Monday, 25 May 2015

روزانہ پڑھنے کے لئیے مسنون وظائف

اللہ جل و علا نے اپنے حبیب پاک صاحبِ لولاک علیہ الصلاۃ والسلام کے وسیلہ جلیلہ سے ہمیں  اپنی عبادت اور یاد کی طرف   رغبت دلائی ہے۔   اللہ کریم کے ساتھ قربت  بڑھانے ، اس کی محبت کی لذت و چاشنی پانے اور معرفت حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ    اذکار  اور وظائف ہیں۔   اذکار و وظائف ، سلاسلِ طریقت میں جاری اوراد  روحانی تسکین  و  ذہنی  راحت  کا سبب اور دنیوی و اخروی نجات کا باعث ہیں۔     آپ احباب ہمارے سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف  دنیاوی مسائل اور پریشانیوں سے نجات پانے  کے لئیے وظائف  حاصل کرتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔  ان میں سے اکثر وظائف کا تعلق  وقتی ضروریات سے ہوتا ہے جو کہ علم الاعداد  کی روشنی میں یا قرآن مقدس کی متعلقہ آیات سے لئیے جاتے ہیں،   اور یہ  سائلین کی ضرورت،  مسائل اور پریشانیوں کو سامنے رکھ کر ترتیب دئیے جاتے ہیں۔   تاہم آج کے اس مضمون میں آپ کے لئیے ایسے وظائف پیش کئیے جا رہے ہیں جو فرض نمازوں کے بعد پڑھے جاتے ہیں اور یہ صحیح اسناد سے رسول اللہ ﷺ سے ثابت بھی ہیں  اور  صحابہ کرام علیہم الرضوان  بھی ان کے عامل رہے۔   سبحان اللہ عزوجل۔    یہ وظائف تمام اہلِ  ایمان کو اختیار  کرنے اور حرزِ جان بنانے چاہئیں۔   حضور ﷺ سے منقول کچھ وظائف بمع مختصر وضاحت و  تجاویز   یہاں درج کئیے جا رہے ہیں۔

پانچوں نمازوں کے بعد کے وظائف:

1۔         سب سے اول تسبیحِ فاطمہ رضی اللہ عنہا،  یہ مبارک  ذکر  آقا کریم ﷺ نے  اپنی  شہزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سکھایا۔  
سبحان اللہ تینتیس مرتبہ، الحمد للہ تینتیس مرتبہ، اللہ اکبر چونتیس مرتبہ آخر میں ایک بار    لَا إِلٰهَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَه لَا شَرِيْکَ لَه. لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌ۔
اس دن تمام جہاں میں کسی کا عمل اس کے برابر بلند نہ کیا جائے گا مگر جو اس کے مثل (یعنی یہی عمل یا اس کے برابر کوئی دوسرا عمل) پڑھے۔
(صحیح بخاری)
2۔   ہر نماز  کے بعد یہ استغفار بھی  تین تین  بار پڑھیں۔ (اس میں اسمِ اعظم بھی شامل ہے) ۔ سبحان اللہ عزوجل۔
اَستغِفرُ اللہ الؔذِی لا اِلٰہ الا ھُوَا الحَیُؔ القیوم واتوب الیہ۔
اس کی برکت سے گناہ معاف ہوں گے اگرچہ لشکر سے بھاگا ہوا ہو۔
(جامع ترمذی(
 3۔   ہر فرض نماز کے بعد  پیشانی پر ہاتھ رکھ کر  یہ دعا پڑھیں؛
بسم اللہ الؔذِی لا الہ الا ھو الرحمٰن الرحیم۔ اللھم اَذْھِبْ عَنؔی الْھَمؔ وَالحُزْنَ۔
اس کی برکت سے ہر غم و پریشانی سے بچے گا۔
(مجمع الزوائد، رقم 16971)

صبح و شام کے وظائف

صبح و شام کی تعریف یہ ہے کہ، آدھی رات ڈھلنے  سے سورج  کی پہلی کرن چمکنے تک"  صبح"  ہے ،  اس سارے وقفے میں جو پڑھا جائے گا  اسے صبح میں پڑھنا کہیں گے اور دوپہر  ڈھلے یعنی ابتدائے ظہر سے لے کر  غروبِ آفتاب تک "شام" ہے، اس سارے وقفے میں  جو پڑھا جائے  اسے شام میں  پڑھنا کہیں گے۔  
4۔  سیدِ عالم  حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’دو خصلتیں ایسی ہیں کہ جس مسلمان میں جمع ہو جائیں وہ جنت میں داخل ہوگا: جو شخص سوتے وقت 33 مرتبہ سُبْحَانَ اﷲِ، 33 مرتبہ الْحَمْدُ ِﷲِ، اور 34 مرتبہ اَﷲُ اَکْبَر کہے اور ہر نماز کے بعد یہ تینوں کلمات دس دس مرتبہ کہے۔‘‘
ترمذی، الجامع الصحيح رقم : 410
5۔  تینوں قُل ( سورہ اخلاص،  الفلق، الناس)  تین تین بار صبح شام  شام پڑھ لیں تو ہر بلا سے حفاظت  ہے۔
(ابو داؤد)
6۔  یہ دعا ایک بار صبح شام پڑھ لیں، غم و الم  سے بچے، اور ادائے قرض کے لئیے گیارہ گیارہ بار صبح شام۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوذُبِکَ مِنَ الھَمِّ وَ الحُزنِ وَ العِجزِ وَ الکَسَلِ وَ الجُبنِ وَ البُخلِ وَ ضَلَعِ الدَّینِ وَ غَلبَۃِ الرِّجَالِ
( ابو داؤد)
7۔  بسم اللہ علٰی دینی، بسم اللہ علٰی نَفؔسِیؔ  و َ وُلؔدِیؔ وَ اَھؔلَیؔ و مَالِیؔ۔  
 تین تین بار صبح شام پڑھیں۔ دین و ایمان، جان و مال اور بچے سب محفوظ رہیں۔
(الوظیفۃ الکریمہ)
8۔  دن بھر میں چلتے پھرتے درود و سلام اور استغفار کی کثرت کریں، اس کی برکت سے گناہوں سے نجات اور نیکی کے کام میں دل لگا رہے گا۔   درود شریف تمام وظیفوں کی اصل ہے۔ اگر اللہ تعالٰی توفیق دے تو رات کو سونے سے قبل مدینہ منورہ کی طرف منہ کر کے خود کو روضہ رسول ﷺ کے سامنے تصور میں پیش کر کے  درود و سلام عرض کرنے کی عادت بنا لیجئیے۔  اسی تصوراتی  عالم میں اپنی مناجات و گزارشات پیش کیجئیے،   اگر یہاں دل جم گیا اور رابطہ قائم ہو گیا تو  ایک نئی دنیا   آشکار ہو جائے گی اور پھر کسی وظیفے  و ریاضت کی حاجت ہرگز نہ رہے گی۔ 
9۔ ہر روز نماز فجر کے بعد  فاتحہ  پڑھنے کی عادت بنائیے اور اس کا ثواب ابو البشر سیدنا آدم علٰی نبینا  و علیہ السلام سے لے کر آج تک  اور قیامت تک آنے والے ہر مومن   کے لئیے ، خصوصاً آقا و مولٰی  ﷺ، آپ کے اصحاب و اہلِ بیت، اولیائے امت اور اپنے والدین ، زندہ و فوت شدگان رشتہ دار سب کو ایصالِ ثواب کیجئیے۔  یہ  میرا مجرب وظیفہ ہے کہ جب مرحومین کو ایصالِ ثواب کریں تو اس کے دنیا میں بے شمار فوائد ظاہر ہوتے ہیں۔
 اللہ تعالٰی ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اس کی یاد میں مگن رہیں اور ہم سب کا شمار ذاکرین و عابدین میں فرمائے۔ آمین۔
شرعی و روحانی مسائل و احکام جاننے کے لئیے ہمارا فیس بک پیج لائیک کیجئیے۔
آپ ہمیں ای میل بھی کر سکتے ہیں۔

Wednesday, 20 May 2015

عذابِ قبر کا احادیث کی روشنی میں بیان


اللہ جلا و علا نے تخلیق انسان کی وجہ قرآنِ مقدس میں واضح طور پر بیان کی ہے۔  پھر انسان کے سامنے رشد و ہدایت  کی راہ بھی روشن فرما دی اور اگر وہ نفس و شیطان سے مغلوب ہو کر احکامِ خدواندی سے بغاوت کرے تو جہنم و آگ بھی اس کے لئیے رکھ دی۔  اتباعِ احکام الٰہیہ کی صورت میں بہشت و جنت کی نعمتیں اور  افعالِ حرام و مکروہات کے ارتکاب پر  جہنم میں ڈالے جانے کا انتظام بھی ہے۔
دورِ رواں میں  تعلیماتِ دینیہ سے دوری وسواس کا باعث بن رہی ہے،  لوگ اپنی مرضی سے دینیات کی تشریح کرتے ہیں اور نتیجہ میں گمراہی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ عذابِ قبر بھی ایک ایسا ہی موضوع ہے  جس کی آڑ میں منکرین   و جہلاء انکار  و کلامِ بے سود کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔   عذاب قبر برحق ہے اور قرآن وحدیث میں عذاب قبر کو بڑے واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
اولاً یہ سمجھیں کہ  موت سے قیامت برپا ہونے تک کے عرصے کو "برزخ" کہا جاتا ہے۔ موت کے بعد تمام جن و انس اپنے اعمال کے حساب سے  برزخ میں درجہ پائیں گے۔ برزخ کا تعلق  اِس دنیا سے بھی ہے اور آخرت سے بھی۔  فوت ہو جانے کے بعد ورثاء، اعزاء و اقربا ء کی دعا، صدقات و اعمالِ حسنہ   برزخی زندگی میں  نجات و راحت کا سبب بنتی ہیں اور  یہ قیامت میں ملنے والے انعامات کا ہی ایک حصہ ہے۔ اسی طرح اگر کسی کی قبر میں سختی ہے تو یہ بھی اس کی سزا کا ہی ایک حصہ ہے۔
حق تعالٰی جل شانہ فرماتا ہے؛
"(اور عالم برزخ میں بھی) ان لوگوں کو دوزخ کی آگ کے سامنے صبح و شام لایا جاتا ہے۔‘‘
الغافر، 40 : 46

عذابِ قبر  کے بارے میں متعدد احادیث  موجود ہیں جو  عذاب قبر کے بر حق ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور ان احادیث کی موجودگی میں اس حق کا انکار کرنا کفر  ہے۔
1۔ ’’حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی  پاک ﷺ  گھر سے باہر تشریف لائے جب کہ سورج غروب ہو چکا تھا۔  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (قبرستان میں) ایک آواز سنی تو ارشاد فرمایا :  یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر، 1 : 463، رقم : 1309

 یہ حدیثِ پاک بیک  وقت دو اہم عقائد کی وضاحت کر رہی ہے ، اول یہ کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالٰی   نے  علمِ غیب عطا فرمایا تھا کہ آپ غیب کی خبر دیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ  مردے کو قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔  دوسرا یہ کہ   انسان  کسی بھی مذہب سے تعلق  رکھتا  ہو وہ آخرت میں جزا و سزا کے مرحلے سے لازمی گزرے گا اور یہ  ان باطل عقائد کا رد ہے جو اپنی  جہالت  کی وجہ سے عذابِ قبر و آخرت کا انکار کرتے ہیں۔

2۔ حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ نے  تو واضح طور پر نام لے کر  بیان فرمایا کہ؛
’’ہم عذابِ قبر کے بارے میں شک میں مبتلا رہے حتی کہ سورۃ التکاثر نازل ہوئی۔‘‘
ترمذي، السنن، کتاب تفسير القرآن عن رسول اﷲ ﷺ : 447، رقم : 3355۔

3۔  حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ؛
"نبی کریم ﷺ  نے فرمایا : مردے (کافر، مشرک، منافق) اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں اور ان (کے چیخنے چلانے) کی آوازیں سارے چوپائے سنتے ہیں۔‘‘
طبراني، المعجم الکبير، 10 : 200، رقم : 10459

عذاب قبر کی شدت بھی اعمال کے حساب سے ہو گی۔ احادیثِ رسول ﷺ میں اس کا متعدد مقامات پر ذکر آیا۔  
4۔ ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہماسے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ  ﷺ  نے  (غیب کی خبر دیتے ہوئے ) فرمایا  ،  ان دونوں کو (قبروں میں) عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑے گناہ کی بناء پر نہیں۔  پھر فرمایا ان میں سے ایک چغلی کھاتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب کے قطروں سے احتیاط نہیں کرتا تھا۔  راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ہری شاخ لی اور دو حصوں میں تقسیم کیا، پھر ہر قبر پر اس کا ایک ایک حصہ لگا دیا اور پھر فرمایا : جب تک یہ خشک نہ ہوں ان سے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب عذاب القبر من الغيبة والبول، 1 : 464، رقم : 1312
اللہ اکبر۔۔۔ یہاں بھی علمِ غیب مصطفٰی کریم ﷺ کا زبردست ثبوت اور احوالِ قبر کا بیان کرنا   فکر دلا رہا ہے۔

5۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ؛
"ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر کے کنارے بیٹھ کر رونے لگے، حتی کہ مٹی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنسوؤں سے تر ہو گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے میرے بھائیو! اس (قبر) کے لئے کچھ تیاری کر لو۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب الحزن والبکاء، 2 : 1403، رقم : 4195

قبر میں ہونے والے سوالات کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی احادیث میں رہنمائی فرمائی ہے :
6۔  ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سید المرسلین  ﷺ  نے فرمایا : جب میت دفنائی جاتی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کسی ایک کی میت دفنائی جاتی ہے تو اس کے پاس دو سیاہ رنگ کے، نیلی آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے وہ دونوں میت سے پوچھتے ہیں تم اس شخص (یعنی حضرت محمد ﷺ)  کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے؟ پس (اگر وہ مومن ہو تو) وہ وہی کہتا ہے جو وہ دنیا میں کہا کرتا تھا یعنی وہ اﷲ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔  میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد ﷺ  اﷲ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔  وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں : ہمیں علم ہے کہ تو دنیا میں یہی کہا کرتا تھا۔  پھر اس کے لئے اس کی قبر چاروں طرف سے ستر، ستر گز تک وسیع کر دی جاتی ہے۔  پھر اس کو اس کے لئے روشن کر دیا جاتا ہے۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے :  سو  جا۔  وہ کہتا ہے : میں اپنے گھر والوں کی طرف جاتا ہوں تاکہ انہیں اپنے حالات کی خبر دوں۔  وہ دونوں اس سے کہتے ہیں :  تو اس پہلی رات کی دلہن کی طرح سو جا جس کو اس کے گھروں میں سے صرف اس کا محبوب شوہر ہی جگاتا ہے۔  (وہ اسی حال میں رہے گا)  یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اسے اسی حال میں اس کی قبر سے اٹھاے گا۔  اگر وہ منافق ہو تو وہ (ان کے سوال کے جواب میں)  کہتا ہے :  میں نہیں جانتا میں نے وہی کہا جو میں نے لوگوں کو کہتے سنا :  دونوں فرشتے اسے کہتے ہیں :  ہم جانتے ہیں کہ تو یہی کہا کرتا تھا۔  پھر زمین سے کہا جاتا ہے کہ اس کے لئے سکڑ جا۔  پس زمین اس کے لئے سکڑ جاتی ہے اور اس کے دونوں پہلو ایک دوسرے میں دھنس جاتے ہیں۔  پس وہ اسی حال میں عذاب میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اسے اس کی قبر سے اٹھائے گا۔‘‘
 ترمذي، السنن، کتاب الجنائز عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب ما جاء في عذاب القبر، 3 : 383، رقم : 1071
مزید شرعی  و روحانی رہنمائی کے لئیے ہمارا فیس بک  پیج لائیک کیجئیے۔

https://www.facebook.com/IHR.Official

Monday, 4 May 2015

اختیارات اور حیات رسول کریم ﷺ


محبوب رب العرش  ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
انما انا قاسم والله يعطی.
(بخاری شريف، ج : 1، ص : 16)
اللہ تعالیٰ مجھے دینے والا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں۔
 یہ حدیث پاک مطلق تقسیم کرنے کو بیان کر رہی ہے اور اس میں صرفی و نحوی اعتبار سے بھی زمانہ اور وقت کی کوئی قید نہیں ہے۔  لہٰذا رسول اکریم ﷺ اپنی حیاتِ ظاہری اور بعد از وصال بھی  اپنی امت کے لئیے خیر و رحمت تقسیم کرنے والے ہیں۔ روایتِ مذکورہ میں " والله يعطی"  کہ اللہ تعالٰی دیتا ہے، اب کیا دیتا ہے یہ محبوب و محب کی بات ہے، وہی بہتر جانتے ہیں کہ ان کے خالقِ کریم نے انہیں کون کون سے نعمتیں عطا کی ہیں۔ ، چونکہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے وہ جو چیز بھی کسی کو دیتا ہے تو بدست مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطا کرتا ہے۔
اس حدیثِ پاک میں رسولِ مکرم ﷺ نے خود کو قاسم   فرمایا  اور اللہ تعالٰی کو عطا کرنے والا تو اس ے ثابت ہوا کہ آقا کریم ﷺ کو رب تعالٰی عطا کرتا ہے اور وہ اپنے مالک و مولا کی عطا سے اپنی امت میں انعامات، خیرات و رحمت تقسیم فرماتے ہیں۔  حیاتِ ظاہری میں بکثرت اس کی مثالیں موجود ہیں اور بعد از وصال بھی انوار ورحمت، فضل  و عطا کا یہ سلسلہ جاری ہے اور   ہمیشہ ہمیشہ  امتِ محمدیہ  علٰی صاحبھاالصلاۃ والسلام ان فیوض و برکات سے مالا مال ہوتی رہے گی۔ جہاں تک وصال کے بعد کی عطا کا تعلق ہے تو یہ  احادیث پیشِ خدمت ہیں۔
ان الله حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبياء فنبی الله حی.
(سنن ابی داؤد، ج : 1، ص : 275)
بیشک اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے اجسام کو زمین پر حرام کر دیا ہے پس اللہ کے نبی زندہ ہیں۔
اس حدیث سمیت دیگر متعلقہ روایات پر جمہور اکابرینِ امت کا اتفاق ہے،  محبوب کریم ﷺ اپنی قبرِ مبارکہ میں زندہ  ہیں۔ 
دوسری حدیث پاک میں ہے :
حياتی خير لکم و مماتی خير لکم.
(سنن نسائی، ج : 1، ص : 189)
میری حیات بھی تمہارے لیے بہتر ہے اور میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر ہے۔
حیات کے ساتھ وفات کو بھی بہتر قرار دینا اس بات کا  اعلٰی ثبوت ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام  جس طرح حیاتِ ظاہری میں اپنے غلاموں کو نوازتے تھے ویسے ہی قبرِ منور میں  بھی عطا و کرم کا سلسلہ جاری ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مزید روحانی،  شرعی اور علمی  مواد کے لئیے ہمارے فیس بک پیج پر  تشریف لائیں۔

 https://www.facebook.com/IHR.Official