Tuesday, 30 April 2013

زیتون کے فوائد



زیتون کے فوائد

میرا یہ آرٹیکل  چند ماہ قبل شائع ہوا تھا۔ ہزاروں قارئین انٹرنیٹ پر اسے پڑھ چکے اور مستفید بھی ہو چکے۔ الحمد للہ۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی اور دلی سکون ملا کہ اس آرٹیکل کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کو اپنی  صحت سے متعلق بہتری پیدا کرنے میں کامیابی ہوئی۔ ریکارڈ کی درستگی اور اپنے بلاگ کے قارئین کے لیئے یہاں شائع کر رہا ہوں۔ خود بھی پڑھئیے اور دوسروں کو بھی بتائیے۔ اللہ سب کو مکمل جسمانی و روحانی صحت دے۔ آمین۔


آج کا مضمون سیاسی ہے نا ذاتی، بلکہ انسانیت اور معاشرت کی بہتری کے لئیے ہے۔ اس نیت سے کہ اسے پڑھ کر کسی کی طبیعت اور صحت میں بہتری آئے گی۔ لہٰذا “کول مائنڈ“ ہو کر پڑھیں، کیونکہ آج کوئی اختلاف کی گنجائش نہیں۔

زیتون کرہ ارض پر موجود تمام نباتات میں سے قدیم ترین تصور کیا جاتا اور مانا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے پسند فرمایا ہے اور اس کو متعدد امراض کے علاج کے لئیے تجویز بھی فرمایا ہے۔ قرآنَ حکیم اور احادیث میں کئی مقامات پر اس کا ذکر بھی آیا اور اللہ عزوجل نے اس کی قسم بھی کھائی۔

مسلم ریاستوں اور علاقوں میں زیتون کثرت سے پایا بھی جاتا ہے اور روزانہ کی خوراک اور غذا کا حصہ بھی ہے۔ عصرَ حاضر میں غریب آدمی بہت سی پریشانیوں میں مبتلا ہو کر اپنی صحت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ ذہنی پریشانی براہ راست معدہ اور نظامَ ہضم کو برباد کر دیتی ہے۔ نتیجے میں انسان فارغ البال ہو جاتا ہے اور وقت سے پہلے بڑھاپے کا شکار بھی۔ میں نے اپنے قارئین کے لئیے متعدد کتب اور معلوماتی مواد سے زیتون کے کچھ فوائد جمع کیئے ہیں اور آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ زیتون کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھ کر عمل کیجئیے، ثواب کا ثواب اور صحت بھی بھر پور۔ انشاء اللہ عزوجل

اللہ علیم وحکیم نے زیتون کے درخت کو مبارک یعنی برکت والا کہا ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیتون کو بیشتر بیماریوں کا علاج قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیتون کی تعریف فرمائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”زیتون کا تیل کھا
اسے لگا کیونکہ یہ پاک صاف اور مبارک ہے“ زیتون کے بیشمار طبی فوائد ہیں۔ زیتون کے تیل کی مالش کرنے سے اعضاءکو قوت حاصل ہوتی ہے۔ پٹھوں کا درد جاتا رہتا ہے۔ عرق النساءکا بہترین علاج ہے۔ زیتون کے تیل کو مرہم میں شامل کر کے لگانے سے زخم بھر جاتے ہیں۔ ناسور (ہمیشہ رسنے والا پھوڑا) کو مند مل کرنے میں زیتون سے بڑھ کر کوئی دوا بہتر نہیں۔ زیتون کا تیل تیزابیت کو ختم کرتا ہے اور جھلیوں کی حفاظت کرتا ہے۔ معدہ میں کینسر یا زخم کی صورت میں زیتون کا تیل شافی علاج ہے۔ خالی پیٹ زیتون کا تیل زخموں پر دوا کا کام کرتے ہوئے معدے کو درست کرتا ہے۔ بدن کی خشکی کو دور کرنے اور جلدی امراض مثلاً چنبل اور خشک گنج میں مفید ہے سانس کے ہر قسم کے امراض کا بہترین علاج ہے۔ دمہ کے مرض کا اس سے بہتر کوئی علاج نہیں۔ انفلوئزا اور نمونیہ کیخلاف قوت مدافعت پیدا کرتا ہے۔ زیتون کا تیل کلونجی میں ملا کر ناک میں ڈالنا نکسیر کے لئے مفید ہے ۔

زیتون ایک درخت ہے جس کا پھل زیتونہ کہلاتا ہے اُس پھل سے جو تیل حاصل کیا جاتا ہے اُسے روغنِ زیتون کہا جاتاہے۔زیتون اور روغنِ زیتون کے بےشمار خواص اور فوائد ہیں۔

زیتون اور روغنِ زیتون کے بارے میں کئی احادیث میں بھی ذکر ہے اور بعض حوالوں سے اسے ستر بیماریوں کے لئے شافی قرار دیا گیا ہے۔

روغنِ زیتون سب سے زیادہ پیٹ کے امراض کے لئے مفید اور شافی ہوتا ہے۔یہبدن کو گرم کرتا ہے،پتھری کو توڑ کر نکالتا ہے اور قبض کشا بھی ہے۔

معدے کے افعال کو درست کرکے روغنِ زیتون بھوک کو بڑھاتا ہے اور آنتوں میں پڑے ہوئے سدے بھی کھول دیتا ہے۔پتے کی پتھری بھی روغنِ زیتون کے استعمال سے ٹوٹ کر خارج ہوجاتی ہے۔

زیتون کا تیل اگر تھوڑی مقدار میں دودھ کے ساتھ ملا کر پیئیں تو اس سےبتدریج السر سے مکمل طور پر نجات مل جاتی ہے اور معدے کی تیزابیت بھی ختم ہوجاتی ہے۔

دائمی اور پرانے قبض کو ختم کرنے کے لئے ایک تولہ روغنِ زیتون کو جو کےگرم پانی میں ڈال کر پیئیں تو دو تین دن کے اندر قبض سے نجات مل جاتی ہے۔

پیٹ کے اندر اگر فاسد مادے پیدا ہو چکے ہوں یا پیٹ میں کوئی زہریلی شئےچلی جائے تو اُس کا ا*ثر زائل کرنے کی خاطر زیتون کا تیل ہی سب سے موثراور اکسیر تریاق ہوگا۔

زیتون کے تیل کو کسی نہ کسی صورت میں جو لوگ کھاتے رہتے ہیں وہ کبھی آنتوں اور پیٹ کے سرطان کا شکار نہیں ہوسکتے۔

تپِ دق جیسے موذی مرض کا علاج بھی بذریعہ روغنِ زیتون شافی انداز میں کیاجاسکتا ہے۔اس مقصد کے لئے ہر روز تین اونس روغنِ زیتون براہِ راست یا دودھ میں ملا کر پینا ضروری ہوتا ہے۔یہ عمل تقریباً دو ماہ تک جاری رکھیں تو اس مرض سے مستقل طور پر نجات مل جاتی ہے۔

روغنِ زیتون کو دمہ کے مرض سے بچنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اس کےلئے شہد اور زیتون کے تیل کو برابر وزن کے ساتھ گرم پانی میں ملا کر پیناچاہیے ۔مستقل استعمال سے دمہ ختم ہو جاتا ہے ۔نزلہ زکام اور کھانسی بھی مستقل طور پر ختم ہوجاتے ہیں۔

زیتون کا تیل پسینہ خارج کرنے کا موجب بنتا ہے۔جسمانی اعضاء کو قوت اور توانائی بخشتا ہے۔

زیتون کے تیل کو جلد کی متعدد بیماریوں کے علاج کے لئے مجرد حالت میں یامرہم میں شامل کرکے اکسیر بنایا جا سکتا ہے۔یہ جلد کے تمام بیرونی عوارض میں مفید ہوتا ہے۔آگ کے جلنے سے بنے ہوئے زخموں ،پھوڑے پُھنسیوں داد اورعام زخم کے علاج کے لئے بھی زیتون کا تیل لگانا فائدہ مند ہوتا ہے۔زیتون کی مسلسل مالش سے چیچک اور زخم کے داغ دھبے ختم ہوجاتے ہیں۔

آنکھوں کی کئی بیماریوں اور سرخی و سوزش ختم کرنے کے لئے سلائی سے زیتون کا تیل آنکھ میں لگائیں تو افاقہ ہوتا ہے۔

بالوں کو گرنے سے بچانے کے لئے سفید ہونے سے روکنے کی خاطر ہر روز بالوں میں زیتون کا تیل لگانا
سب سے بڑا اور موثر نسخہ ہے۔

زیتون کے تیل کی باقاعدہ مالش کرنے سے جوڑوں کا درد اور لنگڑی کا درد ( عرق النساء ) بھی بدستور ختم ہوجاتا ہے۔

خواتین اپنے ہاتھوں ،بازوؤں اور چہرے کو نکھارنے کے لئے اور گداز رکھنے کی خاطر زیتون کے تیل کی مالش کو معمول بنا لیں تو یہ جلد کے لئے نہایت مفیدہوتا ہے۔

بچھو ،شہد کی مکھی یا بِھڑ وغیرہ کے کاٹے پر روغنِ زیتون ملنے سے جلد ہی زہر کا اثر زائل ہوجاتا ہے اور درد سے نجات مل جاتی ہے۔

روغنِ زیتون کا موسمِ سرما میں استعمال کرنے سے بالوں سے خشکی سکری دور ہوجاتی ہے۔

جو لوگ زیتون کے تیل میں کھانا بناتے ہیں وہ لاتعداد عوارض اور بیماریوں سے بچے رہتے ہیں۔

حکماء کا کہنا ہے کہ روغنِ زیتون میں خرگوش کو گوشت پکا کر کھانے سے عورتوں میں بانجھ پن ختم
ہوسکتا ہے۔

کلونجی کو بھون کر زیتون کے تیل میں پیس کر مرہم بنا کر اگر پرانی خارش یافنگس پر لگائیں تو اس سے چند دنوں میں افاقہ محسوس ہوتا ہے۔

غرض یہ کہ زیتون کے روغن میں پکے ہوئے پکوان ،اچار یا مٹھائیاں ذائقے میں منفرد ہوتی ہے اور معدے پر گراں نہیں گزرتی، زیتون کا تیل صحت اور تندرستی پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے اور معدے کی فعالیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

وسوسوں کا علاج


Wednesday, 24 April 2013

بیویوں کی قدر کیجئیے



بیویوں کے حقوق۔۔۔ عموماً یہ عنوان سنتے ہے بہت سوں کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں، کچھ خوشی کے مارے 
اور کچھ صدمے کی وجہ سے۔ موضوع ہی حساس ہے۔ حقیقت میں بھی یہ موضوع بہت ہی حساس ہے مگر  چونکہ بیوی ایک "عورت" ہوتی ہے، عورت کو عربی میں نساء کہا جاتا ہے اور پھر  کسی "انجان" وجہ سے  اردو معاشرہ میں عورتوں کے حقوق کو "حقوقِ نسواں" بھی کہا جاتا ہے۔ اکثریت نہیں جانتی کہ "نسواں" کہاں سے در آمد ہوا۔  بیوی یا عورت یا نسواں  ایک ایسا موضوع ہے کہ اگر پاکستانی معاشرے میں  اس کے ہلکی سی ہوا بھی چل پڑے تو بہت سے  "مردانہ نما" زنانہ چہرے   اس سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں اور پھر مختلف ٹی وی چینلز  پر اس کے راگ الاپتے ہیں۔  لیکن میں نے آج تک حقوقِ نسواں پر بات کرنے "والے  "کسی خاتون "صاحب" کو نسواں کا مطلب سمجھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔

ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ ہم بہت جلد غیروں سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ چِٹّی چمڑی  تو ہمارے ذہنوں میں گولی سے بھی زیادہ رفتار کے ساتھ سرایت کر جاتی ہے۔  جو الٹا منہ کر کے بات کرے اسے ہم دانشور سمجھتے ہیں، حالانکہ احساسِ کمتری کا یہ حال ہے کہ جب تک ہماری خواتین و مرد اپنی گفتگو میں انگریزی کا   بلا ضرورت  تڑکا   نہ لگائیں ان کی بات مکمل نہیں ہوتی۔ وضع قطع، طرزِ زندگی میں ہم اس قدر فکری یتیم ہو چکے ہیں کہ جیسے ہمارا کوئی شارع و رہبر ہی نہیں ہے کہ ہم غیروں کی تقلید کرتے ہیں۔ ذہنی و فکری غلامی نے ہمیں دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ہمارے معاشرے کا  ایک حصہ حد سے زیادہ جدت و بے راہ روی کا شکار ہے، یہ لوگ مغرب زدہ ہیں اور ان کا قبلہ و کعبہ بھی لندن، پیرس اور   نیو یارک میں ہے۔ جب کہ دوسرا  طبقہ ان لوگوں کا ہے جو صوفی محمد کی شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں۔  بہت چند وہ لوگ ہیں جو اعتدال کا راستہ اختیار کرتے ہیں، اعتدال کا راستہ ہی بھلائی اور بہتری کا راستہ ہے۔ یہی رسولِ امین ﷺ کا راستہ ہے۔

بیوی کے حقوق پر مجھ جیسے تہی دامن  اور  کم علم کا کچھ لکھنا  چادر سے باہر پاؤں پھیلانے کے مترادف ہے مگر میرے حلقہ قارئین و احباب میں بہت سارے لوگ اس    "مذمّن و حادّ" مرض میں مبتلا ہیں۔ روحانیت سے تعلق ہونے کی وجہ سے اکثر خواتین بھی یہ سوالات کرتی رہتی ہیں کہ شوہر عزت نہیں کرتا، گھر کا خیال نہیں رکھتا، حقوق نہیں دیتا، آپ کوئی ایسا تعویذ دیں جو اس کو پلاؤں تو وہ میرا مرید ہو جائے وغیرہ وغیرہ۔

اس طرح کے جاہلانہ اور غیر شرعی خیالات کیوں جنم لیتے ہیں؟؟؟  اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ بنیادی اسلامی فرض علوم سے ناواقفیت ہے۔    دینِ حنیف میں اللہ کریم اور اس کے رسول ﷺ نے حقوقِ زوجین بڑی وضاحت سے بیان فرما دئیے ہیں۔  سب سے پہلے تو  میں اپنے بھائیوں کی خدمت میں عرض کروں کہ ذرا پہچانئیے کہ بیوی کیا ہے؟  بیوی اللہ کی ایک مخلوق ہے، اور اشرف مخلوق ہے۔ معاشرے میں  جتنے  مرد کے حقوق اتنے ہی عورت کے بلکہ بعض مواقع و حالات کے تناظر میں عورت کے حقوق مرد سے زیادہ مقدم رکھے گئے۔  جو ضروریات ایک مرد کی ہیں وہی ایک عورت کی ہیں۔ لباس، طعام، معاملات، عبادات، خانگی و معاشرتی ذمہ داریاں اور پھر مذہب و  سیاست تک عورت برابر کی شریک ہے۔   رسول رحمتﷺ نے بیوی کے حقوق کی بنیاد اپنے گھر سے رکھی، ایک تاجرہ خاتون کو  اپنی زوجہ بنانے کا شرف بخشا تو دوسری طرف سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خاتون محدث بنایا۔  تعلیم و تعلم، سیاست و معاشرت میں شریک فرمایا۔

ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ فسادات جن امور پر ہوتے ہیں ان کا اسلام سے کوئی رشتہ نہیں، مثلاً  بیوی نے میرے کپڑے نہیں دھوئے، کھانا بر وقت نہیں بنایا، میرے جوتے پالش نہیں کئیے، گھر کی صفائی نہیں کی، کھانے میں مرچ زیادہ ڈال دی،  سوتی بہت زیادہ ہے، کھاتی بہت زیادہ ہے،  میرے پاؤں نہیں دبائے،  جہیز نہیں لائی، میرے لئیے پیسے ادھار مانگ کر نہیں لائی ، میری ماں کی خدمت نہیں کرتی، میری بہنوں، بھائیوں کو کھانا پکا کر نہیں دیتی وغیرہ وغیرہ۔

عزیزانِ گرامی!
اللہ وحدہ لاشریک کی عظمت کی قسم ،مندرجہ بالا امور میں سے کوئی ایک  کام بھی عورت کا فرض نہیں ہے۔ شوہر کے والدین، بہن بھائی، عزیز و اقارب کی خدمت کرنا عورت کا فرض نہیں ہے۔ شوہر کے جوتے صاف کرنا، اس کے کپڑے دھونا،  کھانا پکانا، گھر کی صفائی کرنا عورت کا فرض نہیں ہے۔ بلکہ یہ وہ کام ہیں جو مرد کی ذمہ داری ہے کہ اس کے لئیے وہ خود کوئی متبادل انتظام کرے۔ ہاں اسلام نے ان امور میں شوہر کی مدد کرنے والی بیوی کو بہت عظمتیں عطا فرمائی ہیں۔  اخلاقی طور پر بھی بیوی کو شوہر کی مدد کرنی چاہئیے مگر چودہ سو سالوں کے مسلم فقہاء اور علماء  نے اس پر ٹھیک ٹھاک بحث کی ہے اور کسی نے بھی مندرجہ بالا امور کو عورت کے  شرعی فرائض میں داخل نہیں کیا۔   اب ان امور کی انجام دہی کے لئیے عورت پر تشدد کرنے والا ظالم اور گمراہ ہے۔ یہی علماء کا اتفاق ہے۔

اب تھوڑا سا ان معاملات کو سمجھنے کی کوشش کیجئیے کہ عورت یہ معاملات ادا نا کر پائے تو اس پر سختی کیوں نہیں کرنی چاہئیے۔  سنِ بلوغت کو پہنچ کر  نکاح کرنا ہر صحت مند  انسان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسلام میں نکاح  کو نصف ایمان کی تکمیل قرار دیا گیا۔ جنسی تسکین کے ساتھ ساتھ امورِ حیات میں ایک مشیر کا حصول بھی مقصد ہے۔ تشدد کرنے والے اور بات بات پر بگڑنے والے دوست غور کریں کہ ہمارے معاشرے میں لونڈیوں اور کنیزوں کا رواج بہت کم ہے۔ فجر میں اٹھنے والی عورت  سب سے پہلے شوہر کو ناشتہ پیش کرے، پھر بچوں کے سکول کی تیاری، کچن کی صفائی ستھرائی،  کپڑوں کی دھلائی، مہمانوں کی آؤ بھگت، دوپہر کا کھانا، پھر شام کا کھانا، پھر بچوں کی پڑھائی اور بہت سارے غیر معمولی کام یہ ایک عورت ہی کرتی ہے۔  اسے ایک انسان سمجھئیے نہ کہ کام کی مشین۔  ویسے تو مشین بھی ایک خاص حد تک چل کر تھک جاتی ہے۔  اب شام کو جب شوہر گھر لوٹے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی بن سنور کر بیٹھی ہو، میں جاؤں تو وہ میری لذت کا سامان کرے مگر بیوی اس کے بر عکس مریضہ بن کر بیٹھی ہوتی ہے۔ وجوہات میں نے بیان کر دیں۔

اب ان امور  کو انجام نا دینے پر اسلام میں شوہر کے لئیے سخت وعدیں آئی ہیں۔  کم علمی کی بنیاد پر ہمارے لوگ  ایسی ناراضگی اختیار کرتے ہیں کہ بات طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ملاحظہ ہو؛

 حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تو کھائے تو اسے کھلا ، جب تو لباس پہنے تو اسے بھی پہنا اور اسکے چہرے پر مت مار ، نہ اسے برا بھلا یا بدصورت کہہ اور اس سے بطور تنبیہ علیحدگی اختیار کرنی ہوتو گھر کے اندر ہی کر ۔
سنن أبوداؤد : 3143 ، النكاح
اس فرمان سے وہ لوگ سبق حاصل کریں جو بلا وجہ ناراض ہو کر گھر سے چلے جاتے  اور تشدد کرتے وقت منہ پر طمانچے رسید کرتے ہیں۔ اس حدیث کا ایک ایک لفظ سبق آموز ہے۔

اللہ کے حبیب ﷺ نے ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا کہ عورت کو ٹیڑھی ہڈی سے پیدا کیا گیا، اگر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو ٹوٹ جائے گی۔    جب سید الرسل ﷺ اس دنیا سے تشریف لے جا رہے تھے تو حکماً فرمایا عورتوں کے حقوق بارے اللہ سے ڈرو۔ اندازہ فرمائیں کہ تمام نبیوں کے سردار آقاﷺ اپنی ظاہری حیاتِ مبارکہ کی آخری گفتگو میں بھی عورتوں کے حقوق بیان فرما رہے ہیں۔ اس گفتگو کے بعد آپ ﷺ دنیا سے  تشریف لے  گئے۔

جو عورت صبح سے لے کر رات گئے تک گھر کے سارے کام کرے، ایامِ حمل میں سخت تکالیف سے گزرے، بیماریوں اور مشکلات کا سامنا کرے، راتوں کو جاگ کر بچوں کو سنبھالے،  گھر کا سارا نظام چلائے تو اس کے ساتھ سختی نہیں بلکہ نرمی کی ضرورت ہے۔  اگر اس کے اندر کوئی خرابی ہے تو اسے سب کے سامنے بیان نا کریں، اسے تنہائی میں سمجھایا جائے۔ محبت فاتحِ عالم ہے، محبت کی زبان استعمال کریں۔ اس کی بے شمار خامیوں پر پردہ ڈالیئے اور احساس کیجئیے کہ اس کی وجہ سے آپ کی زندگی میں کتنی آسانیاں ہیں۔  اگر بیوی نا ہوتی تو آپ کی زندگی کے معمولات خراب ہو جاتے، گھر کی اندرونی حالت سے لے کر کام کرنے کی جگہ تک بے رونقی و بد مزگی ہوتی۔  انسان سارا دن کام کر کے تھکا ماندہ آئے تو گھر میں اس کی خدمت کا انتظام موجود ہوتا ہے۔ اللہ کی نعمتوں کی قدر کرنا سیکھئیے۔ وہ اللہ جو سب جہانوں کا خالق و مالک ہے اس کا خوف پیدا کیجئیے کہ ہم اگر بیویوں پر سختی کریں تو کیوں؟؟؟ اللہ ہمارے کتنے گناہ معاف فرماتا ہے، قتل، جھوٹ، غیبت، زنا، بد کاری، بد اخلاقی، حرام کھانا وغیرہ۔۔۔ کتنے ایسے گناہ ہیں جن پر اللہ نے پردہ پوشی فرما رکھی ہے۔ جتنی سختی ہم بیوی پر کرتے ہیں کیا اتنی ہی سختی ہم اپنی شادی شدہ بہن کے لئیے برداشت کر سکتے ہیں؟  یا پھر اگر ہمارے  بڑے بڑے گناہوں پر مقرر شرعی سزائیں اگر سنائی جائیں تو کیا ہم برداشت کر پائیں گے؟ یا کیا ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے برے افعال پر اگر اللہ عدل کرنے لگے تو ہمارا کیا  حال ہو گا؟    بات احساس پیدا کرنے کی ہے۔ جس دل میں اللہ کا خوف نہیں اور وہ بات بات پر روک ٹوک، تشدد و سختی پر اتر آئے سمجھ لیں کہ وہ خود کو اللہ  سے ٹکر انے کی کوشش کر رہا ہے۔ دل میں خوف پیدا کجئیے کہ اگر اللہ کریم ہمارے گناہوں سے پردہ اٹھا دے اور ہمارے اعمال ہماری بیوی اور دیگر لوگوں پر ظاہر کر دئیے جائیں تو ہمارا کیا حال ہو گا۔

انسان اپنے معاشرے سے سیکھتا ہے۔ آپ کے گھر میں جیسا  ماحول ہو گا ویسی ہی آپ کی بیوی ہو گی۔ رزق کی تنگی، معاشرتی مسائل اور امورِ دنیا کی پریشانیوں کو اپنی بیوی پر مسلط نا کیجئیے بلکہ اس کے ساتھ بیٹھ کر ان مسائل کو زیرِ بحث لائیں تاکہ ان کا حل نکل سکے۔

بس دل میں اللہ کا خوف پیدا کیجئیے اور بیوی کو غلط کہنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ آپ کو بھی اللہ کی بارگاہ میں جواب دینا ہے۔ مضمون بہت طوالت اختیار کر گیا۔ اللہ تعالٰی ہمیں حق جاننے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق 
دے۔ آمین

رابطہ کے ذرائع

Facebook pages:
Email: iftikhar.abu.hasaan@gmail.com


Sunday, 21 April 2013

جنات سے بچاؤ کے وظائف

جناّت کے وجود، نسل، موجودگی، اسباب اور وجوہات پر گزشتہ کچھ مراحل میں بات کر چکے ہیں۔   جو بساط میں تھا اور جو موجودہ معاشرتی حالات کا تقاضا تھا اس کے پس منظر میں جو  مناسب معلومات میسر آ سکیں وہ آپ  احباب کی خدمت میں پیش کر دیں۔ 

جنّات کی حملے، ان سے بچاؤ  وغیرہ کے عملیات  میں نے بچپن سے ملاحظہ کیئے ہیں۔ کئی عامل پچھنے لگاتے ہیں، جسم سے خون نکالتے ہیں۔ کچھ بابے مریض کو مار مار کر ادھ موا کر دیتے ہیں۔ اور کئی عاملین تو اپنے ڈنڈے سے مریض پر  یوں حملہ آور ہوتے کہ ہڈی پسلی توڑ دیتے ہیں۔ در اصل یہ لوگ صحیح معنوں میں  عامل نہیں ہوتے بلکہ لکیر کے فقیر ہوتے ہیں۔  ایک صاحب عمل، تجربہ کار اور  مستند روحانی معالج کبھی بھی تشدد وغیرہ نہیں کرتا، بلکہ  اللہ تعالٰی اس کی ذات میں یہ کمال پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے وجود کی برکت سے ہی شیاطین بھاگ جاتے ہیں۔ عموماً حاضری کروانے کی نوبت بھی نہیں آتی اور دم کرنے سے ہی شیاطین اور خبیث ارواح و جنّات دفع ہو جاتے ہیں۔ میں نے اپنے مشائخ و اساتذہ کو اس طرح کی حرکات کرتے نہیں دیکھا۔ الحمد للہ تعالٰی۔

آج کے اس مضمون میں  جنّات، شیاطین اور جادو وغیرہ سے بچاؤ اور تحفظ کے کچھ وظائف  پیش کرتا ہوں۔  تمام مؤمنین و مؤمنات جن کے دل میں انبیاء کرام علیہم السلام ، سرکارِ مدینہ ﷺ، اہلِ بیتِ اطہار، صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اولیاء کاملین کی محبت، ادب و احترام موجود ہے وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔  بد مذہبوں کو وقت کے ضیاع کے سوا کچھ ہاتھ نا آئے گا۔  اگر آپ اس سے قبل   "جادو، جنّات اور شیطانی اثرات کے اسباب" والا مضمون پڑھ لیں تو انشاء اللہ بہت فائد ہ ہو گا۔


عمل نمبر1:  جس گھر یا جگہ پر جنات کا سایہ موجود ہو وہاں مقیم تمام انسان با وضو رہیں۔ جسم و لباس پاک رکھیں۔ روزانہ  صبح شام 7-7 مرتبہ اذان کہیں۔ اذان کہتے وقت منہ قبلہ رخ رکھیں۔ ہاتھ کانوں تک اٹھانے کی ضرورت نہیں۔  اذان کے ساتھ  سورۃ مؤمنون کی آخری  چار  آیات  7 مرتبہ پڑھیں۔  سورہ مؤمنون کی آیات ذیل میں ہیں۔

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُون
َ فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمَِ وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَـٰهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ
 ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ وَقُل رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ

اگر جنات کا حملہ شدید ہو اور بار بار تنگ کریں تو ہر پندرہ منٹ بعد اس عمل کو دہرائیں۔ کوئی قید نہیں کہ کتنی بار کرنا ہے۔ جتنا زیادہ ہو گا اتنی جلدی خلاصی ہو گی۔  چاہئیے یہ کہ اس عمل کو لمبے عرصے تک جاری رکھا جائے تاکہ مستقل  نجات ملے۔

اہلِ سنت کے امام ، مجدد دین و ملت، اعلٰحضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی عمل ارشاد فرمایا ہے۔

عمل نمبر2 : سورہ اخلاص، سورہ الفلق اور سورہ الناس  11-11 مرتبہ صبح و شام۔

عمل نمبر3- سورہ البقرہ روزانہ زیادہ سے زیادہ پڑھیں۔ یا پھر کم از کم ایک مرتبہ ضرور پڑھیں۔

عمل نمبر4-  روزانہ گھر پر فاتحہ کا اہتمام کریں اور اس کا ایصالِ ثواب تمام انبیاء و رسل علیہم السلام، سید المرسلین ﷺ، اولاد و اصحابِ رسول، رضوان اللہ علیہم  اور  اولیاء امت خصوصاً سیدنا غوث الاعظم و امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کو پیش کریں۔

مذکورہ تمام اعمال و وظائف  جنّات کے حملوں کو بڑھنے سے روکیں گے۔  اللہ نے چاہا تو دفع بھی کریں  گے مگر ایک بات ذہن نشین  کر لیں کہ جس قدر بڑا حملہ اس قدر اعلٰی معالج کی ضرورت ہوتی ہے۔  عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی گھر  میں جنات   داخل ہوتے ہیں تو پھر پورے کا پورا خاندان، بعض اوقات تو پورا محلہ اور گاؤں ہی ان کی نحوست و قبضہ میں آجاتا ہے۔ کسی ایک کا علاج کیا جائے تو ساتھ میں بہن، ماں ، بھائی اور گھر کے دیگر افراد بھی اس مصیبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جب جنات کو نکالا جاتا ہے تو وہ جاتے وقت کچھ شرارتیں  بھی کرتے ہیں اور توڑ پھوڑ بھی کر گزرتے ہیں۔  ایسا بھی مشاہدہ ہوا کہ خاندان کا ایک فرد پاکستان سے باہر کسی دوسرے ملک میں مقیم ہے تو بیک وقت جنّات  اندرون و بیرونِ ملک موجود  لوگوں کو تنگ کر رہے ہیں۔   اس صورتحال میں سورہ مؤمنون کی آخری آیات اور اذان والا عمل بہت مفید ہے۔

ان شیاطین کی مستقل سر کوبی کے لئیے کسی اچھے مستند، کامیاب  روحانی معالج سے مشورہ کریں۔  اس سلسلہ میں بعض اوقات  عامل صاحبان دم کر دیتے ہیں، کبھی حاضری کی ضرورت پیش آتی ہے، اور کبھی کبھار تو عامل متاثرہ جگہ سے گزر جائے تو اسی سے  شفاء مل جاتی ہے۔  علاج کا کم از کم دورانیہ کچھ سیکنڈ ہے اور زیادہ سے زیادہ کئی ماہ تک بھی چلتا ہے۔ اس مسئلہ میں افراتفری نقصان دیتی ہے۔ تحمل و برداشت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ جب علاج کروائیں تو اس کے ساتھ ساتھ مذکورہ وظائف خصوصاً اذان و سورہ مؤمنون والا عمل  جاری رکھیں۔

اللہ کریم دنیا بھر میں موجود ہمارے بھائیوں اور بہنوں کو ان مسائل سے نجات دے۔ ہم سب کو ایک دوسرے کے لئیے آسانیاں پیدا کرنے کی توفیق دے۔ بد گمانیوں سے محفوظ رکھے۔
ہمارا فیس بک پیج:
ای میل:
iftikhar.abu.hasaan@gmail.com

  

Thursday, 18 April 2013

اے کالے پتھر تجھے سلام



بہت دن بیت چکے تھے  میں نے کالے پتھر کے سات پھیرے نہیں لگائے تھے۔   دل اداس تھا، من مچل ر تھا اور آنکھیں اس کی دید کی مشتاق تھیں۔  بالآخر کفن باندھا اور  کالے پتھریلے پہاڑوں کے بیچوں بیچ میں روانہ ہو گیا۔  شہر میں  شدید ہجوم تھا، ہر اٹھتا ہوا قدم اس پتھر اور کالی دیواروں کی جانب بڑھ رہا تھا۔ طلوعِ آفتاب کا وقت قریب تھا مگر اس کے باوجود  دھوپ کی طمازت بھی قائم اور  کالے پتھریلے پہاڑوں   کی چوٹیوں سے گرمی بھی برس رہی تھی۔
مغرب کی اذان سے چند لمحات قبل اس کالے پتھر کے اردگرد موجود در و دیوار نے ٹھنڈی ہوائیں چلا دیں اور   قلب و جان کو فرحت محسوس ہوئی۔ مؤذن نے فلاح و کامرانی کا  بلاوا  دیا اور میں نے   آمنہ کے دلارے ﷺ کی جائے ولادت کے پاس سے گزرتے ہوئے سلامِ عقیدت پیش کیا اور داخلِ حرم ہو گیا۔ 

یہ کالا پتھر کعبۃ اللہ میں موجود ہے اور یہ کعبۃ اللہ  بیت المقدس سے چالیس سال قبل  جد الانبیاء سیدنا ابراہیم خلیل اللہ  علیہ السلام نے تعمیر فرمایا۔ صاحبِ روح البیان نے اس کی تعمیر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ تخلیقِ آدم سے دو ہزار سال قبل اس کی تعمیر ہوئی۔ اللہ نے مٹی، گارے اور پتھر سے بنے ہوئے اس گھر کو برکات و فضائل  کا منبع بنا دیا اور پھر یہاں تک کہہ دیا کہ یہ میرا گھر ہے۔  جس نے اس کے راز کو پا لیا اللہ نے اسے    دین و دنیا میں کامیاب فرما دیا اور خشک ذہن، نقاد بے سبب اور بغض و حسد  سے بھرپور قلوب و عیون آج تک   اس کی اصلیت کو پہچاننے کی بجائے مبتلائے کفر و عناد ہیں۔   شخصیات و اسلاف کی عظمت کے منکرین، دین میں ہر قدم پر کفر و شرک، بدعت و گمراہی کے فتووں کی لوٹ سیل لگانے  والوں  نے امت کو اس قدر الجھا دیا ہے کہ بھولے بھالے مسلمان اس قدر گمراہی کا شکار ہو گئے کہ ذات رسول ﷺ کو بھی متنازعہ بنا دیا گیا۔  افضل البشر،  نور من نور اللہ ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات تک پہنچنا بہت بعید ہے،  ہم اس  چار دیواری میں موجود مصطفوی نشانیوں کو پہچان پائیں تو   بغض و عناد اور کفر و شرک کی توپوں سے مسلح دماغوں کو راہِ نجات مل جائے۔

کالی دیواروں کا طواف کرتے ہوئے مجھے بار بار یہ خیالات آرہے تھے کہ اے پتھروں کے گھر تجھ میں ایسی کیا خوبی ہے کہ انسان تو انسان پرندے بھی تیرا احترام کرتے ہیں، اگر پرندوں کا کوئی گروہ ہوا میں گزرتا ہوا تیرے قریب آ جائے تو وہ منتشر ہو جاتے ہیں اور تیرے اوپر سے نہیں گزرتے، اگر کوئی پرندہ بیمار ہو جائے تو وہ حصولِ شفاء کے لئیے تیری ہواؤں میں پرواز کر کے  شفاء پاتا ہے، تیری سر زمین پر کتے ہرن کا شکار نہیں کرتے اور جانور بھی کسی  کو ایذا نہیں دیتے۔  دنیا کے عین وسط میں واقع اس گھر  میں ہر شب جمعہ کو ارواح اولیاء  حاضر ہوتی ہیں اور جو کوئی اس کی بے حرمتی کا قصد کرے وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ تیرے اندر ایسی کون سے خصوصیت ہے کہ  اس شہر میں انسانوں کا بہتا ہو دریا جوق در جوق تیری طرف بہہ رہا ہے اور قدرتِ  خداوندی کی وسعتیں انہیں خود میں سمو رہی ہیں۔



پانچ پہاڑوں کے مٹی اور پتھروں سے بنایا جانے والا یہ گھر  امتِ محمدی کے ہر ہر گناہ گار کو دعوت دیتا ہے کہ تو گناہوں کہ پہاڑ اٹھا کر لا اور میرے دامانِ کرم میں ڈال، میں ان گناہوں کو نیکیوں کی شکل میں لوٹاؤں گا۔

اذانِ مغرب کے بعد  کفن پوش مرد و خواتین رک گئے اور نمازِ مغرب ادا کی گئی۔ بظاہر بہت بلند نظر آنے والا کعبہ اور کالا پتھر  چہار اطراف سے  پہاڑوں میں گرا ہوا ہے اور بہت  گہرائی میں واقع ہے۔  جونہی نماز ختم ہوئی تو پھیرے لگانے کا یہ سلسلہ پھر شروع ہو گیا۔  دنیا ومافیہا سے بے نیاز بچے بوڑھے  اور جوان اپنی اپنی زبانوں میں اپنے رب کو پکار رہے تھے، فارسی، ترکی، عربی، انگریزی، اردو اور حتٰی کے اپنی علاقائی زبانوں میں حق تعالٰی جل شانہ سے ہم کلامی کے عملی مظاہرے ہو رہے تھے۔ کوئی آنکھوں سے دریا بہا بہا کر اپنے   گناہوں  پر نادم و شرمندہ تھا تو کوئی اپنے  خالق کی عظمت کی تسبیحات  بیان کر رہا تھا۔

انسانوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے، بغیر کسی نسلی امتیاز، قوم و نسل، رنگ و  ذات اور عرب و عجم کا فرق کئیے بغیر ہر کوئی  اس طرح محوِ طواف تھا کہ شاید دنیا کا ہر کام ایک لمحہ کے لئیے رک گیا ہو۔  کالے غلاف میں لپٹے ہوئے کعبے اور کالے رنگ کے اس پتھر کے اردگرد لوگ اس طرح سے رواں تھے جیسے کوئی بہتا ہوا دریا۔ کالے پتھر کے مقابل پہنچے تو اچانک میرے پیچھے سے ایک آواز آئی "السلام علیکم  یا حجر الاسود"، (اے کالے پتھر تجھے سلام)۔  طویل القامت افریقی النسل  باشندے کے چہرے کی ظاہری سیاہی دیکھ کر مجھے اس کے دل کی سفید ی اور منہ سے نکلنے والے ان مبارک الفاظ پر رشک آیا ۔

اللہ کریم تیرا منہ سلامت رکھے۔

خدا تجھے آباد رکھے۔

میری آنکھیں ایک لمحہ کے لئیے نم ہو گئیں اور پھر دل و دماغ کئی صدیاں پیچھے چلے گئے کہ "اے کالے پتھر تجھے کیوں سلام"؟؟؟

پھر دل بولا ۔۔۔ ہاں تجھے سلام، اے کالے پتھر تجھے سلام۔۔۔۔ کہ تجھے میرے مصطفٰی ﷺ نے چوما ہے۔۔۔ تجھے وہ سعادت حاصل ہے جو جہاں میں کسی اور کے پاس نہیں کہ تجھے میرے کریم ﷺ نے اس جگہ پر رکھا تھا۔۔۔ اے کالے پتھر تجھے سلام۔۔۔ تجھے میرے کریم نے ایک  نہیں  بلکہ سولہ  بار چوما تھا۔ تو کتنا عظیم ہے۔۔۔ تو کتنا سعید ہے۔۔۔ تیرے اندر برکات   و رحمت کا دریا رواں  ہے۔۔۔ تیرے اندر رحمت الٰہی کا سمندر ہے۔۔۔ تجھےتو گلِ قدس کی ان پتیوں سے نسبت ہے جن کی برکت سے  اللہ رزق و طعام میں برکت عطا فرما دیتا ہے۔  

مگر۔۔۔

ہم تیری عزت کیوں کریں؟  ہم تجھے کیوں چومیں؟  اس حبشی النسل دیوانے نے تجھے  حرفِ ندا سے  پکار کر شرک نہیں کیا؟   تو ایک پتھر ہے اور یہ تجھ "یا" کہہ کر پکار رہا تھا کہ " اے کالے پتھر تجھے سلام"۔  یہاں تو  فتوے دئیے جا رہے ہیں کہ  جس نے تجھے عزت بخشی اس کو بھی "یا رسول اللہ" نا کہا جائے کہ یہ شرک اور بدعت ہے۔   کیا اس  افریقی حبشی کو بھی امام احمد رضا نے  "یا"  کہنا سکھایا تھا؟ یا پھر کیا تو کوئی جاندار ہے؟   کیا تو زندہ ہے؟

واہ میرے مالک۔۔۔ تیری قدرت ہماری سوچوں سے بالا تر ہے۔ عشق کا کوئی قانون نہیں، محبت پیمانوں اور اوزانوں میں مقید نہیں ۔ عشق و محبت اپنے راستے خود بناتے ہیں۔

اب میں نے بھی انہیں الفاظ میں کالے پتھر کو مخاطب کیا اور سلام کہا۔۔۔ اس ترمیم کے ساتھ کہ   اے کالے پتھر تجھے سلام مگر۔۔۔ یاد رکھ۔۔۔ تجھے سلام اس لئیے کہ تجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ تجھے  ہم غریبوں کے آقاﷺ نے چوما تھا۔۔۔ بس۔۔۔ اس کے سوا تیری کوئی عزت نہیں۔  اور یہ عقیدہ ہمیں مرادِ رسول سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے عطا فرمایا ہے۔۔۔

اے کالے پتھر تجھے سلام۔۔۔ تجھے لاکھوں سلام۔۔۔ تو قیامت تک چوما جاتا رہے گا۔۔۔ لوگ تیرے وسیلے سے دعائیں کریں گے۔۔۔ چومیں گے تجھے مگر ملیں گے خدا کو۔۔۔ بوسے تیرے لیں گے گناہ اپنے بخشوائیں گے۔

اے کاش ان عقل کے اندھوں کو سمجھ آ جائے جو کالے پتھر سے تو برکت حاصل کرتے ہیں مگر جس نے اس پتھر کو برکت دی اس کے دربار سے برکت کے حصول کو شرک کہتے ہیں۔

تجھے سلام۔۔۔ کالے پتھر تجھ پر لاکھوں سلام۔۔۔ میرے سوہنے مکی مدنی ﷺ کے زندہ معجزے تجھے سلام۔

پتلی   پتلی   گل ِ  قدس    کی    پتیاں

ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام


حجر  اسود   و  کعبہ  جان  و  دل

یعنی مہر نبوت پہ لاکھوں سلام


کعبہ دین و ایماں کے دونوں ستون

ساعدین رسالت پہ لاکھوں سلام

Saturday, 6 April 2013

ایفائے عہد، اخوت اور استقامت


(یہ تحریر اس سے قبل متعدد مرتبہ شائع ہو چکی ہے۔ ریکارڈ کی حفاظت اور محبان رسولﷺ کے ذوق کے لئیے بلاگ پر بھی پوسٹ کر دی ہے)۔




دو نوجوان سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں یا عمر رضی اللہ عنہ یہ ہے وہ شخص!

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں ، کیا کیا ہے اس شخص نے؟

یا امیر المؤمنین، اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔

کیا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں، کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟

وہ شخص کہتا ہے : ہاں امیر المؤمنین، مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ۔

کس طرح قتل کیا ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں۔

یا عمر رضی اللہ عنہ، انکا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔

پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اسکی سزا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔

نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں، نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کسقدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کی تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ہے!! کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے۔ حتی کہ سامنے عمر رضی اللہ عنہ کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے ا ے امیر المؤمنین: اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجیئے تاکہ میں انکو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحراء میں جا کر واپس بھی آجائے گا؟

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے، خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔

کون ضمانت دیتا ہے اس کی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔

اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ سے اعتراض کرے، یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے۔ اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کا سوچ سکے۔

محفل میں موجود تمام افراد پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکے مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا!

خود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں، معاف کر دو اس شخص کو۔

نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔

عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ، اے لوگو ، ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی!

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ابوذر ، اس نے قتل کیا ہے۔

چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو، ابوذر رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔

عمر رضی اللہ عنہ: جانتے ہو اسے؟

ابوذر رضی اللہ عنہ: نہیں جانتا اسے۔

عمر رضی اللہ عنہ: تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟

ابوذرضی اللہ عنہ : میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا، انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔

عمر رضی اللہ عنہ: ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔

امیر المؤمنین، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کیلئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے، اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے، اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔

اور پھر تین راتوں کے بعد، عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے، انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت شہر میں منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔

ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔

کدھر ہے وہ آدمی؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں۔

مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین، ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں۔

ابوذر رضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔

محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے؟

یہ سچ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں، لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔

مغرب سے چند لحظات پہلےوہ شخص آ جاتا ہے، بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔

عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا!

امیر المؤمنین، اللہ کی قسم، بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحراء میں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر کی طرف رخ کر کے پوچھا ابوذر رضی اللہ عنہ ، تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی؟

ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا، اے عمر رضی اللہ عنہ ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟

نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا، اے امیر المؤمنین، ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو انکی داڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے۔۔۔۔

اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔

اے ابو ذر رضی اللہ عنہ! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے۔

اور اے شخص، اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے۔

اور اے امیر المؤمنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔

محدثین میں سے ایک یوں کہتے ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اسلام اور ایمان کی سعادتیں تو عمر رضی اللہ عنہ کے کفن کے ساتھ ہی دفن ہو گئی تھیں۔

وہ عمر جس کے اعداء پہ شیدا سقر
اس خدا دوست حضرت پہ لاکھوں سلام

فارق حق و باطل امام الہدیٰ
تیغ مسلول شدت پہ لاکھوں سلام

ہمارا فیس بک پیج لنک: https://www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi