Showing posts with label Politics/سیاست. Show all posts
Showing posts with label Politics/سیاست. Show all posts

Thursday, 14 February 2013

پاکستان کی "مسجد ضرار" کو گرا دو

( یہ کالم اس سے قبل دیگر جگہوں پر شائع ہو چکا ہے، اپنے قارئین کی دلچسپی اور ریکارڈ کی درستگی کے لئیے یہاں پوسٹ کر دیا۔)



خیر و شر کی قوتیں ہمیش سے آپس میں نبرد آزما رہی ہیں۔ ہابیل کی حق پرستی اور قابیل کی گمراہی سے شروع ہونے والی یہ جنگ تا ابد جاری رہے گی- آج بھی یہ معرکہ اسی طرح گرم ہے اور اپنا آپ دکھا رہا ہے۔ آنکھ والے دیکھ بھی رہے اور اس کے خلاف متحرک بھی، جو فہم و فراست سے محروم ہیں وہ اس جنگ کو سمجھتے ہیں نا اس کے خلاف زبان کھولتے ہیں۔ بلکہ کچھ لوگ قابیل کی اس مکروہ سوچ کو پروان چڑھانے کے لیئے اپنا سب کچھ داؤ پہ لگائے بیٹھے ہیں اور پوری قوت کے ساتھ اپنی قابیلی سوچ کی ترویج و اشاعت کے لیئے متحرک ہیں۔

نقشئہِ کائنات پر اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی واحد ریاست پاکستان کے حصول کے لیئے بھی کچھ ایسی ہی قوتوں کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔ پھر اللہ کریم کی مدد و رحمت سے اہل حق کو فتح نصیب ہوئی۔ بدخواہوں نے پاکستان کو کافرستان اور اس کے بانی کو کافرِ اعظم کے القابات بھی دیئے۔ وہ علٰیحدہ بات ہے کہ آج انہی بدخواہوں کی اولاد اور فکری جراثیم پاکستان اور اسلام کے تحفظ، دفاع، ترقی اور خوشحالی کے گیت گا رہے ہیں۔ مدینہِ ثانی کہلانے والے اس پاکستان میں ان گنت مساجد ِ "ضرار" بھی انہی کی قائم کردہ ہیں۔ ان کی حقیقت اللہ کریم کے حکم سے اس کے رسول ﷺ کے ظاہری دور سے ہی طشت ازبام ہو چکی ہے۔
پاکستان کے قیام سے ہی یہ المیہ رہا کہ غریب مزید غریب ہوتا چلا گیا اور امیر کے اثاثوں میں تواتر سے اضافہ ہوتا رہا۔ امن و امان، زندگی کے بنیادی حقوق، تعلیمی و عدالتی نظام اور اسلامی فلاحی ریاست کے خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہی ہو سکے۔ نوجوانوں کو سکولوں کالجوں اور جامعات میں ایسا مواد پڑھایا گیا جو نا تو ہماری تاریخ کی ترجمانی کرتا ہے اور نا ہی تحقیقی و علمی میدان میں کوئی کردار ادا کرسکا۔ پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت اس بات سے بالکل ناواقف ہے کہ پاکستان کیوں حاصل کیا گیا، اس کے حصول کے لیئے کون سی اور کیسی قربانیاں دی گئیں ۔ مغرب زدہ ثقافت میں ملبوس "جدید" مسلمان خواتین کے مورننگ شو دیکھ کر اپنی صبح کا آغاز کرنے والے نوجوان کیا جانیں کہ ان کے آباء و اجداد نے اس کلچر سے نجات کے حصول کے لئیے ہی تو پاکستان بنایا تھا۔

جب تحریک آزادی کا آغاز ہوا تو شرک و گمراہی میں لت پت سیاسی و سماجی خداؤں سے نجات کے حصول کے لیئے ایک ولولہ اور جذبہ ہند کے مسلمانوں میں سرایت کر چکا تھا، خلوص، لگن، عزم، استقلال، ایمانداری، شوقِ شہادت، دینی و ملی عزت اور ناموس کی حفاظت کرنے کے جذبے اور اتحاد نے کامیابی کے اس سفر کی بنیادیں مضبوط کر دی تھیں۔ اور ایسا کیوں نا ہوتا کہ خود رسول اللہ ﷺ اس تحریک کی نگرانی اور حمایت فرما رہے تھے، یہ میرا کہنا نہی، پوچھ لیجیئے اس وقت کے خان آف قلات سے، امیر مؔلت سید جماعت علی شاہ سے یا پھر علامہ فضلِ حق خیر آبادی سے۔ بلکہ وجدان جب کمال کو پہنچتا ہے تو پھر میرا ایمان گواہی دیتا ہے کہ میرے اقبال اور قائد اعظم گنبد خضریٰ کے مکین ﷺ کے اشاروں پر ہی ملک و ملت کو لے کر آگے بڑھ رہے تھے۔ ان تمام ہستیوں کے دامن صاف تھے۔ ان لوگوں کے غیر ملکی بینکوں میں کھاتے تھے نا مغرب کے ٹھندے ساحلوں پر عیاشی کے اڈے۔ جعلی ڈگری بھی کسی کے پاس نہی تھی۔  جو باہر سے جتنا معزز نظر آتا تھا اس کا دل بھی اتنا ہی صاف و شفاف ہوتا تھا۔  وہ حقیقت میں اللہ کی بارگاہ میں بھی اتنا ہی معزز ہوتا تھا کیونکہ ان میں سے نا کوئی سینما کی کمائی کھا کر پلا تھا، نا کوئی ٹھیکوں سے رشوت کھاتا تھا، اور نا ہی اس وقت خفیہ ادارے رقوم تقسیم کرتے تھے۔

رسول اللہ ﷺ کے ایک فرمان کا مفہوم ہے کہ" مومن ایک سوراخ سے دو بار نہی ڈسا جاتا"۔ مگر پاکستان کے مومنین ایک بار نہی بار بار اور کئی بار انہی سے ڈھنگ کھاتے چلے آ رہے ہیں جو صدیوں سے مثل صیؔاد اپنی شاطر مزاجی سے نشانے باندھ رہے ہیں اور اس میں وہ اچھی خاصی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ بنیادی طور پر ہم اس قدر کھوکھلے ہو چکے ہیں کہ اچھے اور برے کا فرق ہی مٹ گیا۔ جس منفی قوت سے ہم نے نجات حاصل کی تھی وہ پورے آب و تاب کے ساتھ آج بھی ہمارے اوپر راج کر رہی ہے۔  انہی کی تہذیب و ثقافت کو ہمارے سیاسی خدا اپنی تہذیب سمجھتے ہیں۔  جس ملک میں دشمن کے مذہب کی فحاشی و عریانی پر مبنی فلموں کی تجارت کی جائے، جس "اسلامی ریاست" میں شراب و کباب بیچنے کے لئیے باقاعدہ طور پر اجازت نامہ جاری کیا جائے،  جہاں زنا کے لئیے علاقے مختص کر دئیے جائیں، جہاں کھانے پینے کی چیزوں میں حرام اجزاء کا کھلے عام استعمال کیا جائے، جہاں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ دلانے کے لئیے راگ الاپے جائیں، وہاں غربت، جہالت، برائیاں، بیماریاں، زلزلے اور سیلاب ہی تو آئیں گے۔

اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد جب میں  پاکستانی مقبوضہ  کشمیر کے دارالحکومت مطفر آباد پہنچا تو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ایک بینر پر رسول اکرم ﷺ کے یہ فرامین لکھے ہوئے تھے-
§ جس معاشرے میں زنا کی وبا عام ہو گی وہ فنا کے گھاٹ اُتر کر ہی رہے گی۔
§ جس معاشرے میں ناحق فیصلے ہوں گے وہاں خونریزی لازماً ہو کر رہے گی۔
(مذکورہ روایات حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے بھی منسوب ہیں، اگر کسی کے پاس درست حوالہ ہو تو ضرور مطلع کر دے)۔

پاکستان میں یہ تمام برائیاں بھر پور طریقے سے ہو رہی ہیں، اس بیچارے ملک نے ایک ایسا حاکم بھی برداشت کیا ہے جو شراب و زن کا اس قدر رسیا تھا کہ ایک دن کیف و مستی میں وہ اس قدر بے خبر ہو گیا تھا کہ لگ بھگ چوبیس گھنٹوں تک کسی کو کوئی خبر ہی نا تھی کہ حاکمِ وقت کہاں ہے اور تقریبا پورا ایک دن پاکستان نے بغیر اپنے سربراہ کے گزارا۔  رقاصاؤں اور گانے والیوں پر نوٹ نچھاور کرنا بھی ہمارے پاکستانی "اکابرین" کا حصہ شغل تھا اور ہے۔  یہ ساری صورتحال دیکھ اور سمجھ کر آپ کو ان لوگوں کے بڑے بھائی اور اپنے ابا جی حضور آدم علیہ السلام کی بگڑی ہوئی اولاد " قابیل" کی سمجھ آ ہی گئی ہو گی۔  با لکل اسی راہ کے مسافر ہیں آج یہ لوگ۔

کس کس ستم ظریفی پہ ماتم کیا جائے، اس ملک میں تو ایسے لوگ بھی بستے ہیں جنہوں نے برسوں پاکستان کے قانونی، داخلی اور ریاستی اداروں کی سربراہی کی، صدارتی  و  وزارتی محلات کی زینت بنے مگر سورہ اخلاص اوپر دیکھ کر پڑھتے ہیں پھر بھی بھول جاتے ہیں، یہاں پر تو اذان "ہونے" کی بجائے "بجائی" جاتی ہے، ایک ہی شہر میں صوبے کا گورنر روزے سے ہوتا ہے اور وزیر اعلیٰ عید منا رہا ہوتا ہے۔ میرے خدایا کس کس جہالت کو لکھوں یہ وہ ملک ہے جس کا صدر اور وزیر اعظم سرکاری خرچ پر عمرہ کرنے جائیں تو مسجد الحرام کے اندر پہنچ کر پوچھتے ہیں احرام کہاں سے باندھنا ہے؟

اس ملک کے مذہبی رہبروں کی منافقت بھی کوئی ڈھکی نہی، جو قیام پاکستان کے مخالف تھے آج وہی سب سے بڑے محافظ ہونے کے دعویدار ہیں۔  جیسا کہ پاکستان ایک مذہب کے نام پر حاصل کی گئی ریاست تھی، یہاں کے لوگ سیاستدانوں کی بجائے مذہبی رہنماؤں کی زیادہ سنتے ہیں۔  ملاؤں کی اکثریت نے غیروں کے ٹکڑے کھا کر انہی کی زبان بولی، نفرت اور منافقت پھیلائی، کفر و شرک کے فتوے جاری کئیے، اپنے ہاتھ سے محنت کر کے کھانے کی بجائے مریدوں اور عقیدت مندوں کے گھر اجاڑے۔  دوسروں کو تقویٰ و پرہیزگاری اور قناعت پسندی کی ترغیب دلانے والوں کی اپنی توندیں بے قابو ہیں۔ آپ اچھی طرح سے دیکھ لیں کہ کتنے ایسی مذہبی رہنما ہیں جو ہمیشہ سے حکومت میں رہے ہیں یا پھر کسی نا کسی ذریعے سے ایوان اقتدار کے آگے پیچھے رہے ہیں، ان میں سے کتنے ایسے ملا صاحبان ہیں جو اپنی کمائی سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں؟ سیاست میں آنے سے پہلے ان کے وسائل و روزگار کیا تھے؟  اسلام آباد میں بڑے بڑے بنگلے، یورپ کے دورے، لمبی لمبی گاڑیاں، مہنگی شیروانی اور پگڑیاں کہاں سے آ گئیں؟ معذرت ۔۔(قاضی حسین احمد پگڑی نہی جناح کیپ سر پہ رکھتے ہیں)۔  خود امریکہ و یورپ کو گالیاں اور آل اولاد سرخ پاسپورٹ لے کر مغرب ہی میں مقیم ہے۔ اب اس حالت میں جب قوم کے رہبر بگڑ جائیں تو کیا ہو گیا؟ جیسا امام ویسا مقتدی۔

قوم کے رہنماؤں اور رہبروں میں قابیل کی شر انگیز روح دوڑ رہی ہے۔ انہوں نے ہمیں ہماری ہی قربانیاں بھلا دی ہیں مگر اس کی بنیادی ذمہ داری ہم پر بھی عائد ہوتی ہے کی انفرادی لحاظ سے سوچ اور عمل ہمارا اپنا اختیار ہے، ہم کیوں مسلمان ہیں؟  پاکستان کیوں بنا؟  ہماری کیا ذمہ داری ہے؟  اس کا جواب نا صدر مملکت نے دینا ہے اور نا ہی وزیر اعظم نے۔  اپنی ملکی و ملی ذمہ داریوں کو ہمیں خود سمجھنا ہو گا۔  قیام پاکستان کے وقت تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی، دشمنوں نے کتنے بچے یتیم کیئے، سہاگ اجاڑے، ماؤں کی گودیں خالی کر دیں، بوڑھوں کی جھکی ہوئی کمر توڑ دی، لاہور کے والٹن سٹیشن نے خون سے لت پت ٹرین کا بھی استقبال کیا۔ کیا آپ جانتے ہیں کتنی نوجوان مسلمان لڑکیوں کو اس وقت کے سکھوں اور ہندؤں نے اغوا کر لیا تھا اور آج وہ کلمہ گو ہماری بہنیں کتنے رام، شنکر، کلدیپ، کلونت، داس، بھگوان اور سنگھ کے بچوں کی مائیں ہیں؟ کیا آپ کو لاہور کی بادشاہی مسجد کے داخلی دروازے کے ساتھ  دیواروں   پر اپنے بزرگوں کے خون کے چھینٹے جو آج بھی موجود ہیں، نظر نہیں آتے؟  جب میں اپنے ایسے عزیز رشتہ داروں کو دیکھتا ہوں جو قیام پاکستان کے وقت اپنی بیش قیمت جاگیریں کشمیر میں چھوڑ کر چلے آئے، کافروں کے ہاتھوں مرنے کی بجائے اپنے ہاتھوں اپنے ننھے ننھے بچوں کو کنؤیں میں پھینک دیا، نوجوان عورتوں کی چھاتیاں کاٹ دی گئیں، اور پھر 1971 میرے اجداد کے نقصان اور شہادت کی داستان اپنے آباء   سے سن کر خون کھولتا ہے مگر عین اس لمحے دل کہتا ہے کہ اگر اس قربانی سے وطن کو کوئی فائدہ پہنچے تو یہ کوئی بڑی قربانی نہیں تھی۔ اللہ کرے یہ ہجرت اور مصائب بخشش کا سبب بن جائیں۔

پاکستان میں موجود منافقت کے اڈوں، منافرت کے مراکز اور شیطانی قوتوں کا خاتمہ صرف اور صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم انفرادی طور پر اپنی اپنی ذمہ داری نبھائیں اور برائی کی نشاندہی کریں۔ قابیل نہیں   ہابیل بنیں، ہابیل اللہ کا مقرب تھا کہ اس نے حق کا راستہ نہی چھوڑا تھا اور قابیل بھگوڑا تھا کو اس نے حق کو نہیں پہچانا اور حرص و حوس میں مبتلا ہو کر ہمیشہ کے لئیے نشان عبرت بن گیا۔ ۔ حق کا ساتھ دیں اور باطل کو بھاگنے پر مجبور کریں۔  ملک و ملت کے خلاف قائم سیاسی و مذہبی منافقت کی آماجگاہیں جو عصر حاضر کی "مسجد ضرار" ہیں انہی تباہ و برباد کر دیں، ان "مساجد ضرار" کو گرا دیں تا کہ ہمارا پاکستان ہمارے ہاتھ میں آ جائے، سب منافق، شیطان، نفرتیں پھیلانے والے بھاگ جائیں اور پاک لوگوں کا پاکستان قائم ہو جائے۔

Thursday, 7 February 2013

سجؔادہ نشین پارٹیوں کے نام




تحریکِ پاکستان میں علماء کرام اور مشائخِ عظام کا کردار مصدؔقہ و مسلؔمہ ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اہلسنؔت  قائدین اور اکابرین نے " جمعیت علماء پاکستان" کی بنیاد رکھی۔ حضرت شاہ ابو البرکات قادری ، سید احمد سعید کاظمی اور شیخ الاسلام خواجہ قمرالدؔین سیالوی رحمہم اللہ جیسے پاکباز اور بلند مرتبت بزرگوں کی کوششیں اس کی ترقی اور کامیابی کی بنیاد بنیں۔ خواجہ قمرالدین سیالوی رحمہ اللہ کے بعد  1972  میں مولانا شاہ احمد نورانی کو اس کی قیادت سونپی گئی۔ بعد ازاں مولانا عبدالستؔار خان نیازی مرحوم نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی اور جمعیؔت علماء پاکستان (نیازی گروپ) کے نام سے اپنی جماعت کی بنیاد رکھی۔ یوں اہلسنؔت کے دو بڑے یعنی مولانا نورانی اور مولانا نیازی کے اختلافات کی بنا پر یہ جماعت بٹ گئی۔

مولانا نورانی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد اس  جمعیؔت علماء پاکستان کے حصؔے ایسے ہی بکھرے اور بکے جیسے کسی رئیس کے انتقال کے بعد اس کی جائیداد۔  جمعیؔت علماء پاکستان  اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی کہ  ہر کسی نے حسبِ منشاء اس کو اپنے ناموں سے منسوب کیا اور خود کو ہی اصل وارث قرار دیا، مرکزی، نیازی، نورانی، سوادِاعظم، حقیقی اور نا جانے کون کون سے دھڑے بنا دئیے گئے۔
عدمِ اتحاد و اتفاق تمام خرابیوں کی جڑ ہوتی ہے اور اتفاق اسی وقت ہوتا ہے جب عاجزی و خلوص ہو۔  علماء و مشائخ اور پیرانِ عظؔام کی ذاتی وجوہات اور شخصی مفاد نے قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔  جماعتی دھڑوں کی اس تقسیم نے ذلت و رسوائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیا اور صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے وارث ہونے کا دعوٰی کرنے والوں کی قومی اسمبلی میں ایک ادھاری نشست ہے جو کہ آنے والے انتخابات میں چھن جانے کی قوؔی امید ہے۔
جبؔہ و دستار، سجؔادہ نشینی، محراب و منبر اور مسجد و مزار  کے جملہ حقوق اپنے نام محفوظ  کرنے  کے لالچ نے علماء و مشائخ کی اکثریؔت کو   خلوص،  خدمتِ خلق،  دین کی اصل روح،  عاجزی و انکساری،  ملکی و ملؔی مفاد اور حق گوئی سے  کوسوں دور کر دیا ہے۔    سجؔادہ نشینی اور خلافت  کے تنازعات نے اکثر مزارات کو متنازعہ بنا دیا ہے،  گدؔی کے حصول کے لئیے بھائی ایک دوسرے کے گلے کاٹتے نظر آرہے ہیں،  مزار و مساجد سے ملحقہ جگہیں تقسیم ہوتی نظر آتی ہیں اور حد یہ کہ بزرگان دین کے عرس وغیرہ بھی گدؔی نشینی اور سیاسی جھگڑوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ میں خود عینی شاہد ہوں کہ سجؔادہ نشینی کے تنازعہ پر قتل و غارت گری ہوئی اور پھر وہ پیر زادے اور سیؔد زادے جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے گئے۔  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب علماء و مشائخ  جو  قوم کے رہنما سمجھے جاتے ہیں وہ اخلاقیات میں اس قدر  پست  ہو جائیں اور اسلاف کی اقدار سے پھر جائیں گے تو  پھر تفرؔقہ، جہالت اور پستی قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔   ایسے میں وہ لوگ جو اندھی تقلید،  ضرورت سے زیادہ  احترام جو کہ پیروں کی پرستش تک چلا جاتا ہے ،  وہ جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے اور مسائل مزید الجھ جاتے ہیں۔
گذشتہ چند مہینوں کا جائزہ لیں تو ایک اتؔحاد وجود میں آیا تھا جس میں اہلِسنؔت کی تمام جماعتیں شامل تھیں اور اس کو عوامی سطح پر کچھ پذیرائی بھی ملی۔  اس اتؔحاد کا جنازہ اس وقت نکل گیا جب دو آستانوں کے شہزادوں نے ایک دوسرے کی "عظمت" کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔  صاحبزادہ فضل کریم صاحب نے ماضی کے "گستاخوں" یعنی گجراتی چوہدریوں سے ہاتھ ملا لیا تو آستانہ عالیہ بکھؔی شریف کے پیر محفوظ الحق مشہدی صاحب کو بہترین موقع مل گیا،    انہوں نے ہنگامی  بنیادوں  پر خود کو خود ہی سنؔی اتحاد کونسل کا چئیرمین منتخب کر کے حاجی فضل کریم صاحب کو برخاست کر دیا۔   اب  یہ کھچڑی کچھ اس طرح سے پک چکی ہے  کہ حاجی فضل کریم صاحب کی "جمعیؔت" ق لیگ کے ساتھ، اویس نورانی صاحب کی جمعیؔت ابھی تک کی خبروں کے مطابق کراچی اور لاہور کے درمیان اٹکی ہوئی ہے،  پیر محفوظ الحقؔ مشہدی کی جمعیؔت منڈی بہاءالدین سے لاہور براستہ اسلام آباد، صاحبزادہ ابو الخیر  ڈاکٹر زبیر کی جمعیؔت منصورہ سے القادسیہ مسجد براستہ آستانہ حافظ طاہر اشرفی،  نیازی صاحب کی جمعیؔت  کے وارث حالتِ مراقبہ میں اور ثروت اعجاز قادری صاحب کی سنؔی تحریک بھی رائیونڈ کے آستانے پر بیعت کر چکی ہے۔   یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ان تما م جماعتوں کا نا تو کوئی تنظیمی ڈھانچہ ہے اور نا ہی جماعتی انتخابات ہوتے ہیں یعنی  ان جماعتوں کی قیادت بالکل ویسی ہی ہے جیسی ن لیگ، ق لیگ، پیپلز پارٹی وغیرہ۔ خاندانی  جمع  "آستانی"  پارٹیاں۔
اب آپ کو اندازہ  ہو  چکا ہو گا  کہ کتنی ساری "جمعیؔتیں" دریافت ہو چکی ہیں اور بہت ساری ایسی ہیں جن کے نام مجھے بھی یاد نہیں۔  مذکورہ تمام جماعتیں نظامِ مصطفٰیﷺ کے نفاذ سے لے کر پاکستان کی تعمیرِ نو تک کے تمام وعدے کرتی ہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ سنؔی تحریک کے علاوہ  ان میں سے کسی ایک جماعت کے پاس بھی ملک بھر اپنی نمائندگی کے لئیے دفاتر ہیں نا نمائندے ۔ میڈیا پر بات کرنے کے لئیے ان کے پاس کوئی مناسب نمائندہ نہیں۔  ان کا سیاسی منشور جلسوں میں نعرے،  سڑکوں پر ریلیاں، بینرز اور وال چاکنگ تک محدود ہے۔ سوشل میڈیا  ہر جماعت اور پارٹی کے لئیے  ایک لازمی ہتھیار بن چکا ہے مگر یہ تمام جماعتیں آپ کو سوشل میڈیا  پر تو درکنار اپنی ویب سائٹ پر بھی نظر نہیں آتیں۔    کارکنان کے ساتھ ان کا رابطہ نہیں،  ان رہنماؤں کی اکثریؔت کارکنان کے پاس خود چل کر جانے کو اپنی  ہتک تصور کرتی ہے کیونکہ وہ انسان نہیں بلکہ ان کے مرید ہوتے ہیں اور اس معاشرے میں پیر اگر خود چل کر مرید کے کام کے لئیے اس کے پاس جائے تو اسے گستاخی اور بے عزتی سمجھا جاتا ہے۔  پیر کا کام تو مرید سے پیسے کھانا ہے بے شک اس کے بچے بھوکے مر جائیں۔  اب تو دعا بھی پیسوں کے عوض ہوتی ہے۔   (الؔا ماشاء اللہ)
خلوص، ذاتی مفاد سے بالاتری، وسیع تر ملؔی و ملکی مفاد کی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ہو گا جب ان لوگوں کے اندر تبدیلی آئے گی۔ محدثِ اعظم مولانا محمد سردار احمد، مولانا شاہ احمد نورانی، شیخ الاسلام خواجہ قمرالدین سیالوی،  شاہ ابو البرکات قادری رحمہم اللہ اجمعین جیسے بزرگان متحرک اور پر عزم تھے۔ وہ قوم کے لئیے سوچتے تھے نا ں کہ اپنے آستانے کے لئیے۔ آج دنیا سے جانے کے بعد اگر ان کو  اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے اور ان کا نام تاریخ میں موجود ہے تو اس کی وجہ اللہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کی رضا میں راضی رہنا تھا۔  آپ سب لوگ اپنے بڑوں کا صدقہ کھا رہے ہیں۔ یہ مت بھولئیے کہ آپ کو جلد یا بدیر جواب بھی دینا ہے۔
ان کی اولادوں اور  ان کے نام پر  سیاست کرنے والوں سے گذارش ہے کہ قوم کے ساتھ یہ کھیل بند کر دیں، اپنے آباء کی قبروں کے ساتھ بے وفائی نا کریں کہ آپ لوگوں کی نالائقیاں اور  دانستہ  غلطیاں اسلام اور اسلاف کا نام خراب کر رہی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر آپ ان کا نام لینا چھوڑ دیں تو شائد آپ کو دو وقت کی روٹی بھی میسؔر نا آئے۔ آپ نسبتوں اور سلسلوں کا غلط استعمال کر کے اس قدر عیاشی کی زندگیاں گزار رہے ہیں اور اگر آپ حقیقت میں ان کے غلام اور مرید بن کر ان کے مسلک و طریق کے مطابق اس قوم کی خدمت کریں گے تو پھر واقعی اللہ کے فضل سے آپ کی عزتوں کو چار چاند بھی لگ جائیں گے اور الجھے ہوئے مسئلے بھی سلجھ جائیں گے۔ کرسی اور گدؔی کی جنگ چھوڑ کر خدمتِ خلق کو اپنا شعار بنائیے اور ایسا بننے کے لئیے پہلے آپ کو عاجز ہونا پڑے گا۔

Friday, 4 January 2013

"فسادی مجاہدین" کی مزید وضاحت


"فسادی مجاہدین" کی اشاعت کو ابھی چند روز ہوئے ہیں اور اسے انٹرنیٹ پر پڑھنے والوں کی تعداد ابھی چند سو ہی ہے۔ مختلف ذارائع سے اس پر کئی طرح کے اعتراضات سامنے آئے۔ میرے قارئین کو یہ بنیادی حق حاصل ہے کہ وہ اس پر تبصرہ کریں کہ اس تبصرے اور بحث سے ہی علمی و تحقیقی ترقی کی بقا ہے۔ قارئین کے اعتراضات اور تبصرے اس عنوان سے متعلق مزید تحقیق اور تحریر کی جستجو کی بنیاد بنتے ہیں۔ مگر جو اعتراضات کئیے گئے وہ اصل موضوع سے متصادم اور ہٹ کر ہیں۔ پھر مجھ پر مختلف اداروں یا گروہوں کا ایجنٹ ہونے کا الزام بھی دھرا گیا جو کہ میں نے برداشت کر لیا کہ برداشت کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ تحریر و تقریر کے اس دھندے میں سینہ اکثر زخمی ہی رہتا ہے اور اس کا علاج بھی کسی دنیاوی طبیب کے پاس نہیں۔ کچھ لوگوں کو تو واقعی بہت تکلیف ہوئی۔ میری تحریر سے ان کو پہنچنے والی تکلیف پر میں ہرگز نادم ہوں نا مغموم۔ کیونکہ میرا نشانہ بالکل ٹھیک جگہ پر لگا۔ اللہ تعالٰی کی رضا اور امؔت کی اصلاح کے داعی کے لئیے ضروری ہے کہ وہ بے خوف و خطر رہے، توکل علی اللہ رکھے، اور مومنوں کی صف میں موجود منافقوں کی نشاندہی کرتا رہے۔ اور ایک مومن جب وار کرتا ہو تو وہ وار عدوؔ کے سینے میں غار ہوتا ہے۔ مجھے ابھی تک کسی نے مدلل جواب نہیں بھیجا۔ مسلکی و گروہی انداز میں جواب آئے اور بغیر تحقیق کئیے بحثِ لا یعنی کو بڑھاوا دیتے رہے۔

جہاد اسلام کی عزت و شان اور ہمارے ماتھے کا جھومر ہے۔ ہمارے آقا ﷺ کی سنت اور اسلام کی ضرورت اور تحفظ ہے۔ جہاد کے شرعی اور فقہی پہلوؤں پر مجھ جیسا تہی دامن کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مگر اس کی اسباب و وجود پر بحث بہر حال ضرورت ہے۔ جہاد کی عظمت کا اندازہ آپ امام المجاہدین ﷺ کے اس فرمان سے کر سکتے ہیں کہ "جہاد کی نیت سے پالے گئے گھوڑے کی لید صاف کرنا بھی عبادت ہے"۔ علماء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ جس گھر میں اہلِ اسلام کے تحفظ کے لئیے اسلحہ رکھا گیا ہو وہاں رحمت نازل ہوتی اور شیطان بھاگ جاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک مال دار شخص تھا اس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جس کے ذریعے میں مجاہدین فی سبیل اللہ کے مقام کو پہنچ سکوں۔حضور اکرم ﷺنے پوچھا ! تیرے پاس کتنا مال ہے؟اس نے کہا چھ ہزار دینار۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو یہ سارا مال بھی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے کاموں میں خرچ کردے تب بھی تو مجاہد کے جوتے کے تسمے کے غبار تک نہیں پہنچ سکتا۔

عظمتِ جہاد ایک طویل باب ہے اور یہ ایک الگ مضمون ہے۔ میں پاکستان کے جہادیوں سے مخاطب ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں جہاد کیسا ہوتا تھا؟ جہاد کا حکم کون دیتا تھا؟ کیا ہر کسی کو اجازت حاصل تھی کہ جس کا جی چاہا تلوار اٹھائی اور جہاد شروع کر دیا؟ جواب یہ آتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ اور سابقہ حکومتیں مغرب نواز اور امریکہ کی پالتو ہیں، لہٰذا پاکستانی حکومتیں جہاد کا اعلان نہیں کریں گی۔ اسی لئیے ہم نے اسلام اور ملت کے مفاد میں خود یہ قدم اٹھایا۔ اب میرا ان سے سوال یہ ہے کہ سلمان تاثیر نے ایک متنازعہ مسئلہ پر اس ملزمہ کی تائید کی تو ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو قتل کر دیا۔ اس موقع پر یہی جہادی لوگ اور ان کے اکابر نے ممتاز قادری کو غلط قرار دیا۔ کیوں؟ اس لئیے کے ملک میں قانون اور عدالتیں موجود ہیں۔ اگر کسی کو سلمان تاثیر کی سوچ اور بیانات سے اختلاف تھا تو وہ قانونی مدد لیتا۔ آپ کی اس بات سے اتفاق ہے مگر جب آپ نے یہ جہاد شروع کیا اور کشمیر و افغانستان کے مظلومین کی مدد کرنا چاہی تو اس کے لئیے بھی قوانین موجود تھے۔ بجائے خود ہتھیار اٹھانے کے عالمی سطح پر اپنا مؤقف پیش کرتے یا پھر اپنی حکومت کو کسی راست اقدام اور جہاد کی فرضیت کے اعلان پر قائل کرتے۔ فلسطین کئی دہائیوں سے اغیار کے تسلؔط میں ہے، جن ممالک کے ہاتھ میں پاکستانی مجاہدوں کی بھاگ ڈور ہے وہ خود کو اسلام کا سب سے بڑا ٹھیکیدار کہتے ہیں، آج تک کسی نے فلسطین کی آزادی کے لئیے جہاد کی فرضیؔت کا اعلان کیا نا فتویٰ جاری ہوا۔۔۔ اس دوغلی پالیسی پر ہی تو اختلاف ہے۔

ایک بار پھر میں ان جہادی رہنماؤں سے پرانے سوالات ہی پوچھوں گا اور تاریخ یہ سوالات بار بار پوچھے گی کہ آپ کے اس جہاد نے کشمیر کو کیا فائدہ پہنچایا؟ کیا کشمیر آزاد ہو گیا؟ جو چندہ آپ نے جمع کیا تھا وہ کہاں استعمال ہوا؟ میں پورے دعوے سے کہتا ہوں اور چیلنج کرتا ہوں کہ وہ چندہ کشمیر کی بجائے پاکستان کے مختلف علاقوں میں مساجد اور مراکز کی تعمیر میں استعمال ہوا ہے۔ جن لوگوں نے اس جہاد کا پرچار کیا تھا اگر ان کے اندر واقعی حمیؔت اور غیرت ہے تو وہ سامنے آئیں اور علی الاعلان کہیں کہ وہ اپنے ان فتووں پر آج بھی قائم ہیں۔ یہ سب مفتی، مولوی اور مجاہد اپنے اقوال و افعال سے منحرف ہو چکے ہیں۔ جہاد کے بارے ان کے رائے پہلے کچھ اور تھی اور اب کچھ اور ہے۔ ایک واقت تھا جب یہ امریکہ اور انڈیا کو توڑنے اور اس کے بخرے کرنے کے دعوے کرتے تھے آج یہ انسانی ہمدردی اور امن کے راگ الاپ رہے ہیں۔ اگر کسی جہادی میں ہمت ہے تو وہ کسی جلسے، ریلی یا اجتماع میں میڈیا کے سامنے کہے کہ وہ آج بھی انڈیا اور امریکہ کے ٹوٹے کرنے اور اسے تقسیم کرنے کو جہاد کہتا اور سمجھتا ہے۔ میں اس عظیم مجاہد کے ہاتھ چوم لوں گا اور اس کی جرات کو سب کے سامنے سلام پیش کروں گا۔ مجھ سمیت تمام پاکستانیوں کو جہاد کی عظمت و افادیؔت پر ذرہ برابر کلام نہیں بلکہ اس منافقانہ روش اور ابن الوقت مجاہدوں سے اختلاف ہے۔ 1992 میں جہاد ِکشمیر جائز تھا اور فرض تھا 2012 میں یہ جہاد ختم کیوں ہو گیا؟ ایک صالح و پاکیزہ مومن کو اللہ کے سوا کسی کا ڈر اور خوف نہیں ہوتا۔ اب آپ امریکہ، اسرائیل اور انڈیا سے کیوں مرعوب ہو گئے؟ اب جہاد کے معنی اور اسباب بدل کیوں گئے؟

اس جہاد نے پاکستان کو کیا دیا؟ قربانی کی کھالوں پر لڑنا، قریہ قریہ لہو لہو۔۔۔ مساجد پر قبضے۔ کفر و شرک کے فتوے۔۔۔ بین المسالک قتل و غارت۔۔۔ اس کے علاوہ کچھ؟؟؟ جو دہشت گرد پکڑے جا رہے ہیں ان کا تعلق کس گروہ سے ہے؟

کیا جہاد یہی سکھاتا ہے کہ ننھؔے منھؔے پھول جیسے بچوں کو بارود سے اڑا دو؟ بچیوں کے سکولوں کو آگ لگا دو؟ اولیاء و اصفیا کے مزار ات جو کہ رشد و ہدایت کے مراکز ہیں انہیں شہید کر دو؟ اگر دو دہائیاں پیچھے جا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا انہیں گروہوں کے اکابرین نے لڑکیوں کی تعلیم کو حرام اور اولیاء کے مزارات کو شرک کے اڈے قرار دیا تھا، آج ان کے مجاہد اپنے اسی مقصد کے لئیے سرگرم ہیں۔ پاکستان کے امن پسند علماء کی ایک کثیر تعداد نے ان خود کش حملوں کے خلاف فتوے دئیے اور اس کو حرام اور خود کش حملہ آوروں کو کافر قرار دیا۔ یہ سابقہ جہادی اب اس جہاد اور خود کش حملہ آوروں سے لا تعلقی کا ڈھونگ رچا رہے ہیں اگر ان میں ہمؔت ہو تو یہ بھی فتویٰ جاری کریں کہ یہ خود کش حملے کرنے والے کافر ہیں۔

ان جہادیوں سے میں یہ بھی سوال کرنا چاہوں گا کہ ملکی سلامتی، ترقی اور بہتری میں ان کا کیا کردار ہے؟ تعلیمی و تحقیقی میدان میں ان کا کیا کرادر ہے؟ کیا یہ کسی لڑکی کو میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیتے ہیں؟ کیا یہ کسی لڑکی کو سول و کمپیوٹر انجینئرنگ کی اجازت دیتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ کی شریعت تو لڑکی کو نکاح کے لئیے اجازت دیتی ہے کہ وہ شادی سے پہلے ایک نظر دیکھ لے تا کہ نکاح کے بعد اس فیصلے پر اسے کوئی اعتراض نا ہو، کیا یہ جہادی اپنے نبیﷺ کے اس حکم پر عمل کرتے ہیں؟ کیا ان جہادیوں کا نظریہ تعلیم اسلام اور انسانی حقوق کے بنیا سی اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔۔۔ اور بالکل بھی نہیں۔

میرے وہ دوست جو پاکستان کے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں موجود دہشت گردوں کو امریکہ، انڈیا
 یا  اسرائیل کے ایجنٹ سمجھتے ہیں اور پاکستان کے ان سابق جہادیوں سے ان کو الگ کرتے ہیں، میں ان سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ ان جہادی تنظیموں کے سربراہان سے کہیئے کہ یہ ان تمام گروہوں بشمول لشکرِ طیبہ، لشکرِ جھنگوی، حرکۃ الانصار، تحریکِ طالبان، سپاہِ صحابہ اور دیگر دہشت گرد و جہادیوں سے بیزاری اور لاتعلقی کا اظہار بھی کریں اور اس پر حکمِ شرعی بھی لگائیں۔ یہ ہرگز نہیں کریں گے کہ اس طرح ان کی تحاریر و تقاریر جو کہ حوالہ کے طور پر موجود ہیں، یہ اپنے ماضی کے فتووں سے منحرف ہو کر مزید تذلیل کا سامنا کریں گے۔ ان گروہوں کا کون سے نمائندہ ہے جو ماضی میں جہادِ افغانستان و کشمیر کی فرضیت ، امریکہ اور ہندوستان کے ٹوٹے کرنے کے فتوے پر قائم ہے؟؟؟ کوئی ایک بھی نہیں ملے گا۔ اختلاف کی بنیاد ہی یہی ہے کہ تنخوادار اور ریال کے پالتو ایسے فتوے خریدنا اور بیچنا بند کیا جائے۔ امت کو صلہ رحمی، اخوت، امن اور سلامتی کا درس دیا جائے۔ کیونکہ محبت فاتحِ عالم ہوتی ہے۔ امید ہے کہ میرا مؤقف اور نقطہ نظر آپ پر واضح ہو گیا ہو گا۔ اللہ تعالٰی ہمیں حقیقت کا عرفان بخشے۔ آمین