Sunday, 24 February 2013

جنؔات کا تعارف 2 (جنات کی اقسام، ٹھکانہ و حملہ



"جنؔات کا   تعارف"  پہلا حصہ آپ نے پڑھا۔  بنیادی معلومات اس میں رقم کر دی تھیں۔  اس سلسلے میں کچھ مزید وضاحت حاضر ہے۔
جنؔات کی انواع و اقسام مختلف کتب میں درج ہیں، جو  صحیح  روایات ہیں ان کے مطابق جنؔات کی تین اقسام ہیں۔

نمبر1-  پروں والے جنؔات جو ہوا میں پرواز کرتے ہیں

نمبر2- وہ جنؔات جو پروں اور سانپ کا روپ دھار لیتے ہیں

نمبر3- جو ایک جگہ مقیم ہو جاتے اور پڑاؤ ڈالتے یعنی انسانوں کی طرح بستی قائم کر لیتے ہیں۔ اور  کبھی کوچ بھی کر لیتے ہیں۔

اس کو طبرانی،  مستدرک، بیہقی اور ابنِ حبؔان سے اخذ کیا گیا ہے۔


اس کے علاوہ کتب اس  حقیقت کی بھی تصدیق کرتی ہیں کہ جنؔات کتے، بلی، گائے، گھوڑا، خچر، اونٹ اور گدھے کی صورت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ کبھی انسانوں اور کبھی حیوانوں، کبھی جانوروں، سانپوں اور بچھوؤں کا روپ بھی دھار لیتے ہیں۔


اب ایک ایسا سوال جو کہ عوام الناس کے ذہنوں میں اکثر گھومتا رہتا ہے کہ جنؔات کا بسیرا  اور ٹھکانہ کہاں ہوتا ہے۔  ایک بات ذہن میں اچھی طرح سے بٹھا لیجئیے کہ ان مضامین میں آپ جو کچھ پڑھ رہے ہیں  یہ خالصتاً  آپ کی اصلاح اور جنؔات کے بارے حقائق کو سامنے لانے کی غرض سے لکھا جا رہا ہے تا کہ لوگوں کے اذہان میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکے۔


سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنؔات نے   رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ویرانے میں ملاقات کی،  اور آپ ﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ ( مسلم شریف)


اس سے ثابت ہوا کہ جنات ویرانے، کھنڈرات، جنگلات اور گھاٹیوں وغیرہ میں رہتے ہیں۔


ایک اور روایت  جو کہ مسند امام احمد اور ابنِ ماجہ میں موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا  بیت الخلا میں جنات موجود ہوتے ہیں۔   شیطان اور شریر جنؔات ہمیشہ گندگی کی جگہوں پر پائے جاتے ہیں۔  اسی لئیے بیت الخلا میں جانے سے پہلے دعا پڑھنے کی تاکید کی گئی۔   کوڑا کرکٹ، لید پھینکنے کی جگہ،  گوبر، ہڈیوں اور گندی آلائشوں کی جگہ پر بھی موجود ہوتے ہیں۔   سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بلوں میں پیشاب کرنے کی ممانعت اس لئیے ہے کہ یہاں جنؔات موجود ہوتے ہیں۔  جنؔات کا ایک اور پسندیدہ ٹھکانا قبرستان بھی ہے۔  آلاتِ موسیقی اور ناچنے والیوں کے ساتھ بھی شیطان جن ہوتے ہیں۔  سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  روای ہیں کہ رسولِ برحق ﷺ نے فرمایا تم میں سے جو کوئی بھی سو کر اٹھے وہ تین بار ناک صاف کرے کیونکہ ناک کے نتھنوں پر شیطان رات گزارتا ہے ۔ یعنی شریر جن انسان کے ناک کے ساتھ ہوتا ہے۔


مندرجہ بالا روایات سے یہ واضح ہو گیا کہ جنات کہاں کہاں پائے جاتے ہیں اب جنات کی نسل وغیرہ کے بارے میں پڑھئیے۔

جس طرح انسانوں کی شادیاں ہوتی ہیں اسی طرح جنؔات بھی شادی بیاہ کرتے ہیں۔  ان میں بھی مرد و عورت ہوتے ہیں۔ اس کا ثبوت سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ملتا ہے جس میں انہوں نے حدیث نقل فرمائی کہ اللہ کے رسولﷺ بیت الخلا میں داخل ہونے سے قبل یہ دعا پڑھتے " اے اللہ! میں شیطان مردوں اور شیطان عورتوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں"۔  ابنِ کثیر نے روایت کیا ہے کہ جنؔات داخلِ جنت بھی کئیے جائیں گے اور ان کے وہاں جنؔیوں کے ساتھ نکاح بھی کئیے جائیں گے۔

جنات کی شرح پیدائش انسانوں کی نسبت بہت زیادہ ہے ۔  انسان ایک پیدا ہو تو جنات کے ہاں نو بچے پیدا ہوتے ہیں۔(مستدرک الحاکم)۔


جنؔات کی شادی کا ایک واقعہ اور ثبوت میرے گھر میں موجود ہے۔  میرے دادا بزرگوار  رحمہ اللہ     نے ہمیں  ایک واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ وہ پاکستان اور ہندوستان کی مشرقی سرحد پر واقع ایک گاؤں میں موجود تھے۔   اپنے ایک دوست جن کا نام فیروز بتایا،   کے ساتھ علی الصبح اٹھ کر وہ شکر گڑھ کے لئیے روانہ ہوئے۔  پرانے وقتوں کی بات ہے اور وہ اکثر و بیشتر پیدل سفر کیا کرتے تھے۔  صبح کاذب تھی ،    جموں کے علاقے سے پاکستان میں داخل ہونے والے دریائے راوی کےکنارے پہنچے تو اپنے سر کی آنکھوں سے ایک عجیب منظر دیکھا کہ دریا کنارے کو قمقموں سے سجایا گیا ہے اور شادیانے بج رہے ہیں،  مرد و خواتین کا اجتماع تھا،  دادا ابؔو کا ہمراہی گھبرا گیا۔  یہ جنؔات کی شادی کا اجتماع تھا۔  جب یہ دونوں بزرگ جنؔوں کے درمیان سے گزرے تو ایک خوبصورت  و جوان قامت والے جن نے آگے بڑھ کر دادا ابو کو  اس شادی میں   شرکت کی دعوت دی۔   تاہم انہوں نے انکار کر دیا اور آگے چل دئیے پھر جنات نے پیچھا کیا اور انہیں کھانے کے لئیے کچھ پیش کیا کہ ہماری شادی کی دعوت میں یہ سب کچھ پکایا گیا ہے، آپ بھی کھا لیجیے،  دادا ابو نے پھر انکار کر دیا اور اپنی راہ لی۔  مگر دادا حضور کا ہمراہی  فیروز   پِٹ گیا۔  اس نے دیکھا کہ میرے دوست کے ساتھ یہ بہت بے تکلف ہو رہے ہیں تو اس کو جنات کی دعوت قبول کر لینی چاہئیے۔ اسی اثنا میں ایک جن آگے بڑھا اور کھانے کا وہ سارا سامان فیروز کو تھما دیا اور اس نے قبول  بھی کر لیا،  ساتھ ہی جن نے نصیحت کی اس کو سورج طلوع ہونے کے بعد ناشتہ میں کھائیے گا۔  کافی سفر پیدل طے کر لینے کے بعد ایک مقام پر پہنچ کر یہ لوگ رک گئے۔  فیروز اس لمحے کا شدت سے منتظر تھا جب یہ کھانا کھل کر اس کے سامنے آجائے گویا وہ اس کو کوئی خفیہ خزانہ سمجھ رہا تھا۔  جب انہوں نے اس لفافے کو کھولا تو اس میں نجاست و غلاظت بھری ہوئی تھی۔

حاصلِ داستان یہ کہ وہ ایک لالچ تھا،  دادا ابو نے انکار کیا تو فیروز کو بھی یہ لفافہ قبول نہیں کرنا چاہئیے تھا۔  اعتقاد اور ایمان کی کمزوری اسی کا نام ہے۔  دوسری بات کہ وہ جنات مسلمان نہیں تھے بلکہ مشرکین و کفار   میں سے   تھے۔


کمزور ایمان،  دین سے دور ، بے نمازی گھرانہ،   موسیقی اور رقص میں مشغول لوگ،  نا پاک، طہارت کا خیال نا رکھنے والے،   پیشاب وغیرہ کے بعد استنجا  نا  کرنے والے،  نا پاک لباس والے، غسلِ جنابت میں تاخیر کرنے والےِ ،    حیض و نفاس سے فراغت کے بعد  غسل میں تاخیر کرنے والی خواتین،   درختوں کے سائے میں پیشاب کرنے والے، بیت الخلا میں جا کر باتیں کرنے والے،    گالی گلوچ کرنے والے،     جس گھر میں کتؔا ہو،  نازیبا تصاویر والا گھر،   حیض و نفاس میں استعمال ہونے والے کپڑوں کو گھر میں ہی رکھنا اور ان کپڑوں کو بار بار استعمال کرنا،  استنجا کا خیال نا کرنا،  پیشاب کے چھینٹے وغیرہ وغیرہ ایسی وجوہات و اسباب ہیں جو شیطان اور کافر جنؔات کا حملہ آسان کر دیتی ہیں۔ اگر ان تمام وجوہات و اسباب کا ردؔ کر دیا جائے تو اس مصیبت سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔


ایک اور حقیقت یہ ہے کہ جنؔات ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ نیک لوگوں کے ساتھ نیک اور بدکاروں کے ساتھ بدکار۔ ان سے ڈرنے کی ضرورت اس کو ہے جو شریعت مطہرہ سے دور ہیں۔  نیک جنات ہماری دعاؤں میں ہمارے شریک ہوتے ہیں ۔   اگلے مضمون میں جنؔات کے حملوں سے بچاؤ ،  اس کے علاج،  مختلف کیفیات اور کچھ دیگر حقائق بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔  یہ بہت طویل موضوع ہے اور اس کا  یہاں مکمل بیان کرنا ناممکن ہے۔ عوام الناس کو آگاہی فراہم کرنا مقصد تھا۔ اللہ ہم سب کو حقیقت سے آشکار کر دے۔


اپنے تمام روحانی مسائل کے حل اور علاج کے لئیے ہمارے فیس بک پیج اور بلاگ کے ذریعے رابطہ کیجئیے۔   واقفِ رموزِ حقیقت حضرت عشرت اقبال وارثی صاحب اور والد گرامی کی سرپرستی میں آپ کے تمام مسائل فی سبیل اللہ حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ انشاء اللہ


اللہ تعالٰی سید انس و جان ﷺ کی بارگاہ عالیہ کے صدقے  میں تمام پریشان مومنین و مومنات کو تمام زمین و آسمانی بلاؤں اور وباؤں سے حفاظت عطا کرے۔ آمین


فیس بک پیج: https://www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi

Wednesday, 20 February 2013

جنؔات کا تعارف





یہ حقیقت  ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور خالقِ کائنات نے انسان کو فرشتوں اور جنات سمیت ہر مخلوق پر عظمت اور برتری عطا کی ہے۔  تمام انبیاء و رسلِ عظام علیہم السلام بھی انسان ہیں، حتٰی کہ خاتم المرسلین،  سید الکونین،  عالِمِ   ماکان و مایکون،  فخرِ موجودات  ﷺ کو بھی لباس بشر ہی میں  ہمارے سامنے بھیجا گیا۔

اللہ وحدہ لاشریک نے قرآنِ مقدؔس میں انسانوں اور جنات کی تخلیق کا مقصد اپنی عبادت قرار دیا ہے اور ایک ہی آیت میں دونوں کو بالترتیب ذکر فرمایا ہے۔

قرآن کی اصطلاح میں ’جن‘ ایک غیر مرئی مخلوق ہے۔ اس مخلوق کا ذکر قرآن حکیم میں 8 سورتوں کی 12اور سورۃ جن کی 15آیات میں موجود ہے ۔
 
جنؔات  کی تخلیق کب اور کس طرح ہوئی؟  بعض محققین اور تاریخ داں لکھتے ہیں کہ جنات کو آدم  علیہ السلام  کی تخلیق سے بھی دو ہزار سال قبل تخلیق کیا گیا تھا۔ قرآن حکیم میں اس کا ذکر اس طرح آیا ہے؛
ترجمہ: ’’اور ہم نے انسان کو کھنکتے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے اور جِنؔوں کو اس سے بھی پہلے بے دھوئیں کی آگ سے پیدا کیا ۔‘‘ (سورہ الحجر آیات  26-27)
ایک اور جگہ ارشاد مبارک ہے؛
ترجمہ: ’’اس نے انسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا اور جنات کو آگ کے شعلے سے پید ا کیا ‘‘۔  (سورہ رحمٰن آیات 14-15)

ابن ِکثیر ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’صلصال‘ خشک مٹی کو کہتے ہیں اور جس مٹی میں آواز ہووہ فخؔار کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ  جو مٹی  آگ میں پکی ہوئی ہو اسے ’ٹھیکری‘ کہتے ہیں ۔  مارج سے مراد سب سے پہلا جن ہے جسے ابو الجن کہا جا سکتا ہے جیسے سیدنا آدم علیہ السلام کو ابو الآدم  کہا جاتا ہے۔  لغت میں مارج آگ سے پیدا    ہونے والے شعلے کو کہا جاتا ہے۔  

صاحبِ "بہارِ شریعت" صدرالشریعہ ،  بدر الطریقہ،   علاؔمہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کریم، تفسیر روح البیان،   تفسیر الکبیر ، النبراس،   وغیرہ کے حوالے سے لکھا ہے اور اس کے تفصیلی حوالہ جات "بہار شریعت "  حصؔہ اوؔل ، ملائکہ کا بیان میں عقیدہ نمبر 8 تا 10 میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے  کہ ؛
" (جنؔات  آگ سے پیدا کئیے گئے ہیں،  ان میں سے بعض کو یہ طاقت دی گئی ہے کہ جو شکل چاہیں بن جائیں،  ان کی عمریں بہت طویل ہوتی ہیں اور ان کے شریروں کو شیطان کہتے ہیں،  یہ سب انسان کی طرح ذی عقل اور ارواح و اجسام والے ہوتے ہیں،  ان میں توالد و تناسل (یعنی اولاد پیدا ہوتی اور نسل چلتی ہے) کھاتے،  پیتے،   جیتے اور مرتے ہیں۔

ان میں مسلمان بھی ہیں اور کافر بھی،  مگر ان کے کفؔار انسان کی  بہ نسبت بہت زیادہ ہیں اور ان میں مسلمان نیک بھی ہیں اور فاسق بھی سنؔی بھی ہیں اور بد مذہب بھی اور ان میں فاسقوں کی تعداد بہ نسبت انسا ن کے  زائد ہے۔ ان کے وجود کا انکار  کفر ہے)

ابنِ تیمیؔہ نے بھی لکھا ہے کہ " اکابرین امت میں سے کسی نے بھی جنات کے وجود کا انکار نہیں کیا۔  اکثر کفار بھی ان کے وجود کے قائل ہیں کیونکہ جنات کے وجود کے متعلق انبیائے کرام کے ارشادات حدِؔ تواتر تک پہنچے ہوئے ہیں،  جس کا یقینی طور پر معلوم ہونا لازمی ہے ۔  سوائے فلسفیوں کی ایک معمولی جماعت کے علاوہ جنات کا کوئی بھی انکار نہیں کرتا "۔

اس سے جناؔت کا وجود اور ان کی حقیقت  تو ثابت ہو گئی۔  ویسے بھی تاریخ گواہ ہے کہ زمانہ قدیم میں   انبیاء کرام علیہم السلام اور پھر ہمارے پیارے آقا ﷺ کی ظاہری زندگی میں جنؔات کا ظہور ہوتا ہے۔  روایات میں تو یہاں تک موجود ہے کہ جنؔات گروہوں کی شکل میں بارگاہ مصطفےٰ ﷺ میں حاضر ہوتے رہے اور اسلام بھی قبول کیا۔  مکہ مکرؔمہ میں   ایک ایسی مسجد آج بھی موجود ہے جس کا نام "مسجد جنؔ" ہے۔   وادی نخلہ میں جنؔات  نے حضور ﷺ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ بعض دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ  آپ ﷺ  جنؔوں کی دعوت پر ان کے ہاں تشریف بھی لے گئے اور انہیں جاکر اللہ کا پیغام سنایا اور متعدد مرتبہ جنوں کا وفد آپ ﷺ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔  

جیسا کہ مذکور ہوا کہ جنؔات میں اکثریت کفار اور فاسقین کی ہوتی ہے ، اور یہ انسانوں کے نقصان پہنچانے کی کوشش کرت رہتے ہیں۔  اسی لئیے فی زمانہ اکثر سادہ لوح، ان پڑھے اور دین سے دور لوگ اس طرح کے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔   جنؔات آج بھی دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں اور ان کی نسل بالکل ویسے ہی بڑھ رہی ہے جیسے انسان کی۔  روزِ قیامت ان کو اپنے  اعمال کا حساب بھی چکانا پڑھے گا۔ موت کا شکار بھی ہوں گے اور جنؔت و  جہنؔم  میں بھی جائیں گے۔ 

آج کے اس مضمون میں صرف جنؔات کے تعارف پر ہی اکتفا کرتا ہوں کہ مختصر وقت میں اتنا ہی ممکن ہو سکا۔  جنؔات کی شریر حرکات،  ان کے بد اثرات،  جنؔات کے حملے،  حملے کی وجوہات،  اسباب اور علاج اگلے مضمون میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔  اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ  وہ میری اس  خدمت کو قبول فرمائے اور عوام الناس کی رہنمائی اور بہتری کا  سبب بنے۔    ہم سب کو رسولِ رحمت ﷺ کی آغوشِ رحمت میں رکھے اور تمام  مخلوقات کے شر سے محفوظ فرمائے۔ آمین یا الٰہ العالمین۔ 



(فیس بک پر آپ ہمارا پیج  لائک کر کے روحانی علوم و علاج سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ یہ پیج حال ہی میں متعارف کروایا گیا ہے۔

فیس بک پیج:        
https://www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi
 

Thursday, 14 February 2013

غیرت و عزؔت کا نیلامِ عام




گذشتہ کچھ دنوں سے معمولاتِ زندگی متاثر ہونے کہ وجہ سے میں نے لکھنے کا سلسلہ موقوف کیا ہوا تھا اور یہ معاملہ کچھ گتھیاں سلجھ جانے تک اٹھا رکھا تھا مگر  آج کی  شب بیداری کے بعد نمازِ فجر ادا کی تو اپنے اوراد و وظائف سے فارغ ہو کر میں نے آرام کرنے کی نیؔت کی تو فیس بک پر ایک صاحب نے سرخ گلاب والی تصویر لگا کر "ہیپی ویلنٹائن ڈے" لکھ کر میرا آرام بھی ختم کر دیا اور لکھنے کے سلسلے میں جو تعطؔل واقع ہوا تھا اس کا بھی خاتمہ کر دیا کہ اس بے شرمی و بے حیائی پر خاموشی اختیار کرنا اس قبیح رسم کو معاونت فراہم کرنے کے مترادف ہے۔


یہ بات بالکل کھل کر واضح ہو چکی ہے کہ عالمِ کفر اپنی رسوم و روایات کو اسلامیانِ عالم کے گھروں تک پہنچانے کے لئیے  پورے زور و شور سے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔   یہ ایک عالمی سازش ہے کہ مسلمانوں کو اخلاقی اور تہذیبی لحاظ سے اس قدر کمزور کر دو کہ ان کے اندر موجود ملؔی و قومی غیرت مردہ ہو جائے۔     ایک منظم و مربوط سازش کے ذریعے ہماری اقدار، اسلاف کا طریقہ اور اسلام کی اصل روح کو ہمارے اندر سے نکالا جا رہا ہے۔ غیروں کی تقلید اور دنیاوی ترقی کے اس سفر میں ہم اپنی پہچان، رسم و رواج اور طرزِ زندگی بھول کر یورپ کے فکری غلام اور نوکر بن گئے ہیں۔  بو علی سینا جیسا عظیم انسان اسی لئیے کہتا تھا کہ مسلمان کو بہکانے کے لئیے عورت، دولت اور حکومت کا استعمال کیا جاتا ہے اور وہ ان تینوں کے ہاتھوں پٹ جاتا ہے۔  کس قدر افسوس ناک صورتحال ہے کہ آج کفؔار کے اتحاد نے ہمارے درمیان اتنا اختلاف پیدا کر دیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ اس گندی رسم اور دن کو منانے اور نا منانے کے لئیے دلائل دیتے ہیں۔  محبت کے نام پر اس دن کو منانے والوں سے کوئی تو پوچھے کہ ان کے بوڑھے والدین  اولڈ ہومز میں جا کر رہتے ہیں جب کہ اپنے پالتو کتؔے کو وہ اپنے ساتھ سلاتے ہیں، محبت کے داعی مغربی معاشرے اور ان کے پیرو کاروں سے کوئی یہ تو پوچھے کہ  "ویلنٹائین" کی اس روحانی اولاد میں کتنے ایسے ہیں جن کو اپنے باپ کا تعارف ہے؟


اسلام ایک مکمل دین اور ضابطہ حیات ہے۔  اللہ تعالٰی نے اپنے نبیﷺ کی وساطت سے ہم تک حق پیغام پہنچا دیا ہے اب اس میں کمی ہو سکتی ہے نا اضافہ۔   جو لوگ دین کے اندر عایتیں تلاش کرتے ہیں وہ صریحاً شیطان لعین کے بہکاوے میں ہیں۔    اگر اس طرح کا دن منانا ہوتا تو یقیناً یہ کام ادوارِ اسلاف سے ہی ہورہا ہوتا۔  اسلام ہردن کو محبت کا دن قرار دیتا ہے مگر یہ محبت کا دن نہیں ہے بلکہ غیرت کا جنازہ نکالنے  کا دن ہے جب آنکھ مچولی کر کے ، اپنے والدین، اللہ اور اس کے رسولﷺ کو دھوکہ دینے کی کوشش کر  کے نوجوان اپنی قبروں اور زندگی میں آگ کو دعوت دیتے ہیں۔  اس سلسلے میں پاکستان کا میڈیا ایک ذلت آمیز کردار ادا کر رہا ہے اور اس دن کی مناسبت سے بھرپور تیاریاں کی گئی ہیں۔   اس  بدکار حرکت کا نتیجہ دنیا میں سکون کی بربادی اور آخرت میں جہنؔم کی آگ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔    جن لوگوں کے ہاں یہ دن منانا جائز ہے وہ اس سوال کا جواب دیں کہ ہم اس دین کے پیروکار ہیں جس کے شارعﷺ کی بیٹی کے سر کا بال ننگا رہ گیا تو  اللہ کریم نے  گوارہ نا کیا کہ سورج طلوع ہو اور ہم اس قرآن کے تابع ہیں جس نے  سب سے پہلے اپنے صاحبﷺ کی بیویوں اور بیٹیوں پر پردہ لازم قرار دیا اور اس کے بعد دیگر مؤمنین کے عورتوں کے لئیے۔   اسلام کو جبر اور شدت کا مذہب کہنے والوں کے منہ بند ہو جانے چاہئیں کہ یہ وہ دین ہے جس نے ایک عورت کو اتنی عزت بخشی کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی پیاس بجھانے کے لئیے صفا و مروہ کی پہاڑیوں پر دوڑی تو اللہ نے قیامت تک آنے والے حاجیوں پر فرض کر دیا، جب تک اس   خاتون کی سنت  پر عمل کرتے ہوئے  صفا و مروہ پر دوڑیں گے نہیں ان کا حج قبول ہو گا نا عمرہ۔ دنیا  میں انسانی و نسوانی حقوق کے ٹھیکیدار اس طرح کی کوئی مثال لائیں۔


بد کاری کی اس راہ پر چل کر ایمان کی حفاظت بہت دشوار ہو جاتی ہی۔  اظہارِ رائے اور بنیادی انسان حقوق کے نام پر کی جانے والی اس بکواس کا مطلب عورت کو آزادی دلوانا نہیں بلکہ عورت کے جسم تک پہنچنے کی آزادی حاصل کرنا ہے۔  نفسانی  وحشت، جنسی درندگی اور عزت کی نیلامی کے سوا اس دن کا اور کوئی مقصد نہیں ہے۔   اختلاطِ مرد و زن  کسی صورت میں بھی اسلام برداشت نہیں کرتا۔  ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ جنہوں نے اولادوں کو  بے حیائی کے کاموں کی اجازت دی وہ خود بھی ذلیل ہوئے اور اپنے ساتھ کئی دوسروں کو بھی ذلؔت کی راہ دکھلائی۔


مسلمانو غور کرو!!!


ہمارا اپنا دین ہے، قانون ہے، شریعت ہے، دستور اور نظام ہے۔   اپنی حدود میں رہ کر  جو کرنا ہے کرو۔  اپنے دشمن کو پہچانو، یہ جاننے کی کوشش کرو کہ آج ہم ذلؔت و پستی کا شکار کیوں ہیں؟    اللہ نے ہر کام کا ایک وقت مقرر کر دیا ہے اور ہمیں ہر خوشی کو ایک مناسب وقت اور جائز طریقے سے منانے کی اجازت دی گئی ہے۔


؎     اپنی ملؔت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نا کر

     خاص  ہے  ترکیب  میں  قومِ  رسولِ  ہاشمی


یہ دن کسی صورت محبت کا دن نہیں ہے بلکہ عزت کی نیلامی، غیرت کی فروخت،  حقائق سے نظر چرانے،  شیطان کو راضی کرنے اور اپنی    تباہی و بربادی کا دن ہے۔ اللہ تعالٰی نے قرآنِ مقدس میں اس کا فیصلہ فرما دیا ہے ۔ 

ترجمہ: "گندیاں گندوں کے لئیے اور گندے گندیوں کے لئیے اور ستھریاں ستھروں کے لئیے اور ستھرے ستھریوں کے لئیے وہ پاک ہیں ان باتوں سے جو کہہ یہ کہہ رہے ہیں، ان کے لئیے  بخشش اور عزت کی روزی ہے"۔

(سورۃ نور، آیت 26)


قرآن کریم کے اس حکم کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ ایسا خیال رکھنے والوں کو اپنے کردار اور عمل پر غور کرنا چاہئیے، اللہ کی نافرمانی اور عذاب سے بچنے کے لئیے توبہ و استغفار کریں اور یہ جان لیں کہ یہ دن محبت کا نہیں بلکہ غیرت کی نیلامی کا دن ہے۔ یہ دن منا کر آپ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ آپ  کا کوئی  ربؔ رسول، دین اور شریعت نہیں ہے، آپ آزاد ہیں آپ مذہب اور اللہ کی وحدانیت، رسول ﷺ کی رسالت اور قرآن کے احکامات کے غدار ہیں۔  اور دنیا میں غداری کی سزا موت ہے۔   جو کوئی بھی اس دن کو اچھا سمجھتا ہے وہ یہ جان لے کہ اس نے اللہ کے دین سے خود کو نکال لیا اور جہنم کا راہی بن گیا۔   ایسا عمل کرنے والا یہ یاد رکھے کہ اس کو بدلہ بھی چکانا پڑے گا، یہ لعنت پلٹ کر اس کے گلے پڑ جائے گی،  بہن کی شکل میں، بیٹی کی شکل میں، بیوی کی شکل میں اور کوئی بعید نہیں کی ماں ہی اس  فعل کی مرتکب ہو جائے۔   الغرض کہ یہ غیرت  و عزت کی نیلامی اور لوٹ سیل ہے۔ اللہ ہم سب کو حقیقت کا عرفان اور ادراک عطا کرے۔ آمین