Monday, 26 August 2013

شوگر کا روحانی علاج





علم وہ دولت ہے جو استعمال کرنے سے بڑھتا ہے، اور اگر علمِ نافع ہو تو اس علم کی برکات و خیرات  سیکھنے   اور سکھانے والے کو برابر ملتی ہیں۔   ہمارے آقا و مولاﷺ کا تعلیمات بھی یہی ہیں کہ جو اپنے لئیے پسند کرو وہی دوسرے  مسلمان کے لئیے پسند کرو،  اسی نیت  کو ذہن میں رکھتے ہوئے  میری کوشش ہوتی ہے کہ میرے دامن میں اللہ تعالٰی کے کرم اور اس کے حبیب ﷺ کے صدقے میں جو کچھ ہے وہ دوسروں تک پہنچا دوں۔  اس کے بدلے میں قارئین اور احباب کی 
دعائیں میری مغفرت و نجات کا ذریعہ بنیں۔


میرے مضامین پڑھنے کے بعد خواتین و حضرات کی ای میلز اور پیغامات آتے ہیں کہ آپ کا کلینک کہاں ہے یا رابطہ نمبر دیں یا ملاقات کے لئیے وقت وغیرہ وغیرہ۔۔۔  میں اس سے قبل ایک مضمون میں عرض کر چکا ہوں کہ بے شک میں نے ہومیو پیتھک اور طب کی مروجہ تعلیم حاصل کی مگر  اسے بطور پیشہ اختیار نہ کر سکا اور میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم پا کر اسی شعبہ سے وابستہ ہو گیا۔۔۔    ہومیو پیتھک اور حکمت کا معیار پاکستان میں شرمناک حد تک  گرا ہوا ہے۔  یہ انسانی جانوں کا مسئلہ تھا اس لئیے جس کام میں تحقیق کے پیمانے درست نہ ہوں وہاں نقصان کا اندیشہ موجود رہتا ہے۔   جتنے پر مجھے عبور حاصل ہے وہ پیش کر دیتا ہوں، جس مرض کی سمجھ نہ آئے کھلے دل اور ادب سے کسی مستند طبیب  سے رجوع کا مشورہ دیتا ہوں۔   ملاقات یا کلینک اس لئیے ممکن نہیں کہ میں پاکستان سے باہر  مقیم ہوں۔  تاہم جز وقتی مشاورت کے لئیے حسبِ موقع و محل بالمشافہ ملاقات بھی کر لیتا ہوں۔   لہذا میں جس ریاست یا علاقہ میں جاؤں تو وہاں کے زمینی حقائق کے مطابق لوگوں کو مطلع کر دیتا ہوں اور یوں ملاقات کا ذریعہ بن جاتا ہے اور مخلوقِ خدا کی بھلائی کا کام سر انجام پاتا ہے۔

کچھ لوگ ای میلز یا پیغامات میں انتہائی پیچیدہ مسائل کا حل طلب کرتے ہیں، کیونکہ ای میل یا فیس بک  کے استعمال پر کوئی خرچہ نہیں ہے،  دو وقت کا کھانا میسر آئے نہ آئے فیس بک لازم و ملزوم ہو چکی ہے تو لوگ مفت سمجھ کر  بے تکے قسم کے مسائل بھی لکھ بھیجتے  ہیں جس کی  کوئی تفصیل منسلک نہیں ہوتی۔   آپ سب قارئین و محبین سے التجا ہے کہ روحانی مسائل کے لئیے آپ جو بھی ای میل کریں گے ہم اس کا جواب دیں گے مگر صحت سے متعلقہ کسی بھی پیغام یا ای میل کا جواب اسی صورت میں دیا جاتا ہے جب مرض کی سمجھ آجائے۔  اس لئیے ضروری ہے کہ ای میل کرتے وقت متعلقہ  میڈیکل لیبارٹری  ٹیسٹ اور ہسٹری مختصر انداز میں مگر جامع طور  لکھ کر بھجوائیں۔ موجودہ حالت اور علاج،  استعمال شدہ ادویات ، عمر، جنس، ازدواجی حالت وغیرہ بھی ارسال کریں۔ اور سب سے بہتر طریقہ سکائپ کال  ہے جس پر آپ مجھ سے براہِ راست بات بھی کر سکتے ہیں اور فی الفور مشورہ بھی۔ سکائپ پر طبی مشاورت کی کوئی فیس نہیں ہے۔

اب آئیے آج کے موضوع کی طرف،  ذیابیطس یا شوگر ایک پیچیدہ اور  پریشان کن بیماری ہے۔  اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، ہمارے معاشرہ میں ایک بڑی انسانی تعداد اس مرض کی وجہ سے پریشان زندگی گزار رہی ہے۔  میں یہاں پر صرف شوگر کا روحانی   علاج  لکھنے پر اکتفا کروں گا کیونکہ اس کا طبی علاج مجھ سے بہتر ڈاکٹرز اور حکمأ  کر رہے ہیں یا پھر کسی الگ مضمون اس کے طبی پہلو ذکر کروں گا۔     بہت سارے خواتین و حضرات کی طرف سے اس کا علاج طلب کیا گیا ہے۔  شوگر کے اسباب پر  مستقبل میں  کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا۔
شوگر  میں مبتلا افراد سب سے پہلا کام یہ کریں کہ نہار منہ تازہ اور صاف پانی  پئیں۔ ایک گلاس سے شروع کریں اور آہستہ آہستہ  سوا لیٹر یعنی 1250 ملی لیٹر تک لے جائیں۔    اس کی مدد سے جسم کے تمام اندرونی اعضأ کی قدرتی صفائی اور ان کو فطری تزکیہ ملے گا۔  دورانِ خون کو معمول میں لائے گا۔

پانچوں نماز  کے وضو کے ساتھ سنت سمجھ کر مسواک  کریں۔ مسواک کے فوائد و برکات کثیر ہیں۔

صاف پانی کی ایک بوتل بھر لیں، روزانہ  کم از کم ایک مرتبہ درجِ ذیل طریقہ سے اس پر دم کریں۔

درودِ شفأ  گیارہ مرتبہ۔  
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَولَانَا مُحَمَّدٍ   طِبِّ   القُلُوبِ    وَ دَوَائِھَا    وَعَافِیَةِ   الاَبدَانِ    وَشِفَائِھَا    وَنُورِ    الاَبصَارِ    وَضِیَائِھَا   وَعَلٰی   آلِہ  وَصَحبِہ    وَبَارِک وَسَلِّم ۔


بسم اللہ الرحمان الرحیم گیارہ مرتبہ

گیارہ مرتبہ بِسْمِ  اللهِ  الّذِيْ  لَا  يَضُرُّ  مَعَ  اسْمِهِ  شَيْءٌ  فِيْ  الأَرْضِ   وَلَا   فِيْ   السَّمَاءِ   وَهُوَ   السَّمِيْعُ   العَلِيْمُ۔

  گیارہ مرتبہ  سورہ اسرائیل کی آیت نمبر 80 کا یہ حصہ ۔۔۔   رَبِّ    أَدْخِلْنِي  مُدْخَلَ    صِدْقٍ   وَأَخْرِجْنِي   مُخْرَجَ   صِدْقٍ   وَاجْعَل   لِّي   مِن   لَّدُنكَ   سُلْطَانًا نَّصِيرًا ۔

گیارہ مرتبہ سورہ یٰسین کی آیت نمبر  58  سَلَامٌ     قَوْلاً    مِن    رَّبٍّ    رَّحِيمٍ

مذکورہ تمام وظائف پڑھ کر پانی پر دم کر لیں، روزانہ یہ پانی پئیں، جب کم ہونے لگے تو مزید پانی شامل کریں، اسی طرح یہ دم کھانے کی دیگر اشیأ پر بھی کر سکتے ہیں۔  اگر مریض خود نہ پڑھ سکے تو گھر کا کوئی بھی فرد جو وضو اور غسل کے احکام جانتا ہو وہ کر دے۔

اس روحانی علاج پر ذرا غور فرمائیے کہ اس میں درود و سلام شامل ہے، اس نبی پر درود جس نے یثرب (بیماریوں کا مرکز) پر قدم رکھا تو وہ مدینہ بن گیا اور پھر اس مدینہ کی مٹی کو شفا کا درجہ مل گیا،  اس میں بسم اللہ شامل ہے جو قرآن کریم کا آغاز ہے۔ اس میں وہ دعا شامل جس کی تلاوت  کر لی جائے تو زہر بھی اثر نہ کرے اور پھر اس میں قرآن کریم کی دیگر دو آیات شام ہیں جو انسان کی روح اور جسم کی طہارت، دافع بلیات،  شفأ     و صحت اور حصول رحمت و سلامتی کا ذریعہ ہیں۔  قرآن کریم اور وظائف اپنے اثرات سے بھرپور ہیں،  اگر کسی کو شفا نہ ملے تو وہ یہی سمجھے کہ اس کے  پڑھنے میں کمی ہے، حق تعالٰی کے کلام اور اس کے حبیب ﷺ کے فرامین میں کوئی کمی نہیں۔  اللہ پر کامل یقین رکھیں اور ان وظائف کو مستقل پڑھیں۔

جسمانی ورزش، مضر خوراک سے پرہیز اور دیگر طبی آرأ کو ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھیں۔


اللہ تعالٰی اپنے حبیب کریم ﷺ کے شہرِ مدینہ کی خاکِ شفأ کے صدقے میں سب احباب کو ان وظائف سے فیض یاب فرمائے۔ دنیا کی بیماریوں سے  نجات عطا فرمائے۔۔۔ ہر وہ کلمہ گو جو نبی رحمتﷺ، خلفائے راشدین و تمام اصحابِ رسول، اہل بیت اطہار و اولیائے کاملین رضوان اللہ علیہم و رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کا ادب و احترام کرتا ہے وہ میرے  بتائے گئے  وظائف کی اجازت رکھتا ہے۔

ہمارا فیس بک پیج:   https://www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi
ای میل: mi.hasan@outlook.com
سکائپ:mi.hasan 

Thursday, 22 August 2013

امراضِ معدہ، اسباب اور علاج

انسانی جسم ایک خود کار مشین ہے، قدرت نے اس طرز پر بنایا ہے کہ ہر عضو اپنا کردار اور کام اپنی حدود میں بغیر کسی مزاحمت کے کرتا ہے۔  جب انسان اپنی غلطی، غفلت اور  مسائل کی وجہ سے ان اعضأ  اور جسم کی ضروریات کے مطابق ان کا خیال نہیں رکھتا تو پریشانیاں اور بیماریاں جنم لیتی ہیں۔  معدہ انسانی جسم کا ایک اہم حصہ ہے۔  انسانی جسم میں توانائی، حرکت اور نشو و نما کی بنیادیں اسی میں ہوتی ہیں۔ انسان جو کچھ کھاتا ہے، اسے کھا کر چبانا، ہضم کرنا اور پھر سے جسم انسانی کا حصہ بنانا یہ سب کام معدہ  اور اس کے معاون اعضا ہی کرتے  ہیں۔   نشاستے، لحمیات، حیاتین  اور معدنیات  انسان کی خوارک کا حصہ ہیں، ان اجزأ کا ایک فیصد استعمال ہوتا ہے اور باقی  ناقابلِ ہضم اجزأ معدہ جسم سے خارج کرتا ہے۔   خوراک ہضم کرنے میں لعاب کا اہم کردار ہوتا ہے۔  اگر لعاب  ٹھیک نہ ہو تو نظامِ انہضام میں خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

اس مضمون میں کوشش ہے کہ اسے عام فہم انداز میں پیش کروں تا کہ ہر پڑھنے والے کو فائدہ پہنچے اور اسے اپنے معدہ کی اصلاح میں مدد ملے۔    معدہ  کی  تکالیف  میں عمومی طور پر ورمِ معدہ،   نظامِ ہضم کی خرابیاں،   بھوک نہ لگنا،  پیٹ میں ریاح ،   گیس، تبخیر،  انتڑیوں کا سکڑ جانا اور السر یعنی معدہ کے زخم وغیرہ شامل ہیں۔     معدہ کا ورم جب حادّ ہو جائے تو  معدہ کا داخلی  حصہ اور دیواریں سرخ اور سوجی ہوئی حالت میں تبدیل ہو جاتی ہیں ، اس سے معدہ کا درد،   قے،   متلی،  سینہ کی جلن سمیت کئی  پریشان کن علامات  کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔   معدہ کی ان بیماریوں کی وجہ سے انسان کا پورا جسم متاثر ہوتا ہے اور مزید کئی بیماریوں کے اسباب پیدا ہوتے ہیں۔  سر کا درد،  آدھے سر کا درد، نظر کی کمزوری،  جگر  کا تازہ خون کی پیدائش روک دینا،  ہڈیوں کا درد،  گردوں میں خرابیاں،  وزن میں کمی،   مردوں میں احتلام و جریان،  خواتین میں لیکوریا اور  ماہواری کی خرابیاں،  نیند میں خرابی اور ذہنی انتشا ر و تناؤ۔۔  یہ سب وہ مسائل ہیں جن کا  بالواسطہ یا بلاواسطہ معدہ سے  لازمی تعلق ہے۔

معدہ کی بیماریوں کے اسباب:

معدہ کی  بیماریوں میں معدہ کا ورم اور السر نمایاں ہیں۔  اس کی بنیادی وجہ فاسٹ فوڈ،  غیر مسلم ممالک میں خنزیر جیسے جانور کا حرام گوشت،    زیادہ تیل اور گرم کھانا،   بازاری اچاری کھانے،   سگریٹ نوشی،  شراب و الکوحل ،  بروقت نہ کھانا،  جنسی عمل میں زیادتی،   سوئے تغذیہ  ( غذائی کمی یا لازمی غذائی اجزاء کا جذب نہ ہونا)  عفونت  جراثیمی،   جیسے کہ ایچ پائلوری انفکشن،  آنتوں کی عفونت،  نمونیا،  مسمومیت غذائی،  اینٹی بائیوٹک ادویات کا   غلط استعمال،   دافع درد انگریزی ادویات    (ڈکلوفینک سوڈئیم،  ڈکلوفینک پوٹاشئیم،   آئیبو پروفین،  انڈو میتھاسون،  فینائل  بیٹازون،  کوٹیزون، اسپرین) اور کیمو تھراپی کے لئیے استعمال ہونے والی ادویات۔   انگریزی ڈاکٹر صاحبان دافع درد ادویات کے ساتھ احتیاطاً  رینیٹیڈین،  زینیٹیڈین اور اومپرازول استعمال کرواتے ہیں اس کا مقصد مریض کو ان ادویات کہ ممکنہ خطرات سے بچانا ہوتا ہے جو کہ معدہ  کی تکایف کی صورت میں ہوتا ہے۔ ۔ جنسی ہارمون اور  کورٹی سون کا استعمال السر پیدا کرسکتا ہے۔

شراب نوشی‘  تمباکونوشی اور تفکرات کے علاوہ صدمات بھی السر پیدا کرتے ہیں۔  جیسے کہ خطرناک نوعیت کے حادثاتآپریشن‘ جل جانے اور دل کے دورہ کے بعد اکثر لوگوں کو السر ہوجاتا ہے۔ میں خود اس حالت میں مبتلا رہ چکا ہوں۔    اس کی توضیح یہ ہے کہ صدمات چوٹ اور دہشت کے دوران جسم میں ایک ہنگامی مرکب ہسٹامین پیدا ہوتا ہے یہ وہی عنصر ہے جو جلد پر حساسیت کا باعث ہوتا ہے۔  یقین کیا جارہا ہے کہ اس کی موجودگی یا زیادتی معدہ میں السر کا باعث ہوتی ہے۔  اسی مفروضہ پر عمل کرتے ہوئے السر کی جدید دواؤں میں سے سیمیٹیڈٰن  بنیادی طور پر ہسٹامین  کو بیکار کرتی ہے اور یہی اس کی افادیت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ ایسی خوراک جس میں ریشہ نہ ہو۔  جیسے کہ خوب گلا ہوا گوشت۔  چھنے ہوئے سفید آٹے کی روٹی السر کی غذائی اسباب ہیں۔

اکثر اوقات السر خاندانی بیماری کے طور پر  بھی  ظاہر ہوتا ہے۔ آپس میں خونی رشتہ رکھنے والے متعدد افراد اس میں بیک وقت مبتلا ہوجاتے ہیں۔  اس کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ ان میں تکلیف وراثت میں منتقل ہوتی ہے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے بودوباش کا اسلوب‘  کھانا پینا یا عادات ایک جیسی تھیں۔  اس لیے ان کو السر ہونے کے امکانات دوسروں سے زیادہ رہے50فیصدی مریضوں کو السر معدہ کے اوپر والے منہ کے قریب ہوتا ہے وہ اسباب جو معدہ میں زخم پیدا کرتے ہیں وہ بیک وقت ایک سے زیادہ السر بھی بنا سکتے ہیں لیکن 90فیصدی مریضوں میں صرف ایک ہی السر ہوتا ہے۔  جبکہ 10-15فیصدی میں ایک سے زیادہ ہوسکتے ہیں۔

اس پر حکمأ اور معالجین متفق ہیں کہ السر کے متعدد اقسام جلد یا بدیر کینسر میں تبدیل ہو جاتی ہیں کیونکہ اس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ بروقت علاج نہ ہونے پر یہ پھٹ جاتا ہے،  عموماً مریض کو اس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب قے کے ساتھ خون آنا شروع ہو جاتا ہے۔  اس کے پھٹنے میں  شراب نوشی،  سگریٹ نوشی  اور دافع درد ادویات  کا اہم کردار ہوتا ہے۔

السر کی تمام پیچیدگیاں خطرناک ہوتی ہیں،  ان میں سے کوئی بھی علامت یا پیچیدگی جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ السر کا مریض زندگی سے مایوس،  پریشان و بے چین اور اعصابی تناؤ کا شکار رہتا ہے،  میرا ذاتی تجربہ ہے کہ لمبی چوڑی تنخواہوں اور وی آئی پی کلچر میں رہنے والوں کو جب یہ بیماری لاحق ہوئی تو صحت کے ساتھ ساتھ  سب کچھ برباد اور تباہ ہو گیا۔  اس مختصر مضمون میں معدہ کے امراض کے اسباب و علاج    مکمل لکھنا ممکن نہیں،  آگہی اور علاج میں معاونت مقصود ہے۔   جس کسی  کو بھی یہ تکلیف محسوس ہو اسے چاہیئے  کہ فی الفور کسی مستند طبیب سے رجوع کرے۔  آپ کے آس پاس میں بہت سارے نیم حکیم آپ کو ملیں گے،  تعویذ اور دم والوں کی بھی بھرمار ہو گی  مگر یاد رکھیں علاج کروانے کی ترغیب ہمیں اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ نے دی ہے۔    اس علاج میں  کچھ   میڈیکل ٹیسٹ بھی کروانے پڑتے ہیں۔  اس لئیے کسی منجھے ہوئے حکیم یا ڈاکٹر سے  مشورہ کریں،  دم اور تعویذ کے چکر میں پڑ کر اپنا وقت برباد نہ کریں ۔  اولیأ کاملین کی دعا اثرات سے بھرپور ہوتی ہے اور اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔

امراض معدہ کا  آسان علاج:
میری عادت ہے کہ میں انٹرنیٹ یا اخباری مضامین میں کوئی نسخہ یا علاج نہیں لکھتا کیونکہ اگر پڑھنے والے کی سمجھ میں نہ آئے تو نسخہ کی ترکیب و استعمال کے غلط ہو جانے سے زبردست نقصان کا اندیشہ موجود ہوتا ہے۔ عمومی طور پر میں میڈیا کے ذریعہ  نسخہ جات کی بجائے خواراک سے علاج کو ترجیح دیتا ہوں۔    یہاں کچھ علامات کے ساتھ آسان علاج پیش کرتا ہوں تاہم گذارش ہے کہ اگر کسی کی سمجھ میں نہ آئے  تو اس وقت تک استعمال نہ کرے جب تک مجھ سے یا کسی اچھے طبیب سے مشاورت نہ کر لیں۔

نسخہ نمبر1:
اگر سر میں درد رہتا ہے، پاخانہ وقتِ مقررہ یا معمول میں نہیں ہے، نیند کی زیادتی ہے تو  کسی اچھے دواخانے کی بنی ہوئی اطریفل زمانی    ناشتہ کے بعد  ایک چھوٹا چمچ پانی کے ساتھ  کھائیں۔ رات سونے سے قبل چار عدد انجیر نیم گرم دودھ کے ساتھ۔  صبح نہار منہ زیادہ سے زیادہ تازہ پانی پئیں۔

نسخہ نمبر 2:
  اگر سر میں درد، جسم میں تھکاوٹ کمزوری، قبض اور پاخانہ درد  وجلن کے ساتھ ہو یعنی بواسیر کی علامات ظاہر ہو رہی ہوں یا پاخانہ میں خون خارج ہوتا ہو تو جوارش جالینوس  ایک چھوٹا  چمچ  رات کے کھانے کے بعد پانی کے ساتھ، جوارش کمونی  ناشتہ کے بعد ایک چھوٹا چمچ پانی کے ساتھ۔  چار عدد انجیر دوپہر کے کھانے کے بعد نیم گرم دودھ کے ساتھ۔ مدت علاج  دو مہینے۔
نسخہ نمبر 3:
معدہ کی تکالیف کی وجہ سے نظر اور دماغ کمزور ہو گیا ہو، قبض کا احساس ہو اور کھانا    ہضم نہ ہوتا ہو، سر میں درد، چکر ، آدھے سر کا درد ہو تو ایسی علامات میں شربتِ فولاد  دو چمچ صبح شام،  اطریفل اسطخودوس رات میں ایک چھوٹا چمچ،  مربہ ہریڑ  چار عدد نیم گرم دودھ کے ساتھ رات میں۔   مدت علاج دو ماہ۔
نسخہ نمبر 4:
 اگر سینہ میں جلن، تبخیر،  قے اور  معدہ میں درد کا احساس ہو تو یہ علامات بنیادی طور پر السر کی طرف اشارہ کر رہی ہیں اس کی تشخیص براہِ راست مشاورت اور چیک اپ کے بغیر نا ممکن ہے۔ اس لئیے اپنے طبیب سے ضرور ملیں۔  کچھ مفید   تراکیب و علاج یہ ہیں   کہ ایسے مریض کو   ہلدی کے زیرو سائز کیپسول بنا کر دیں،  دو کیپسول صبح شام پانی کے ساتھ۔   زیادہ سے زیادہ مائع خوراک بشکل دودھ،  جوس اور  صاف پانی دیں۔  میٹھا اور ترش  چیزوں سے پرہیز۔

پرہیز:
معدہ کی بیماریوں میں مبتلا تمام مرد و عورتیں ہر قسم کی ترش کھٹی ، گھی، مرچ مسالہ، گوشت اور بازاری خوارک سے بچیں۔ فاسٹ فوڈ کو خود کے لئیے حرام سمجھیں۔ سگریٹ نوشی کسی زہرِ قاتل سے کم نہیں۔  شادی شدہ خواتین و حضرات جنسی عمل میں اعتدال برتیں۔
خوراک:
نہار منہ صاف تازہ پانی،  ٹھنڈا دودھ، جوس، پھل، ہرے پتے والی سبزی،  ریشہ دار غذائیں،   انجیر اور ہریڑ کا استعمال کریں۔  
مشاورت کے لئیے ان ذرائع سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ای میل: mi.hasan@outlook.com

سکائپ کال:  mi.hasan

Saturday, 17 August 2013

دو قومی نظریہ کیا ہے؟













دو قومی نظریہ پاکستان کی اساس  ہے۔۔۔  مگر۔۔۔ اس کی موجودہ حیثیت  ایک ضرب المثل سے زیادہ نہیں ہے کیونکہ  پاکستان کے اہلِ قلم دانشور طبقہ، سیاسی آقاؤں اور فیصلہ ساز اداروں نے اس نظریہ کی بقا، ترقی اور نفاذ کا حق ادا نہیں کیا۔  موجودہ نسل کی اکثریت اس نظریہ کے پس منظر سے واقف نہیں ہے، اس کی اہمیت و ضرورت اور  اس  نظریہ پر ہونے والے حملوں سے آگاہی   نہیں بخشی گئی۔ کیونکہ ایسے تمام ذرائع جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں موجود قوم کی منزل اور سمت کا تعین کرتے ہیں ان کا رخ دہلی اور بمبئی کی طرف موڑ دیا گیا ہے، جہاں سے بندے ماترم کا فیضان گھر گھر پہنچ رہا ہے۔

میں   اپنے نوجوانوں  کو تاریخی  حقائق کی روشنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ  جس دو قومی نظریہ کا ذکر   پاکستان میں   سنا جاتا  ہے اس کی حقیقت کیا ہے۔   دو قومی نظریہ    محمد الرسول اللہ ﷺ نے اپنے اعلانِ نبوت کے ساتھ ہی عطا فرما دیا تھا۔   ہمارے آقا و مولا ﷺ کی تعلیمات کے مطابق  اس دنیا میں صرف دو  قومیں ہیں۔  ایک قوم کا نام مسلم اور دوسری کا نام   قومِ کفار ہے۔  جی ہاں۔۔۔  ہندو، عیسائی، یہودی، بدھ مت، مجوسی،  سورج، و آگ کے پجاری،   یا  پھر  تصورِ   الٰہ  کے منکر۔۔۔  یہ سب ایک قوم ہے کیونکہ اللہ کے سچے رسول ﷺ کا فرمان ہے  کفار ملتِ واحدہ ہیں،   ان سب کا  ایک ہی ہدف ہے اور وہ ملت اسلامیہ ہے۔   فلسطین میں  مسلمان   یہودیوں سے بر سرِ پیکار،  افغانستان،  عراق،  بوسینیا،  شام،  چیچنیا،  مصر اور دیگر کئی محاذوں پر عیسائی   افواج و حکومتیں مسلمانوں کا خون بہا رہی ہیں،  کشمیر میں ہندو اور برما میں بدھ مت کے پیروکار مسلمانوں کے دشمن۔   الغرض پوری ملتِ کفار کا مشترکہ اور واحد ہدف اسلام اور مسلمان۔

دو قومی نظریہ کو بنیادی قوت قرآنِ حکیم بخشتا ہے جہاں رب تعالٰی فرماتا ہے مشرکین پلید ہیں،       اگر مسلم اور غیر مسلم ایک ہی معاشرہ میں رہ سکتے تو طائف کی گلیوں میں پتھر کھا کر لہولہان ہونے کی ضرورت نہیں تھی،  کائنات  کے سب سے حسین،  صادق و امین  انسان ﷺ کو جادو گر،  کاہن،  جھوٹا اور  غدار کا طعنہ نہ سننا پڑتا، ا پنی جنم دھرتی مکہ چھوڑ کر مدینہ نہ جانا پڑتا۔  یہ طرزِ معاشرت،  قوانین و شریعت،   امور و احکام،  تہذیب و ثقافت  اور نظریات  کا فرق ہی تھا جس نے  بدر و حنین،  احد و خندک  میں کئی مقدس ہستیوں کا خون پیا۔    دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی سلطنتِ اسلامیہ  کے   حاکم و شارع ﷺ کے ظاہری وصال کے بعد اٹھنے والے فتنوں  نے اس   نظریہ کو خطرہ میں ڈالنے کی کوشش کی تو پھر صدیق و عمر،  عثمان و علی  رضوان اللہ علیہم اجمعین  نے کسی مصلحت  کے بغیر سیفِ جلی  کو لہرایا،   ہر گندے کیڑے مکوڑے اور  دجال کو کچل ڈالا،    اسی  دو قومی نظریہ  نے  کربلا میں بہتّر  صالحین طیبین کا خون پیا   اور اپنی بقا  کو امر کر دیا۔

برصغیر میں دو قومی نظریہ  اتنا ہی پرانا ہے جتنی  تاریخِ اسلام پرانی ہے ۔    ملکِ ہند میں دو قومی نظریہ کے خلاف پہلی سازش     اللہ اور اس کے رسول کے غدّار جلال الدین اکبر نے کی  جسے اللہ کے ایک ولی سیدنا مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ  نے پوری استقامت و کرامت سے دفن کر دیا۔   سر سید احمد خان جس کی لمبی داڑھی کی وجہ سے لوگ  آج اسے تحریک پاکستان اور اسلام کا  علمبردار سمجھتے ہیں  در حقیقت دو قومی نظریہ  میں دراڑ ڈالنے والا انسان تھا، اس شخص نے بھی  دو قومی نظریہ کو مٹانے کی کوشش کی،  انگریز  سرکار سے تنخواہیں لیں،   انگریزی میں تعلیم کا راگ الاپا،   جب کہ اسلام تو سارے کا سارا عربی،  فارسی اور اردو میں تھا،    ولی دکنی،  میر تقی میر،  غالب و اقبال اور مرأۃ العروس بھی اردو میں ہی تھی،  قرآن کا ترجمہ،  احادیث کا ذخیرہ،  تفاسیر کا مجموعہ اور ذرائع ابلاغ بھی اردو میں ہی تھے ،  مگر   مسٹر اور سر کا خطاب پانے کے لئیے سید احمد خان نے انگریز آقاؤں سے وفاداری نبھائی، خوش قسمتی سے  اسلام کے علمبرداروں نے یہ سازش بھی ناکام بنا دی اور  نظریہ زندہ رکھا۔۔۔ دو قومی نظریہ کو فکری  قوت دینے والے    درویش ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو   انگریزوں نے  سر کا خطاب   خود پیش کیا تھا کیونکہ وہ  دو قومی  نظریہ کا سچا محافظ تھا اس کے بر عکس سید احمد خان نے چاپلوسی کر کے یہ خطاب پایا تھا۔  
 بظاہر ایک دنیا دار  اور سیکولر خاندان سے تعلق رکھنے والے محمد علی جناح نے اس نظریہ کو   ایک وجود بخشا،  جب انگریز  مسلم لیگ کے پلیٹ فارم  پر  متحد مسلم صوفیأ،  علمأ اور عوام کی طاقت کے سامنے پٹنے لگا تو ایک سازش کے تحت   پورے ہندوستان کو ہندو جماعت  کانگریس کے حوالے کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔    عین اس وقت جب  یہ کھچڑی پک رہی تھی دوسری طرف کانگریسی ٹوپیوں والے علمأ سؤ   ملت کا سودا کرنے میں مصروف تھے،  کسی نے پاکستان کو کافرستان کہا  ( آج ان کی اولاد پاکستان کی سیاست کی ٹھیکیدار ہے اور ڈیزل سے لے کر کشمیر تک ہر معاملے پر  اپنی باطنی خباثت کی وجہ سے بدنام ہے)،  کسی نے قائدِ اعظم کو کافرِ اعظم قرار دیا،  کوئی پاکستان کی پ  تک نہ بننے کے خواب دیکھنے لگا   تو کسی  نے پاکستان کے وجود کو  جہنم سے تعبیر کیا۔    اس وقت سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری،  پیر صاحب مانکی شریف،  پیر آف زکوڑی شریف،  پیر  سید  مہر علی شاہ،   آستانہ عالیہ سیال شریف،  درگاہ کچھوچھہ شریف  اور  تمام صوفی خانقاہوں نے دو قومی نظریہ کی تکمیل کے لئیے محمد علی جناح اور مسلم لیگ  کی غیر مشروط حمایت کی۔  پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پچاس  سال قبل  امام المسلمین سیدنا امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے یہود وہنود  کے خفیہ ایجنٹوں  کو بے نقاب کیا،  کفر کی سازشوں سے پردہ اٹھایا،  ملت میں فساد و فتنہ برپا کرنے والوں  کا قلمی تعاقب کی اور دو قومی نظریہ کو بھرپور  تقویت پہنچائی۔   دو  قومی  نظریہ  کے نام،  وجود،   اور تصور کے دشمنوں  اور  منافقوں پر امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے حملے اس قدر  شدید تھے کہ آج تک  وہ اپنے زخم چاٹ رہے ہیں۔   ان اولیائے کاملین کی روحانی و عملی مدد اور تاجدارِ مدینہ ﷺ کے فیضان سے 1947 میں پاکستان وجود میں آیا اور اللہ کے ایک ولی محمد علی جناح کو مسلمانانِ ہند کا قائدِ اعظم بننے کا شرف ملا۔  

ہندوستان میں  دو قومی نظریہ کے تحت پاکستان بنا کہ ہندو معاشرے کی گندی  رسومات،  رواجات اور ثقافت اسلام سے متصادم تھی اور ہے۔  جس معاشرے میں انسان کے درجات قبائل کی بنیاد پر ہوں،  جہاں کا نظام طبقاتی ہو،  جہاں شوہر کے مر جانے کی صورت میں  اس کے بھائی کے ساتھ شادی کو مذہبی  حیثیت حاصل ہو،   سائنسی ترقی اور علمی عروج کے دور میں بھی اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کی پوجا کی جاتی ہو،   گائے کا پیشاب برکت کا باعث ہو،  مرتے وقت گاؤ موتر بطور شفأ  و  آسانیِ  نزع کے  لئیے     استعمال ہو،   گنگا جمنا میں مرد و زن کے مخلوط اجتماع میں نہایا جائے،   جو اپنے مُردوں کو  اس لئیے جلا دے کہ اسے بعدِ مرگ حساب نہ چکانا پڑے،   جہاں درخت مقدسات میں شامل ہوں،    جنم کنڈلیوں پر زندگی ترتیب دی جائے،   کسی مخصوص جگہ رشتہ کرنا مقصود ہو  تو اس کی نحوست زائل کرنے کے لئیے بندر،  کتا اور درخت سے  حفاظتی شادیا ں کی جائیں،  جہاں  مذہبی رسوم  کے رہنما    ننگے بیٹھے ہوئے پنڈت خوبرو خواتین  پر   جنسی   غلاظت نکالیں اور جہاں  زندگی کا ہر ہر کام وہم اور خیالات پر مبنی ہو وہاں اسلام اور مسلمان نہیں رہ سکتا۔


اسلام اپنے  قوانین،  شریعت اور ثقافت کے ساتھ  دنیا میں موجود ہے۔  دو قومی نظریہ ایک آفاقی نظریہ ہے۔  اسلام دنیا کے ہر کونے میں پہنچ چکا ہے۔   اہل کتاب  مشرکین ضرور ہیں مگر ان پر شریعتیں آئیں اور انبیأ بھی تشریف لائے،  انہوں نے انبیأ   کا انکار کیا، کتب میں ترمین کی  مگر وہ اہلِ شریعت ضرور ٹھہرے۔  پوری دنیا میں ایک ہندوستان ایسا ملک ہے جہاں آج تک بتوّں کی پوجا ہو رہی ہے۔  وہ وقت دور نہیں جب اس خطے میں موجود ہر بت پاش پاش ہو جائے گا اور پھر  کلہاڑی بڑے بت کے کندھے پر رکھ دی جائے گا۔۔۔۔ وہی دن  دو قومی نظریہ  کی تکمیل کا دن ہو گا۔۔۔ انشأ اللہ۔۔۔۔ دو قومی نظریہ ہر مسلمان کے دل و دماغ میں موجود ہے، کفر و شرک اور اور ان کی ثقافت سے بیزاری و نفرت اس نظریہ پر عمل کا بہترین ثبوت ہے۔  دو قومی نظریہ ہر اس جگہ موجود ہے جہاں مسلمان موجود ہے۔   آفاقی نظریہ پورے آفاق میں سفر کر ہا ہے ۔۔۔ مسلمان بد عمل ہو سکتا ہے۔۔۔ سست،  غافل ہو سکتا ہے۔۔۔ مگر بے غیرت نہیں ہو سکتا ہے۔۔۔۔ کیونکہ اس نظریہ کی خاطر ہم نے  مدینہِ  اور حبشہ کی ہجرت کی۔۔۔ اس نظریہ کی خاطر تاریخِ انسانیت کی سب سے بڑی ہجرت ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہوئی۔۔۔ اس نظریہ کی  بقا کے لئیے  آج تک  لاکھوں ماؤں کی گود خالی ہوئی،  سہاگ اجڑے،   بچے یتیم ہوئے،   املاک لٹ گئیں،   پورے  پورے خاندان اجڑ گئے۔۔۔اور۔۔۔۔ رسولِ رحمت ﷺ کے جگر پارے  حسین ابن علی رضی اللہ عنہم نے کربلا پر ڈیرے ڈالے اور۔۔۔  آخر میں یہ بھی یاد رکھئیے کہ اسی نظریہ  کو بچانے کے لئیے 1947 میں   ہماری ماؤں اور بہنوں   کی چھاتیاں کاٹی گئیں،  انہیں زبردستی حاملہ کیا گیا اور آج ان عصمت و عزت والی ماؤں کے بطن سے پیدا ہونے والے سینکڑوں ہزاروں  بچوں کے نام ہندو اور سکھ ولدیت کے ساتھ شنکر،  رام،  دیپک،  کلونت،   پرکاش،   ونود،  اتم  اور   سنگھ  سے موسوم  ہیں۔   اس  دو قومی نظریہ پر مہر حق اس وقت ثبت ہو جاتی  ہے جب  ہم  دنیا میں آنے والے  اپنے  ہر بچے کے کان میں محبت سے سرگوشی کرتے ہوئے اسے اشہد الا الٰہ الا اللہ و اشہد انّ محمد الرسول اللہ کا کلمہ حق سنا کر  باطل کے سینے میں خنجر گھونپ  دیتے ہیں۔ یہ نظریہ صبحِ قیامت تک زندہ رہے گا اور ہم اس نظریہ کی حفاظت کے لئیے سر بکفن ہیں۔ انشأللہ۔

https://www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi
Email: mi.hasan@outlook.com

Tuesday, 13 August 2013

عید اور رمضان میں میڈیا کی فکری یتیمی

اب کے عید یوں آئی کہ  بس لمحہ بھر کا احساس ہی ٹھہرا،  رمضان المبارک کی ستائیسویں  شب  کی عشاٗٔ حرم مکہ میں ادا کی اور  طلوع فجر کے لمحات وادی بطحا میں  میسر آئے۔

؎ یہ تو کرم ہے ان کا ورنہ مجھ میں تو ایسی بات نہیں
جتنا دیا سرکار نے مجھ کو اتنی میری اوقات نہیں

حرمین طیبین کی اس حاضری کی خاص بات یہ تھی کہ  برادرم   وقار الحسن بھی میرے ساتھ تھا جو کہ عمان سے عمرہ کی غرض سے طویل مسافت طے کر کہ پہنچا تھا۔ پیغمبروں کی ماں سیدہ ہاجرہ سلام اللہ علیہا  کی دوڑنے کی جگہ اللہ سے دعا مانگی تھی  کہ میرا بھائی یہاں آئے جو کہ حق تعالٰی نے قبول فرمائی۔ الحمدللہ علیٰ احسانہ و فضلہ

عید  کا دن عرب شریف میں ہی گزرا، پاکستانی میڈیا سے  بے خبری رہی، شام کے وقت سوشل میڈیا الیکٹرانک میڈیا کو ننگا کرتا پایا گیا۔  پھر اپنے من کی تسکین کی خاطر اور تحقیق و جستجو کی نیت سے تمام ذرائع کھنگال  ڈالے۔  ویسے تو اس بار رمضان المبارک میں بھی مذہب کے نام پر خوب تجارت ہوئی، پروگراموں کے میزبان فیشن ماڈل بن کر پیش ہوتے رہے،  سال بھر جو رقص و سرود کی محفلوں کی زینت بنتے ہیں، مورننگ شو کرتے ہیں اور مختلف ڈرامے کرتے ہیں وہ رمضان میں مسلمانوں کی ایمان مضبوط کرنے اور گناہ بخشوانے کے سلسلے کے  رہبر بن جاتے ہیں۔ دین میں نرمی اور اپنی مرضی کے احکام کے متلاشی کھلے دل سے ان کی اتباع بھی کرتے ہیں اور وکالت بھی۔  اکثر سکالر بھی دین سے دور بلکہ بہت دور، خواتین نعت خوان بھی اسلامی حدود کا جنازہ نکالتی نظر آتی ہیں کہ اگر ایک خاتون ٹی وی پر نعت سنائے اور ہر غیر محرم اسے سن سکتا ہے  اور اس کا قیمتی سکارف ، لال رخسار،  لپ اسٹک سے مزین ہونٹ  اور لباس دیکھ کر دل   بھڑک اٹھتا ہے  تو پھر گانا گاتی ہوئی خاتون کیونکر گناہگار ٹھہری؟  پاکستانی میڈیا اپنا احتساب کرے کہ رمضان کے مہینے میں انہوں نے  اسلام کی کیا خدمت کی؟ چھیل چھبیلے لڑکے اور لڑکیوں  کی رنگین محفلوں کے سوا کیا دیا؟   سحری اور افطاری کے پروگراموں میں دین کے نام پر تجارت ہوئی مگر۔۔۔۔ کتنے لوگوں نے وضو کا طریقہ سیکھا، غسل کیسے ہوتا ہے؟  نماز کے احکام کیا ہیں؟  نمازِ جنازہ کیسے ہوتی ہے؟   روزہ کے احکام، مکروہات، مفسدات اور متعلقات کیا ہیں؟    آپ کو ان سوالوں کا جواب نہیں ملے گا کیونکہ یہ چینلز  تو اپنی ریٹنگ بڑھانے کے  چکر میں تھے۔


عید پر بھی ان  چینلز  نے  اپنے فکری آقاؤں کی بھرپور ترجمانی کی،   عید اللہ تعالیٰ کی طرف سے  عطا کردہ خوشی ہے،  اس خوشی کا منانے کا سلیقہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمایا ہے۔   عربوں کی عیاشی، فضول خرچی، حقوق انسانی کی پامالی اپنی جگہ  مگر شھر مبارک کے آتے ہی جگہ جگہ دستر خوان لگتے ہیں،  غربأ اور  مستحقین کی خدمت کی جاتی ہے،  عبادات اور قیام الیل کا اہتمام ( یہ الگ بات ہے کہ اس قیام الیل اور عبادات کی آڑ میں   شرک اور بدعت  کے فتووں کی تربیت دی جاتی ہے) دنیا کی ہر مصروفیت کی حیثیت ثانوی  ہو جاتی ہے،  مگر پاکستان میں اسلام در در ٹھوکریں کھاتا نظر آتا ہے، ٹی وی پر رمضان کی آڑ میں ایسی ایسی واہیات بکی جاتی ہیں کہ الامان والحفیظ۔  اسلام کے نام پر وجود آنے والی اس  مملکت  کے ٹی وی چینلز نے اس رمضان میں ہم جنس  پرستوں ، عقل و شعور سے  بے نیاز،  فلمی و تفریحی  مخنثوں سمیت  دیگر کئی بے حیا کرداروں کو خوب خوب  تشہیر دی۔    اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کم اور ہندو بنئیے کا نظریہ و فکر زیادہ نظر آئے۔   جس انداز میں پاکستانیوں نے رمضان  کو نیا رنگ دیا ہے  اس سے محسوس ہوتا ہے کہ اگلے بیس سال کے بعد رمضان اور عید ایک فیشن تہوار   بن کر رہ جائے گا۔   عید جس کو یوم الجزا کہا گیا اسے بے حیائی اور بے غیرتی کا مظہر بنا دیا گیا۔   اسلام کو اپنے ہی دیس میں  پردیسی بنایا جا رہا ہے۔  اسلام کے نام لیوا اسلام کو لوٹ رہے ہیں،  اسلام  کے منبر پر  کم ظرف،  کم عقل،   نااہل اور جاہل سکالروں کا قبضہ  مضبوط  ہو رہا ہے اور یہی اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔


عید کے موقع پر اکثر ٹی وی چینلز  تفریحی و مذاحیہ پروگرام پیش کرتے ہیں،  ان پروگراموں میں شوہر اور بیوی کے نام پر مشاعرے اور پھر ان مشاعروں میں ان مقدس رشتوں کو اپنی واہ واہ کے حصول کا ذریعہ بنا کر اس قدر پامال کیا جاتا ہے کہ گویا یہ فقط ایک افسانوی کردار ہی ہے حقیقتِ حال بھی کوئی مختلف نہیں کہ ان چینلز کے ڈرامے دیکھ کر عصرِ حاضر کے میاں بیوی تقدس نام سے واقف نہیں رہے۔  اسلامی جمہوریہ پاکستان کے  ٹی وی چینل اس قدر فکری  یتیم ہیں کہ خبر نامہ کے آخر میں جب تک بھارتی سورماؤں اور اپنے  ہندو آقاؤں کی بمبئی نگری کی مصنوعی چِٹی رنڈیوں کو نیم عریاں حالت میں نہ دکھا لیں ان کی شیطانی روحیں  تسکیں نہیں پاتیں۔   اذان نشر کرنے کے لئیے دو منٹ کا وقت میسر نہیں آتا مگر   اپنے ہندو آقا کے ساتھ پرانے خاندانی رشتہ کو نبھانے خاطر  بھارتی فلموں کی تشہیر میں پورا بلیٹن صرف کر دیں گے۔  بد بختی یہ ہے کہ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بچوں کو  مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد قبا اور بیت المقدس کی پہچان تو نہیں ہے تاہم  بندے ماترم،  امن کی آشا، بمبئی کی بدبودار گلیوں سے کسی خطا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی رقاصاؤں اور گویوں کی آوازوں اور شکلوں سے خوب خوب واقفیت ہے۔
 

کوئی شک نہیں کہ یہ فتنہ رکنے والا نہیں کہ قیامت کو بھی وجود پانا ہے،  مگر پاکستانی مسلمانو یاد رکھو،  جس بے حیائی کو اپنے گھروں میں جگہ دے رہے ہو یہ وبال جان بن جائے گی، کل کو ہم نہ رہیں گے اور یہ اولاد اس میڈیا سے اس قدر متاثر ہو جائے گی کہ فاتحہ و جنازہ تک بھول جائے گی، یہی بھارتی   ہندؤں کا اصل مقصد ہے۔    رمضان ہمارا ہے،  عید ہماری ہے اس میں بھارتی فلموں کی تقلید کیوں؟   کیا کبھی  کسی ہندو نے  دیوالی کے موقع پر قرآن پڑھا؟   کیا کبھی ہندو بنئیے  نے  اپنی کسی رسم میں اسلام  کو رواج دیا؟  یا پھر کبھی کرسمس پر  کسی عیسائی کو اسلامی لباس اور وضع قطع اختیار کرتے پایا؟
 

اسلام کو اپنے گھر اور دل میں جگہ دیجئیے ایسا نہ ہو کہ آج جس اسلام کو ہم نے ٹی وی اور میڈیا تک محدود کر دیا ہے کل یہ اسلام میدانِ حشر میں ہمیں پہچاننے سے انکار کر دے۔  اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو وہ بہت ذلت اور رسوائی کا لمحہ ہو گا اور اس وقت پچھتانے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔

اپنی  ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی