یہ فتویٰ دیا    ہو کہ آٹھ سے زائد تراویح جائز نہیں ہیں اور اس نے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا کی حدیث کو اس فتوے کی بنیاد بنایا ہو۔
11۔ سعودی عالمِ دین جو کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے امام و شیخ تھے، انہوں نے آٹھ تروایح کو غلط سمجھا اور اس پر مکمل کتاب لکھ ڈالی اور کتاب بھی چیلنج سے بھرپور۔۔۔ آٹھ تراویح پڑھنے والوں نے آج تک اس کتاب کا  جواب کیوں نہیں دیا؟ آپ دونوں میں سے کون غلط؟ امام مسجد نبوی یا آپ؟
صبحِ قیامت تک ان سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں ہو گا۔ میری گزارش ہے کہ تقسیم در تقسیم اس قوم پر رحم کیجئیے اور امت کے متفقہ مسائل میں شرانگیزی نہ کیجئیے۔  اس قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے اس لئیے اگر آپ عملِ خیر نہیں کر  سکتے  تو ماہِ مقدس میں اپنی شرارتوں سے دوسروں کو اذیت بھی نہ دیجئیے۔  تمام قارئین و محبین سے گزارش ہے کہ تروایح کی بیس رکعات مکمل ادا کیجئیے۔ اس سے کم  نوافل  ہو  سکتے ہیں تراویح نہیں ہو گی۔
وما علینا الا البلاغ۔
علم و عمل کا جذبہ پانے، روحانی و شرعی  مسائل جاننے کے لئیے ہمارا فیس بک پیج لائیک کیجئیے۔
رہنمائی کے لئیے ہمیں ای میل کیجئیے۔

Monday, 25 May 2015

روزانہ پڑھنے کے لئیے مسنون وظائف

اللہ جل و علا نے اپنے حبیب پاک صاحبِ لولاک علیہ الصلاۃ والسلام کے وسیلہ جلیلہ سے ہمیں  اپنی عبادت اور یاد کی طرف   رغبت دلائی ہے۔   اللہ کریم کے ساتھ قربت  بڑھانے ، اس کی محبت کی لذت و چاشنی پانے اور معرفت حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ    اذکار  اور وظائف ہیں۔   اذکار و وظائف ، سلاسلِ طریقت میں جاری اوراد  روحانی تسکین  و  ذہنی  راحت  کا سبب اور دنیوی و اخروی نجات کا باعث ہیں۔     آپ احباب ہمارے سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف  دنیاوی مسائل اور پریشانیوں سے نجات پانے  کے لئیے وظائف  حاصل کرتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔  ان میں سے اکثر وظائف کا تعلق  وقتی ضروریات سے ہوتا ہے جو کہ علم الاعداد  کی روشنی میں یا قرآن مقدس کی متعلقہ آیات سے لئیے جاتے ہیں،   اور یہ  سائلین کی ضرورت،  مسائل اور پریشانیوں کو سامنے رکھ کر ترتیب دئیے جاتے ہیں۔   تاہم آج کے اس مضمون میں آپ کے لئیے ایسے وظائف پیش کئیے جا رہے ہیں جو فرض نمازوں کے بعد پڑھے جاتے ہیں اور یہ صحیح اسناد سے رسول اللہ ﷺ سے ثابت بھی ہیں  اور  صحابہ کرام علیہم الرضوان  بھی ان کے عامل رہے۔   سبحان اللہ عزوجل۔    یہ وظائف تمام اہلِ  ایمان کو اختیار  کرنے اور حرزِ جان بنانے چاہئیں۔   حضور ﷺ سے منقول کچھ وظائف بمع مختصر وضاحت و  تجاویز   یہاں درج کئیے جا رہے ہیں۔

پانچوں نمازوں کے بعد کے وظائف:

1۔         سب سے اول تسبیحِ فاطمہ رضی اللہ عنہا،  یہ مبارک  ذکر  آقا کریم ﷺ نے  اپنی  شہزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سکھایا۔  
سبحان اللہ تینتیس مرتبہ، الحمد للہ تینتیس مرتبہ، اللہ اکبر چونتیس مرتبہ آخر میں ایک بار    لَا إِلٰهَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَه لَا شَرِيْکَ لَه. لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌ۔
اس دن تمام جہاں میں کسی کا عمل اس کے برابر بلند نہ کیا جائے گا مگر جو اس کے مثل (یعنی یہی عمل یا اس کے برابر کوئی دوسرا عمل) پڑھے۔
(صحیح بخاری)
2۔   ہر نماز  کے بعد یہ استغفار بھی  تین تین  بار پڑھیں۔ (اس میں اسمِ اعظم بھی شامل ہے) ۔ سبحان اللہ عزوجل۔
اَستغِفرُ اللہ الؔذِی لا اِلٰہ الا ھُوَا الحَیُؔ القیوم واتوب الیہ۔
اس کی برکت سے گناہ معاف ہوں گے اگرچہ لشکر سے بھاگا ہوا ہو۔
(جامع ترمذی(
 3۔   ہر فرض نماز کے بعد  پیشانی پر ہاتھ رکھ کر  یہ دعا پڑھیں؛
بسم اللہ الؔذِی لا الہ الا ھو الرحمٰن الرحیم۔ اللھم اَذْھِبْ عَنؔی الْھَمؔ وَالحُزْنَ۔
اس کی برکت سے ہر غم و پریشانی سے بچے گا۔
(مجمع الزوائد، رقم 16971)

صبح و شام کے وظائف

صبح و شام کی تعریف یہ ہے کہ، آدھی رات ڈھلنے  سے سورج  کی پہلی کرن چمکنے تک"  صبح"  ہے ،  اس سارے وقفے میں جو پڑھا جائے گا  اسے صبح میں پڑھنا کہیں گے اور دوپہر  ڈھلے یعنی ابتدائے ظہر سے لے کر  غروبِ آفتاب تک "شام" ہے، اس سارے وقفے میں  جو پڑھا جائے  اسے شام میں  پڑھنا کہیں گے۔  
4۔  سیدِ عالم  حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’دو خصلتیں ایسی ہیں کہ جس مسلمان میں جمع ہو جائیں وہ جنت میں داخل ہوگا: جو شخص سوتے وقت 33 مرتبہ سُبْحَانَ اﷲِ، 33 مرتبہ الْحَمْدُ ِﷲِ، اور 34 مرتبہ اَﷲُ اَکْبَر کہے اور ہر نماز کے بعد یہ تینوں کلمات دس دس مرتبہ کہے۔‘‘
ترمذی، الجامع الصحيح رقم : 410
5۔  تینوں قُل ( سورہ اخلاص،  الفلق، الناس)  تین تین بار صبح شام  شام پڑھ لیں تو ہر بلا سے حفاظت  ہے۔
(ابو داؤد)
6۔  یہ دعا ایک بار صبح شام پڑھ لیں، غم و الم  سے بچے، اور ادائے قرض کے لئیے گیارہ گیارہ بار صبح شام۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوذُبِکَ مِنَ الھَمِّ وَ الحُزنِ وَ العِجزِ وَ الکَسَلِ وَ الجُبنِ وَ البُخلِ وَ ضَلَعِ الدَّینِ وَ غَلبَۃِ الرِّجَالِ
( ابو داؤد)
7۔  بسم اللہ علٰی دینی، بسم اللہ علٰی نَفؔسِیؔ  و َ وُلؔدِیؔ وَ اَھؔلَیؔ و مَالِیؔ۔  
 تین تین بار صبح شام پڑھیں۔ دین و ایمان، جان و مال اور بچے سب محفوظ رہیں۔
(الوظیفۃ الکریمہ)
8۔  دن بھر میں چلتے پھرتے درود و سلام اور استغفار کی کثرت کریں، اس کی برکت سے گناہوں سے نجات اور نیکی کے کام میں دل لگا رہے گا۔   درود شریف تمام وظیفوں کی اصل ہے۔ اگر اللہ تعالٰی توفیق دے تو رات کو سونے سے قبل مدینہ منورہ کی طرف منہ کر کے خود کو روضہ رسول ﷺ کے سامنے تصور میں پیش کر کے  درود و سلام عرض کرنے کی عادت بنا لیجئیے۔  اسی تصوراتی  عالم میں اپنی مناجات و گزارشات پیش کیجئیے،   اگر یہاں دل جم گیا اور رابطہ قائم ہو گیا تو  ایک نئی دنیا   آشکار ہو جائے گی اور پھر کسی وظیفے  و ریاضت کی حاجت ہرگز نہ رہے گی۔ 
9۔ ہر روز نماز فجر کے بعد  فاتحہ  پڑھنے کی عادت بنائیے اور اس کا ثواب ابو البشر سیدنا آدم علٰی نبینا  و علیہ السلام سے لے کر آج تک  اور قیامت تک آنے والے ہر مومن   کے لئیے ، خصوصاً آقا و مولٰی  ﷺ، آپ کے اصحاب و اہلِ بیت، اولیائے امت اور اپنے والدین ، زندہ و فوت شدگان رشتہ دار سب کو ایصالِ ثواب کیجئیے۔  یہ  میرا مجرب وظیفہ ہے کہ جب مرحومین کو ایصالِ ثواب کریں تو اس کے دنیا میں بے شمار فوائد ظاہر ہوتے ہیں۔
 اللہ تعالٰی ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اس کی یاد میں مگن رہیں اور ہم سب کا شمار ذاکرین و عابدین میں فرمائے۔ آمین۔
شرعی و روحانی مسائل و احکام جاننے کے لئیے ہمارا فیس بک پیج لائیک کیجئیے۔
آپ ہمیں ای میل بھی کر سکتے ہیں۔