Saturday, 15 June 2013

دعوتِ اسلامی کی روحانی علاج خدمات



فیضانِ دعوت اسلامی





دعوتِ اسلامی کی روحانی علاج خدمات


"دعوتِ اسلامی"  کا تعارف لکھنے کی حاجت نہیں ہے۔  ایک غیر سیاسی اور تبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر تحریک ہے۔ سو کے قریب ممالک میں  دعوتِ اسلامی کا کام موجود ہے۔  امیرِ دعوتِ اسلامی حضرت مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم القدسیہ عصرِ حاضر  کے چند ایسے اولیاء و بزرگانِ دین میں سے ہیں جن کی بات حجت کا درجہ رکھتی ہے۔ کروڑں دلوں کا چین اور قرار ہیں۔ ان کی عاجزی، انکساری اور عشقِ رسول ﷺ  کا یہ حال ہے کہ مدنی چینل پر لاکھوں لوگ انہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنی روایتی سادگی، اتباعِ سنت اور  درویشانہ رویہ میں تبدیلی نہیں آنے دیتے۔ یہ کوئی تصنّع نہیں بلکہ  ایک حقیقت ہے۔

دعوتِ اسلامی  نے زبانی تبلیغ کے ساتھ ساتھ دورِ جدید کے ہر محاذ پر کام کیا۔ نئی ٹیکنالوجی اور میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔  دعوتِ اسلامی اس وقت  دنیا کی واحدجماعت ہے جس کا نظم و ضبط اور  انتظام و انصرام جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔   ہر ہر شعبہ میں مستند و ماہر اسلامی بھائیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔  تبلیغ، تحقیق، تفتیش، فقہ ، حدیث، تفسیر، سائنس، گونگے بہرے لوگوں کے مراکز، جیل خانہ جات میں تربیت، تعلیمِ بالغاں، اسلامی بہنوں کے مراکز، ہسپتال و شفاء خانے، غرباء و مستحقین کی خدمت،  اسلامی  مدنی یونیورسٹی کا قیام،  جدید خطوط پر طباعت و اشاعت کا کام،  پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں مدنی چینل  جیسے سارے کام  دعوتِ اسلامی کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔  

انہیں خدمات میں سے ایک اہم خدمت جو وقت اور معاشرہ کی ضرورت ہے وہ  "روحانی علاج" ہے ۔   دعوت ِ اسلامی نے اس کام کو جدید اور مربوط انداز میں پیش کیا ہے۔  یہ روحانی علاج کا سلسلہ اپنی مثال آپ ہے۔  دنیا بھر میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔   امتِ مسلمہ اپنے ہاتھوں کئیے ہوئے گناہوں کی وجہ سے مبتلائے مصیبت ہے۔  کوئی بیمار لاچار ، کوئی اولاد کے ہاتھوں بیزار، کوئی صحت کی وجہ سے پریشان اور کوئی کاروبار  میں نقصان کی وجہ سے سکون کھو بیٹھا ہے۔ دعوتِ اسلامی  کے امیر قبلہ  شیخِ طریقت مولانا محمد الیاس قادری حفظہ اللہ تعالٰی  کو متعدد مشائخ و بزرگان نے اجازت و خلافت سے نوازا تاہم آپ طریقت میں سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ  کے مبارک خاندان  ہی کی تعلیمات پر عمل فرماتے ہیں۔   پاکستان کے ہر ضلع اور تحصیل کی سطح پر "تعویذاتِ عطاریہ" کے نام سے  بستے/سٹال قائم ہیں جہاں عمومی طور پر  سوائے جمعۃ المبارک  روزانہ عصر تا مغرب روحانی علاج کی خدمات پیش کی جاتی ہیں۔ اس سلسلہ میں قطعاً کوئی  فیس یا پیسہ وصول نہیں کیا جاتا۔  دعوتِ اسلامی کے مراکز میں صرف اسلامی بھائیوں کو ہی روحانی علاج کے لئیے جانے کی اجازت ہے۔ اسلامی بہنیں یہ خدمت اپنے کسی محرم کو بھجوا کر حاصل کر سکتی ہیں۔   میں چشم دید گواہ ہوں میری گلی میں رہنے والا ایک لڑکا جو پیدائشی گونگا اور بہرہ تھا اللہ تعالٰی نے اسے دعوتِ اسلامی کی برکت سے سننے اور بولنے پر قدرت عطا فرما دی۔  الحمدللہ علٰی احسانہ۔ 

دعوتِ اسلامی کی یہ خدمت آنلائن بھی دستیاب ہے۔ اس سے اسلامی بہنیں بھی فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ آنلائن خدمت کے ذریعے آپ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ پر جا کر فارم پر کرکے بھجوا دیں، مرکز والے آپ کو ای میل کے ذریعے روحانی علاج ارسال کر دیں گے۔ اس میں کچھ تاخیر بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ہزاروں ای میلز کا جواب دینا آسان کام نہیں ہوتا۔
دعوتِ اسلامی کی آنلائن  روحانی خدمات کے حصول کے لئیے  اس لنک پر رابطہ کریں۔

اسی طرح روزانہ صبح نو بجے تا اگلی صبح پانچ بجے تک (پاکستان ٹائم) ٹیلی فون پر بھی استخارہ کیا جاتا ہے۔ اسلامی بہنیں کال نہ کریں بلکہ اپنے کسی محرم کے ذریعے کال کریں۔ ٹیلی فون  پر استخارہ کے لئیے  دعوتِ اسلامی کراچی مرکز کے اس نمبر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے: 00922134858711

یہ   لنک اور نمبر میں نے اس لئیے   لکھ دئیے کہ بہت سارے اسلامی بھائی اور بہنیں روحانی علاج کے لئیے جب مجھ سے رابطہ کرتے ہیں تو  وہ ملاقات  کا وقت مانگتے ہیں، یا رابطہ نمبر مانگتے ہیں۔ میں پاکستان سے باہر مقیم ہوں۔ اس لئیے نہ ہی ملاقات ممکن ہوتی ہے اور نہ ہی رابطہ نمبر عام کیا  جاسکتا ہے۔ لہٰذا میں نے دعوتِ اسلامی  سے رابطہ کی تفاصیل یہاں درج کر دیں۔ کیونکہ میرا  بھی اسی روحانی خاندان سے تعلق ہے جس سے دعوتِ اسلامی فیض  تقسیم کر رہی ہے۔ مقصد بھی ایک ہے۔ وہ بھی فی سبیل اللہ اور رضائے الٰہی کے حصول کے لئیے کام کر رہے ہیں اور میرے مرشد کریم رحمۃ اللہ علیہ کی بھی یہی تعلیمات ہیں۔

ایک انتہائی اہم بات  واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں دعوتِ اسلامی کی کسی مجلس کا رکن نہیں تاہم  میرے شیخِ کریم نائبِ محدثِ اعظم پاکستان، شیخِ الحدیث التفسیر  ، صاحبِ رشد و ہدایت پیر مفتی علامہ محمد عبد الرشید قادری رضوی رحمۃ اللہ علیہ  دعوتِ اسلامی اور امیرِ دعوتِ اسلامی سے بہت بہت محبت فرمایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ملتان شریف کے اجتماع میں امیرِ دعوتِ اسلامی  انہیں محبت سے بیان کرنے کی دعوت دیتے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ وہاں بیان فرماتے اور امیرِ دعوتِ اسلامی بھی آپ سے محبت فرماتے۔  حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دارلعلوم غوثیہ رضویہ مظہر ِ اسلام سمندی شریف میں  نوٹس بورڈ پر واضح حروف میں حکماً لکھوایا تھا کہ  مدرسہ کے تمام طلباء   اپنی زندگی دعوتِ اسلامی کی مدنی ماحول میں گزاریں۔  اپنے شیخِ کریم کے حکم کی تعمیل میں آج ہم بھی دعوتِ اسلامی سے محبت کا یہ رشتہ نبھا رہے ہیں۔

دعوتِ اسلامی یا امیرِ دعوتِ اسلامی کی طرف سے کسی  کو روحانی علاج کی اجازت نہیں ہوتی۔ صرف مخصوص مراکز پر دعوتِ اسلامی کے تعینات کردہ اسلامی بھائی ہی یہ کام کرتے ہیں۔  دعوتِ اسلامی میں نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی کوئی گنجائش نہیں۔ کچھ لوگ خود کو مولانا  محمد الیاس قادری صاحب کا مرید، دعوتِ اسلامی کا رکن وغیرہ وغیرہ بتا کر  کام کر رہے ہیں۔  یہ مثالیں پاکستان اور بیرونِ پاکستان موجود ہیں۔ یہ بات با لکل واضح ہے کہ جو کوئی دعوتِ اسلامی کے  ماحول اور نظم و ضبط سے ہٹ کر کام کرنے کی کوشش کرے  اس سے دعوتِ اسلامی بیزار ہے۔ پاکستان کے اعلٰی درجے کے نعت خوان اور کئی مفتیانِ کرام  دعوتِ اسلامی کے مراکز سے ہی فارغ التحصیل ہیں مگر جب انہوں نے وضع قطع، لباس اور معاملات میں دعوتِ اسلامی کے طریقہ کی خلاف ورزی کی تو انہیں بغیر کسی خوف اور لالچ کے فارغ کر دیا گیا۔  اب وہ لوگ اپنے کاموں میں دعوتِ اسلامی کا نام استعمال نہیں کر سکتے۔

اسی طرح  اس بات کا یقین کر لیں کہ شیخِ طریقت مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کی طرف سے کسی  ایسے بندے کو جس کے لباس، وضع قطع اور زندگی میں دعوتِ اسلامی کے نظم و ضبط  کی پاسداری نہ ہو اسے دعوتِ اسلامی کا کوئی کام بشمول روحانی علاج کرنے کی اجازت نہیں ہے۔    میں جو روحانی علاج کی خدمات پیش کر رہا ہوں اس میں مجھے اپنے پیر خانہ اور بزرگوں کی تائید حاصل ہے۔ مجھے بھی دعوتِ اسلامی کے مرکز کی طرف سے  اجازت نہیں ، نہ میں نے حاصل کرنے کی کوشش کی اور  نہ ہی میں کسی بھی جگہ پر دعوتِ اسلامی کا نام استعمال کرتاہوں۔ باقی  بہت سارے بزرگانِ دین کے آستانے موجود ہیں جہاں وہ اپنے اپنے طریقے کے مطابق دین  وسنت کی خدمت 
کے ساتھ ساتھ لوگوں کی روحانی تربیت بھی کر رہےہیں۔

مجھ فقیر کی استطاعت میں جو ہے وہ اپنے شیخِ کریم کے قدموں کی دھول کا صدقہ پیش کر رہا ہوں، اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں کی تعداد میں  احباب کا رابطہ ہوتا ہے۔ ای میلز  اور فیس بک  پیغامات کے جواب دینےمیں بعض اوقات تاخیر ہو جاتی ہے۔ اس پر میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔ صبر کا دامن تھامے رکھیں تاکہ یہ فی سبیل اللہ خدمت جاری رہے۔   سکائپ  پر مفت کال ہوتی ہے۔ اس کے ذریعہ رابطہ جلدی اور مسئلہ کی آسانی سے سمجھ بھی آجاتی ہے۔ میری رابطہ تفاصیل  یہ ہیں۔
Email: mi.hasan@outlook.com
Skype: mi.hasan


Thursday, 6 June 2013

کتّے کی "چِتا" جلا ڈالئیے



کتّے کی "چِتا" جلا ڈالئیے


کتّا ایک پرانا جانور ہے۔ ابو جہل سے بھی پہلے اس  کے وجود  کی خبریں ملتی ہیں۔ ہر دور میں کتے کے مختلف استعمال ہوتے رہے ہیں۔ تاریخ میں بعض مقامات پر کتے کو "شرف" بھی بخشا گیا۔  مجھے پہلی بار کتے کی اولاد  کو قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع لگ بھگ چوبیس سال قبل ملا۔  ابو جی کے کسی دوست نے ایک عدد کتے کی بچی جسے عرفِ عام میں "کتّی" یا کتیا کہا جاتا ہے، بھجوائی۔  جن صاحب نے بھیجی وہ کوئی فوجی تھے اور مزید یہ کہ پٹھان تھے۔  تاہم ان کے حسب نسب سے میں واقف نہیں ہوں۔    شاید کوہاٹ (خیبر پختونخواہ) سے اس کتیا کی آمد ہوئی تھی اور یہ نومولود تھی۔   امّی کی گھریلو ذمہ داریوں میں یہ بھی ایک اضافہ ہو گیا کہ وہ اس نئی "مہمان" کی دیکھ بھال بھی کریں گی۔  امی کے ساتھ ساتھ ہم بھی بوتل میں دودھ ڈال کر اس "مہمان کتیا" کو دودھ پلاتے۔  بعد ازاں "زمانہ شباب" میں اس کتیا کو گھر سے رخصت ہو کر زمینوں  میں بھجوایا جانا تھا جہاں  اسے  رات کے اندھیرے میں فصلوں پر حملہ آور ہونے والے  انسان نما درندوں کا مقابلہ کرنے کا  ہدف دیا جانا تھا۔    اس کتیا کا نام   بہت  دلچسپ تھا۔  ادب اور اصولِ صحافت کے پیشِ نظر میں یہاں نہیں لکھ سکتا، صرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ ہمسایہ ملک کی ایک بڑی "زنانہ" شخصیت سے اسے موسوم کر دیا گیا تھا (یہ قصداً نہیں تھا بلکہ عرفاً تھا)۔     یہ کتیا اپنے حسن و جمال میں آس پاس کے کم از کم چالیس دیہاتوں میں لاثانی تھی۔   مجھے پورا یقین ہے کہ فی زمانہ منعقد کئیے جانے والے مقابلہ ہائے حسن کے معیار پر اسے پرکھا جاتا تو کم از کم  وہ  "مس شکر گڑھ" ضرور منتخب ہو جاتی۔    اس کے لمبے لمبے کان جو بعد ازاں جبری جرّاحت کے ذریعے کاٹ دئیے گئے،  بلوری آنکھیں،  گورا چٹّا رنگ،  پتلی پتلی ٹانگیں اور ماتھے پر ہلکا سا سیاہی مائل   تلک اسے اپنی معاصر "حسیناؤں" سے ممتاز کرتا تھا۔ 

اسی کتیا کی خاص اور سبق آموز بات یہ کہ وہ انسانی "حسیناؤں" کے بر عکس بہت وفا دار تھی۔   گھر کے ہر فرد کو خوب پہچانتی،  گاؤں کے باہر سے ہمارے ساتھ گھر تک بطور  محافظ چلتی،  راستے میں اگر کوئی انسانی شکل میں بھونکنے کی کوشش کرتا تو اسے آڑے ہاتھوں لیتی۔    یہ کتیا  "زمانہِ امن" میں انتہائی خاموش طبع واقع ہوئی تھی تاہم کسی قسم کے خطرے کی صورت میں وہ چاک و  چوبند رہتی، یعنی غیر ضروری کلام کا تکلف نہ کرتی تھی۔  

 ایک صبح  کسی نے گھر پر بری خبر دی کہ ہماری کتیا ایک سڑک حادثہ میں  شدید زخمی ہو گئی ہے،  موقع پر پہنچ کر اسے ابتدائی طبی امداد دی اور پھر  زخمی حالت میں اسے ایک مخصوص مقام پر منتقل کیا گیا،  جہاں وہ علاج اور دیکھ بھال کے باوجود   مر گئی۔ 

اس وفادارا کتیا کے مرنے کے بعد  زمینوں کی رکھوالی کے لئیے بہت بڑے بڑے "کتے" لائے گئے، ان کے بڑے بڑے منہ، موٹی موٹی آنکھیں، دراز قد اور خوفناک شکلیں تھیں۔  مگر یہ کتے صرف بھونکنے والے تھے۔   یہ کتے بھونکتے رہتے، لوگ زمینوں سے چوریاں کرتے، کچھ جنگلی جانور بھی زمینوں اور فصلوں کو نقصان پہنچاتے مگر یہ کتے اپنی  مخصوص "بھونک" کے سوا کچھ بھی نہ کرتے۔  الٹا نقصان  کہ  یہ کتے گندھک ملے دیسی گھی  کے پراٹھے،  دودھ اور نہ جانے کون کون سے کشتے "تناول" کرنے کے باوجود "بھونکے کتے" کا کردار ہی ادا کرتے۔ 

بھونکنے والے جانور کا  دوسری مرتبہ قریبی تجزیہ کرنے کا موقع اس وقت ملا جب میں  میرپور (کشمیر) کی ہوسٹل لائف میں پہنچا۔   کالج کا  جغرافیہ بڑا عجیب و غریب تھا۔  چھ سو کنال پر محیط کالج میں آڈیٹوریم، ہوسٹل، میس اور میرے کمرے تک کے سفر میں گھنٹوں بھیت جاتے۔  میرا کمرے اس کونے میں واقع تھا جس کے بالکل سامنے جنگل، اور پھر بہت زیادہ گہرائی، کچھ فاصلے پر ایک ندی، اس کے بعد منگلا ڈیم سے متصل سڑک اور پھر منگلا ڈیم کے نیلے پانیوں والی ایک جھیل۔ 

عشاء کی نماز کے فوری بعد میں کمرہ میں داخل ہو جاتا اور  کمرہ بند۔  تھوڑا مطالعہ اور ریڈیو سننے کے بعد  میں سونے کا ارادہ کرتا تو بھونکنے کی آوازیں شروع ہو جاتیں، میرے لئیے مشکل یہ ہوتی کہ سمجھ نہ پاتا تھا کہ بھونکنے والا جانور کس نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ کبھی اس کے بھونکنے میں غصہ، کبھی شرارت اور کبھی کوئی "چوّل" سی حرکت محسوس ہوتی کہ اس جنگل میں نہ تو کوئی انسان ہے نہ کوئی اور جاندار تو ان کے بھونکنے  کا کیا مقصد؟؟؟  ایک دن کالج کے کچھ سٹاف اور طلباء نے مل کر پروگرام بنایا کہ آج رات شکار کے لئیے ندی کنارے جائیں گے۔  حسبِ ارادہ ہم نکلے تو ہمیں پوری رات بھونکنے کی آوازیں آتی رہیں مگر کوئی بھونکنے والا ہمارے نزدیک نہ آیا۔   اگر کہیں شک ہوتا تو زور سے پاؤں زمین  پر مار دیتے، یا غرّا دیتے تو آوازیں بند ہو جاتیں یعنی وہ کتوں کی ایک نسل جسے گیدڑ کہا جاتا ہے، وہ تھے۔  تب مجھے اندازہ ہوا کہ ہماری وفا دار کتیا کے مر جانے کے بعد جو کتے ہم نے پالے تھے وہ بھی ایسے ہی تھے۔۔۔ صرف کھانے والے۔۔۔  شکاری اپنا کام کرتے اور کتے بھونکتے ہی رہ جاتے۔۔۔

انسان اللہ کی سب سے اچھی مخلوق ہے اس لئیے اسے کتوں کے ساتھ ملانا ایک جرم، بد اخلاقی اور توہینِ تخلیقِ خدا تعالیٰ ہے۔  مگر کئی بزرگ شعراء اور صوفیاء نے کتے کو انسان کی نسبت زیادہ وفا شعار اور  پاسدار لکھا ہے۔ اگر کتے کی اس عادت کو انسان کے ساتھ تقابل کیا جا سکتا ہے تو اس کی کچھ بری عادات کا موازنہ بھی کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
بھونکنے والے کتے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔  ایک وہ جو صرف بھونکتے ہیں۔ اگر آپ تھوڑے سے آگے بڑھیں تو وہ دم دبا کر  چیخیں مارتے ہوئے بھاگ نکلیں گے۔۔۔ دوسرے وہ جو ہر حال میں بھونکتے ہیں۔  یہ کتے انتہائی "لیچڑ" قسم کے ہوتے ہیں۔  ان کی تربیت زیادہ تر  فٹ پاتھ، کوڑے کے ڈھیر اور گندگی کے مراکز پر ہوتی ہے۔  یہ کتے کسی بھی صورت چپ نہیں ہوتے۔   سمجھدار لوگ ان کتوں کی پرواہ نہیں کرتے،   کیونکہ ضروری تو نہیں کہ یہ کتا ہی ہو،  ہو سکتا ہے وہ کتا نما شیطان ہو۔۔۔ لہٰذا تعوّذ پڑھئیے اور  سفر جاری رکھئیے۔

کتوں کا احترام  بھی کیا جاتا ہے۔۔۔ خصوصا مسلمان پڑوسی کے کتے کا احترام کرنا چاہئیے۔  ہمارے ایک ہمسائے بابا جی ہوتے تھے۔ انہوں نے ایک کتا پال رکھا تھا، بابا جی برطانیہ چلے گئے۔  اپنے مالک کی یاد میں کتا بہت رویا۔  مغرب کے قریب کتے کی بے چینی حد سے بڑھ گئی تو وہ اپنے مالک کی تلاش میں ہمارے دروازے پر آلپکا۔  میں نے کتے تو دھتکارا تو  چچا جی نے فرمایا یہ ہمارے ہمسائے کا کتا ہے ، اس پر ظلم نہ کرو بلکہ وہ اپنے مالک کی یاد  مین در در پر دستک دے رہا ہے۔  ۔۔  اس سے سبق حاصل کرو۔
قارئینِ کرام!
کتوں کے بھونکنے سے سبق حاصل کیجئے۔ اگر کتا وفا دار ہو تو  سبق اور اگر کتا "بکواس" کرنے والا ہے تو اسے نظر انداز کیجئیے۔  اپنے قدم جما کر رکھئیے اور منزل کی طرف رواں دواں رہئیے۔  کتا ہمیں یہ بھی سبق دلاتا ہے کہ  ہمیشہ اپنے بڑوں کا احترام کیجئیے۔  بزرگوں کا ادب، جس کا دانہ کھا لو اس کا احترام، جس کی نسبت مل جائے اس سے وفا کرو اور کبھی دغا مت دو۔

کتے چغلی نہیں کرتے، نہ ہی غیبت کرتے ہیں، کتے اپنی قوم میں اختلاف اور فساد برپا نہیں کرتے،  کتے  جس گھر میں رہتے ہیں وہاں سب کا احترام کرتے ہیں، شکایتیں لگا کر لڑائی نہیں کرواتے۔   اسی گھر میں موجود کچھ بچے اس کتے کو مارتے بھی ہیں، کتا ان سے تھوڑا دور ضرور ہو جاتا ہے مگر وہ فساد نہیں کرواتا۔ 


ہمارے لئیے سبق کی بات یہ ہے کہ ہماری زندگی میں بھونکنے والے رکاوٹ نہ بنیں۔   اگر کوئی بھونک رہا ہے تو اسے نظر انداز کریں ۔  کتا  ہمیں ادب و احترام بھی سکھاتا ہے۔۔۔ جس نے ایک لفظ بھی سکھایا اس کا احترام کیجئیے۔۔۔ خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔    تاہم اگر کوئی کتا  (نر یا مادہ ) آپ اور آپ کے پیاروں کے بیچ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرے۔  آپ کے علم و حکمت کی راہ میں رکاوٹ بنے، آپ کو آپ کے اساتذہ  و مشائخ، والدین، دوست احباب اور عزیزوں سے دور کرنے کی کوشش کرے تو اسے "شمشان گھاٹ" پہنچانے میں تاخیر نہ کیجئیے۔   خصوصا ایسا بھونکنے والا جس میں چغلی، غیبت اور  فساد پھیلانے  کی برائیاں موجود ہوں اس کی "چتا" بھی جلا ڈالئیے۔  

Monday, 3 June 2013

دشمن سے حفاظت کے وظائف



دشمن سے حفاظت کے وظائف


یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری ہر خرابی کی بنیاد  اللہ تعالٰی کے احکام کی خلاف ورزی اور  اسوہِ رسول ﷺ سے قطع نظر کرنا ہے۔   جب اللہ تعالٰی نے اپنے  سب سے پیارے محبوب ﷺ کو اس دنیا میں  ہماری رہبری کے لئیے ظاہر و مبعوث فرمایا اس وقت ہر برائی  موجود تھی بلکہ بہت ساری ایسی قباحتیں بھی تھیں جو آج کے معاشرے میں ناپید ہو چکی ہیں۔   اخلاقی، معاشرتی، مذہبی ، سیاسی و اجتماعی برائیوں کا مقابلہ اس وقت بھی ایک مشکل کام تھا مگر شارعِ اسلام ﷺ نے اپنے قول، فعل اور عمل سے ہر برائی کو روکا اور انسانیت کو  فلاح کا راستہ دکھایا۔   اکثریت  نے اس پیغام کو قبول کر لیا اور کامیاب و 
کامران ہو گئے اور بہت سوں نے  انکار بھی کیا۔

بنیادی طور پر تو ہم سب آدم کی اولاد ہیں۔   دنیا کے اس سفر میں  ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے  رنگ و نسل کا فرق آگیا۔   عقائد و نظریات بھی مختلف ہو گئے اور یہ سلسلہ ہابیل اور قابیل  کے لڑائی سے بھی ملتا جلتا ہے جو کہ اس سے قبل میں ایک کالم میں لکھ چکا ہوں۔   شیطان نے اس بات کا مستقل عزم کیا  ہوا ہے کہ وہ اولادِ آدم کو ہر وہ کام کرنے پر مجبور کرے  گا اور ورغلائے گا جس میں انسان و انسانیت کا نقصان ہو۔  یہی وجہ ہے کہ آج  سگے بھائی، ماں باپ، میاں بیوی اور انتہائی قریبی رشتہ دار ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔   ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔  نسل در نسل قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے۔  ایک چھوٹے سے گھریلو مسئلے سے شروع ہونے والا اختلاف  ایک خاندان کے خون کی ندیاں بہانے پر منتج ہوتا ہے۔   جوں جوں قیامت قریب آ رہی ہے لڑائی اور دشمنی کے انداز بھی بدل  رہے ہیں۔  کبھی نمبرداری، چوہدراہٹ،  حویلی اور ووٹ  کی بنیاد پر دشمنی ہوتی تھی مگر   آج کا مسلمان اخلاقی لحاظ سے اس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ معاشرے میں موجود دشمنیوں کی وجوہات سن کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔   کئی بار یہ تجربہ بھی ہوا کہ  "روحانی علاج" کے سلسلہ میں ای میل اور کالز موصول ہوئیں کہ میں ایک لڑکی کو پسند کرتا تھا اس نے کہیں اور شادی کر لی ہے،  آپ مجھے وظیفہ دیں کہ وہ طلاق لے ورنہ میں اسے قتل کر دوں گا وغیرہ وغیرہ۔۔۔  یاد رکھیں یہ ایک ایسی سوچ اور عمل ہے جو براہِ راست خدائے بزرگ و برتر سے ٹکر  لینے کے مترادف ہے۔   ذہنی پستی، گھر کے ماحول کی بے برکتی،  ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں دیکھے جانے والے مناظر ہماری اولادوں کی جڑیں کھوکھلی کر نے میں بنیادی کردار ہیں۔

اس ساری صورتحال میں یقیناً ہمیں اپنے جان و مال کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔   دشمنی تو سگے بھائی سے بھی ہو سکتی ہے۔  خاندانی دشمنی، مذہبی دشمنی، سیاسی دشمنی اور پھر روحانی دشمنی۔۔۔  بہر حال اللہ تعالٰی سے خیر طلب کی جانی چاہئیے۔  جو آپ کا  برا  چاہے اس کی بھلائی کی دعا کریں کہ اللہ اسے ہدایت عطا کرے۔   معاف کرنے والے کے لئیے اللہ اور اس کے حبیب ﷺ نے بے شمار انعام رکھے ہیں۔  آج دنیا میں کسی کے گناہ معاف  کریں گے تو روزِ قیامت اللہ ہمارے معاملات آسان فرما دے گا۔

دشمن سے نجات کے وظائف کی اکثر نوبت آتی رہتی ہے۔  جب جان، مال، اولاد اور عزت محفوظ نہ رہے تو پھر منہ بند کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ورنہ  شریر انسان  بے لگام ہو کر دوسروں کے لئیے بھی نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔  مگر پھر بھی میرا آپ کے لئیے مشورہ ہے کہ حتی الوسع  درگزر کی کوشش کریں۔   اولیائے کاملین کا بھی یہی طریقہ تھا اور ہے۔  بعض ایسے معاملات جس میں  فتنہ و فساد کا  اندیشہ ہو وہاں  دشمن   کا خاتمہ ضروری ہوتا ہے۔

دشمن اور حاسدین سے نجات کے متعدد وظائف ہیں۔  بات عمل اور یقین کی ہے۔  جب یقین اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے پھر زبان سے کچھ کہنے یا پڑھنے کی حاجت بھی باقی نہیں رہتی۔  اللہ کے ولی تو  تصور میں ہی ایسا گرا دیتے ہیں کہ  دشمن ساری زندگی  ذلت و رسوائی میں مبتلا رہے۔   میں یہاں پر حفاظت کے کچھ وظائف پیش کر رہا ہوں، عام فہم ہیں اور ہر کوئی اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔  پیچیدہ اور  مشکل وظائف اس طرح عام نہیں کئیے جا سکتے کہ بہت سارے لوگ ان وظائف و عملیات کو پڑھنے، آداب اور طریقہ سے ناواقف ہوتے ہیں۔  اس لئیے انہیں میں سے حسبِ ضرورت انتخاب کر لیجئیے۔
وظائف پڑھتے وقت دشمن کی ہلاکت کا تصور نہ کریں بلکہ اس کے شر، حملے سے بچنے کی نیت کریں اور اللہ سے اس کے لئیے ہدایت طلب کریں تاکہ وہ بھی ایک اچھا مسلمان بن کر ندگی گزارے۔

عمل نمبر1-  روزانہ بعد نمازِ عشاء ایک سو ایک مرتبہ یہ دعا پڑھ لیں۔

  اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِم 

ہر نماز کے بعد 11 بار اپنے ورد میں رکھیں۔ انشاء اللہ دشمن کے حملے اور شر سے حفاظت ہوگی۔

عمل نمبر 2-  ہر نماز کے بعد تین بار یہ دونوں دعائیں اپنے ورد میں رکھیں۔
اَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہ التَّامَّاتِ مِن شَرِّ مَاخَلَقَ

بِسْمِ الله الّذِي لا يَضُرّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ في الأرْضِ وَلا في السّمَاءِ وَهُوَ السّمِيعُ العَلِيمُ،


عمل نمبر3- آخری تینوں قل فجر اور عصر کےبعد  پڑھیں۔ ہر نماز کے بعد آیۃ الکرسی۔  سونے سے قبل سورہ فاتحہ، پھر آیۃ الکرسی، پھر آخری تینوں قل پڑھیں، سب سے آخر میں سورہ الکافرون پڑھ کر اپنی دائیں ہتھیلی پر دم کر کے سو جائیں۔ 

عمل نمبر 4۔  اگر دشمن کے ساتھ کسی معاملہ میں مقدمہ ، پنچایت اور عدالت  کا سامنا ہو تو یہ والے دونوں عمل کر لیں۔

سجد ہ میں طاق تعداد میں یہ آیت پڑھیں۔   رَبَ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ

زیادہ سے زیادہ طاق تعداد میں پڑھیں اور پڑھتے ہوئے دشمن کا تصور کریں، اللہ سے عاجزی کے ساتھ تصوراتی اور قلبی طور پر دعا کریں کہ اے اللہ عزوجل میں کمزور ہوں، تو طاقت و عظمت والا ہے ، میں مغلوب ہوں تو میری مدد فرما۔

روزانہ نمازِ فجر سے قبل یا بعد چار سو بار  حَسبُنَا اللَّهُ وَنِعمَ الوَكيلُ وَنِعمَ المَولیٰ وَنِعمَ النَّصیر پڑھیں۔

 

عمل نمبر 5۔ روزانہ بعد نمازِ عشاء  101 بار سورہ "القریش" پڑھیں۔

 

مندرجہ بالا وظائف میں سے ہر ایک عمل اور وظیفہ مجرب و مبارک ہے۔ تیر بہدف ہے، مگر اس کی بنیاد  اخلاص، یقین، ادب و احترام اور آپ کی نیت و گمان پر ہے۔  ہر وظیفہ کے اول آخر 11 بار درود شریف پڑھیں۔ آخر میں خلوص سے دعا کریں۔

 

اگر معاملہ مزید پیچیدہ ہو تو ہماری فی سبیل اللہ روحانی خدمات آپ کے لئیے حاضر ہیں۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو ایک دوسرے کے لئیے آسانیاں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ انسان، جنات اور شیاطین کے وسواس و حملوں سے حفاظت عطا فرمائے۔ آمین


Email: iftikhar.abu.hasaan@gmail.com
Skype: mi.hasan