Saturday, 7 September 2013

سانپ تیرے رکھوالے



کائنات کے نقشے پر دو ریاستیں ایسی ہیں جو خالصتاً مذہبی اور نظریاتی بنیادوں پر معرضِ وجود میں آئیں۔   ایک کا نام اسرائیل ہے جو فرزندانِ توحید کے قبلہ اوّل فلسطین اور اہلِ قدس کے خون سے کھیل کر زبردستی بنائی گئی اور دوسری ریاست مدینہِ ثانی  اسلامی جمہوریہ پاکستان۔   اسرائیل  کو یہودیت اور نصرانیت  کے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئیے اہلِ مغرب کی غیر مشروط حمایت حاصل رہی اور پاکستان کو  پہلے دن سے ہی خطرات،  عدمِ استحکام اور قتل و غارت گری کا مرکز بنانے کی کامیاب کوششیں۔   جو قومیں اپنی داخلی صفوں میں منتشر ہو جائیں ان کے ہتھیاروں کی چمک ضرور قائم رہتی ہے مگر  ان کے ہاتھوں میں ہمت ختم ہو جاتی ہے۔  فرقہ پرستی اور شدت پسندی  پاکستان کے وجود سے پہلے ہی ہندوستان کے مسلمانوں میں  رچ بس چکی تھی،   صدیوں سے جاری روایات،  علمأ و مشائخِ حرمین طیبین اور اسلاف  کے عقائد پر  مذموم حملے  مسلمان کہلوانے والے  مولویوں نے ہی کئیے مگر انگریز کی گود میں بیٹھ کر۔   انگریز نے یہ جنگ  بیک وقت حجازِ مقدس،  خلیج عرب اور ہندوستان کی ریاستوں میں منظم انداز سے شروع کی،  اسی  سازش کے نتیجے میں  سعودی عرب قائم ہوا،  پھر بالا کوٹ کی جنگ،   اسلام کو  جھوٹی تقویت دینے کے لئیے کتب کی تصنیف،  اہلِ حق کو مشرک و بدعتی،   نبی آخر الزمان ﷺ کے بارے میں اسلاف کے متفقہ عقائد پر حملہ،  ختمِ نبوت کے عقیدے کو مشکوک کئیے جانے،   اور غیر مقلدیت  جیسے فتنوں نے سر اٹھایا۔  دعوت و توحید  کے لئیے انگریز سرکار سے  سرٹیفیکیٹ حاصل کئیے گئے۔

یہ بات اب گھس پٹ چکی ہے مگر ہم اسے نظر انداز اس لئیے نہیں کر سکتے کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔  آج پاکستان کے حکومتی ایوانوں میں بڑی توندوں والے مولویوں کے اجداد  نے تحریکِ پاکستان  کی  کھلے عام مخالفت کی،  کافرستان،  کافر اعظم اور گناہِ کبیرہ سے پاکستان کو تشبیہ دی گئی تو کسی نے بعدِ مرگ پاکستان میں دفن نہ کئیے جانے کی وصیت  کی۔  آج انہی کی اولاد ڈیزل  کے پرمٹ،  سستے داموں زمین،  لمبی لگزری گاڑیوں اور اسلام آباد کی اصل رونق بن چکی ہے۔   فطری طور پر شاطر المزاج،  منافق اور علمأ سؤ  کی اس  نسل کے بڑوں نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی تو آج ان کی فکری اولاد وجود پاکستان مٹانے کے در پر ہے۔   کسی نے ریال جمع کئیے تو کسی نے ڈالر اور یورو کی پوجا کی،  کوئی جہاد کے لئیے چندے جمع کرتا رہا اور کچھ نے ویلفئیر فاؤنڈیشنز بنا کر پیٹ بڑا کیا۔   امن وسلامتی  والے دیس میں  جہاد جیسے عظیم  کام کو فساد اور فتنہ کے ذریعے داغدار کر دیا،  افغانستان  کے جہاد کے نام پر ضیأالحق کا ساتھ دے کر ان مولویوں نے اگلے دس سالوں کی روٹیاں جمع کیں،  جب  اناج ختم ہو گیا تو جہادِ کشمیر کے نام پر پھر  چندہ جمع کرنا شروع کیا۔     کشمیر کو ٓزادی تو نصیب نہ ہوئی البتہ   صورتحال پہلے سے ابتر ضرور ہو گئی۔   جب بین الاقوامی ایجنسیوں کے دباؤ پر اور کنٹرول  لائن پر سخت حفاظتی اقدامات کی وجہ سے ان دہشت گردوں کا کشمیر میں داخلہ بند ہوا تو پاکستان کے اندر محاذ کھول دئیے گئے اور اب ان دہشت گردوں کو تحریکِ طالبان کے جدید نام سے جانا جاتا ہے۔

6 ستمبر پاکستان کا یومِ دفاع منایا جاتا ہے،  اسلام آباد اور راولپنڈی کی سڑکوں پر  خوفناک شکلوں کے ساتھ یہ سابقہ جہادی موجود تھے۔    جو افواجِ پاکستان کی حمایت میں نعرے  لگا رہے تھے،   تاریخ کا ایک طالبعلم ہونے کے ناطے میں نہیں بھولا  کہ  اس گروہ میں سمیع الحق نام کے ایک صاحب  موجود تھے  جو پاکستان کی سیاسی و مذہبی  دنیا میں سرگرم رہتے ہیں،  یہ صاحب خود کو طالبان کا باپ کہتے ہیں،  تو پھر ان کی اولاد افواجِ پاکستان اور عوام  پاکستان کے خون سے کیوں کھیل رہی ہے؟   حافظ سعید کی لشکر طیبہ کہاں گئی؟  حرکۃ الجہاد،  سپاہِ صحابہ،  لشکر جھنگوی اور دیگر کئی کالعدم تنظیموں کی نمائندگی اس جلوس میں تھی،   سابق جرنیل حمید گل کی روح بھی وہیں دھکے کھا رہی تھی،  حمید گل صاحب جب آپ  آئی ایس آئی کے سربراہ تھے اس وقت پاکستان کے دفاع میں کون سے رکاوٹ تھی جو اب آپ کو  جہاد کے شوق  نصیب ہوئے؟   یا پھر آپ کو بھی کیمرہ کے سامنے رہنے کا شوق ہے؟    مذکورہ سطور میں جتنی تنظیموں یا ان کے نمائندوں کا میں نے ذکر کیا  یہ سب کے سب کشمیر   آزاد کروانا چاہتے ہیں مگر  منافق ہمیشہ دو مونہا ہوتا ہے،  یہ آزاد ملکِ شام کو امریکہ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں،   جہاں سے ان کی ڈور ہلتی اور امداد ملتی ہے وہ      امریکہ کے ترلے اور منتیں کر رہے ہیں کہ شام پر حملہ کیا جائے۔  میرا سوال یہ ہے کہ  تم مجاہد بھی ہو،  دلیر بھی ہو،  تمہارے پاس ریال بھی ہیں اور دینار بھی،  ڈیزل بھی ہے اور پٹرول بھی،  جنگی سامان و آلات بھی ہیں تو خود کیوں نہیں لڑتے شام میں؟   کشمیر اور پاکستان کے لئیے تمہارا معیار الگ ہے اور شام کے لئیے الگ؟؟؟


اے اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والو!
یاد رکھو،  ریال اور دینار دائمی نہیں ہیں،   پٹرول کو بقا نہیں ہے،  ڈیزل ختم ہو جانے والا ہے،   مظلوم کی بد دعا تمہیں لے ڈوبے گی،  تم نے افغانستان اور کشمیر کے نام پر اسلامیانِ پاکستان   کا مستقبل تاریک کر دیا،   مگر۔۔۔ یہ خوارج کا تکفیری   گروہ ہے،   ہندوستان کے بعد اب مصر اور شام کے مسلمان بھی مشرک نظر آنے لگے ہیں،  وہاں بھی تمہیں بدعتی نظر آنے لگے ہیں،  اب مدفونینِ جنت البقیع کی طرح  شام،  مصر اور لیبیا میں مدفون مشائخ و صالحین کی قبور شہید کی جائیں گی،   مزارات شہید ہوں گے،  مساجد منہدم ہوں گی،   نظریہ ضرورت کے تحت سگی بہنوں سے تم نکاح جائز قرار دو گے،   نکاحِ مسیار جائز ہو گا  ( یہی نکاح اگر اہل تشیع کریں تو متعہ کہہ کر حرام  ہوتا ہے)،   اب تم اہلِ عرب کو کافر  مشرک کہو گے اور  ۔۔۔  یوں اسلام اور مسلمان  لڑ لڑ کر مٹیں گے  ۔۔۔  مگر ۔۔۔  اسرائیل مضبوط ہو گا،  کافر خوش ہو گا، تمہاری یہودی آقا یہی چاہتے ہیں،   تم یورپی محبوباؤں کو ہیرے کے ہار پہناؤ،  خلیجِ عرب میں بلا کر اپنی  جوان بیٹیوں کے رقص دکھاؤ، جام چھلکاؤ ،    یورپ کے ٹھنڈے ساحلوں پر موج کرو ،   اپنے  ذاتی جہاز خریدو،  درجنوں  بیویاں رکھو، بیسیوں شہزادوں اور شہزادیوں      کے باپ بنو مگر فلسطین جلتا رہے گا،   قبلہ اول آباد نہیں ہو گا،  کشمیر کی جنت میں ہندو کا راج رہے گا،  برما میں بدھ مت کے ظلم کا جواب تم نہیں دو گے،  بنگلہ دیش کی سڑکوں پر  بہتا ہوا خون تم  نہیں دیکھو گے،   غربت کی وجہ سے مسلمان بیٹیاں اپنے والدین کے گھر بیٹھی بوڑھی ہو جائیں گی تمہارے محلات میں خدام کی تنخواہیں ڈالروں میں  ہوں گی مگر عین اسی لمحے تمہارے ہی دیس کے کسی کونے میں ایک مسلمان بیٹی تمہاری فکری اولاد کی درندگی کا شکار بن رہی ہوتی ہے ۔۔۔  تم یہ سب کچھ کر سکتے ہو کیونکہ تمہیں لے پالک مولویوں کی تائید حاصل ہے،   یہ مولوی بغیر دیکھے اور غیر مشروط  تعاون پیش کر رہے ہیں،  ان کی لالچ گاہ تو   ریالوں سے بھری پڑی ہے۔

اے سادہ لوح مسلمانو!
تمہارے لئیے لمحہ فکریہ ہے،  وہ جہاد نہیں عین ِ فساد ہے کہ جس کا معیار شام میں الگ ہو اور کشمیر میں الگ،   جو دفاع پاکستان کی ریلی تو نکالے مگر اپنی اولاد طالبان کو نہ روکے،   جو اسلام کے نفاذ کا علم تو اٹھائے مگر اہلِ اسلام کو کافر و مشرک قرار دے،   جو شہادت کی ترغیب تو دلائے مگر شہدأ کی قبور کی بے حرمتی کرے،  جو محافظ کی شکل میں ڈاکو بن جائے،   جو اپنے وطن کی عزت پر ریال کو ترجیح دے،  جو ڈالر لے کر حکمرانی کے خواب دیکھے ۔۔۔  یہ سب ہمارے محافظ نہیں ہیں سانپ ہیں ۔۔۔۔  سانپ ۔۔۔۔  میٹھے زہر والے ۔۔۔۔  جاگ مسلمان ۔۔۔  اپنے اس میٹھے زہر والے سانپ کا سر کچل دے ۔۔۔  سانپ تیرے رکھوالے بنے ہوئے ہیں،  سانپ مسخر ہو جانے کے بعد بھی دشمن ہی ہے۔ 

Monday, 2 September 2013

برکاتِ اسمِ اعظم (1)



اسمِ اعظم پر محققین اور معتبر علمی شخصیات  کے 
مقالے اور تحاریر کتب و رسائل  ،  اخبارات اور انٹرنیٹ پر  بکثرت موجود ہیں۔   جن فورمز پر میں لکھتا ہوں وہاں بھی اس حوالے سے آپ کو عاملین  اور محققین   کا  کام نظر آتا ہے۔   روحانی علوم اور وظائف کے بارے ایک بات  یاد رکھیں کہ  کتب میں جو کچھ لکھا ہوتا ہے ضروری نہیں کہ لکھنے والا ان تمام وظائف کا عامل ہو،  یا اس نے اس عمل یا وظیفہ کی زکوٰۃ لازمی ادا کی ہو،   آج کل کی اکثریت تو نقل کرتی ہے جیسا کہ پچھلے دنوں میرا ایک طبی مضمون اول تا آخر   ایک صاحب نے  اپنی فیس بک پر  کاپی کر دیا ،  وہ تو بھلا ہو  ایک عزیز کا جس نے  اسے  مثبت انداز  میں سمجھایا  ۔۔۔  روحانیت میں عامل  اگر واقعی صالح ہو  نسبت  و اجازت والا  ہو اور  شریعت مطہرہ کا پابند ہو تو پھر دورانِ مطالعہ و ریاضت  الہامی طور پر بھی  اسے رہنمائی ملتی ہے۔  روحانیت  کے طالب پر مخلوقِ خدا کی بھلائی کی تراکیب و وظائف  کا روحانی نزول ہوتا ہے جس سے رشد و ہدایت کے راستے کھلتے ہیں۔  اسمِ اعظم مخلوقِ خدا کی بھلائی،  ہدایت،  حصولِ رحمت،  قضائے حاجات اور مشکلات کے حل کا ذریعہ ہے،   اہلِ اسلام کا ازل سے اس پر عمل رہا ہے۔

اسمِ اعظم کا مطلب واضح ہے،   اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے  اس کا انتخاب ہوتا ہے۔  میری معلومات اور مطالعہ کے مطابق  علمأ و محققین کسی ایک نام پر متفق نہیں ہیں  جسے حتمی طور پر اسمِ اعظم کہا جا سکے۔  بعض نے یا حی یا قیوم  کو اسمِ اعظم لکھا ہے تو بعض نے اسمِ ذات یعنی اللہ کو اسمِ اعظم قرار دیا ہے۔  اسمِ اعظم نام کے اعداد  کے حساب سے اخذ کیا جاتا ہے،   اس میں بھی محققین کا اپنا اپنا طریقہ ہے،  جیسا کہ علمِ جفر،  رمل اور ابجد وغیرہ۔    کچھ  لوگ  مزید باریکیوں میں جا کر مفرد،  مرکب،  شمسی اور قمری  حساب سے بھی  نکالتے ہیں۔    میں نے اپنے بزرگوں کو علمِ ابجد سے ہی کام لیتے دیکھا ہے اور جمہور مشائخ و علمأ اسی سے کام لیتے ہیں۔  امام المسلین ،  اعلٰی حضرت الشاہ احمد رضا خان ،  مفتیِ اعظم ہند الشاہ مصطفٰی رضا  اور میرے شیخِ کامل شیخ الحدیث والتفسیر،  نائبِ محدثِ اعظم پاکستان علامہ مفتی محمد عبد الرشید قادری رضوی رحمۃ اللہ علیم اجمعین حسب ضرورت  علمِ ابجد  سے ہی کام لیتے تھے۔    اسی پر میرا عمل ہے۔   علمِ ابجد میں جس کا اسمِ اعظم درکار ہو،  اس کے نام کے اعداد نکال لئیے جاتے ہیں،  پھر ان اعداد کے مطابق اللہ تعالٰی کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک دو یا تین یا حسبِ ضرورت جتنے اسمائے حسنیٰ اس نام کے اعداد کے برابر ہوں،  انتخاب کر لیتے ہیں۔   پھر حاجت اور مراد کے پیشِ نظر سمِ اعظم کو نام کے مجموعی اعداد کے برابر،  دو گنا،  تین گنا یا عامل  کی تجویز کے مطابق عمل کیا جاتا ہے۔

بعض اوقات  مخصوص اسمأ  بمطابق نام کےساتھ کچھ اضافی اسمأ  بھی شامل کئیے جاتے ہیں،  اس کا انحصار حالات و ہدف پر ہوتا ہے۔  اگر کسی کے گناہوں سے پردے اٹھ رہے ہوں اور ذلت و رسوائی   کا خطرہ ہو تو اسمِ اعظم کے ساتھ یا ستّار (اے گناہ چھپانے والے)،   اگر کسی پر سختی کرنا مقصود ہو تو یا قھّار (اے قہر نازل کرنے والے)،   یا  گناہوں کی کثرت ہو جائے اور توبہ کی توفیق ملے تو یا غفار (اے بخشنے والے) لگا کر دئیے جاتے ہیں۔
   
ایک عام فہم بات ہے کہ  انسان جس چیز کا نام بار بار پکارے  یا کوئی نام اس کی زبان پر جاری ہو جائے تو وہ چیز یا اس کا وجود انسان کے دل میں قرار پاتا ہے۔  جب ہم کسی مصیبت یا حاجت میں اللہ تعالٰی کو اس کے صفاتی ناموں سے پکارتے ہیں تو اس کی رحمت عود کر آتی ہے۔   حق تعالٰی خود فرماتا اور ترغیب دلاتا ہے کہ میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا،   صبح شام میرا ذکر کرو،  میرے ذکر  میں دلوں کا سکون ہے،   تم مجھ سے مانگوں میں قبول کروں گا۔۔۔  تو اس سے بہتر اور کیا طریقہ ہو گا کہ حسب موقع و حالت ہم اللہ  تعالٰی  کے اسمائے گرامی میں سے انتخاب کریں،  پھر اس کی مداومت کریں،  اس کی بارگاہ میں  جھک جائیں ،  اپنی غلطیوں،  بدکاریوں،  بد اعمالیوں اور گناہوں کو  یاد کریں،  پھر اس  خالق و مالک کی بارگاہ میں ندامت سے آنسو نکل آئیں اور آنکھوں کو غسلِ طہارت  کا سامان ملے ۔  یہی مقصد ہے اسمِ اعظم  کے ورد کا،  روحانیت بھی اسی کا نام ہے،   اولیأ اللہ  یہی سبق دیتے ہیں کہ جب کوئی پریشان حال ہو،  دنیاوی و مادی معاملات کی وجہ سے  مصائب میں گر جائے تو اسے اللہ کے ذکر کے ذریعے اللہ تعالٰی کے قریب کر دو۔   اسمِ اعظم   آپ کی ہر طرح کی حاجات و مسائل کا حل ہے، رزق میں برکت و اضافہ، مقدمہ میں کامیابی، شادی و نکاح، اولاد ،  ملازمت، ذہنی  ونفسیاتی مسائل، گھریلو جھگڑے الغرض  پیدائش سے لے کر موت تک   پیش آنے والے معاملات میں اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

روحانی علاج کے لئیے رابطہ کرنے والے تمام لوگوں کو میں کسی نہ کسی صورت اسمِ اعظم ضرور دیتا ہوں،  مثلاً  حصولِ خیر و برکت کے لئیے خاندانِ عالیہ قادریہ رضویہ  کا معمول پنج گنج قادریہ ہے جو کہ اسمِ اعظم کی برکات کا منہ بولتا ثبوت ہے،  پانچوں نمازوں کے بعد کے وظائف میں اللہ تعالٰی کے  اسمأ شامل ہیں،  جو تمام ضروریات زندگی  کی کفایت کے لئیے ہیں۔   اعلٰحضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے وظیفۃ الکریمہ میں اسے شامل  فرمایا ہے جو حجۃ الاسلام الشاہ حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ مبارک سے لکھے ہوئے مقدمہ کے ساتھ دستیاب ہے۔

اسی طرح کلمہ طیبہ  اسمِ اعظم کا منبع ہے۔   اس میں تو اسمِ ذات اللہ موجود ہے۔  خالق کائنات کا  ذاتی نام یہی ہے باقی صفاتی اسمأ  ہیں۔  اپنے شیخِ طریقت رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات و معمولات کے مطابق میں نے  اپنے محبین کو نمازِ فجر کے بعد کلمہ طیبہ بشمول درود شریف ایک سو مرتبہ تجویز کیا ہے،  الحمد للہ نفسیاتی و ذہنی مسائل سے نجات کے لئیے مجرب پایا۔   اس میں شہادت و رسالت، اسمِ اعظم اور درود شریف  کا مجموعہ ہے۔

اسم اعظم کے برکات و فضائل پر  سلسلہ وار مضامین ترتیب دینے کا ارادہ ہے،  جس میں  مختلف مسائل و مشکلات کے حل کے لئیے اسمائے الٰہیہ سے وطائف پیش کئیے جائیں گے۔  انشأ اللہ۔ ۔ ۔  اپنی حاجات اور مسائل کے حل کے لئیے کمنٹ باکس میں اپنا نام لکھ دیں یا ای میل 
اور فیس بک کے ذریعہ بھی رابطہ فرما سکتے ہیں۔

Email: mi.hasan@outlook.com

Skype: mi.hasan