Wednesday, 31 July 2013

تکے باز اسلامی سکالر


سوشل میڈیا پر ایک جملہ گردش کر رہا ہے مسلمانوتُکا لگاؤ ۔۔۔ جب سنا تو ایک جملہ ِمہمل سمجھ کر نظر انداز کر دیا تاہم چند ہی لمحات میں
اس کی بھرمار اور پھر پاکستان کے ایک بڑے میڈیا گروپ   کے وائس پریذیڈنٹ اور   خود ساختہ اسلامی سکالر   عامر لیاقت  کی زبانی یہ جملہ سن کر بہت تشویش ہوئی۔   ان صاحب کی پہچان بھی  کچھ متنازعہ ہے کہ  دین و سنت میں ان کا  کوئی استاد  نہ مرشد۔ ۔۔اور  بے استاد ا  اپنے اندر موجود جہالت اکثر خارج کرتا رہتا ہے،  اس کی جہالت اس کے قول ، فعل، عمل اور شکل سے ٹپکتی ہے۔  لوگ کہتے ہیں کہ یہ صاحب بنیادی طور پر  اپنے ایک فکری بھائی  جو کہ اپنی مخنثانہ حرکتوں سے معروف ہیں کہ نقش قدم پر چلتے ہوئے  ادکاری ہی کرنا چاہتے تھے مگر  کسی پروڈیوسر نہ ان کی پشت پر ہاتھ نہ رکھا،  نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لاحقہ بھی لگا رکھا تھا،  جسمانی مریضوں کو لوٹنے میں کامیاب نہ ہوئے    مذہبی طور پر کمزور ذہن کے مالک سادہ لوح لوگوں کا شکار کیا،  کچھ برس قبل   تک ان کا منہ بطرف لندن  شریف ہوا کرتا تھا ۔ جوشِ خطابت لے ڈوبا اور   ملعون سلمان رشدی کے خلاف  کچھ سچ کہہ دیا،  غالب گمان یہی ہے کہ  یہ واہ واہ کے حصول کا ایک ذریعہ ہی تھا (میں  گمان کے شرعی احکام کو سمجھ کر  لکھ رہا ہوں، لہٰذا مفتیانِ کرام اپنا فتوٰی ضائع نہ کیجئیے)۔  اس پر ان کے آقا اور بڑے بھائی   کی برق برسی اور ان کو ہر طرح کی منقولہ و غیر منقولہ   جائیداد سے عاق کر دیا گیا۔  آج کا دن آتا ہے یہ صاحب خود کو عشاقِ رسول ﷺ کا ترجمان،  تحفظِ ختم نبوت کا سپاہی، عزت رسول ﷺ پر وزارت کو قربان کرنے  کا  اعزاز اپنی جھولی میں بار بار خود ہی ڈال رہے ہیں۔  جب کہ حقیقت یہی ہے کہ نائن زیرو کے کوچے سے بہت رسوا ہو کر نکلے تھے۔  اس قربانی کے بعد کئی ٹوپیاں بدلیں ، ایک موقع پر تو ان کے باطن میں چھپی مغلظات خوب  ظاہر ہوئیں،   عوام کی اکثریت اسے درست سمجھتی ہے کہ اگر جھوٹ ہی تھا تو تھوک کر کیوں چاٹ لیا؟؟؟   جس کی جبلت میں  لالچ اور جھوٹ ہو وہ عزت کی پرواہ نہیں کیا کرتا۔ موصوف  نے دوبارہ اسی  گھر کا  منہ دیکھا جہاں سے رات کے اندھیرے میں نکلے تھے۔

یہی وہ صاحب ہیں جنہوں نے رمضان کو بھی تجارت بنا دیا ہے۔  اب ان کے خربوزے کو دیکھتے ہوئے دیگر ککڑیوں نے بھی رنگ پکڑ لیا ہے اور ان کی پیدا کی ہوئی برائی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔  کہاں وہ رمضان جس میں صرف اور صرف رحمان  عزوجل اور اس کے سچے رسول ﷺ کے احکام کا پرچار ہوتا تھا، لوگ سحر ی میں تہجد ادا کرتے، تلاوتِ قرآن کا اہتما م  ہوتا، افطاری میں پورا خاندان جمع ہوتا، توبہ و استغفار مقصود ہوتا،  ادب واحترام   پایا جاتا تھا،  اب ان صاحب کے پھیلائی ہوئی وبا کی ہولناکیوں کی وجہ سے  ماں باپ  دستر خوان پر بیٹھ کر آوازیں دیتے ہیں مگر جوان بیٹیاں اپنے اس شیطان صفت بھائی کا پروگرام دیکھ رہی ہوتی ہیں۔  اب سحر اور افطار میں قرآن کے نغموں کی بجائے مرد و زن کی  مخلوط تالیاں  ، نوجوان  لڑکیوں کی لہلہاتی زلفیں، بن ٹھن کی بیٹھی خواتین،  بھارتی موسیقی پر  سرور،  چند ٹکوں کے کھوٹے تحائف اور شور و غل  کا ایک نہ تھمنے والا سیلاب نظر آتا ہے۔ نوجوان خواتین  کی کال سنتے وقت، اور  لائیو شو میں ان   کو تحائف دیتے ہوئے  ہوئے موصوف کی حالت پانی سے زیادہ پتلی ہوتی ہے۔  عالِم او عالَم کا ڈرامہ رچانا بھی انہیں آتا ہے، کوئی  میری یہ بات ان تک پہنچا دے کہ اگر آپ خود کو عالم سمجھتے ہیں تو جان لیجئیے آپ شریعت محمدی کے عالم نہیں کہ خلیفہ دوم امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں اعلان فرما دیا  تھا کہ  مدینہ منورہ کی مارکیٹ میں تجارت کی اجازت صرف اسی کو ہو گی جو فقہہ اسلامی  جانتا  ہو گا۔   جو تجارت، کاروبار اور خدمات آپ سرانجام دے رہے ہیں  یہ اسلامی نہیں البتہ امن کے تماشے کے طور پر آپ اپنے بھارتی آقاؤں کو خوب خوش کر رہے ہیں۔ آپ نے  توہینِ رسالت کے نام پر وزارت قربان کی تھی تو توہین پاکستان کے نام پر  گندگی کے اس ڈھیر سے اٹھ جائیے جس پر آپ جنت کا لیبل لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔  ویسے آپ کا جنت یا شریعت سے کوئی تعلق مجھے تو سمجھ نہیں آتا کہ آپ وہی صاحب ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے  محترم و محتشم داماد سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ پر بھی  اپنی زبان درازکر  چکے ہیں، شاید اس لئیے کہ جب آپ کی خطابت جوش پر ہوتی ہے اس وقت آپ کا دماغ   سننے والوں کے چہروں پر مرکوز ہوتا ہے اور پھر  آپ کا نصب العین تو واہ واہ کا حصول ہے،   اس وقت آپ کا دماغ   ساتھ نہیں دے رہا ہوتا، ویسے اس گستاخی نے آپ کے سامنے بیٹھے آپ کے فکری  دوستوں کو کافی خوش کیا تھا مگر جنت البقیع میں مدفون محسنِ اسلامِ  کامل الحیا والایمان سیدنا عثمان ابنِ عفان رضی اللہ عنہ کو تکلیف ضرور پہنچائی بلکہ مکین ِ گنبدِ خضرا ﷺ کو بھی ناراض کیا، حتٰی کے میرا وجدان کہتا ہے آپ نے حسنین کریمین رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اذیت پہنچائی کے وہ وقت شہادت  درِ عثمان پر پہرہ دار تھے۔ آپ کی اس گستاخی پر معافی آج تک منظرِ عام پر نہیں آئی، لہٰذا  جس ملعون رشدی  کو برا بھلا کہتے ہوئے آپ کی وزارت گئی اس میں اور آپ میں یہ قدر و صفت مشترک پائی جاتی ہے کہ رشدی نے گستاخیِ رسول کی اور آپ نے گستاخی ِصحابی رسول کی۔

آپ کے لئیے میرا ایک اصلاحی اور درمندانہ پیغام ہے کہ توبہ کا در کھلا ہے، جو بیماری آپ نے ہمارے معاشرے میں پھیلا دی ہے اب اس
 روکئیے کہ آپ کی وجہ سے  اکثر ٹی وی چینلز رمضان اور اسلام کے نام پر تجارت کر رہے ہیں۔  مرد کو مرد ہی نظر آنا چاہئیے ، تیسری صفت انسان کو نہیں جچتی، گوٹے، مالا، کڑھائی، شیروانیاں اور رنگ برنگے عمامے اسلام کے ترجمان نہیں، آپ نے تو نعت کو بھی کاروبار  بنا دیا ہے۔ آپ جیسے   رنگ برنگوں کی تعلیمات اسلام کا چہری بگاڑ رہی ہیں،   یہی وجہ ہے کہ درباروں، مزاروں اور آستانوں پر قوالیوں اور  کلاموں پر ڈھول، دھمال اور رقص عام ہو رہا ہے،  ملنگ اور ملنگنیاں  آپ کے  بتائے ہوئے دین کا خوب جنازہ نکالتے ہیں۔  اسلام غریبوں نے پھیلایا تھا، غریب میں ہی ہے، غریب ہی بچائیں گے۔ آپ جیسے سیون سٹار سکالر،  وی آئی پی  نعت خوان اور  بائیسویں سکیل کے مقرر صرف آنکھوں کو ہی بھاتے ہیں، دل میں اترنے کے لئیے جنید و بصری،    خواجہ و فرید، اجمیر و گولڑہ  والوں کی راہ اختیار کرنی پڑے گی،  وہ سنورتے نہیں تھے بلکہ سنوارتے تھے،  وہ  ظاہر نہیں باطن کے طبیب تھے،  ان کی ایک نگاہ فقر لاکھوں کو پکا مؤمن کرتی تھی اور آپ  مؤمنوں کا  بچا کھچا ایمان بھی  برباد کر رہے ہیں۔  پہلے اپنی شکل کو  مؤمنانہ بنائیے تاکہ لوگ کم از کم آپ کے فیشن کی وجہ سے پیسہ برباد  نہ کریں۔ اپنے قول اور فعل میں  توازن  قائم کیجئیے، جو کہتے ہیں پہلے  اپنی ذات پر اس کا اطلاق کیجئیے۔ 

میں آپ کی ڈگری پر بات نہیں کروں گا کہ الفاظ کا ضیاع ہے، مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ اصلی ہیں یا نقلی تاہم گذشتہ روز کسی
 دل جلے نے کہا ہے کہ ڈگریاں اصلی  ہیں بندہ دو نمبر ہے۔  میں ان کی آدھی بات سے اتفاق ہےکیونکہ  آپ سو فیصد ہیں۔۔۔ ویسے معتوب بابر اعوان بھی آپ ہی کے ہم مکتب تو نہیں تھے؟؟؟  سپین کی جس یونیورسٹی   سے انہوں نے ڈاکٹریٹ  خریدی تھی وہ یونیورسٹی بھی گم ہو چکی ہے اور آپ کے ساتھ بھی کہیں  یہی ہاتھ تو نہیں ہوا۔۔ ویسے آپ کو اپنے مغربی اور مشرک آقاؤں سے بھی  کمال لگاؤ ہے کہ ایسی یونیورسٹی سے  ڈگری لی  جس کا نام  ہی  اسلام سے متصادم ہے ۔ خیر آپ کو  ڈگری مطلوب تھی  بے شک وہ  مظفر گڑھ سے دستی لے لیتے 
یا بذریعہ ڈاک منگوا لیتے ، سپین کاہے کو گئے صاحب۔۔۔ٹماٹروں سے زرد کر دینے والی سرزمین پر۔

اب مزید تکے لگانا چھوڑئیے،  کیونکہ اسلام تکوں پر نہیں چلتا، اسلام ایک حقیقت ہے، ایک نظام ہے، شریعت ہے، دستور ہے، منشور ہے اور یہ کام تکوں سے نہیں ہوتا، اس کی حدود و قیود ہیں۔  یہ کالم پڑھ کر تو ویسے بھی آپ  کے  تکے فیل ہو جائیں گے۔ ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی سے باز آجائیے ورنہ ہم فقیر آپ کی جان نہیں چھوڑیں گے۔ بوری تیار کرنا تو ہمیں نہیں آتا کہ یہ آپ کے سابقہ قبلہ میں ہوا کرتا ہے، ہم زبانی اور قلمی جہاد کریں گے اور بلاخوف کریں گے اور جب تک آپ کے سارے تکے فیل نہ ہو جائیں یہ جہاد جاری رہے گا۔ انشاٗ  اللہ
  

Monday, 29 July 2013

طوائف سے بہن تک کا سفر

یہ داستان میری لکھی ہوئی نہیں ہے،  اور مجھے اس کے  لکھاری کا نام  بھی نہیں معلوم، مصنف، مرتب یا اس کے خالق کا تعارف نہیں مل سکا۔ اصلاحِ معاشرہ کی  نیت سے شائع کر رہا ہوں۔ کہانی کا  نام میں نے تجویز کیا ہے۔

مجھے اس کا مجرا دیکھتے ہوئے مسلسل دسواں دن تھا۔ کیا غضب کی نئی چیز ہیرا منڈی میں آئی تھی۔ اس کا نام بلبل تھا۔ جب وہ ناچتی اور تھرکتی تھی تو جیسے سب تماش بین محو ہو جاتے۔ روزانہ اس کو ناچتا دیکھ کے میری شیطانی ہوس مزید پیاسی ہوتی جاتی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس سے ضرور ملوں گا۔ میں ہر قیمت پر اسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔اس دن مجرا کے دوران وہ بجھی بجھی سی دکھائی دے رہی تھی ۔ اس کے ناچ میں وہ روانی بھی نہیں تھی لیکن مجھے اس سے ملنا تھا، بات کرنی تھی اور معاملات طے کرنے تھے۔ مجرے کے اختتام پہ جب سب تماش بین چلے گئے تو میں بھی اٹھا۔ وہ کوٹھے کی بالکنی میں اپنی نائیکہ کے ساتھ کسی بات پر الجھ رہی تھی۔ دروازہ کے تھوڑا سا قریب ہوا تو میں نے سنا کہ وہ اس سے رو رو کر کچھ مزید رقم کا مطالبہ کر رہی تھی۔ مگر نائیکہ اسکو دھتکار رہی تھی اور آخر میں غصے میں وہ بلبل کو اگلے دن وقت پہ آنے کا کہ کر وہاں سے بڑبڑاتی ہوئی نکل گئی۔بلبل کو پیسوں کی اشد ضرورت ہے، یہ جان کے میرے اندر خوشی کی اک لہر دوڑ گئی۔ چہرے پر شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی کہ وہ ضرورت پوری کر کے میں اس کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہوں۔ میں اس کی جانب بڑھا، اس کا چہرہ دوسری طرف تھا اور وہ برقعہ پہن رہی تھی۔ پاس جا کر جب میں نے اسے پکارا تو وہ میری طرف مڑی۔ اسکا چہرہ آنسووں سے تر اور برف کی مانند ایسے سفید تھا جیسے کسی نے اس کا سارا خون نکال لیا ہو۔
اس کی یہ حالت دیکھ کر میں چکرا سا گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ وہ ایسے کیوں رو رہی ہے؟
میری طرف دیکھتے ہوئے وہ چند لمحے خاموش رہی اور میرے دوبارہ پوچھنے پر گھٹی گھٹی آواز میں بولی "ماں مر گئی۔"
"کیا؟"
جب مجھے اسکی سمجھ نہیں آئی تو وہ بے اختیار روتے ہوئے دوبارہ بولی کہ "آج میری ماں مر گئی۔"
اس جواب سے جیسے میرے منہ کو تالا لگ گیا۔ میری شیطانی ہوس، جس کو پورا کرنے کے لیے میں اس کی جانب آیا تھا، مجھ سے میلوں دور بھاگ گئی۔
"تو تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" میں نے غصے اور حیرت سے اس سے پوچھا۔
" کفن دفن کے پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔ اس لئے میں مجرا کرنے آئی تھی۔ مگر نائیکہ آج پیسے ہی نہیں دے رہی۔ کہتی ہے بہت مندی ہے۔ تماش بین کوٹھے پر نہیں آتے۔ جو آتے ہیں وہ پہلے کی طرح کچھ لٹاتے نہیں۔ وہ کہہ رہی ہے کہ ایدھی والوں سے اپنی ماں کے کفن دفن کا انتظام کروا لو۔"
اتنا کہہ کے وہ برقعہ پہن کر کوٹھے سے باہر نکل آئی۔
میں بھی اسکے پیچھے چل پڑا،"میں تمھاری ماں کے کفن و دفن کا بندوبست کرتا ہوں۔"
وہ چند لمحے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتی رہی اور پھر خاموشی سے میرے ساتھ بیٹھ گئی۔ گاڑی ٹیکسالی سے باہر نکالتے ہوئے میں نے بلبل سے اس کے گھر کا پتہ پوچھا۔ وہ علاقہ میرے لیے نیا نہیں تھا کئی بار میں وہاں سے گزرا ہوا تھا۔ میں نے گاڑی اس طرف موڑ دی۔ سارا راستہ وہ خاموشی سے روتی رہی۔ میرے پاس اسکو تسلی دینے کے لیے الفاظ بھی نہیں تھے۔کچھ دیر میں ہم بلبل کے گھر پہنچ گئے۔ یہ چھوٹا سا ایک کمرے کا گھر تھا۔ صحن کے بیچ میں چارپائی پر اسکی ماں کی لاش ایک گدلے کمبل میں لپٹی پڑی تھی۔ صحن میں بلب کی پیلی روشنی وہاں بسنے والوں اور گھر کی حالت چیخ چیخ کر عیاں کر رہی تھی۔ چارپائی کے پاس دو بوڑھی عورتیں بیٹھی تھی ۔ ایک کی گود میں سات آٹھ ماہ کا بڑا گول مٹول اور پیارا سا بچہ کھیل رہا تھا۔ آدھی رات ہونے کو آئی تھی۔ جیسے ہی بلبل گھر میں داخل ہوئی، وہ بوڑھی عورتیں بچہ اسے سونپتے اور دیر آنے کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئیں۔ بلبل بچے کو لے کر کمرے کی طرف گئی۔ بچہ بہت بے قرار تھا اور پھر وہ اسکی چھاتی سے لپٹ گیا جیسے صبح سے بھوکا ہو۔
"کیا یہ بلبل کا بچہ ہے؟" یہ ایک نیا انکشاف تھا کہ بلبل شادی شدہ بھی ہے۔چند لمحوں بعد وہ کمرے سے باہر آئی مجھے یونہی کھڑا دیکھ کر پھر کمرے میں گئی اور اک پرانی کرسی اٹھا لائی۔
"سیٹھ جی! معذرت۔ میرے گھر میں آپ کو بیٹھانے کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔" وہ کرسی رکھتے ہوئے شرمندگی سے بولی۔میں سر ہلاتے ہوئے اس کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہاں سے شروع کروں۔
"تمھارا اصل نام کیا ہے بلبل؟" بالآخر میں نے اس سے پوچھا ۔وہ چپ رہی شاید بتانا نہیں چاہ رہی تھی
افشاں"۔ میرے دوبارہ پوچھنے پر اس نے آہستہ سے کہا۔
" بہت افسوس ہوا تمھاری ماں کی وفات کا۔"
وہ خاموش رہی۔
"تمھارا باپ، بھائی کوئی ہے ؟"
اس نے خاموشی سے "نہیں" میں سر ہلایا۔
"یہ بچہ تمھارا ہے ؟"
اس نے پھر خاموشی سے "ہاں "میں سر ہلایا۔
"تمھارا شوہر کہاں ہے؟"
چند لمحوں بعد وہ بولی "چھوڑ گیا۔"
"تم ہیرا منڈی کیسے گئی تم مجھے ناچنے گانے والی تو نہیں لگتی؟"
اب وہ نظریں اٹھا کر مجھے دیکھتی ہوئی بولی، "سیٹھ جی قسمت وہاں لے گئی۔ گھر میں کوئی مرد نہیں تھا۔ ایک بیمار ماں اور بچے کی ذمہ داری تھی۔ کہیں اور کام نہیں ملا تو ناچاہتے ہوئے بھی مجبورا"یہ راستہ اختیار کرنا پڑا۔ کچھ عرصے تک نائیکہ نے ناچ گانا سکھایا اور پھر دھندے پر بیٹھا دیا۔۔ وہ مجھے مجرا کرنے کے روزانہ دو سو روپے دیتی ہے اور ساتھ میں تماش بینوں کا بچا کھچا کھانا، جو میں گھر لا کے اپنی ماں کو کھلاتی ہوں اور خود بھی کھاتی ہوں۔ برقعے میں آتی جاتی ہوں جس سے محلے میں کسی کو پتہ نہیں چلتا اور اک بھرم قائم ہے۔ سیٹھ جی، ایسی کتنی ہی بے سہارا گمنام لڑکیاں معاشی حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کوٹھوں پر ناچنے پر مجبور ہیں۔ آپ لوگوں کو کیا پتہ وہ کتنی مجبور ہو کر یہ قدم اٹھاتی ہیں ۔ کوئی لڑکی اپنی خوشی سے یوں سب کے سامنے اپنا جسم، اپنی عزت نیلام نہیں کرتی۔ جو لڑکیاں اک بار اس دلدل میں گر پڑتی ہیں پھر وہ دھنستی ہی چلی جاتی ہیں ۔ اور پھر اس میں ہمیشہ کے لیے ڈوب جاتی ہیں۔" یہ سب کچھ بتاتے ہوئے افشاں کے لہجے میں بے بسی اور بے چارگی تھی جیسے وہ کسی ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہو۔میں کچھ دیر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ پھر پرس سے چند نوٹ نکالے اور اسکے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا "کل اپنی ماں کی تدفین کروا لینا اور بچے کے لیے کچھ خوارک اور گھر کے لیے راشن پانی لے لینا۔"
وہ اتنے سارے نوٹ ایک ساتھ دیکھ کر حیران ہو گئی۔
"کیا ہوا؟" میں نے اس کو یوں چپ دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"سیٹھ جی مجھے ان روپوں کے بدلے کیا کرنا ہو گا؟" وہ ڈرتے ڈرتے پوچھ رہی تھی۔ شاید یہ سوچ رہی تھی کہ ان نوٹوں کے بدلے سیٹھ پتہ نہیں کب تک اس کا جسم نوچے گا؟ کب تک اس کو سیٹھ کی رکھیل بن کر رہنا پڑے گا؟
اس کی بات سن کر مجھے اپنے آپ سے اتنی نفرت ہوئی کہ میں خواہش کرنے لگا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔ مجھے احساس ہوا کہ میں ذلت اور اپنے کردار کی پستی کی آخری حد کو چھو رہا تھا۔ میں اس بے حس معاشرہ میں ایک تنہا اور بے سہارا لڑکی کی مدد کر رہا تھا مگر وہ اس کو بھی ایک ڈیل کے طور پر سمجھ رہی تھی۔ شاید جہاں سے میں اٹھ کر آیا تھا وہاں پر جانے والے لوگوں سے بغیر کسی وجہ کے مدد کی توقع نہیں کی جاتی۔
میں نے لرزتی آواز میں جواب دیا، "تمھیں کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔ اور تم اب کوٹھے پر مجرا کرنے نہیں جاؤ گی۔ اپنے گھر میں رہو گی۔ ہر مہینے تمھیں منی آرڈر مل جایا کرے گا۔ تم نے کرنا بس یہ ہے کہ یہ جو بچہ تمھاری گود میں ہے اس کی تربیت ایسے کرو کہ یہ اک دن بڑا ہو کر تمھارا سہارا بن سکے ۔ یہ جو رقم میں بجھواؤں گا یہ تم پر قرض ہے اور جب تمھارا بیٹا جوان ہو جائے گا، ایک قابل انسان بن جائے گا تو تم مجھے واپس کر دینا۔افشاں حیران پریشان کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس انسان کو جس کے سامنے ابھی وہ ناچ کر آئی تھی وہ اس سے ایسی باتیں کر رہا تھا۔ پھر وہ بے آواز رو پڑی۔ مجھے سے وہاں رکا نہیں گیا۔ میں نے افشاں کے گھر کا پتہ لیا اور اس کو اپنا کیا وعدہ یاد دلا کر وہاں سے رخصت ہو گیا۔
سارے راستے میں یہی سوچتا رہا۔ "مجھے تم سے کچھ نہیں چاہے۔ مجھے تم سے کچھ نہیں چاہئے افشاں۔جو تم نے مجھے دیا ہے میں اس کا احسان ساری عمر نہیں اتار پاؤں گا۔ تم نے مجھ میں دفن اس انسانیت کو جگا دیا جو میں دولت اور شیطانی ہوس کے نیچے دبا کر مار چکا تھا۔ تم نے مجھے پھر سے انسان بنایا ہے افشاں۔"اس واقعے کے بعد میں ان تمام برے کاموں سے توبہ کر کے اس کی بارگاہ میں گناہوں کا بوجھ لیے حاضر ہوا۔ ہر روز اس کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا، اس سے معافی کی درخواست کرتا۔میں باقاعدگی سے ہر ماہ "افشاں" کو منی آڈر بجھواتا رہا۔ کئی دفعہ دل کیا میں اس مسیحا کو مل کر آؤں جس کی وجہ سے مجھے ان تمام گناہوں اور بدکاریوں سے نجات ملی۔ مگر ہر دفعہ اک شرمندگی آڑے آتی رہی کہ کبھی میں اپنی شیطانی ہوس کے لیے اس کا پیاسا تھا۔ اور پھر وقت گزرتا چلا گیا دن مہینوں میں بدلنے لگے اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے گئے۔ مگر میں افشاں کو بھولا نہیں تھا۔ وہ بھی میری طرح بوڑھی ہو گئی ہو گی۔ اور اس کا بیٹا بھی جوان ہو گیا ہو گا۔ پتہ نہیں کسی قابل بنا ہو گا۔ اپنی ماں کا سہارا بنا ہو گا کہ نہیں؟
میرے بچے جوان ہو گئے تھے۔ زندگی اتار چڑھاؤ کے ساتھ مسلسل چل رہی تھی۔ ایک شام چھٹی کے دن جب میں اپنے گھر میں موجود تھا تو ملازم نے آکر مجھے بتایا کہ ایک عورت اور اسکے ساتھ ایک جوان لڑکا آپ سے ملنے آئے ہیں۔
"کون ہیں؟"
"معلوم نہیں صاحب پہلی بار ان کو دیکھا ہے۔" ملازم نے مودبانہ لہجے میں جواب دیا۔
"اچھا انہیں ڈرائینگ روم میں بٹھاؤ میں آرہا ہوں۔"
کون ہو سکتا ہے یہی سوچتے ہوئے میں ڈرائینگ روم کی طرف بڑھا۔
ایک عورت پرنور چہرہ کے ساتھ سفید بڑی چادر میں خود کو چھپائے ہوئے ہاتھ میں ایک پرانی سی ڈائری لیے کھڑی تھی۔ اور اس کے ساتھ اچھے کپڑوں میں ملبوس ایک بڑا ہینڈسم نوجوان کھڑا تھا۔ اس لڑکے کو میں جانتا تھا وہ ہمارے علاقے کا نیا ڈی ایس پی احمد تھا۔
"سلام سیٹھ جی میں افشاں ہوں اور یہ میرا بیٹا احمد ۔"
جونہی اس نے افشاں کا نام لیا میرے ذہن میں اسکا ماضی کا چہرہ گھوم گیا۔ اور پھر مجھے پہچاننے میں دیر نہیں لگی کہ وہ افشاں تھی۔
" آپ مجھے پہچان گئے ناں؟"
میں نے سر ہلاتے ہوئے "ہاں" میں جواب دیا اور ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔افشاں پھر اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر بولی۔ "احمد بیٹا یہی ہیں میرے مسیحا جن کی بدولت تمھاری ماں گندگی کی دلدل میں گرتے گرتے نکلی اور یہی ہیں جو تمھاری پڑھائی کا تمھیں یہاں اس مقام تک لانے کا ذریعہ ہیں ۔"
" میں انکو جانتا ہوں امی جان ان کا شمار علاقے کے معزز ترین افراد میں ہوتا ہے ۔ مگر میں یہ نہیں جانتا تھا کہ مجھے اس مقام پر لانے میں انکا کردار سب سے اہم ہے۔"
"سیٹھ صاحب جس طرح آپ ہم بے سہارا اور بے کس لوگوں کی زندگی میں مسیحا بن کر آئے اس کا احسان ہم کبھی نہیں بھولیں گے ۔" احمد بڑی مشکور نظروں سے دیکھتا ہوا بڑی عاجزی سے بول رہا تھا۔
"ایسے کہہ کر آپ لوگ مجھے شرمندہ مت کریں۔"
میں نے افشاں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ آج اسکو پکارتے ہوئے بے اختیار میرے منہ سے افشاں بہن نکل گیا۔ میں خود حیران تھا مگر یہ سچ تھا۔افشاں صوفے سے اٹھی اور آگے بڑھ کر پرانی سی ڈائری مجھے تھماتے ہوئے کہنے لگی، "سیٹھ جی اس میں وہ تمام حساب درج ہے ۔۔ میری ماں کی تدفین سے لے کر آپ کے آخری منی آڈر تک۔ میں نے اک اک پائی کا حساب رکھا۔ آپ کے دیے پیسوں کا امانت کے طور پر استعمال کیا۔ اپنے بیٹے کو ایک قابل انسان بنایا۔ آپ نے مجھے بائیس سال پہلے کہا تھا کہ یہ قرض ہے اور یہ تب واپس کرنا جب تمھارا بیٹا ایک قابل انسان بن جائے۔"
کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد افشاں پھر سے بولی، "سیٹھ جی آج وہ وقت آگیا ہے۔ میں آپ کے احسانوں کا بوجھ تو میں نہیں اتار سکتی مگر جو پیسے آپ نے مجھے دئیے تھے میرا بیٹا وہ ضرور اتارے گا۔ اور آپ سے درخواست ہے آپ انکار مت کریں۔"میں افشاں کو بڑی تحسین نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ آخر اس نے وہ کر ہی دکھایا۔ یقیناً قول و قرار کو نبھانا، وعدہ پر قائم رہنا اک اچھے کردار کے حامل انسان کی بڑی نشانی ہے۔ یہ سب سن کر میرے دل میں اسکی عزت اور احترام اور بڑھ گیا۔
"میں نے تم کو بہن کہا ہے افشاں بہن۔ اور میں کیسے تم سے یہ پیسے واپس لے سکتا ہوں۔ مجھے یوں شرمندہ مت کرو۔"
میرے رکے رکے الفاظ میں پیسے نہ لینے کی معذرت چھپی تھی۔ مگر وہ بضد تھی۔ مجھے اس کے سامنے ہار ماننا پڑی اور وہ تمام پیسے جو میں اسکو منی آڈر کی صورت میں بھیجتا تھا اس کو واپس لینے کی حامی بھرنی پڑی۔ پھر وہ دونوں مجھے اپنے نئے گھر کا پتہ دے کر اور آنے کی تاکید کر کے وہاں سے چلے گئے۔
"ارم میں نے تمہیں کسی سے ملوانا ہے میرے ساتھ چلو گی۔؟ " شام کو میں نے اپنی بیگم سے کہا۔
"کیوں نہیں چلوں گی۔ مگر کون ہے؟ اور کس سلسلے میں ملنا ہے؟" بیگم نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔
"میں نے روبی بیٹی کے لیے ایک لڑکا پسند کیا ہے ۔ تم مل لو اگر تم کو پسند آجائے تو پھر اس کے بعد روبی سے بات کر لینا۔" میں نے مختصر لفظوں میں اسے وجہ بتائی۔
اگلے دن میں اور میری بیگم ارم ناز افشاں کے گھر میں تھے۔ ارم کو بھی احمد بہت پسند آیا۔ ہم نے پھر افشاں سے احمد اور روبی کے رشتے کی بات کی۔ افشاں کو بھلا اس سے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ وہ پھولے سے نہیں سما رہی تھی۔ اور یوں میری بیٹی کا رشتہ افشاں کے بیٹے احمد سے طے ہو گیا۔ وہ تعلق جو اک طوائف اور تماش بین جیسے گندے رشتے سے شروع ہوا تھا اس کا اختتام ایک نہایت مہذب رشتے کی شکل میں ہوا۔یہ سچ ہے کہ ہر انسان کو قدرت سدھرنے کا موقعہ ضرور دیتی ہے۔ کبھی گندگی کے ڈھیر سے اس کو ایسا سبق سیکھا دیتی ہے، کبھی دو بھٹکے لوگوں ملا کر سیدھے راہ پر لے آتی ہے اور انسان ساری زندگی اسی کے مطابق گزارنے کو فخر محسوس کرتا ہے۔ کبھی وہ طوائف اور میں تماش بین تھا۔ مگر آج وہ میری منہ بولی بہن اور اس کا بیٹا میری بیٹی کا شوہر ہے۔ اور مجھے ان دونوں رشتوں پر فخر ہے۔

Tuesday, 23 July 2013

سر کے بالوں کی بیماریوں کا علاج














                                                                                                                                                       سر کے بالوں کی بیماریوں کا علاج

گذشتہ کئی ہفتوں سے  لکھنے کا سلسلہ تعطل کا شکار  ہے، ذاتی مصروفیات اور پھر رمضان المبارک کی آمد بھی  معمولات میں خرابی  کا ذریعہ بنی۔  قارئینِ کرام کی
 طرف سے بھجوائی جانے والی تجاویز کے پیش نظر بہت سارے عنوانات زیرِ غور تھے، اس کے ساتھ ساتھ حالاتِ حاضرہ اور میری اپنی دلچسپی کے عنوانات  بھی اشاعت کے منتظر ہیں۔  اب اسے حسنِ اتفاق کہئیے یا ایک فطری ردِ عمل کے جب سے میں نے انٹرنیٹ پر مضامین شائع کرنا شروع کئیے ہیں تب سے اس بات کا احساس ہوا کہ خواتین قارئین کی تعداد زیادہ ہے اور انہیں خواتین نے میرا قلم سیاست، معاشرت اور مذہبی مضامین سے ہٹا کر صحت کے مضامین کی طرف موڑ 
دیا ہے۔

خواتین کا ایک عام مسئلہ سر کے بالوں کا ہے،  بالوں کا ٹوٹنا، کمزور ہونا، بالوں کا گرنا، جھڑنا، نشو و نما میں رکاوٹ،  جلدی سفید ہو جانا  اور لمبے نہ ہونا وغیرہ
 وغیرہ۔
سر کے بال نسوانی حسن و شخصیت کا اہم حصہ اور جز ہیں۔  اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ نے عورتوں کو سر کے لمبے بالوں سے اور مردوں کو داڑھیوں سے زینت بخشی ہے۔  اسی طرح تاریخِ انسانی میں ہر دور کے افراد نے اپنے اپنے ذوق، علم اور فن کے ذریعے بالوں کا تذکرہ کیا ہے۔ معصیت میں مبتلا شعرا نے اپنے کلام میں نسوانی زلفوں کے ذریعے اپنے کلام  کی تشہیر  کا راستہ نکالا اور کسی نے اپنے افسانے و ناول کا مرکزی خیال بالوں کو بنایا۔ الغرض زمانہ قدیم سے بالوں کے حسن کو اہمیت حاصل رہی ہے ۔   ایک تاریخی حقیقت  جسے آپ لاکھ کوششوں کی باوجود جھٹلا نہیں پائیں گے کہ   سر کے بالوں کی جو حفاظت اسلامی معاشرے میں ہوئی وہ  مغربی اور غیر مسلم معاشرے میں نظر نہیں آتی۔  مغربی اور  غیر مسلم معاشرے میں  متعدد خواتین کے سر کے بال  مردوں  جیسے ہی ہوتے ہیں،  اور وہ خواتین باقاعدگی سے ہر ہفتے بال کٹواتی ہیں، لہٰذا انہیں بالوں کے حسن اور ان کی افزائش سے کوئی خاص لگاؤ نہیں ہوتا۔  اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ننگے سر رکھنے کی وجہ سے ان کے سر میں مٹی، گرد و غبار پڑھتا ہے اور وہ وہ لمبے بالوں کی حفاظت نہ کر پانے کی وجہ سے بال کٹوا دیتی ہیں۔ اس کے بر عکس اسلام میں پردہ کا اہتما م ہوتا ہے، خواتین سر پر دوپٹہ اوڑھتی ہیں، اسلام نے باقاعدہ کنگھی کے احکام سکھائے ہیں، طریقہ اور سلیقہ بتایا ہے کہ کیسے کنگھی کی جائے۔  تیل کیسے لگایا جائے وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ پردہ دار خواتین کے بال دراز  اور خوبصورت ہوتے ہیں۔
آج سے  بیس پچیس سال پہلے  بہت کم خواتین ایسی تھیں جو سر میں شیمپو کا استعمال کرتی ہوں، وقت گزرتا گیا اور یورپ سے شیمپو کی صورت میں زہر ہمارے سروں میں پہنچتا گیا۔ آج حالت یہ ہے کہ گھر میں کھانے کو دال بے شک نہ ملے  سر دھونے  کو شیمپو ضروری ہو چکا۔
بالوں کی حفاظت کے لئیے چند تراکیب پیش کر رہا ہوں۔ اگر بخوبی عمل کریں گے تو  شیمپو اور دیگر مہنگی چیزوں سے نجات مل جائے گی۔ انشا أللہ۔

سکری اور خشکی کا علاج:

تین چار لیموں کا رس نکال لیں، بالوں کی جڑوں تک اس کا مساج کریں اور کوشش کریں کہ سر کے ساری جلد تک لیموں کا رس پہنچے۔  آدھے گھنٹے کے بعد خالص سرسوں کے تیل سے سر کی مالش کریں، بعد ازاں باریک کنگھی سے ساری سکری اور خشکی باہر نکال دیں۔ اگر بال دو مونہے ہوں تو  سرسوں کے تیل میں لیموں  کا رس ملا کر بالوں کے منہ کو دونوں ہاتھوں  سے مالش کریں، اس سے دومونہے بال جلد ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔  اس عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ سر کی اندررونی جلد میں موجود خون کی باریک شریانوں میں قوت اور سرعت پیدا ہو گی جس سے سر کے تمام بالوں کو خون کی فراہمی شروع ہو جائے گی، جب تازہ خون  بالوں کی جڑوں تک پہنچے گا تو خشکی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بالوں میں جان پیدا ہو گی اور یہ بالوں کے ٹوٹنے کا سلسلہ بھی رکے گا۔ انشاأللہ۔

قدرتی شیمپو خود بنائیں:

بازار میں دستیاب شیمپو کسی نہ کسی لحاظ سے ضرور نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کا کم از کم نقصان تو مہنگا ہونا ہے۔  پھر مختلف مضر صحت اجزا ،کیمکل اور   مختلف جلدی امراض کا سبب بننے  والے شیمپو، ان کی کوالٹی، تیاری کا طریقہ کار، اس میں موجود نسخہ کا معیار اور بے شمار سوالات، ویسے بھی ہندوستان اور پاکستان میں کاسمیٹکس انڈسٹری  کا معیار قابلِ اعتماد نہیں۔

جو نسخہ میں درج کر رہا ہوں مجھے اس پر سو فیصد یقین ہے کہ یہ آپ کے سر کے بالوں کی تمام بیماریوں کے لئیے اکسیر ہے۔ کیونکہ اس میں سو فیصد خالص اجزا 
ہیں۔ بالوں کا ٹوٹنا، گرنا، کمزور ہونا، لمبے نہ ہونا، دو مونہے ہونا اور اس سے متعلقہ تمام مسائل کا حل ہے۔ انشاأ اللہ
انڈا ایک عدد،  روغن بادام  5ملی لیٹر، لیموں کا رس 5 ملی لیٹر، آملہ دو عدد۔
یہ چاروں اجزا ملا لیں، ایک پیسٹ یا مائع کی شکل میں تیار ہو جائے گا۔ پانچ منٹ تک سر میں لگا ئے رکھیں۔ اس کے بعد  سر دھو لیں۔  اس کے ساتھ خشکی اور  سکری کے خاتمہ والے  نسخہ بھی استعمال کریں۔ یہ دونوں نسخے دیکھنے میں بہت سادہ، عام اور سستے محسوس ہوں گے مگر اللہ کی رحمت کے سہارے میں دعویٰ سے کہتے ہوں کہ یہ نسخے  گیارہ دن مسلسل استعمال کر لیں، پھر دیکھیئے قدرت کے کارخانے میں کتنے سستے علاج ہیں۔

پانی سے علاج

صبح نہار منہ کم از کم سوا لیٹر پانی پینے کا معمول بنائیں۔ ایک گلاس سے شروع کریں اور آہستہ آہستہ  چار پانچ گلاس تک لے جائیں، معدہ، گردہ، مثانہ اور انتڑیاں صاف ہوں گی، تازہ خون پیدا ہو گا اور بالوں کو صاف خون کی فراہمی ہو گی، اس  سے آپ کی مجموعی صحت بہتر ہو گی اور بالوں کو قوت ملے گی۔
خواتین اپنے لباس اور خصوصاً سر کا پردہ اسلامی احکام کے مطابق کریں اس  کی برکتیں بھی آپ پر منکشف ہو جائیں گی۔ انشاأللہ

مزید طبی و روحانی مشاورت کے لئیے ہمارا فیس بک پیج لائک کریں۔
https://www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi