Showing posts with label فقہی و شرعی مضامین. Show all posts
Showing posts with label فقہی و شرعی مضامین. Show all posts

Wednesday, 17 June 2015

آٹھ تراویح پڑھنے والوں سے کچھ سوالات



برصغیر اور اس سے ملحقہ کچھ ممالک میں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی   کچھ شریر اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے امت کو  تقسیم کرنے میں  پورا زور لگاتے ہیں،  ایمان  تازہ کرنے اور نیکیوں کے اس موسم میں نت نئی خرابیوں کے علاوہ ایک اہم مسئلہ  نماز  تراویح کی رکعات کا ہے۔  شروع سے ہی امت میں متفقہ طور پر  بیس رکعات تراویح ادا کی جاتی رہیں مگر ہندوستان کے کچھ  لوگوں  نے  ماضی قریب میں اسے بھی متنازعہ بنا دیا۔   حرمین شریفین ، بلاد عرب ، شرق و غرب اور  کرہ ارض پر    موجود امتِ مسلمہ کی اکثریت بیس رکعات ادا کرتی ہے اور یہ جمہور کا مذہب ہے۔  عوام  الناس  کے ذہنوں میں موجود غلط فہمی اور ان لوگوں کی جہالت کو روکنے کی  نیت سے پہلے کچھ روایات مستند کتبِ حدیث  سے  پیشِ خدمت ہیں جو کہ بیس ترایح پر  دلیل و ثبوت ہیں۔
1۔  امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام سفیان ثوری، ابن مبارک رضی اللہ عنہم وغیرہ بیس رکعت تراویح کے قائل ہیں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں :
و اکثر اهل العلم علی ماروی عن علی و عمر غيرهما من اصحاب النبی صلی الله عليه وآله وسلم عشرين رکعت و هو قول سفيان الثوری، و ابن المبارک و الشافعی و قال الشافعی هکذا ادرکت ببلد مکتة يصلون عشرين رکعت.
(جامع ترمذی، ابواب الصوم، باب ماجاء فی قيام شهر رمضان، جلد 1)
اکثر اہل علم کا عمل اس پر ہے جو حضرت علی و حضرت عمر و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، بیس رکعت۔ یہی حضرت سفیان ثوری، ابن مبارک، امام شافعی کا قول ہے، امام شافعی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے شہر مکہ میں یہی عمل پایا کہ لوگ بیس رکعت پڑھتے ہیں۔

یہ روایت کس واضح اور روشن انداز میں بیان کر رہی ہے کہ  امت کے جلیل القدر  ائمہ کرام رضی اللہ عنہم  متفقہ  طور پر تراویح کی بیس رکعات کے قائل ہیں۔   اس روایت میں  ائمہ اربعہ میں سے ایک امام سیدنا امام مالک رضی اللہ عنہ کا نام شامل نہیں لیکن انہوں نے الگ سے   احادیث شریف پر  عظیم کتاب  "موطا امام مالک" میں  حضرت سائب  بن یزید رضی اللہ عنہ  کے حوالے سے  یہ روایت نقل فرما کر  اس فتنے کو لگام ڈال دی۔
کنا نقوم فی عهد عمر بعشرين رکعت.
(مؤطا امام مالک)
ہم لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت پڑھتے تھے۔

مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبد الرزاق   میں  امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ حکم منقول ہے؛
یحی بن سعید کہتے ہیں کہ
ان عمر بن الخطاب امر رجلا ان يصلی بهم عشرين رکعة.
(مصنف ابن ابی شيبه، 1 : 393، مصنف عبد الرزاق، 1 : 262)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا۔

قارئین کرام توجہ فرمائیے؛ وہ لوگ جو آٹھ تراویح کا شور کرتے ہیں ان کے پاس کوئی ایک ضعیف حدیث بھی نہیں ہے جس میں   صراحت ہو  کہ آٹھ رکعات تراویح پڑھو اور یہاں اللہ کے حبیب ﷺ کے خلیفہ جناب عمر رضی اللہ عنہ حکماً فرما رہے ہیں کہ بیس رکعات تراویح پڑھو۔ سبحان اللہ عزوجل۔
اس کے علاوہ تراویح کی بیس رکعات پر علماء کرام کی تصانیف اور تحقیقات کا ایک  ذخیرہ موجود ہے۔ یہاں میں چند سوالات درج کر رہا ہوں، جو لوگ آپ کے آس پاس میں آٹھ رکعات پڑھنے کے قائل ہیں  ان سے یہ سوالات کیجئیے انشاء  اللہ حق  واضح ہو جائے گا۔

1۔  کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ حرم مکہ اور حرم مدینہ میں کبھی آٹھ رکعات نماز تراویح  با جماعت ادا کی گئی ہو؟
2۔   شریعت اسلامیہ میں عمل کی ایک شرعی حیثیت ہوتی ہے، عمل یا تو  غلط ہوتا ہے  یا  درست، اگر آپ کے نزدیک  آٹھ تراویح درست ہیں تو حرمین شریفین میں  آج بھی بیس رکعات  با جماعت ادا کی جاتی ہیں۔ آپ دونوں میں سے کون غلط؟ حرمین شریفین والے یا آپ؟

3۔  ملتِ اسلامیہ میں اس وقت تقریباً ستاون اسلامی ممالک ہیں، کیا آپ بتا سکتے ہیں کسی ایک ملک میں سرکاری سطح پر  آٹھ رکعات  تروایح ادا کی جاتی ہیں؟
4۔  تروایح کی رکعات میں ہند و پاک کے علماء  پر ہی کیوں اعتراض،  آٹھ تراویح کی وکالت سعودی علماء کے سامنے کیوں نہیں کرتے؟ اور سعودی عرب میں آٹھ تراویح   پڑھانے کے لئیے وہاں کے علماء پر کیوں زور نہیں دیتے؟
5۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بیس تراویح کا حکم جاری فرمایا  ، کیا آپ کوئی ایک ضعیف  روایت بھی دکھا سکتے ہیں جس میں دور ِ عمر  رضی اللہ عنہ یا ان کے بعد کے ائمہ و مشائخ کرام   رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی ایک نے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  کے اس حکم سے ذرہ برابر اختلاف کیا ہو؟
6۔ اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے علماء و اسلاف  اور قرنِ اولٰی کے  ائمہ کو اختلاف نہیں تھا تو آپ کل کی پیداوار ہیں، آپ کس بنیاد پر اختلاف کر رہے ہیں؟
7۔ سعودی عرب میں حرمین شریفین اور تمام بڑی مساجد میں با جماعت بیس رکعات تروایح ادی کی جاتی ہیں، ہندوستانی و پاکستانی   غیر مقلد علماء وہاں موجود ہوتے ہیں، جب آپ کے سامنے ایک غیر شرعی عمل ہو  رہا ہوتا ہے تو آپ کلمہ حق کیوں بلند نہیں کرتے اور ان لوگوں کو بیس رکعات کی ادائیگی سے کیوں نہیں روکتے؟   
8۔  عالمِ اسلام کی عظیم درسگاہ  جامعۃ الازہر کے مفتی، علماء  اور فضلاء بیس رکعات پڑھتے ہیں، کیا آپ نے ہندوستان و پاکستان سے باہر نکل کر کبھی ان علماء کو بھی دعوتِ مناظرہ دی یا صرف  ہند و پاک میں ہی فرقہ پرستی پھیلانا مقصود ہے؟
9۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے    حضرت  ابی بن کعب  رضی اللہ عنہ کی امامت میں تراویح کا  با جماعت عمل شروع کیا، بیس رکعات بھی انہیں سے ثابت،  آپ رضی اللہ عنہ کے دور میں ہزاروں صحابہ کرام علیہم الرضوان حیات و موجود تھے، کسی ایک صحابی نے بیس رکعات پر اعتراض نہیں کیا، کسی ایک کتاب سے کوئی ایک اعتراض ثابت نہیں۔۔۔ تو اب ہم اصحابِ رسول  کے قول  و فعل کا اعتبار کریں گے یا آپ کی تاویلات مبنی بر جہالت  مانیں؟
10۔ ہم اوپر لکھ چکے اور مزید ثابت کرنے کو تیار ہیں کہ امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام مالک رضوان اللہ علیہم اجمعین  سے بھی بیس رکعات ثابت ہیں اور یہی چاروں امام امت اسلامیہ کے لئیے   رہنماء ہیں، حرمین شریفین میں بھی امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کی جاتی ہے تو اس قدری وزنی دلائل اور ائمہ امت کے اقوال کی موجود گی میں کیا یہ ضرورت باقی رہتی ہے کہ ہم  ہندوستان میں پیدا ہونے  والی کسی مولوی کی بات  پر یقین کر کے تراویح کی رکعات  آٹھ مان لیں؟
 سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم (متوفی ۱۹۹۹)  نے  نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب  (التراویحُ أکْثَرُ مِنْ ألْفِ عَامٍ فِی الْمَسْجِدِ النبوی) لک ھی ہے۔ کتاب کے مقدمہ میں تصنیف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسجد نبوی میں نماز تراویح ہورہی ہوتی ہے تو بعض لوگ آٹھ رکعت پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں ، ان کا یہ گمان ہے کہ آٹھ رکعت تراویح پڑھنا بہتر ہے اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے، اس طرح یہ لوگ مسجد نبوی میں بقیہ تراویح کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی اس محرومی کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ،لہٰذا میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں؛ تاکہ ان لوگوں کے شکوک وشبہات ختم ہوں اور ان کو بیس رکعت تراویح پڑھنے کی توفیق ہوجائے․․․․ اس کتاب میں ۱۴۰۰ سالہ تاریخ پر مدلل بحث کرنے کے بعد شیخ عطیہ محمد سالم لکھتے ہیں: اس تفصیلی تجزیہ کے بعد ہم اپنے قراء سے اولاً تو یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ایک ہزار سال سے زائد اس طویل عرصہ میں کسی ایک موقع پر بھی یہ ثابت ہے کہ مسجد نبوی میں مستقل آٹھ تراویح پڑھی جاتی تھیں؟ یا چلیں بیس سے کم تراویح پڑھنا ہی ثابت ہو؟ بلکہ ثابت تو یہ ہے کہ پورے چودہ سو سالہ دور میں بیس یا اس سے زائد ہی پڑھی جاتی تھیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحابی یا ماضی کے کسی ایک عالم نے بھی یہ فتویٰ دیا    ہو کہ آٹھ سے زائد تراویح جائز نہیں ہیں اور اس نے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا کی حدیث کو اس فتوے کی بنیاد بنایا ہو۔
11۔ سعودی عالمِ دین جو کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے امام و شیخ تھے، انہوں نے آٹھ تروایح کو غلط سمجھا اور اس پر مکمل کتاب لکھ ڈالی اور کتاب بھی چیلنج سے بھرپور۔۔۔ آٹھ تراویح پڑھنے والوں نے آج تک اس کتاب کا  جواب کیوں نہیں دیا؟ آپ دونوں میں سے کون غلط؟ امام مسجد نبوی یا آپ؟
صبحِ قیامت تک ان سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں ہو گا۔ میری گزارش ہے کہ تقسیم در تقسیم اس قوم پر رحم کیجئیے اور امت کے متفقہ مسائل میں شرانگیزی نہ کیجئیے۔  اس قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے اس لئیے اگر آپ عملِ خیر نہیں کر  سکتے  تو ماہِ مقدس میں اپنی شرارتوں سے دوسروں کو اذیت بھی نہ دیجئیے۔  تمام قارئین و محبین سے گزارش ہے کہ تروایح کی بیس رکعات مکمل ادا کیجئیے۔ اس سے کم  نوافل  ہو  سکتے ہیں تراویح نہیں ہو گی۔
وما علینا الا البلاغ۔
علم و عمل کا جذبہ پانے، روحانی و شرعی  مسائل جاننے کے لئیے ہمارا فیس بک پیج لائیک کیجئیے۔
رہنمائی کے لئیے ہمیں ای میل کیجئیے۔

Wednesday, 20 May 2015

عذابِ قبر کا احادیث کی روشنی میں بیان


اللہ جلا و علا نے تخلیق انسان کی وجہ قرآنِ مقدس میں واضح طور پر بیان کی ہے۔  پھر انسان کے سامنے رشد و ہدایت  کی راہ بھی روشن فرما دی اور اگر وہ نفس و شیطان سے مغلوب ہو کر احکامِ خدواندی سے بغاوت کرے تو جہنم و آگ بھی اس کے لئیے رکھ دی۔  اتباعِ احکام الٰہیہ کی صورت میں بہشت و جنت کی نعمتیں اور  افعالِ حرام و مکروہات کے ارتکاب پر  جہنم میں ڈالے جانے کا انتظام بھی ہے۔
دورِ رواں میں  تعلیماتِ دینیہ سے دوری وسواس کا باعث بن رہی ہے،  لوگ اپنی مرضی سے دینیات کی تشریح کرتے ہیں اور نتیجہ میں گمراہی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ عذابِ قبر بھی ایک ایسا ہی موضوع ہے  جس کی آڑ میں منکرین   و جہلاء انکار  و کلامِ بے سود کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔   عذاب قبر برحق ہے اور قرآن وحدیث میں عذاب قبر کو بڑے واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
اولاً یہ سمجھیں کہ  موت سے قیامت برپا ہونے تک کے عرصے کو "برزخ" کہا جاتا ہے۔ موت کے بعد تمام جن و انس اپنے اعمال کے حساب سے  برزخ میں درجہ پائیں گے۔ برزخ کا تعلق  اِس دنیا سے بھی ہے اور آخرت سے بھی۔  فوت ہو جانے کے بعد ورثاء، اعزاء و اقربا ء کی دعا، صدقات و اعمالِ حسنہ   برزخی زندگی میں  نجات و راحت کا سبب بنتی ہیں اور  یہ قیامت میں ملنے والے انعامات کا ہی ایک حصہ ہے۔ اسی طرح اگر کسی کی قبر میں سختی ہے تو یہ بھی اس کی سزا کا ہی ایک حصہ ہے۔
حق تعالٰی جل شانہ فرماتا ہے؛
"(اور عالم برزخ میں بھی) ان لوگوں کو دوزخ کی آگ کے سامنے صبح و شام لایا جاتا ہے۔‘‘
الغافر، 40 : 46

عذابِ قبر  کے بارے میں متعدد احادیث  موجود ہیں جو  عذاب قبر کے بر حق ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور ان احادیث کی موجودگی میں اس حق کا انکار کرنا کفر  ہے۔
1۔ ’’حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی  پاک ﷺ  گھر سے باہر تشریف لائے جب کہ سورج غروب ہو چکا تھا۔  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (قبرستان میں) ایک آواز سنی تو ارشاد فرمایا :  یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر، 1 : 463، رقم : 1309

 یہ حدیثِ پاک بیک  وقت دو اہم عقائد کی وضاحت کر رہی ہے ، اول یہ کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالٰی   نے  علمِ غیب عطا فرمایا تھا کہ آپ غیب کی خبر دیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ  مردے کو قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔  دوسرا یہ کہ   انسان  کسی بھی مذہب سے تعلق  رکھتا  ہو وہ آخرت میں جزا و سزا کے مرحلے سے لازمی گزرے گا اور یہ  ان باطل عقائد کا رد ہے جو اپنی  جہالت  کی وجہ سے عذابِ قبر و آخرت کا انکار کرتے ہیں۔

2۔ حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ نے  تو واضح طور پر نام لے کر  بیان فرمایا کہ؛
’’ہم عذابِ قبر کے بارے میں شک میں مبتلا رہے حتی کہ سورۃ التکاثر نازل ہوئی۔‘‘
ترمذي، السنن، کتاب تفسير القرآن عن رسول اﷲ ﷺ : 447، رقم : 3355۔

3۔  حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ؛
"نبی کریم ﷺ  نے فرمایا : مردے (کافر، مشرک، منافق) اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں اور ان (کے چیخنے چلانے) کی آوازیں سارے چوپائے سنتے ہیں۔‘‘
طبراني، المعجم الکبير، 10 : 200، رقم : 10459

عذاب قبر کی شدت بھی اعمال کے حساب سے ہو گی۔ احادیثِ رسول ﷺ میں اس کا متعدد مقامات پر ذکر آیا۔  
4۔ ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہماسے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ  ﷺ  نے  (غیب کی خبر دیتے ہوئے ) فرمایا  ،  ان دونوں کو (قبروں میں) عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑے گناہ کی بناء پر نہیں۔  پھر فرمایا ان میں سے ایک چغلی کھاتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب کے قطروں سے احتیاط نہیں کرتا تھا۔  راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ہری شاخ لی اور دو حصوں میں تقسیم کیا، پھر ہر قبر پر اس کا ایک ایک حصہ لگا دیا اور پھر فرمایا : جب تک یہ خشک نہ ہوں ان سے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب عذاب القبر من الغيبة والبول، 1 : 464، رقم : 1312
اللہ اکبر۔۔۔ یہاں بھی علمِ غیب مصطفٰی کریم ﷺ کا زبردست ثبوت اور احوالِ قبر کا بیان کرنا   فکر دلا رہا ہے۔

5۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ؛
"ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر کے کنارے بیٹھ کر رونے لگے، حتی کہ مٹی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنسوؤں سے تر ہو گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے میرے بھائیو! اس (قبر) کے لئے کچھ تیاری کر لو۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب الحزن والبکاء، 2 : 1403، رقم : 4195

قبر میں ہونے والے سوالات کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی احادیث میں رہنمائی فرمائی ہے :
6۔  ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سید المرسلین  ﷺ  نے فرمایا : جب میت دفنائی جاتی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کسی ایک کی میت دفنائی جاتی ہے تو اس کے پاس دو سیاہ رنگ کے، نیلی آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے وہ دونوں میت سے پوچھتے ہیں تم اس شخص (یعنی حضرت محمد ﷺ)  کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے؟ پس (اگر وہ مومن ہو تو) وہ وہی کہتا ہے جو وہ دنیا میں کہا کرتا تھا یعنی وہ اﷲ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔  میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد ﷺ  اﷲ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔  وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں : ہمیں علم ہے کہ تو دنیا میں یہی کہا کرتا تھا۔  پھر اس کے لئے اس کی قبر چاروں طرف سے ستر، ستر گز تک وسیع کر دی جاتی ہے۔  پھر اس کو اس کے لئے روشن کر دیا جاتا ہے۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے :  سو  جا۔  وہ کہتا ہے : میں اپنے گھر والوں کی طرف جاتا ہوں تاکہ انہیں اپنے حالات کی خبر دوں۔  وہ دونوں اس سے کہتے ہیں :  تو اس پہلی رات کی دلہن کی طرح سو جا جس کو اس کے گھروں میں سے صرف اس کا محبوب شوہر ہی جگاتا ہے۔  (وہ اسی حال میں رہے گا)  یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اسے اسی حال میں اس کی قبر سے اٹھاے گا۔  اگر وہ منافق ہو تو وہ (ان کے سوال کے جواب میں)  کہتا ہے :  میں نہیں جانتا میں نے وہی کہا جو میں نے لوگوں کو کہتے سنا :  دونوں فرشتے اسے کہتے ہیں :  ہم جانتے ہیں کہ تو یہی کہا کرتا تھا۔  پھر زمین سے کہا جاتا ہے کہ اس کے لئے سکڑ جا۔  پس زمین اس کے لئے سکڑ جاتی ہے اور اس کے دونوں پہلو ایک دوسرے میں دھنس جاتے ہیں۔  پس وہ اسی حال میں عذاب میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اسے اس کی قبر سے اٹھائے گا۔‘‘
 ترمذي، السنن، کتاب الجنائز عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب ما جاء في عذاب القبر، 3 : 383، رقم : 1071
مزید شرعی  و روحانی رہنمائی کے لئیے ہمارا فیس بک  پیج لائیک کیجئیے۔

https://www.facebook.com/IHR.Official

Monday, 13 April 2015

مسافر کی نماز






اللہ جل و علا نے اپنے محبوب کریم مصطفٰی جان رحمت ﷺ کے ذریعے ہمارے لئیے دین اسلام کو آسان و رحمت بنایا ہے۔  اہلِ اسلام پر  سفر کے دوران آسانی فرماتے ہوئے "قصر" نماز کا حکم لاگو فرمایا۔  قرآنِ مقدس فرماتا ہے؛
 "اور جب تم  زمین  میں سفر کرو تو تم پر گناہ نہیں کہ بعض  نمازیں قصر سے پڑھو۔ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ایذا دیں گے، بے شک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں"۔
(النساء 101)
تاریخِ اسلام کے عظیم مفسر، صدر الافاضل علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ  اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ خوف ِکفار قصر کے لئیے شرط نہیں ہے، حضرت سیدنا یعلٰی بن امیہ رضی اللہ عنہ  نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے  عرض کی کہ ہم تو امن میں ہیں پھر  ہم کیوں قصر کرتے ہیں؟   فرمایا،  اس کا مجھے بھی تعجب ہوا تھا  میں  نے شاہِ کونین ﷺ  سے دریافت کیا،  سید عالم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے لئیے یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے صدقہ ہے تم اُس کا صدقہ قبول کر و۔
(صحیح مسلم ج1 ص 231)
سرکار مکہ و مدینہ ﷺ کی حیات پُر نور  میں مختلف مواقع پر قصر  نماز کا ثبوت ملتا ہے اور یہ آپ کے عمل سے ثابت ہے۔   سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ؛
"  رسول اللہ ﷺ نے نمازِ سفر کی دو رکعات ادا فرمائیں،   اور یہ پوری ہے کم نہیں یعنی اگرچہ  بظاہر دو رکعات کم ہو گئیں مگر ثواب میں دو ہی چار کے برابر ہیں"۔
(سنن ابن ماجہ حدیث 1194)
اب مسافر کی نماز کے بارے شریعت مطہرہ کے مختصر احکام ملاحظہ فرمائیں۔
·        شرعی مسافر وہ شخص (مرد و  عورت) ہے جو ساڑھے ستاون میل یا بانوے (92) کلومیٹر  کے فاصلے تک جانے کے ارادے سے  اپنے مقامِ اقامت  (گھر) سے باہر ہو گیا ہو۔
·        صرف نیت سے ہی مسافر نہیں ہو گا بلکہ  مسافر کا حکم اس وقت ہے کہ بستی کی آبادی سے باہر ہو جائے،  شہر میں ہے  تو شہر سے ،  گاؤں میں ہے تو گاؤں سے اور شہر والے کے لئیے یہ بھی ضروری ہے کہ شہر سے متصل آبادی سے بھی باہر ہو جائے۔
·        آبادی ختم ہونے سے یہ مراد ہے کہ جس طرف جا رہا ہے اس طرف  شہر/گاؤں کی آبادی ختم  ہو جائے۔
·         مسافر کے لئیے  یہ بھی ضروری ہے کہ جہاں سے چلا  وہیں سے   تین دن (بانوے کلومیٹر)   کے سفر کا ارادہ ہو،   اور اگر بانوے کلومیٹر  سے کم سفر کے ارادہ سے نکلا اور راستے میں جا کر مزید سفر کا ارادہ کر لیا جو کہ بانوے کلومیٹر سے کم ہے تو اس طرح پوری  دنیا کا سفر بھی  کر لے تو مسافر شرعی نہ ہوا۔
·        مسافر کے لئیے شرط ہے کہ بانوے کلومیٹر کے متصل/مسلسل سفر کی نیت ہو۔  اگر یہ نیت ہو   کہ  دو دن کی راہ پر  پہنچ کر  قیام کروں گا،  کام نمٹاؤں گا اور پھر وہاں سے مزید سفر کروں گا  تو یہ تین دن (92 کلومیٹر) کا متصل ارادہ نہ ہوا اور نہ ہی یہ شرعی مسافر ہوا۔
·        مسافر اس وقت تک مسافر رہے گا  جب تک واپس اپنی بستی میں نہ لوٹ آئے یا جہاں گیا تھا وہاں پورے پندرہ دن قیام کی نیت نہ کر لے۔
·        اگر تین دن کی مسافت (92 کلومیٹر)  تک پہنچنے سے قبل  ہی واپسی کا ارادہ کر لیا تو اب مسافر نہیں رہا۔
·        مسافر کسی کام کے لئیے  یا احباب کے انتظار میں دو چار روز یا تیرہ چودہ روز کی نیت سے ٹھہرا،  یا یہ ارادہ کہ کام ہو جائے گا تو چلا جاؤں گا، دونوں صورتوں میں اگر آج کل آج کل کرتے برسوں گزر جائیں جب بھی مسافر ہی رہے گا،  نماز قصر پڑھے۔
·        تین رکعات والی نماز مکمل پڑھے گا اس کا نصف/قصر نہیں ہو گا۔  اسی طرح وتر اور سنتیں بھی مکمل ادا کرے البتہ گاڑی نکلنے کا خوف  اور وقت کی قلت ہو تو سنتیں اور نوافل چھوڑ سکتا ہے۔
·        اگر مسافر  جماعت کے ساتھ نماز پڑھے اور امام مقیم ہو تو  مکمل نماز ادا کرے گا۔ مثلاً یہ مسافر ہے اور ظہر کے دو فرض  ادا کرے گا لیکن اگر امام مقیم ہو تو پھر جماعت کے ساتھ چار ہی پڑھے، ہاں  اکیلا ہو تو دو ہی پڑھے گا۔
·        اگر سفر کے دوران نماز قضا ہو جائے تو بعد میں اس کے بدلے دو ہی پڑھے گا، خواہ سفر میں پڑھے یا اپنے گھر واپس پہنچ کر۔
·        مسافر نے قصر  کے بجائے چار کی نیت کر لی اور یاد آنے پر  دو  رکعات ادا کرنے کے بعد سلام پھیر لیا تو نماز ہو گئی۔
·        اگر امام مسافر ہو اور مقتدی مقیم ہوں تو  لازمی ہے مقتدی اپنی نماز بعد از سلام مکمل کریں، یعنی امام دو رکعات کے بعد سلام پھیرے اور مقتدی بقیہ دو رکعات مکمل کرنے کے بعد سلام پھیریں۔

عورت کے لئیے احکام
·        عورت کو بغیر محرم کے تین دن  (تقریبا 92 کلومیٹر)  یا زیادہ جانا  جائز نہیں۔   نابالغ بچہ یا نیم پاگل کے ساتھ بھی سفر نہیں کر سکتی،  ہمراہی میں بالغ محرم یا  شوہر کا ہونا ضروری ہے۔   عورت قریب البلوغ  بیٹے یا محرم  قابل اطمینان کے ساتھ سفر کر سکتی ہے۔
·        عورت بیاہ کر سسرال گئی اور یہیں رہنے لگی تو میکا (یعنی عورت کے والدین کا گھر) اس کے لئیے وطن اصلی نہ رہا یعنی اگر سسرال  بانوے کلومیٹر  پر ہے ،  وہاں سے میکے آئی اور پندرہ روز کے قیام  کی نیت نہ کی تو قصر پڑھے  اور اگر میکے رہنا نہیں چھوڑا بلکہ سسرال عارضی طور پر گئی تو میکے آتے ہی سفر ختم ہو گیا، نماز پوری پڑھے گی۔
·         

وطن کی اقسام
وطن کی دو اقسام ہیں۔   وطن اصلی۔  یعنی وہ جگہ  جہاں اس کی پیدائش ہوئی یا اس کے گھر والے رہتے ہیں یا وہاں رہائش اختیار کر لی اور ارادہ ہے کہ یہاں سے نہ جائے گا۔
وطن اقامت:   یعنی وہ جگہ کہ مسافر نے پندرہ دن یا اس ے زائد وہاں ٹھہرنے کا ارادہ کیا ہو۔
اس مضمون کی تیاری میں فقہ حنفیہ کی کتب عالمگیری، فتاوٰی رضویہ، نور الایضاح، بہار شریعت وغیرہ کی مدد لی گئی۔ 
مزید  اسلامی شرعی، روحانی و معاشرتی مسائل و معلومات کے لئیے ہمارا پیج لائک کیجئیے،  یہاں آپ کے لئیے بیش بہا معلومات کا سامان ہو گا انشاء اللہ۔

ہمارا فیس بک پیج: www.facebook.com/IHR.Official

Saturday, 28 February 2015

متعہ کی مختصر حقیقت


متعہ کے بارے میں شریعتِ مطہرہ کے احکام واضح، مسلؔم اور مصدق ہیں مگر  امت میں تنازعات پیدا کرنے والے وقتاً فوقتاً ایسے معاملات کو اچھالتے رہتے ہیں۔ علمائے کرام اور ہمارے اسلاف کی تعلیمات ہیں کہ ایسے مسائل جو  شرارت و فتنہ کا باعث بنائیں ان پر خاموشی  اختیار کی جائے یا  پھر کم بحث کی جائے۔    زیرِ نظر مختصر مضمون میں کوشش کر رہا ہوں کہ جامع انداز میں اس حوالہ سے کچھ لکھ دوں۔ میری طرف سے  اس کا کافی سمجھا  جائے کہ تحریری انداز میں یا اخبارات و سوشل میڈیا پر  ایسے موضوع کو طول دینا وقت کی  بربادی اور ایمان کی خرابی کا باعث  بنتا ہے، تاہم اگر کسی کو  اپنی تسلی کی ضرورت باقی محسوس ہو تو بالمشافہ  ملے،  ہم ان تمام اعتراضات کا جواب دیں گے۔ انشاء اللہ عزوجل۔

متعہ کو حلال سمجھنے والے گروہ کے ہاں  سب سے اولین و بڑا اعتراض یہ ہے کہ   نبی کریم ﷺ نے متعہ کو حرام قرار نہیں دیا بلکہ حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں متعہ بند کیا گیا۔ اس سے قبل یہ جائز و حلال تھا۔  انہیں سمجھنا چاہئیے کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا منصب نہیں تھا، متعہ دورِ رسالت مآب ﷺ میں ہی حرام قرار دیا جا چکا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے  اپنے دور خلافت میں اس کی حرمت کو مزید واضح فرمایا تھا۔  جہاں تک اس کے حلال ہونے کا تعلق ہے تو یہ  شارعِ اسلام ﷺ کی حیاتِ ظاہری میں ایک خاص وقت تک جائز رہا، مثلاً  جنگ کے ایام میں اسے حلال کیا گیا، اس دور میں جنگی سفر مہینوں کا اور پیدل ہوتا تھا،  سخت گرمی اور پھر وطن سے دوری کی وجہ سے  اسے مباح قرار دیا گیا لیکن  اس کے بعد فتحِ مکہ کے موقع پر رسولِ رحمت ﷺ نے قیامت تک کے لئیے اسے حرام قرار دے دیا۔

قرآنِ حکیم میں نکاح اور  باندیوں کا ذکر ضرور ملتا ہے تاہم کسی ایک آیت کے چھوٹے سے جز  میں  بھی متعہ کے حلال ہونے کا کوئی بیان ہرگز ہر گز نہیں ہے۔
"تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں خوش آئیں دو ۲دو ۲ اور تین۳ تین۳ اور چار ۴چار۴  پھر اگر ڈرو کہ دوبیبیوں کوبرابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی کرو یا کنیزیں جن کے تم مالک ہو " (النساء 4 : 03)

قضاء شہوت کے لئیے اللہ تعالٰی نے مذکورہ آیت میں  فقط دو صورتیں بیان فرما دیں، اگر متعہ حلال ہوتا تو رب تعالٰی اس کا ذکر بھی اسی آیت کریمہ میں فرما دیتا۔  اپنی نفسانی و شہوانی خواہش کے لئیے ایک سے چار تک بیویاں یا خریدی ہوئی باندیاں اور کنیزیں رکھ سکتے ہو۔  یہی تقوٰی اور پرہیزگاری ہے۔  اللہ عالم الغیب ، علیم و حکیم کا یہاں متعہ کا بیان نہ فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ  یہ حرام ہے، اگر حلال ہوتا یا مستقبل میں اس کے حلال ہونے یا اس کی وقتی ضرورت کی گنجائش ہوتی تو رب تعالٰی قرآنِ مقدس میں اس کا بیان فرما دیتا۔ فتح مکہ سے قبل متعہ کی جو صورتیں جائز یا مباح تھیں اس آیت کے بعد وہ بھی منسوخ ہو گئیں۔

   اب ایک عقلی دلیل ملاحظہ فرمائیں کہ جب حق تعالٰی جل شانہ نے دو ایسی صورتیں بیان فرما دی ہیں جن سے ہر کلمہ گو فائدہ اٹھا سکتا ہے تو متعہ کی حاجت ہی کیوں باقی رہے گی؟   متعہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے انسانی حقوق کی پامالی، جسمانی درندگی،  معاشرتی  بے حسی ،  زنا کاری اور اخلاقی اقدار     کی پستی کی راہ  تو ہموار ہو سکتی ہے تاہم اللہ کی رضا اور انسانیت کی بہتری  ہرگز ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی۔   متعہ میں  عورت کے حقوق معین نہیں ہوتے، اس میں طلاق ہے نہ عدت۔   متعہ میں عورت کو میراث، جاگیر اور جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ملتا،  نہ ہی وہ کسی بھی معاملہ میں مرد جس سے وہ متعہ کرتی ہے اس کی وارث بنتی ہے، یہ صرف اور صرف دو جسموں کا کھیل ہے اور شیطان کی رضامندی۔

اس کی ایک مثال حیاتِ مصطفوی ﷺ  کے ظاہری دور سے لیتے ہیں۔
سیدنا  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ایک روایت کا خلاصہ ہے  کہ  ہم امام المجاہدین  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں گئے ہم تثنیۃ الوداع پر اترے  تو  چراغوں کو دیکھا اور عورتوں کو روتے ہوئے دیکھا  جانِ رحمت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے؟ بتایا گیا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جن سے متعہ کیا گیا تھااور وہ رو رہی ہیں  شمعِ بزمِ ہدایت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ نکاح، طلاق، عدت، اور میراث نے متعہ کو حرام کر دیا ہے۔
مسند ابو يعلی، رقم الحديث: 6594

 جب ایک عورت کو آزادی سے نکاح، پھر طلاق یا خلع، عدت اور  پھر شوہر کی میراث میں سے حصہ بھی شریعت نے مقرر فرما دیا تو اب کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ وہ متعہ کرے؟۔ مرد کے لئیے چار بیویاں، پسند نہ آنے کی صورت میں یا کسی شرعی ضرورت کے تحت  طلاق دینے کا حق بھی دیا گیا،  پھر زمانہ قدیم میں لوگ غرباء کی عورتوں کو خرید لیا کرتے تھے، ان کے ساتھ بھی مباشرت جائز قرار دی گئی تو اب ان تمام سہولیات کے باوجود اگر کوئی متعہ جیسی قبیح حرکت کرے تو اس کی عقل کی خرابی ہی ہو سکتی ہے۔ 

جو لوگ متعہ کو حلال جانتے ہیں وہ   حضرت ِ علی رضی اللہ عنہ کو ہی دینِ کل سمجھتے ہیں۔ ان کے لئیے سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی روایت پیشِ خدمت ہے۔
باب العلم، خیبر شکن،  مولا علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں  کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن عورتوں سے متعہ اور پالتو گدھوں کے گوشت کو حرام  قرار دیا۔
صحيح مسلم، حديث نمبر: 1407

متعہ سے ملتی جلتی ایک گھناؤنی رسم آج کل عرب میں بھی رائج ہے۔ خصوصاً  سعودی عرب کے مرد اس لعنت  کا شکار ہیں۔  سعودیوں نے اپنے گھروں میں کام کاج کے لئیے آنے والی مشرقِ بعید، ہندوستان، بنگلہ دیش اور افریقی ممالک کی لڑکیوں کو اپنی  تسکین کا سامان بنایا ہے۔ ہسپتالوں اور دفاتر میں کام کرنے والی عورتوں کو ہفتے کے مخصوص دنوں میں  جنسی تسکین کے لئیے منگوا لیتے ہیں اور ایک طے شدہ  ریٹ پر  ان کا یہ معاملہ  چند ہفتوں سے کئی سالوں تک چلتا ہے۔  اس میں مدت طے کی جاتی ہے اور ماہوار تنخواہ۔  باقی خامیاں وہی ہیں جو متعہ میں پائی جاتی ہیں۔ عربوں کی منافقت دیکھئیے ایک طرف متعہ کرنے والوں پر فتووں کی بارش اور حرام  کاری کے الزام دوسری طرف اپنی خود ساختہ شریعت میں اپنے ہی دیس میں یہ سب حلال۔  اسے مسیار کا نام دیتے ہیں اور عرب میں اسی قانونی و حکومتی تحفظ حاصل ہے۔
وماعلی الا البلاغ المبین


Thursday, 19 February 2015

آزربائیجان کے سفر کی مختصر داستان

مشرقی یورپ اور   مغربی  ایشیاء کی سرحدوں کو ملانے والے ملک  آذربائیجان   کے  حقائق سے عوام  کم ہی آگاہ ہیں۔    تواریخِ عالم  میں 1918 عیسوی کے اعداد و شمار کے مطابق یہ پہلا مسلم اکثریتی ملک تھا  جس میں  جدید علوم کی جامعات  کے ساتھ مغربی تھیٹر وغیرہ بھی قائم تھے۔  اس کے شمال میں روس، شمال مغرب میں  جارجیا،  مغرب میں آرمینیا اور جنوب میں ایران واقع ہے۔  شمال مغرب میں  ترکی  بھی واقع ہے اور ایک مختصر زمینی حدود بھی دونوں ممالک کے درمیان واقع ہے ۔  اس زمینی حدود کے ذریعے تجارت یا سفر تاحال ممکن نہیں ہے۔  آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ایک ساڑھے پانچ ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ "نخچیون " متنازعہ ہے،  جس پر کئی  بار محاذ آرائی بھی ہو  چکی ہے۔
آذربائیجان 1920 میں سوویت یونین کا حصہ بنا اور اکتوبر 1991 میں سوویت یونین کی تقسیم کے بعد ایک الگ اور خود مختار  ریاست کی شکل میں دنیا کے نقشے پر آیا۔  "باکو" ملک کا دارالحکومت اور واحد بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے۔  تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک کا سمند ر پانیوں کے ساتھ ساتھ تیل بھی اگلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  باکو شہر کے نواح  کا سفر کرتے ہوئے   یا پھر شہر سے باہر نکل کر دیگر علاقوں کی طرف جائیں تو  سمندر میں لگی ہوئی کرینیں  نظر آئیں گی۔ یہ مشینیں تیل کی تلاش کا کام کرتی ہیں۔ 
آذربائیجان میں  بھی آمرانہ نظامِ حکومت ہے  الہام علیوف ملک کے صدر ہیں اور یہ حکمرانی انہوں نے خاندانی طور پر حاصل کی ہے۔  پرویز مشرف کے انداز پر کروائے گئے ریفرنڈم میں وہ کامیاب ہوئے تھے اور اب نہ جانے وہ کب تک  منصبِ صدارت پر متمکن رہیں گے۔  حزبِ اختلاف کے  سرکردہ  قائدین ملک بدر ہیں اور اگر کوئی واپسی کی کوشش کرے تو ائیر پورٹ سے ہی واپس کر دیا جاتا ہے۔ آمرانہ  نظام کی وجہ سے ملک کے اکثر ادارے بد عنوانی  کا شکار ہیں  ۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2012 میں یورپ کے تحقیقاتی اداروں نےآزری صدر کو  "سال کی سب سے بڑی بد عنوان شخصیت" قرار دیا تھا۔  رشوت خوری کا یہ حال ہے کہ باکو کے  انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر  امیگریشن حکام  پاسپورٹ دیکھ کر تعین کرتے ہیں کہ اس سے کتنے ڈالر مانگے جائیں، آپ کے پاس تمام کوائف و کاغذات درست ہونے کی صورت میں  بھی سو  دو  سو  ڈالر یا پھر حسب توفیق پانچ ڈالر دے کر بھی جان چھڑوانا پڑتی ہے۔ اگر آپ کے پاس مغربی پاسپورٹ ہو تو صورتحال اس کے برعکس ہو گی۔   میرے نزدیک اس  رشوت کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان و پاکستان کے نوجوان یورپ جانے  کے چکر میں آذربائیجان جاتے ہیں پھر وہاں سے یورپ نکلنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ آذری حکام جانتے ہیں کہ یہ لوگ کیوں آرہے ہیں، ان کی اس خواہش اور ویزہ کے حصول  میں غلط بیانی ان لوگوں کی کمزوری بن جاتی اور یوں انہیں رشوت دینا لازم ہوتا ہے۔ میرے ساتھ باکو ائیر پورٹ پر  جب اس طرح  سلوک ہونے لگا تو میں نے اپنا تعارفی کارڈ پیش کیا، اس پر امیگریشن  افسر نے خوش اسلوبی  سے نہ صرف  مہر لگائی بلکہ  ادب سے سلام  بھی کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ  اگر ہمارے اپنے معاملے درست ہوں تو ایسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
آذربائیجان اور اس کی ہمسایہ  روس سے آزاد ریاستوں میں  تقریباً ایک صدی تک اسلام اور اہل اسلام      کو مغلوب رکھا گیا ہے، اس کی وجہ وہاں عیسائیوں اور یہودیوں  کا تسلط اور مغرب و روس کی طاقت ہے۔  یہی وجہ ہے کہ آزربائیجان کے کسی بھی باشندے کو آپ ملیں تو اس کی وضع و قطع،  گفت و شنید سے آپ کو مسلم ہونے کا تاثر نہیں ملے گا۔  لوگوں کی اکثریت آذری زبان کے ساتھ ساتھ روسی اور فارسی زبان  بھی  سمجھتی ہے۔   یہ ایک شیعہ اکثریتی ملک ہے اور ایران کے ساتھ انتہائی قریبی عوامی تعلقات ہیں۔ آپ کو سنیؔ مسجد   چراغ لے کر ڈھونڈنی  پڑیں  گی۔   میرے وہاں کے مختصر قیام کے دوران ایک جمعہ آیا، جس کے لئیے مسجد کی تلاش میں مارے  مارے شہر کے ایک علاقے میں پہنچے تو معلوم ہوا اس مسجد میں دھماکہ ہوا تھا، جس پر حکومت نے مسجد کو تالا لگا دیا تھا۔  بعد ازاں یہ خبر بھی ہوئی کہ یہ ایک منصوبہ تھا کہ اہلِ سنت کی مسجد میں ایسی تخریب کاری کی جائے اور یہ ایک مسجد بھی ہمیشہ کے لئیے بند ہو جائے۔
روسی اور مغربی کلچر کے مظہر اس ملک میں  عملاً اسلام دور دور تک نطر نہیں آتا۔  شہر کے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے یا زیرِ زمین میٹرو ٹرین کے سٹیشنز پر جاتے  ہوئے آپ کو جگہ جگہ شراب  کے ٹھیلے نظر آئیں گے،  یہاں شرب پانی کے بھاؤ بکتی ہے اور سرِ بازار کھلے آسمان  تلے رقص و سرود   کا انتظام ہوتا ہے۔    فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ واقع شراب خانوں میں نوجوان لڑکیوں کا ناچنا ایک مکمل انڈسڑی ہے ۔       باکو کے ساحلی علاقوں میں  حیا کے چیتھڑے اڑتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں ۔  یہ مناظر دیکھ کر مجھے بنکاک،  تائیوان، کوالالمپور ،  ہانگ کانگ ،    نیدر لینڈ اور یورپ کے حرام  کاری کے بازار  کم نظر آنے لگے۔   کچھ ایسے پاکستانی بھی نطر آئے جو ماؤں اور بہنوں کا زیور بیچ کر تو کوئی زمین کے ٹکڑے اور مال مویشی بیچ کر وہاں اس لئیے بھیجے گئے تھے کہ رزقِ حلال کما کر لائیں گے مگر انہیں بھی وہاں کی  حسیناؤں کی زلفوں کا اسیر  دیکھا، کچھ تو ایسے تھے جو دن بھر کی کمائی شام کو ان بدن فروشوں پر نچھاور کر دیتے۔   نوجوان لڑکیاں اور لڑکے کسی بھی مغربی ملک سے کہیں زیادہ مادر پدر آزاد اور بے راہ روی کا شکار نظر آئے۔   میری بے چین  روح مجھے اس ملک کا مذہبی جائزہ لینے کے لئیے  کہہ رہی تھی،  مساجد کا  جائزہ لیا تو یہاں کی مساجد کو اسلامی تعلیمات سے عاری پایا،  مرد و زن کا اختلاط،  ادب و احترام  نام کا نہیں اور نمازی   بھی چیدہ  چیدہ۔     باکو شہر میں ایک قبرستان دیکھنے کا اتفاق ہوا،  ہر قبر پر کتبہ کے ساتھ ساتھ قدِ آدم کے برابر مدفون کی تصویر بھی ماربل میں منقش تھی۔   مرنے والی  خوبرو جوان لڑکیوں کی تصاویر نسبتاً زیادہ اہتمام   کے ساتھ  ان کی قبور پر دیکھنے کو ملیں۔   قبور پر تصاویر کا یہ رواج انہوں نے روسیوں سے پایا تھا۔  اس قبرستان سے صرف چند میٹر کے فاصلے پر ایک کسینو، ڈسکو اور   شراب خانہ بھی واقع تھے۔
داڑھی خوف کی علامت ہے،  یہی وجہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں مقیم ایک ادھیڑ عمر خاتون نے میری داڑھی  سے خوفزدہ ہر کر میرے میزبان کو  متنبؔہ بھی کیا۔  میٹرو میں سفر کرتے ہوئے یا بازار میں گھومتے ہوئے سورج اتنی توجہ نہیں پاتا جتنی نظریں آپ کی داڑھی پر جاتی ہیں۔  داڑھی کی شرح میرے مطابق پانچ سو میں ایک ہو گی۔   خواتین دکانیں چلاتی اور کاروبار کرتی ہیں۔  کھانا پینا اور  طرزِ زندگی سو فیصد روسیوں والا ہے۔  باکو ائیر پورٹ  دارالحکومت میں واقع ہے مگر اس سے پاکستان کا ڈیرہ غازیخان ائیر پورٹ اچھا ہے۔  یہاں بنیادی سہولتیں بدحالی کا شکار ہیں۔  بین الاقوامی ائیر لائنز کم ہی جاتی ہیں۔ ترک ائیر لائن، ازبک ائیر لائن، امارات ائیر لائین  اور آزربائیجان کی قومی ائیر لائن  (جو کہ پرانے جہازوں کی وجہ سے بدنام ہے) کی فلائیٹس دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ روسی ائیر لائن "ایرو فلوٹ" بھی چلتی ہے۔  زیادہ تر تجارت استنبول، روس، ایران اور چین کے علاقہ "ارمچی" سے ہوتی ہے۔
حال ہی میں کچھ عرب تجار اور معمار اداروں نے وہاں کاروبار شروع کیا ہے جس سے امید کی جا سکتی ہے کہ رئیل سٹیٹ اور تعمیراتی  صنعت پھلے گی۔ بوسنیا کی کچھ کمپنیوں  نے آذر بائیجان کی سرکاری عمارات اور اداروں کی تعمیر کے ٹھیکے لئیے ہیں۔ ملک میں روزگار، صنعتی  کارخانوں کا فقدان ہے ، خصوصاً غیر ملکیوں کے لئیے  ملازمتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔    شہر میں زیرِ زمین  ریل کا  نظام پہلے سے موجود ہے اور اسے مزید وسعت دی جا رہی ہے۔   آذری کرنسی کا نام "منات" ہے جو تقریباً ایک سو اٹھائیس روپے کے برابر ہے یعنی یہ ڈالر سے بھی زیادہ مستحکم ہے۔ 

Saturday, 13 September 2014

نماز کے مختصر شرعی احکام






الحمد للہ  رب العٰلمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین، وعلٰی اٰلہ واصحابہ اجمعین۔

شرائطِ نماز

نماز کی چھ شرطیں ہیں:
1.     طہارت یعنی نمازی کا بدن اور کپڑے پاک ہوں۔
2.     نماز کی جگہ پاک ہو۔
3.     سترِ عورت یعنی بدن کا وہ حصہ جس کا چھپانا فرض ہے وہ چھپا ہوا ہو۔ مردکے لیے ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے اور عورت کے لیے ہاتھوں، پاؤں اور چہرہ کے علاوہ سارا بدن ستر ہے۔
4.     استقبالِ قبلہ یعنی منہ اور سینہ قبلہ کی طرف ہو۔
5.     وقت یعنی نماز کا اپنے وقت پر پڑھنا۔
6.     نیت کرنا . دل کے پکے ارادہ کا نام نیت ہے اگرچہ زبان سے کہنا مستحب ہے۔
نماز شروع کرنے سے پہلے ان شرطوں کا ہونا ضروری ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی.

فرائضِ نماز

نماز کے سات فرائض ہیں:
1.     تکبیرِ تحریمہ یعنی اَﷲُ اَکْبَرُ کہنا۔
2.     قیام یعنی سیدھا کھڑے ہوکر نماز پڑھنا۔فرض، وتر، واجب اور سنت نماز میں قیام فرض ہے، بلاعذرِ صحیح اگر یہ نمازیں بیٹھ کر پڑھے گا تو ادا نہیں ہوں گی. نفل نماز میں قیام فرض نہیں۔
3.     قرآت یعنی مطلقاًایک آیت پڑھنا۔ فرض کی پہلی دو رکعتوں میں اور سنت وتر و نوافل کی ہررکعت میں فرض ہے جب کہ مقتدی کسی نماز میں قرآت نہیں کرے گا۔
4.     رکوع کرنا۔
5.     سجدہ کرنا۔
6.     قعدہ  اخیرہ یعنی نماز پوری کرکے آخرمیں بیٹھنا۔
7.     خروج بصنعِہِ یعنی دونوں طرف سلام پھیرنا۔
اِن فرضوں میں سے ایک بھی رہ جائے تو نماز نہیں ہوتی اگرچہ سجدہ سہو کیا جائے۔

واجباتِ نماز

نماز میں درج ذیل چودہ امور واجبات میں سے ہیں؛
1.     فرض نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں قرآ ت کرنا (یعنی تنہا نماز پڑھنے والے یا باجماعت نماز میں اِمام کے لیے)۔
2.     فرض نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعت کے علاوہ تمام نمازوں کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا۔
3.     فرض نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں اور واجب، سنت اور نفل نمازوں کی تمام رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورت یا بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات پڑھنا۔
4.     سورہ فاتحہ کو کسی اور سورت سے پہلے پڑھنا۔
5.     قرآ ت، رکوع، سجدوں اور رکعتوں میں ترتیب قائم رکھنا۔
6.     قومہ کرنا یعنی رکوع سے اٹھ کر سیدھا کھڑا ہونا۔
7.     جلسہ یعنی دونوں سجدوں کے درمیان سیدھا بیٹھ جانا۔
8.     تعدیلِ ارکان یعنی رکوع، سجدہ وغیرہ کو اطمینان سے اچھی طرح ادا کرنا۔
9.     قعدۂ اُولیٰ یعنی تین، چار رکعت والی نماز میں دو رکعتوں کے بعد تشہد کے برابر بیٹھنا۔
10.دونوں قعدوں میں تشہد پڑھنا۔
11.                        امام کا نمازِ فجر، مغرب، عشاء، عیدین، تراویح اور رمضان المبارک کے وتروں میں بلند آواز سے قرآ ت کرنا اور ظہر و عصر کی نماز میں آہستہ پڑھنا۔
12.اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَۃُ اﷲِ کے ساتھ نماز ختم کرنا۔
13.نمازِ وتر میں قنوت کے لیے تکبیر کہنا اور دعائے قنوت پڑھنا۔
14.عیدین کی نمازوں میں زائد تکبیریں کہنا۔
نماز کے واجبات میں سے اگر کوئی واجب بھولے سے رہ جائے تو سجدہ   سہو کرنے سے نماز درست ہوجائے گی. سجدہ  سہو نہ کرنے اور قصداً تر ک کرنے سے نماز کا لوٹانا واجب ہے۔

سننِ نماز

جو چیزیں نماز میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہیں لیکن ان کی تاکید فرض اور واجب کے برابر نہیں سنن کہلاتی ہیں۔ نماز میں درج ذیل سنن ہیں:
1.     تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھانا۔
2.     دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو معمول کے مطابق کھلی اور قبلہ رخ رکھنا۔
3.     تکبیر کہتے وقت سر کو نہ جھکانا۔
4.     امام کا تکبیر تحریمہ اور ایک رکن سے دوسرے رکن میں جانے کی تمام تکبیریں بلند آواز سے کہنا۔
5.     سیدھے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھنا۔
6.     ثناء پڑھنا۔
7.     تعوذ یعنی اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ پڑھنا۔
8.     تسمیہ یعنی بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ پڑھنا۔
9.     فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنا۔
10.آمین کہنا
11.                        ثنا، تعوذ، تسمیہ اور آمین سب کا آہستہ پڑھنا۔
12.سنت کے مطابق قرآت کرنا یعنی نماز میں جس قدر قرآنِ مجید پڑھنا سنت ہے اتنا پڑھنا۔
13.رکوع اور سجدے میں تین تین بار تسبیح پڑھنا۔
14.رکوع میں سر اور پیٹھ کو ایک سیدھ میں برابر رکھنا اور دونوں ہاتھوں کی کھلی انگلیوں سے گھٹنوں کو پکڑ لینا۔
15.قومہ میں امام کا تسمیع یعنی سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہُ اور مقتدی کا تحمید رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہنا اور منفرد کا تسمیع اور تحمید دونوں کہنا۔
16.سجدے میں جاتے وقت پہلے دونوں گھٹنے، پھر دونوں ہاتھ، پھر ناک، پھر پیشانی رکھنا اور اٹھتے وقت اس کے برعکس عمل کرنا یعنی پہلے پیشانی، پھر ناک، پھر ہاتھ اور اس کے بعد گھٹنے اٹھانا۔
17.جلسہ اور قعدہ میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھنا اور سیدھے پاؤں کو اس طرح کھڑا رکھنا کہ اس کی انگلیوں کے سرے قبلہ رخ ہوں اور دونوں ہاتھ رانوں پر رکھنا۔
18.تشہد میں اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ پر شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا اور اِلَّا اﷲُ پر انگلی گرا دینا۔
19. قعدۂ اخیرہ میں تشہد کے بعد درودِ ابراہیمی پڑھنا۔
20.  درود اِبراہیمی کے بعد دعا پڑھنا۔
21. پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف سلام پھیرنا۔
ان سنتوں میں سے اگر کوئی سنت سہواً رہ جائے یا قصداً ترک کی جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی اور نہ ہی سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے لیکن قصداً چھوڑنے والا گنہگار ہوتا ہے۔

مستحباتِ نماز

نماز میں درج ذیل اُموربجا لانا مستحب ہے:
§       قیام میں سجدہ کی جگہ نگاہ رکھنا۔
§       رکوع میں قدموں پر نظر رکھنا۔
§       سجدہ میں ناک کی نوک پر نظر رکھنا۔
§       قعدہ میں گود پر نظر رکھنا۔
§       سلام پھیرتے وقت دائیں اور بائیں جانب کے کندھے پر نظر رکھنا۔
§       جمائی کو آنے سے روکنا، نہ رکے تو حالتِ قیام میں دائیں ہاتھ سے منہ ڈھانک لیں اور دوسری حالتوں میں بائیں ہاتھ کی پیٹھ سے۔
§       مرد تکبیر تحریمہ کے لیے کپڑے سے ہاتھ باہر نکالیں اور عورتیں اندر رکھیں۔
§       کھانسی روکنے کی کوشش کرنا۔
§       حَيَ عَلَی الْفَلَاحِ پر امام و مقتدی کا کھڑے ہونا۔
§       حالتِ قیام میں دونوں پاؤں کے درمیان کم از کم چار انگلیوں کا فاصلہ ہو۔

مفسداتِ نماز

بعض اعمال کی وجہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اسے لوٹانا ضروری ہو جاتا ہے، انہیں مفسداتِ نماز کہتے ہیں۔ نماز کو فاسد بنانے والے اعمال درج ذیل ہیں:
§       نماز میں بات چیت کرنا۔
§       سلام کرنا۔
§       سلام کا جواب دینا۔
§       درد اور مصیبت کی وجہ سے آہ و بکا کرنا یا اُف کہنا (لیکن جنت و دوزخ کے ذکر پر رونے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔
§       چھینک آنے پر اَلْحَمْدُِﷲِ کہنا۔
§       کسی کی چھینک پر يَرْحَمُکَ اﷲُ یا کسی کے جواب میں يَھْدِيْکُمُ اﷲُ کہنا۔
§       بری خبر پر اِنَّاِﷲِ وَاِنَّا اِلَيْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنا۔
§       اچھی خبر پر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہنا۔
§       دیکھ کر قرآن پڑھنا۔
§       کھانا پینا۔
§       عملِ کثیر یعنی ایسا کام کرنا کہ دیکھنے والا یہ گمان کرے کہ وہ نماز میں نہیں ہے۔
§       نمازی کا اپنے امام کے سوا کسی اور کو لقمہ دینا۔
§       قہقہہ کے ساتھ ہنسنا۔

     مکروہاتِ نماز

بعض امور کی وجہ سے نماز ناقص ہو جاتی ہے یعنی نمازی اَصل اَجر و ثواب اور کمال سے محروم رہتا ہے، انہیں مکروہات کہتے ہیں۔ ان سے اِجتناب کرنا چاہیے۔ نماز کو مکروہ بنانے والے امور درج ذیل ہیں:

§       ہر ایسا کام جو نماز میں اﷲ کی طرف سے توجہ ہٹا دے مکروہ ہے۔
§       داڑھی، بدن یا کپڑوں سے کھیلنا۔
§       اِدھر اُدھر منہ پھیر کر دیکھنا۔
§       آسمان کی طرف دیکھنا۔
§       کمر یا کولہے وغیرہ پر ہاتھ رکھنا۔
§       کپڑا سمیٹنا۔
§       سَدْلِ ثوب یعنی کپڑا لٹکانا مثلاً سر یا کندھوں پر اس طرح ڈالنا کہ دونوں کنارے لٹکتے ہوں۔
§       آستین آدھی کلائی سے زیادہ چڑھی ہوئی رکھنا۔
§       انگلیاں چٹخانا۔
§       بول و براز (پاخانہ / پیشاب) یا ہوا کے غلبے کے وقت نماز ادا کرنا۔ اگر دورانِ نماز میں یہ کیفیت پیدا ہو جائے اور وقت میں بھی گنجائش ہو تو نماز توڑ دینا واجب ہے۔
§       قعدہ یا سجدوں کے درمیان جلسہ میں گھٹنوں کو سینے سے لگانا۔
§       بلاوجہ کھنکارنا۔
§       ناک و منہ کو چھپانا۔
§       جس کپڑے پر جاندار کی تصویر ہو اس کو پہن کر نماز پڑھنا۔
§       کسی کے منہ کے سامنے نماز پڑھنا۔
§       پگڑی یا عمامہ اس طرح باندھنا کہ درمیان سے سر ننگا ہو۔
§       کسی واجب کو ترک کرنا مثلاً رکوع میں کمر سیدھی نہ کرنا، قومہ یا جلسہ میں سیدھے ہونے سے پہلے سجدہ کو چلے جانا۔
§       قیام کے علاوہ اور کسی جگہ پر قرآنِ حکیم پڑھنا۔
§       رکوع میں قرآ ت ختم کرنا۔
§       صرف شلوار یا چادر باندھ کر نماز پڑھنا۔
§       امام سے پہلے رکوع و سجود میں جانا یا اٹھنا۔
§       قیام کے علاوہ نماز میں کسی اور جگہ قرآنِ حکیم پڑھنا۔
§       چلتے ہوئے تکبیر تحریمہ کہنا۔
§       امام کا کسی آنے والے کی خاطر نماز کو بلا وجہ لمبا کرنا۔
§       قبر کے سامنے نماز پڑھنا۔
§       غصب کی ہوئی زمین/مکان/کھیت میں نماز پڑھنا۔
§       الٹا کپڑا پہن/اوڑھ کر نماز پڑھنا۔
§       اچکن وغیرہ کے بٹن کھول کر نماز پڑھنا جبکہ نیچے قمیص نہ ہو۔

نوٹ!!! اس مضمون کی تیاری میں فقہ حنفیہ کی مختلف معتبر کتب سے مواد لیا گیا۔

اللہ تعالٰی ہم سب کے لئیے علمِ دین کا حصول، اس پر عمل اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کی توفیق اور آسانی فرمائے۔ آمین