Saturday, 15 June 2013

دعوتِ اسلامی کی روحانی علاج خدمات



فیضانِ دعوت اسلامی





دعوتِ اسلامی کی روحانی علاج خدمات


"دعوتِ اسلامی"  کا تعارف لکھنے کی حاجت نہیں ہے۔  ایک غیر سیاسی اور تبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر تحریک ہے۔ سو کے قریب ممالک میں  دعوتِ اسلامی کا کام موجود ہے۔  امیرِ دعوتِ اسلامی حضرت مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم القدسیہ عصرِ حاضر  کے چند ایسے اولیاء و بزرگانِ دین میں سے ہیں جن کی بات حجت کا درجہ رکھتی ہے۔ کروڑں دلوں کا چین اور قرار ہیں۔ ان کی عاجزی، انکساری اور عشقِ رسول ﷺ  کا یہ حال ہے کہ مدنی چینل پر لاکھوں لوگ انہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنی روایتی سادگی، اتباعِ سنت اور  درویشانہ رویہ میں تبدیلی نہیں آنے دیتے۔ یہ کوئی تصنّع نہیں بلکہ  ایک حقیقت ہے۔

دعوتِ اسلامی  نے زبانی تبلیغ کے ساتھ ساتھ دورِ جدید کے ہر محاذ پر کام کیا۔ نئی ٹیکنالوجی اور میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔  دعوتِ اسلامی اس وقت  دنیا کی واحدجماعت ہے جس کا نظم و ضبط اور  انتظام و انصرام جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔   ہر ہر شعبہ میں مستند و ماہر اسلامی بھائیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔  تبلیغ، تحقیق، تفتیش، فقہ ، حدیث، تفسیر، سائنس، گونگے بہرے لوگوں کے مراکز، جیل خانہ جات میں تربیت، تعلیمِ بالغاں، اسلامی بہنوں کے مراکز، ہسپتال و شفاء خانے، غرباء و مستحقین کی خدمت،  اسلامی  مدنی یونیورسٹی کا قیام،  جدید خطوط پر طباعت و اشاعت کا کام،  پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں مدنی چینل  جیسے سارے کام  دعوتِ اسلامی کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔  

انہیں خدمات میں سے ایک اہم خدمت جو وقت اور معاشرہ کی ضرورت ہے وہ  "روحانی علاج" ہے ۔   دعوت ِ اسلامی نے اس کام کو جدید اور مربوط انداز میں پیش کیا ہے۔  یہ روحانی علاج کا سلسلہ اپنی مثال آپ ہے۔  دنیا بھر میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔   امتِ مسلمہ اپنے ہاتھوں کئیے ہوئے گناہوں کی وجہ سے مبتلائے مصیبت ہے۔  کوئی بیمار لاچار ، کوئی اولاد کے ہاتھوں بیزار، کوئی صحت کی وجہ سے پریشان اور کوئی کاروبار  میں نقصان کی وجہ سے سکون کھو بیٹھا ہے۔ دعوتِ اسلامی  کے امیر قبلہ  شیخِ طریقت مولانا محمد الیاس قادری حفظہ اللہ تعالٰی  کو متعدد مشائخ و بزرگان نے اجازت و خلافت سے نوازا تاہم آپ طریقت میں سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ  کے مبارک خاندان  ہی کی تعلیمات پر عمل فرماتے ہیں۔   پاکستان کے ہر ضلع اور تحصیل کی سطح پر "تعویذاتِ عطاریہ" کے نام سے  بستے/سٹال قائم ہیں جہاں عمومی طور پر  سوائے جمعۃ المبارک  روزانہ عصر تا مغرب روحانی علاج کی خدمات پیش کی جاتی ہیں۔ اس سلسلہ میں قطعاً کوئی  فیس یا پیسہ وصول نہیں کیا جاتا۔  دعوتِ اسلامی کے مراکز میں صرف اسلامی بھائیوں کو ہی روحانی علاج کے لئیے جانے کی اجازت ہے۔ اسلامی بہنیں یہ خدمت اپنے کسی محرم کو بھجوا کر حاصل کر سکتی ہیں۔   میں چشم دید گواہ ہوں میری گلی میں رہنے والا ایک لڑکا جو پیدائشی گونگا اور بہرہ تھا اللہ تعالٰی نے اسے دعوتِ اسلامی کی برکت سے سننے اور بولنے پر قدرت عطا فرما دی۔  الحمدللہ علٰی احسانہ۔ 

دعوتِ اسلامی کی یہ خدمت آنلائن بھی دستیاب ہے۔ اس سے اسلامی بہنیں بھی فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ آنلائن خدمت کے ذریعے آپ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ پر جا کر فارم پر کرکے بھجوا دیں، مرکز والے آپ کو ای میل کے ذریعے روحانی علاج ارسال کر دیں گے۔ اس میں کچھ تاخیر بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ہزاروں ای میلز کا جواب دینا آسان کام نہیں ہوتا۔
دعوتِ اسلامی کی آنلائن  روحانی خدمات کے حصول کے لئیے  اس لنک پر رابطہ کریں۔

اسی طرح روزانہ صبح نو بجے تا اگلی صبح پانچ بجے تک (پاکستان ٹائم) ٹیلی فون پر بھی استخارہ کیا جاتا ہے۔ اسلامی بہنیں کال نہ کریں بلکہ اپنے کسی محرم کے ذریعے کال کریں۔ ٹیلی فون  پر استخارہ کے لئیے  دعوتِ اسلامی کراچی مرکز کے اس نمبر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے: 00922134858711

یہ   لنک اور نمبر میں نے اس لئیے   لکھ دئیے کہ بہت سارے اسلامی بھائی اور بہنیں روحانی علاج کے لئیے جب مجھ سے رابطہ کرتے ہیں تو  وہ ملاقات  کا وقت مانگتے ہیں، یا رابطہ نمبر مانگتے ہیں۔ میں پاکستان سے باہر مقیم ہوں۔ اس لئیے نہ ہی ملاقات ممکن ہوتی ہے اور نہ ہی رابطہ نمبر عام کیا  جاسکتا ہے۔ لہٰذا میں نے دعوتِ اسلامی  سے رابطہ کی تفاصیل یہاں درج کر دیں۔ کیونکہ میرا  بھی اسی روحانی خاندان سے تعلق ہے جس سے دعوتِ اسلامی فیض  تقسیم کر رہی ہے۔ مقصد بھی ایک ہے۔ وہ بھی فی سبیل اللہ اور رضائے الٰہی کے حصول کے لئیے کام کر رہے ہیں اور میرے مرشد کریم رحمۃ اللہ علیہ کی بھی یہی تعلیمات ہیں۔

ایک انتہائی اہم بات  واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں دعوتِ اسلامی کی کسی مجلس کا رکن نہیں تاہم  میرے شیخِ کریم نائبِ محدثِ اعظم پاکستان، شیخِ الحدیث التفسیر  ، صاحبِ رشد و ہدایت پیر مفتی علامہ محمد عبد الرشید قادری رضوی رحمۃ اللہ علیہ  دعوتِ اسلامی اور امیرِ دعوتِ اسلامی سے بہت بہت محبت فرمایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ملتان شریف کے اجتماع میں امیرِ دعوتِ اسلامی  انہیں محبت سے بیان کرنے کی دعوت دیتے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ وہاں بیان فرماتے اور امیرِ دعوتِ اسلامی بھی آپ سے محبت فرماتے۔  حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دارلعلوم غوثیہ رضویہ مظہر ِ اسلام سمندی شریف میں  نوٹس بورڈ پر واضح حروف میں حکماً لکھوایا تھا کہ  مدرسہ کے تمام طلباء   اپنی زندگی دعوتِ اسلامی کی مدنی ماحول میں گزاریں۔  اپنے شیخِ کریم کے حکم کی تعمیل میں آج ہم بھی دعوتِ اسلامی سے محبت کا یہ رشتہ نبھا رہے ہیں۔

دعوتِ اسلامی یا امیرِ دعوتِ اسلامی کی طرف سے کسی  کو روحانی علاج کی اجازت نہیں ہوتی۔ صرف مخصوص مراکز پر دعوتِ اسلامی کے تعینات کردہ اسلامی بھائی ہی یہ کام کرتے ہیں۔  دعوتِ اسلامی میں نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی کوئی گنجائش نہیں۔ کچھ لوگ خود کو مولانا  محمد الیاس قادری صاحب کا مرید، دعوتِ اسلامی کا رکن وغیرہ وغیرہ بتا کر  کام کر رہے ہیں۔  یہ مثالیں پاکستان اور بیرونِ پاکستان موجود ہیں۔ یہ بات با لکل واضح ہے کہ جو کوئی دعوتِ اسلامی کے  ماحول اور نظم و ضبط سے ہٹ کر کام کرنے کی کوشش کرے  اس سے دعوتِ اسلامی بیزار ہے۔ پاکستان کے اعلٰی درجے کے نعت خوان اور کئی مفتیانِ کرام  دعوتِ اسلامی کے مراکز سے ہی فارغ التحصیل ہیں مگر جب انہوں نے وضع قطع، لباس اور معاملات میں دعوتِ اسلامی کے طریقہ کی خلاف ورزی کی تو انہیں بغیر کسی خوف اور لالچ کے فارغ کر دیا گیا۔  اب وہ لوگ اپنے کاموں میں دعوتِ اسلامی کا نام استعمال نہیں کر سکتے۔

اسی طرح  اس بات کا یقین کر لیں کہ شیخِ طریقت مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کی طرف سے کسی  ایسے بندے کو جس کے لباس، وضع قطع اور زندگی میں دعوتِ اسلامی کے نظم و ضبط  کی پاسداری نہ ہو اسے دعوتِ اسلامی کا کوئی کام بشمول روحانی علاج کرنے کی اجازت نہیں ہے۔    میں جو روحانی علاج کی خدمات پیش کر رہا ہوں اس میں مجھے اپنے پیر خانہ اور بزرگوں کی تائید حاصل ہے۔ مجھے بھی دعوتِ اسلامی کے مرکز کی طرف سے  اجازت نہیں ، نہ میں نے حاصل کرنے کی کوشش کی اور  نہ ہی میں کسی بھی جگہ پر دعوتِ اسلامی کا نام استعمال کرتاہوں۔ باقی  بہت سارے بزرگانِ دین کے آستانے موجود ہیں جہاں وہ اپنے اپنے طریقے کے مطابق دین  وسنت کی خدمت 
کے ساتھ ساتھ لوگوں کی روحانی تربیت بھی کر رہےہیں۔

مجھ فقیر کی استطاعت میں جو ہے وہ اپنے شیخِ کریم کے قدموں کی دھول کا صدقہ پیش کر رہا ہوں، اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں کی تعداد میں  احباب کا رابطہ ہوتا ہے۔ ای میلز  اور فیس بک  پیغامات کے جواب دینےمیں بعض اوقات تاخیر ہو جاتی ہے۔ اس پر میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔ صبر کا دامن تھامے رکھیں تاکہ یہ فی سبیل اللہ خدمت جاری رہے۔   سکائپ  پر مفت کال ہوتی ہے۔ اس کے ذریعہ رابطہ جلدی اور مسئلہ کی آسانی سے سمجھ بھی آجاتی ہے۔ میری رابطہ تفاصیل  یہ ہیں۔
Email: mi.hasan@outlook.com
Skype: mi.hasan


Thursday, 6 June 2013

کتّے کی "چِتا" جلا ڈالئیے



کتّے کی "چِتا" جلا ڈالئیے


کتّا ایک پرانا جانور ہے۔ ابو جہل سے بھی پہلے اس  کے وجود  کی خبریں ملتی ہیں۔ ہر دور میں کتے کے مختلف استعمال ہوتے رہے ہیں۔ تاریخ میں بعض مقامات پر کتے کو "شرف" بھی بخشا گیا۔  مجھے پہلی بار کتے کی اولاد  کو قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع لگ بھگ چوبیس سال قبل ملا۔  ابو جی کے کسی دوست نے ایک عدد کتے کی بچی جسے عرفِ عام میں "کتّی" یا کتیا کہا جاتا ہے، بھجوائی۔  جن صاحب نے بھیجی وہ کوئی فوجی تھے اور مزید یہ کہ پٹھان تھے۔  تاہم ان کے حسب نسب سے میں واقف نہیں ہوں۔    شاید کوہاٹ (خیبر پختونخواہ) سے اس کتیا کی آمد ہوئی تھی اور یہ نومولود تھی۔   امّی کی گھریلو ذمہ داریوں میں یہ بھی ایک اضافہ ہو گیا کہ وہ اس نئی "مہمان" کی دیکھ بھال بھی کریں گی۔  امی کے ساتھ ساتھ ہم بھی بوتل میں دودھ ڈال کر اس "مہمان کتیا" کو دودھ پلاتے۔  بعد ازاں "زمانہ شباب" میں اس کتیا کو گھر سے رخصت ہو کر زمینوں  میں بھجوایا جانا تھا جہاں  اسے  رات کے اندھیرے میں فصلوں پر حملہ آور ہونے والے  انسان نما درندوں کا مقابلہ کرنے کا  ہدف دیا جانا تھا۔    اس کتیا کا نام   بہت  دلچسپ تھا۔  ادب اور اصولِ صحافت کے پیشِ نظر میں یہاں نہیں لکھ سکتا، صرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ ہمسایہ ملک کی ایک بڑی "زنانہ" شخصیت سے اسے موسوم کر دیا گیا تھا (یہ قصداً نہیں تھا بلکہ عرفاً تھا)۔     یہ کتیا اپنے حسن و جمال میں آس پاس کے کم از کم چالیس دیہاتوں میں لاثانی تھی۔   مجھے پورا یقین ہے کہ فی زمانہ منعقد کئیے جانے والے مقابلہ ہائے حسن کے معیار پر اسے پرکھا جاتا تو کم از کم  وہ  "مس شکر گڑھ" ضرور منتخب ہو جاتی۔    اس کے لمبے لمبے کان جو بعد ازاں جبری جرّاحت کے ذریعے کاٹ دئیے گئے،  بلوری آنکھیں،  گورا چٹّا رنگ،  پتلی پتلی ٹانگیں اور ماتھے پر ہلکا سا سیاہی مائل   تلک اسے اپنی معاصر "حسیناؤں" سے ممتاز کرتا تھا۔ 

اسی کتیا کی خاص اور سبق آموز بات یہ کہ وہ انسانی "حسیناؤں" کے بر عکس بہت وفا دار تھی۔   گھر کے ہر فرد کو خوب پہچانتی،  گاؤں کے باہر سے ہمارے ساتھ گھر تک بطور  محافظ چلتی،  راستے میں اگر کوئی انسانی شکل میں بھونکنے کی کوشش کرتا تو اسے آڑے ہاتھوں لیتی۔    یہ کتیا  "زمانہِ امن" میں انتہائی خاموش طبع واقع ہوئی تھی تاہم کسی قسم کے خطرے کی صورت میں وہ چاک و  چوبند رہتی، یعنی غیر ضروری کلام کا تکلف نہ کرتی تھی۔  

 ایک صبح  کسی نے گھر پر بری خبر دی کہ ہماری کتیا ایک سڑک حادثہ میں  شدید زخمی ہو گئی ہے،  موقع پر پہنچ کر اسے ابتدائی طبی امداد دی اور پھر  زخمی حالت میں اسے ایک مخصوص مقام پر منتقل کیا گیا،  جہاں وہ علاج اور دیکھ بھال کے باوجود   مر گئی۔ 

اس وفادارا کتیا کے مرنے کے بعد  زمینوں کی رکھوالی کے لئیے بہت بڑے بڑے "کتے" لائے گئے، ان کے بڑے بڑے منہ، موٹی موٹی آنکھیں، دراز قد اور خوفناک شکلیں تھیں۔  مگر یہ کتے صرف بھونکنے والے تھے۔   یہ کتے بھونکتے رہتے، لوگ زمینوں سے چوریاں کرتے، کچھ جنگلی جانور بھی زمینوں اور فصلوں کو نقصان پہنچاتے مگر یہ کتے اپنی  مخصوص "بھونک" کے سوا کچھ بھی نہ کرتے۔  الٹا نقصان  کہ  یہ کتے گندھک ملے دیسی گھی  کے پراٹھے،  دودھ اور نہ جانے کون کون سے کشتے "تناول" کرنے کے باوجود "بھونکے کتے" کا کردار ہی ادا کرتے۔ 

بھونکنے والے جانور کا  دوسری مرتبہ قریبی تجزیہ کرنے کا موقع اس وقت ملا جب میں  میرپور (کشمیر) کی ہوسٹل لائف میں پہنچا۔   کالج کا  جغرافیہ بڑا عجیب و غریب تھا۔  چھ سو کنال پر محیط کالج میں آڈیٹوریم، ہوسٹل، میس اور میرے کمرے تک کے سفر میں گھنٹوں بھیت جاتے۔  میرا کمرے اس کونے میں واقع تھا جس کے بالکل سامنے جنگل، اور پھر بہت زیادہ گہرائی، کچھ فاصلے پر ایک ندی، اس کے بعد منگلا ڈیم سے متصل سڑک اور پھر منگلا ڈیم کے نیلے پانیوں والی ایک جھیل۔ 

عشاء کی نماز کے فوری بعد میں کمرہ میں داخل ہو جاتا اور  کمرہ بند۔  تھوڑا مطالعہ اور ریڈیو سننے کے بعد  میں سونے کا ارادہ کرتا تو بھونکنے کی آوازیں شروع ہو جاتیں، میرے لئیے مشکل یہ ہوتی کہ سمجھ نہ پاتا تھا کہ بھونکنے والا جانور کس نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ کبھی اس کے بھونکنے میں غصہ، کبھی شرارت اور کبھی کوئی "چوّل" سی حرکت محسوس ہوتی کہ اس جنگل میں نہ تو کوئی انسان ہے نہ کوئی اور جاندار تو ان کے بھونکنے  کا کیا مقصد؟؟؟  ایک دن کالج کے کچھ سٹاف اور طلباء نے مل کر پروگرام بنایا کہ آج رات شکار کے لئیے ندی کنارے جائیں گے۔  حسبِ ارادہ ہم نکلے تو ہمیں پوری رات بھونکنے کی آوازیں آتی رہیں مگر کوئی بھونکنے والا ہمارے نزدیک نہ آیا۔   اگر کہیں شک ہوتا تو زور سے پاؤں زمین  پر مار دیتے، یا غرّا دیتے تو آوازیں بند ہو جاتیں یعنی وہ کتوں کی ایک نسل جسے گیدڑ کہا جاتا ہے، وہ تھے۔  تب مجھے اندازہ ہوا کہ ہماری وفا دار کتیا کے مر جانے کے بعد جو کتے ہم نے پالے تھے وہ بھی ایسے ہی تھے۔۔۔ صرف کھانے والے۔۔۔  شکاری اپنا کام کرتے اور کتے بھونکتے ہی رہ جاتے۔۔۔

انسان اللہ کی سب سے اچھی مخلوق ہے اس لئیے اسے کتوں کے ساتھ ملانا ایک جرم، بد اخلاقی اور توہینِ تخلیقِ خدا تعالیٰ ہے۔  مگر کئی بزرگ شعراء اور صوفیاء نے کتے کو انسان کی نسبت زیادہ وفا شعار اور  پاسدار لکھا ہے۔ اگر کتے کی اس عادت کو انسان کے ساتھ تقابل کیا جا سکتا ہے تو اس کی کچھ بری عادات کا موازنہ بھی کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
بھونکنے والے کتے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔  ایک وہ جو صرف بھونکتے ہیں۔ اگر آپ تھوڑے سے آگے بڑھیں تو وہ دم دبا کر  چیخیں مارتے ہوئے بھاگ نکلیں گے۔۔۔ دوسرے وہ جو ہر حال میں بھونکتے ہیں۔  یہ کتے انتہائی "لیچڑ" قسم کے ہوتے ہیں۔  ان کی تربیت زیادہ تر  فٹ پاتھ، کوڑے کے ڈھیر اور گندگی کے مراکز پر ہوتی ہے۔  یہ کتے کسی بھی صورت چپ نہیں ہوتے۔   سمجھدار لوگ ان کتوں کی پرواہ نہیں کرتے،   کیونکہ ضروری تو نہیں کہ یہ کتا ہی ہو،  ہو سکتا ہے وہ کتا نما شیطان ہو۔۔۔ لہٰذا تعوّذ پڑھئیے اور  سفر جاری رکھئیے۔

کتوں کا احترام  بھی کیا جاتا ہے۔۔۔ خصوصا مسلمان پڑوسی کے کتے کا احترام کرنا چاہئیے۔  ہمارے ایک ہمسائے بابا جی ہوتے تھے۔ انہوں نے ایک کتا پال رکھا تھا، بابا جی برطانیہ چلے گئے۔  اپنے مالک کی یاد میں کتا بہت رویا۔  مغرب کے قریب کتے کی بے چینی حد سے بڑھ گئی تو وہ اپنے مالک کی تلاش میں ہمارے دروازے پر آلپکا۔  میں نے کتے تو دھتکارا تو  چچا جی نے فرمایا یہ ہمارے ہمسائے کا کتا ہے ، اس پر ظلم نہ کرو بلکہ وہ اپنے مالک کی یاد  مین در در پر دستک دے رہا ہے۔  ۔۔  اس سے سبق حاصل کرو۔
قارئینِ کرام!
کتوں کے بھونکنے سے سبق حاصل کیجئے۔ اگر کتا وفا دار ہو تو  سبق اور اگر کتا "بکواس" کرنے والا ہے تو اسے نظر انداز کیجئیے۔  اپنے قدم جما کر رکھئیے اور منزل کی طرف رواں دواں رہئیے۔  کتا ہمیں یہ بھی سبق دلاتا ہے کہ  ہمیشہ اپنے بڑوں کا احترام کیجئیے۔  بزرگوں کا ادب، جس کا دانہ کھا لو اس کا احترام، جس کی نسبت مل جائے اس سے وفا کرو اور کبھی دغا مت دو۔

کتے چغلی نہیں کرتے، نہ ہی غیبت کرتے ہیں، کتے اپنی قوم میں اختلاف اور فساد برپا نہیں کرتے،  کتے  جس گھر میں رہتے ہیں وہاں سب کا احترام کرتے ہیں، شکایتیں لگا کر لڑائی نہیں کرواتے۔   اسی گھر میں موجود کچھ بچے اس کتے کو مارتے بھی ہیں، کتا ان سے تھوڑا دور ضرور ہو جاتا ہے مگر وہ فساد نہیں کرواتا۔ 


ہمارے لئیے سبق کی بات یہ ہے کہ ہماری زندگی میں بھونکنے والے رکاوٹ نہ بنیں۔   اگر کوئی بھونک رہا ہے تو اسے نظر انداز کریں ۔  کتا  ہمیں ادب و احترام بھی سکھاتا ہے۔۔۔ جس نے ایک لفظ بھی سکھایا اس کا احترام کیجئیے۔۔۔ خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔    تاہم اگر کوئی کتا  (نر یا مادہ ) آپ اور آپ کے پیاروں کے بیچ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرے۔  آپ کے علم و حکمت کی راہ میں رکاوٹ بنے، آپ کو آپ کے اساتذہ  و مشائخ، والدین، دوست احباب اور عزیزوں سے دور کرنے کی کوشش کرے تو اسے "شمشان گھاٹ" پہنچانے میں تاخیر نہ کیجئیے۔   خصوصا ایسا بھونکنے والا جس میں چغلی، غیبت اور  فساد پھیلانے  کی برائیاں موجود ہوں اس کی "چتا" بھی جلا ڈالئیے۔  

Monday, 3 June 2013

دشمن سے حفاظت کے وظائف



دشمن سے حفاظت کے وظائف


یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری ہر خرابی کی بنیاد  اللہ تعالٰی کے احکام کی خلاف ورزی اور  اسوہِ رسول ﷺ سے قطع نظر کرنا ہے۔   جب اللہ تعالٰی نے اپنے  سب سے پیارے محبوب ﷺ کو اس دنیا میں  ہماری رہبری کے لئیے ظاہر و مبعوث فرمایا اس وقت ہر برائی  موجود تھی بلکہ بہت ساری ایسی قباحتیں بھی تھیں جو آج کے معاشرے میں ناپید ہو چکی ہیں۔   اخلاقی، معاشرتی، مذہبی ، سیاسی و اجتماعی برائیوں کا مقابلہ اس وقت بھی ایک مشکل کام تھا مگر شارعِ اسلام ﷺ نے اپنے قول، فعل اور عمل سے ہر برائی کو روکا اور انسانیت کو  فلاح کا راستہ دکھایا۔   اکثریت  نے اس پیغام کو قبول کر لیا اور کامیاب و 
کامران ہو گئے اور بہت سوں نے  انکار بھی کیا۔

بنیادی طور پر تو ہم سب آدم کی اولاد ہیں۔   دنیا کے اس سفر میں  ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے  رنگ و نسل کا فرق آگیا۔   عقائد و نظریات بھی مختلف ہو گئے اور یہ سلسلہ ہابیل اور قابیل  کے لڑائی سے بھی ملتا جلتا ہے جو کہ اس سے قبل میں ایک کالم میں لکھ چکا ہوں۔   شیطان نے اس بات کا مستقل عزم کیا  ہوا ہے کہ وہ اولادِ آدم کو ہر وہ کام کرنے پر مجبور کرے  گا اور ورغلائے گا جس میں انسان و انسانیت کا نقصان ہو۔  یہی وجہ ہے کہ آج  سگے بھائی، ماں باپ، میاں بیوی اور انتہائی قریبی رشتہ دار ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔   ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔  نسل در نسل قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے۔  ایک چھوٹے سے گھریلو مسئلے سے شروع ہونے والا اختلاف  ایک خاندان کے خون کی ندیاں بہانے پر منتج ہوتا ہے۔   جوں جوں قیامت قریب آ رہی ہے لڑائی اور دشمنی کے انداز بھی بدل  رہے ہیں۔  کبھی نمبرداری، چوہدراہٹ،  حویلی اور ووٹ  کی بنیاد پر دشمنی ہوتی تھی مگر   آج کا مسلمان اخلاقی لحاظ سے اس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ معاشرے میں موجود دشمنیوں کی وجوہات سن کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔   کئی بار یہ تجربہ بھی ہوا کہ  "روحانی علاج" کے سلسلہ میں ای میل اور کالز موصول ہوئیں کہ میں ایک لڑکی کو پسند کرتا تھا اس نے کہیں اور شادی کر لی ہے،  آپ مجھے وظیفہ دیں کہ وہ طلاق لے ورنہ میں اسے قتل کر دوں گا وغیرہ وغیرہ۔۔۔  یاد رکھیں یہ ایک ایسی سوچ اور عمل ہے جو براہِ راست خدائے بزرگ و برتر سے ٹکر  لینے کے مترادف ہے۔   ذہنی پستی، گھر کے ماحول کی بے برکتی،  ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں دیکھے جانے والے مناظر ہماری اولادوں کی جڑیں کھوکھلی کر نے میں بنیادی کردار ہیں۔

اس ساری صورتحال میں یقیناً ہمیں اپنے جان و مال کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔   دشمنی تو سگے بھائی سے بھی ہو سکتی ہے۔  خاندانی دشمنی، مذہبی دشمنی، سیاسی دشمنی اور پھر روحانی دشمنی۔۔۔  بہر حال اللہ تعالٰی سے خیر طلب کی جانی چاہئیے۔  جو آپ کا  برا  چاہے اس کی بھلائی کی دعا کریں کہ اللہ اسے ہدایت عطا کرے۔   معاف کرنے والے کے لئیے اللہ اور اس کے حبیب ﷺ نے بے شمار انعام رکھے ہیں۔  آج دنیا میں کسی کے گناہ معاف  کریں گے تو روزِ قیامت اللہ ہمارے معاملات آسان فرما دے گا۔

دشمن سے نجات کے وظائف کی اکثر نوبت آتی رہتی ہے۔  جب جان، مال، اولاد اور عزت محفوظ نہ رہے تو پھر منہ بند کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ورنہ  شریر انسان  بے لگام ہو کر دوسروں کے لئیے بھی نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔  مگر پھر بھی میرا آپ کے لئیے مشورہ ہے کہ حتی الوسع  درگزر کی کوشش کریں۔   اولیائے کاملین کا بھی یہی طریقہ تھا اور ہے۔  بعض ایسے معاملات جس میں  فتنہ و فساد کا  اندیشہ ہو وہاں  دشمن   کا خاتمہ ضروری ہوتا ہے۔

دشمن اور حاسدین سے نجات کے متعدد وظائف ہیں۔  بات عمل اور یقین کی ہے۔  جب یقین اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے پھر زبان سے کچھ کہنے یا پڑھنے کی حاجت بھی باقی نہیں رہتی۔  اللہ کے ولی تو  تصور میں ہی ایسا گرا دیتے ہیں کہ  دشمن ساری زندگی  ذلت و رسوائی میں مبتلا رہے۔   میں یہاں پر حفاظت کے کچھ وظائف پیش کر رہا ہوں، عام فہم ہیں اور ہر کوئی اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔  پیچیدہ اور  مشکل وظائف اس طرح عام نہیں کئیے جا سکتے کہ بہت سارے لوگ ان وظائف و عملیات کو پڑھنے، آداب اور طریقہ سے ناواقف ہوتے ہیں۔  اس لئیے انہیں میں سے حسبِ ضرورت انتخاب کر لیجئیے۔
وظائف پڑھتے وقت دشمن کی ہلاکت کا تصور نہ کریں بلکہ اس کے شر، حملے سے بچنے کی نیت کریں اور اللہ سے اس کے لئیے ہدایت طلب کریں تاکہ وہ بھی ایک اچھا مسلمان بن کر ندگی گزارے۔

عمل نمبر1-  روزانہ بعد نمازِ عشاء ایک سو ایک مرتبہ یہ دعا پڑھ لیں۔

  اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِم 

ہر نماز کے بعد 11 بار اپنے ورد میں رکھیں۔ انشاء اللہ دشمن کے حملے اور شر سے حفاظت ہوگی۔

عمل نمبر 2-  ہر نماز کے بعد تین بار یہ دونوں دعائیں اپنے ورد میں رکھیں۔
اَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہ التَّامَّاتِ مِن شَرِّ مَاخَلَقَ

بِسْمِ الله الّذِي لا يَضُرّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ في الأرْضِ وَلا في السّمَاءِ وَهُوَ السّمِيعُ العَلِيمُ،


عمل نمبر3- آخری تینوں قل فجر اور عصر کےبعد  پڑھیں۔ ہر نماز کے بعد آیۃ الکرسی۔  سونے سے قبل سورہ فاتحہ، پھر آیۃ الکرسی، پھر آخری تینوں قل پڑھیں، سب سے آخر میں سورہ الکافرون پڑھ کر اپنی دائیں ہتھیلی پر دم کر کے سو جائیں۔ 

عمل نمبر 4۔  اگر دشمن کے ساتھ کسی معاملہ میں مقدمہ ، پنچایت اور عدالت  کا سامنا ہو تو یہ والے دونوں عمل کر لیں۔

سجد ہ میں طاق تعداد میں یہ آیت پڑھیں۔   رَبَ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ

زیادہ سے زیادہ طاق تعداد میں پڑھیں اور پڑھتے ہوئے دشمن کا تصور کریں، اللہ سے عاجزی کے ساتھ تصوراتی اور قلبی طور پر دعا کریں کہ اے اللہ عزوجل میں کمزور ہوں، تو طاقت و عظمت والا ہے ، میں مغلوب ہوں تو میری مدد فرما۔

روزانہ نمازِ فجر سے قبل یا بعد چار سو بار  حَسبُنَا اللَّهُ وَنِعمَ الوَكيلُ وَنِعمَ المَولیٰ وَنِعمَ النَّصیر پڑھیں۔

 

عمل نمبر 5۔ روزانہ بعد نمازِ عشاء  101 بار سورہ "القریش" پڑھیں۔

 

مندرجہ بالا وظائف میں سے ہر ایک عمل اور وظیفہ مجرب و مبارک ہے۔ تیر بہدف ہے، مگر اس کی بنیاد  اخلاص، یقین، ادب و احترام اور آپ کی نیت و گمان پر ہے۔  ہر وظیفہ کے اول آخر 11 بار درود شریف پڑھیں۔ آخر میں خلوص سے دعا کریں۔

 

اگر معاملہ مزید پیچیدہ ہو تو ہماری فی سبیل اللہ روحانی خدمات آپ کے لئیے حاضر ہیں۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو ایک دوسرے کے لئیے آسانیاں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ انسان، جنات اور شیاطین کے وسواس و حملوں سے حفاظت عطا فرمائے۔ آمین


Email: iftikhar.abu.hasaan@gmail.com
Skype: mi.hasan

Saturday, 25 May 2013

تیسرا کلمہ تمجید۔۔۔فضائل و برکات



تیسرا کلمہ تمجید۔۔۔فضائل و برکات



عصرِ حاضر میں اہلِ اسلام کی پریشانیوں کی عمومی وجوہات  دین سے دوری، اسلامی تعلیمات  پر عمل نہ کرنا، اللہ تعالٰی  کی ناراضگی اور رسول اکرم ﷺ کی شریعت و سنت کے خلاف ورزی ہیں۔   بقا کو چھوڑ کر فنا ہونے والی دنیا کی پوجا،  نفس پرستی، اللہ کی رضا کی بجائے اپنی منشاء و رضا مندی کے حصول کی کوشش، کتاب و سنت کو خود پر نافذ کرنے کی بجائے اسلام کو اپنی مرضی کی زاویے سے دیکھنا، اپنی سہولت کے لئیے دین میں نرمی اور آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش اور اصلاح کرنے والے سے یہ امید رکھنا کہ وہ ہماری مرضی کے مطابق دین و شریعت کو بیان کرے،  طرزِ معاشرت، آداب زندگی، شرعی قوانین، فقہی مسائل،  انبیاء کرام علیہم السلام، اصحاب و الیاء کرام علیہم الرضوان کی تعلیمات سے فیض یاب ہونے کی بجائے اپنی اصطلاحات کو متعارف کروانا اور پھر اس پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنا۔  یہ وہ تمام مسائل ہیں جنہوں نے اہلِ اسلام کی زندگی میں رکاوٹیں، پریشانیاں اور نفسیاتی مسائل کے پہاڑ کھڑے کر دئیے ہیں۔  اس سلسلہ میں انفرادی طور پر ہم بھی مجرم ہیں اور امت کی قیادت بھی برابر کی شریک ہے۔

روحانی علاج  کے سلسلہ میں دنیا بھر میں موجود بہنیں اور بھائی رابطہ کرتے ہیں۔  اکثریت کا مسئلہ ذہنی پریشانی اور بے سکونی سے ہی شروع ہوتا ہے۔   جب شیطان ذہن پر حاوی ہوتا ہے پھر میاں بیوی کے جھگڑے، اولاد کی نافرمانیاں، نماز میں دل نہ لگنا،  کاروبار میں بے برکتی، شادی و نکاح میں رکاوٹ، صحت کی خرابی،  دماغی کیفیت میں رد و بدل اور بہت کچھ۔  جب کسی کے دل سے رحمت اٹھ جائے،   احکامِ الٰہیہ کہ خلاف ورزی شروع ہو جائے تو پھر شیطان اپنے راستے ہموار کر لیتا ہے۔  اس ساری کیفیت کو ہمارے لوگ جادو سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ حقیقت میں یہ جادو نہیں ہوتا بلکہ شیطان کا حملہ ہوتا ہے۔   ایسے لوگ جب عاملین سے رابطہ کرتے ہیں تو بہت سارے عامل اس پریشانی میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔   کوئی اسے جنّات کا حملہ کہے گا تو کوئی کالا اور سفلی علم۔  اس سے لوگوں کی پریشانی  میں شدید اضافہ ہو جاتا ہے۔  لوٹنے والے عامل پیسے مانگتے ہیں اور ہزاروں روپے غرق کر دئیے جاتے ہیں۔   

حقیقت تو یہ ہے کہ ان ساری پریشانیوں سے نجات کے لئیے  قرآن و سنت کے مطابق اور اولیاء کاملین کے فرامین پر عمل کر کے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔  بنیادی طور پر ان مسائل میں مبتلا لوگوں کو اللہ کے قریب لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔  ایسے لوگوں کو اگر سوا لاکھ کلمہ پڑھنے کی ہدایت کر دی جائے اور قرآن کریم کی لمبی لمبی سورتیں پڑھنے کو بتا دی جائیں تو وہ کبھی بھی اس پر عمل نہیں کریں گے۔  جو بندہ نماز کے لئیے وضو کرنے کو تیار نہیں وہ   لمبے لمبے وظائف کیسے کرے گا؟  ایسوں کو ابتدائی طور پر توبہ و استغفار کی طرف لایا جائے اور کسی ولی ِ کامل کی بارگاہ سے اس کی بھلائی کی دعا کروائی جائے تاکہ اس کے دل کی حالت بدلے اور وہ ہدایت پا جائے۔
میں نے  جب سے ہوش سنبھالا عملیات و وظائف کو اپنے  آس پاس دیکھا۔  والدِ گرامی سے لےکر مرشدِ کریم   حضور نائبِ محدث اعظم، شیخ الحدیث  والفقہ والتفسیر علامہ مفتی پیر محمد عبد الرشید قادری ر ضوی رحمۃ اللہ علیہم تک یہ تجربات و مشاہدات سامنے آتے رہے۔  میں نے تمام بزرگان سے ایک سبق سیکھا کہ ذہنی، نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کے شکار ہر انسان کو اللہ کے قریب لاؤ۔  توبہ و استغفار کی طرف راغب کرو۔  اس سلسلہ میں استغفار کی کثرت اور تیسرا کلمہ کا ورد اکسیر ثابت ہوا۔  حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ، آپ کے جانشین پیر ابو الحسن محمد غوث رضوی صاحب دامت برکاتہم العالیہ سمیت کئی بزرگوں کو دیکھا کہ وہ روحانی علاج  استغفار اور تیسرا کلمہ سے شروع فرماتے ہیں۔    تیسرا کلمہ کیا ہے؟  اس کی برکات کیا ہیں؟  ملاحظہ فرمائیے اور اپنی زندگی میں اس کا تجربہ کیجئیے۔
تیسرا کلمہ  پانچ اوراد اور وظائف کا مجموعہ ہے۔
1- سبحان اللہ۔ 2- الحمدللہ۔ 3- اللہ اکبر۔
یہ تینوں وہ کلمات ہیں جن کو تسبیحِ فاطمی بھی کہا جاتا ہے۔ مخدومہ کائنات ہمارے آقا ﷺ کے جگر کا ٹکڑا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے۔ پھر رسول رحمت ﷺ نے جب یہ وظیفہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو عطا فرمایا تو اس وقت یہ کرم بھی فرمایا کہ اس کے بدلے میں اللہ تعالٰی سو غلاموں کو آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا۔ سبحان اللہ۔   (ہر نماز کے بعد بالترتیب 33-33-34 مرتبہ) ۔

اسی طرح اس میں کلمہ طیبہ کا جز بھی شامل ہے۔ "لاالہ اللہ ۔ پھر آخر میں "لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم"۔ اللہ کی تسبیح، حمد، کبریائی کے ساتھ ساتھ اس کے معبودِ برحق ہونے اور ہر تقدیر پر قادر ہونے کا اعتراف و اقرار بھی اس میں موجود ہے۔

اسی طرح علماء کرام نے اس کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ  حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عرش بنایا اور فرشتوں کو اسے اٹھانے کا حکم دیا تو فرشتوں کو عرش بہت وزنی محسوس ہوا اس وقت فرشتوں کو سبحان اللہ پڑھنے کو کہا چنانچہ اس کو پڑھتے ہی عرش اٹھانا آسان ہوگیا فرشتے برابر اس کلمے کو پڑھتے رہے یہاں تک کہ حضرت آدم علیہ السلام وجود میں آئے اور ان کو چھینک آئی تو الحمدللہ پڑھنے کا حکم دیا اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا یرحمک اللہ۔  فرشتوں نے یہ کلمہ سنا تو سبحان اللہ کے ساتھ الحمدللہ بھی پڑھنے لگے،    حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ آیا تو بت پرستی کیخلاف اللہ نے حکم دیا کہ قوم کو لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی تلقین کرو۔  فرشتوں نے اس کو بھی ملا کر پڑھنا شروع کردیا حتیٰ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ آیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم ملا۔  تعمیل کرنے لگے تو جنت سے جبرائیل علیہ السلام دنبہ لیکر آئے کہ اسماعیل علیہ السلام کی جگہ اس کو قربان کردو۔  حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے خوشی سے نکلا اللہ اکبر۔  فرشتوں نے اس کو بھی ملالیا اور یوں پڑھنے لگے یہاں تک کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا زمانہ آیا۔  حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ واقعہ آپ ﷺ کو سنایا تو آپ ﷺ نے اظہار تعجب کیلئے فرمایا  لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ  فرشتوں نے یہ بھی ساتھ ملا لیا اور یوں تیسرا کلمہ مکمل ہوا۔

صاحبِ  "جمع الفوائد " لکھتے ہیں کہ  "آقائے دوجہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو احد پہاڑ کے برابر عمل کرلیا کرے؟  عرض کی کہ وہ کیسے یارسول اللہ ﷺ؟  آپﷺ نے فرمایا کہ ہر شخص کرسکتا ہے کیونکہ سبحان اللہ پڑھنے کا ثواب احد سے زیادہ ہے۔  لاالہ الا اللہ کا ثواب احد سے زیادہ ہے۔  الحمدللہ کا ثواب احد سے زیادہ ہے۔  اللہ اکبر کا ثواب احد سے زیادہ ہے
رسولِ رحمت ﷺ کی زبان مبارک اور پھر اولیاء صالحین و کاملین کے عمل سے ثابت ہوا کہ اس کلمہ میں کوئی انمول خزینہ ضرور چھپا ہوا ہے کہ مدینے والا آقاﷺ نے تو اس میں موجود کلمات کو احد جیسے  بلند مرتبت پہاڑ سے بھی زیادہ با برکت قرار دیا۔   بزرگانِ دین  نے اس کے بہت سے فضائل لکھے۔ میں اپنے تجربات پیش کرتا ہوں۔
میں نے خود اپنی زندگی میں آزمایا اور  اب تک ہزاروں لوگوں کو بتا چکا ہوں، الحمدللہ برکتیں  نصیب ہوئیں۔ اگر کہیں کمی ہو تو وہ اپنے یقین اور اعتماد میں ہوتی ہے۔

ذہنی سکون، گھریلو پریشانیاں، میاں بیوی کے اختلافات، رزق میں تنگی،  کاموں میں رکاوٹ، مقدمات میں پریشانی، عبادات میں دل لگانے کے لئیے، روحانی ترقی پانے کے لئیے،  جادو، شیطانی اثرات اور جنات سے نجات پانے کے لئیے الغرض ایک مسلمان کے ہر روحانی مسئلے کے حل کے لئیے تیسرا کلمہ ایک عظیم نعمت ہے۔   میرے والدِ گرامی جنات کی حاضری تک کے لئیے تیسرا کلمہ کی مدد لیتے ہیں اور بھرپور کامیابی و فائدہ ہوتا ہے۔  جس قدر ایمان پختہ اور یقین مضبوط ہو گا اتنی ہی لذت و حلاوت محسوس ہو گی۔
طریقہ عمل:
ذہنی، کاروباری اور بد اثرات کے مسائل کے لئیے، نمازِ فجر سے پہلے یا بعد میں 100 بار درود شریف، پھر 100 بار تیسرا کلمہ پڑھیں۔  اسی طرح عشاء کے بعد یہ عمل کریں۔

اگر کوئی مشکل کام درپیش ہو، سختی کا وقت ہو یا کوئی مہم در پیش ہو ، حاسدین  سے حفاظت کی ضرورت ہو تو بعد نمازِ عشاء 111 بار "یاحی یا قیوم برحمتک استغیث" کے ساتھ ملا کر پڑھیں۔ انشاء اللہ رحمت کا نزول ہو گا۔
تمام خواتین و حضرات  جو روحانی علاج کے طالب ہیں ، روزانہ صبح شام تیسرا کلمہ اپنے ورد میں شامل کر لیں۔   ہر نماز کے بعد کم از کم 11 بار یا 3 بار اپنے معمول میں شامل کر لیں۔   اگر اللہ کی تسبیح و تحمید اور استغفار  آپ کے معمول میں شامل رہے تو انشاء اللہ کسی  کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔   نہ آپ کا پیسہ ضائع ہو گا اور نہ ہی آپ کے کسی میں رکاوٹ  ہو گی۔ انشاء اللہ۔

فی سبیل اللہ روحانی علاج کے لئیے آپ ہمیں ای میل، سکائپ اور فیس بک کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں۔ الحمد للہ علیٰ احسانہ  کہ پوری دنیا میں یہ سلسلہ عام ہو رہا ہے۔  اس کی کوئی فیس نہیں ہے۔    میں عام ملاقات نہیں کر سکتا اس لئیے ای میل، فون اور سکائپ کے ذریعہ یہ خدمت جاری ہے ۔  بعض اوقات اگر کسی کو کئی تعویذ وغیرہ بھجوانے  کی ضرورت پیش آئے تو اس کا انتظام  ضرورتمند پر ہوتا ہے تاہم کسی قسم کی کوئی فیس وغیرہ نہیں لی جاتی۔ الحمدللہ۔ 


اس خدمت کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لئیے آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اللہ کریم ہمیں حاسدین اور شریروں کے 
شر سے بچائے اور مخلوقِ خدا کی خدمت جاری رہے۔

ہمارے فیس بک پیجز: https://www.facebook.com/elaj.roohani

Email:  mi.hasan@outlook.com
Skype: mi.hasan

Monday, 20 May 2013

اردو پاکستان کی قومی زبان؟







اردو پاکستان کی قومی زبان؟

یہ مضمون اس سے قبل شائع دیگر ذرائع پر شائع ہو چکا ہے۔ اپنے قارئین کی دلچسپی کے لئیے بلاگ پر شائع کر دیا۔


اردو پاکستان کی قومی اور بر صغیر میں بولی جانی والی سب سے بڑی زبان ہے۔ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے اس عظیم زبان
 کا معدہ اور نظام ہضم بہت متحرک اور مضبوط ہے۔ فارسی، عربی ، ترکی، ہندی، پنجابی، سنسکرت غرض جس زبان سے بھی ہجرت کر کہ کوئی لفظ اس تک پہنچا اس نے او ج و کمال پایا۔ اردو دنیا کی چند بڑی زبانوں میں سے ایک ہے اور اس کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ یہ بر صغیر میں بسنے والی مختلف قوموں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ ہمارے افغان بھائی بھی اردو سمجھتے اور بولتے ہیں وہ الگ بات ہے کہ اردو میں تذکیر و تانیث کہ اصولوں کی دھجیاں پختونوں سے بہتر کوئی نہی اڑا سکتا۔ تا ہم احمد فراز اور قتیل شفائی جیسے اردو کے عالم فاضل خیبر پختونخواہ سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ بنگلہ دیش میں بھی اردو کے اثرات ابھی باقی ہیں، خصوصا مذہبی طبقہ جن کے روحانی یا سیاسی مراکز ہندوستان اور پاکستان میں ہیں وہ بخوبی اردو سمجھتے ہیں۔ ہمیں بنگلہ دیش جانے کا تو اتفاق نہی ہوا (ابھی تک) مگر بنگالیوں سے ہمارا واسطہ اکثر رہتا ہے۔ ابھی پچھلے کل کی بات ہے ہمارے گھر پہ برقیات کی ترسیل میں کچھ خرابی پیدا ہوئی، پڑوس میں ہی ایک بنگالی بھائی برقی آلات کی مرمت کا کام کرتے ہیں، انہیں مدد کے لئیے بلایا، بولے کیا آپ جانتے ہیں ہمارا اصلی نام کیا ہے؟ ہم نے کہا لوگ تو آپ کو "شاہ نواز" ہی پکارتے ہیں۔ بولے نہی، ہمارا یہ نام اردو بولنے والوں کے لیئے ہے۔ بنگالی میں ہمارا نام "توہین" ہے۔ جس کا اردو میں اچھا مطلب نہی لیا جاتا۔ یعنی " توہین عدالت " جس کی سزا مسکن و مخدر ادویات کی فروخت میں ملوث موسیٰ گیلانی صاحب کے جد کریم سید یوسف رضا گیلانی صاحب ملتان شریف والے بھگت رہے ہیں۔ تو ثابت ہوا کہ بنگلہ دیش والے بھی اردو کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں۔ اور تو اور ایک مرتبہ ایک عمانی باشندے سے کسی بات پر ہمارا اختلاف ہو گیا، طنز کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے " یا عزیزی انت واجد سیانا"۔ حصول روزگار کے متلاشی سمندر پار پاکستانیوں نے عربوں کو بھی اردو سکھا دی ہے۔ اسی طرح ایک عرب ملک کی سبزی منڈی جانا ہوا، ایک پاکستانی ٹرک ڈرائیور مشہور قوالی "دما دم مست قلندر" سن کر مست و بے خود ہو رہا تھا، اسی اثناء میں ایک عرب جوان وارد ہوا اور وہ بھی شریک رقص ہو گیا، اب خدا جانے یہ وجد تھا یا پھر اس کی مستی کہ وہ بھی یوں اس کا ہمنوا ہوا " دما دم مست سلنڈر"۔ لیجیئے قلندر کی جگہ سلنڈر نے لے لی۔ ہم سے اپنی محبوبہ "اردو" کے ساتھ یہ زیادتی برداشت نا ہوئی، عرض کیا یہ قلندر ہے نا کہ سلنڈر، عرب چونکہ حاضر دماغ بھی ہوتے ہیں فورا جواب دیا " یا شیخ لا فرق بین القلندر والسلنڈر"۔ تو قوالی، شاعری اور اردو کے محبین نے اسے دور دراز ممالک تک پہنچا دیا ہے۔ حتیٰ کہ اردو سے نا بلد حنا ربانی کھر جو کہ اردو بولنے والوں کی وزیر خارجہ ہیں، کی سہیلی ہیلری بی بی بھی اردو کے ایک لفظ "ساس" کے معنی جانتی ہیں، شاید اس لئیے کہ کچھ لوگوں کے نزدیک ان کا پاکستان سے تعلق بھی کچھ اس نوعیت ہی کا ہے۔

اردو کو بہت اچھے اچھے خدمت گار بھی میسر آئے۔ تا ہم اردو کا ادراک اور فہم پاکستان میں عام نا ہو سکا اور یہ خواص کی محافل و مجالس تک ہی محدود رہی۔ من حیث القوم ہم نے اردو کو نہی اپنایا۔ سندھ میں آج بھی سرکاری مکاتب میں اردو کی جگہ سندھی ہی لکھی اور بولی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ سندھ میں اردو کی حیثیت ایک متنازعہ سیاسی فریق کی سی ہے۔ اسی طرح عدالتوں نظام میں آج تک انگریزی ہے رائج ہے۔ جس کی وجہ سے ایک عام آدمی کو عدالتی معاملات سمجھنے میں اچھی خاصی پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑھتا ہے۔ طلبا و طالبات اردو کو کوئی اہمیت نہی دیتے کیونکہ سکول جس کو اردو میں مدرسہ کہتے ہیں وہاں اساتذہ بچوں کو یہ سمجھانے میں ہی ناکام ہیں کہ قومی زبان کی کیا افادیت ہے۔ توہم پرستی کا شکار پاکستانی قوم اور اس کے رہبر یہ سمجھتے ہیں کہ اردو ہماری ترقی میں رکاوٹ ہے۔ جب کہ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ ہمیں سابقہ روسی اتحاد کے زیر اثر رہنے والی ریاستوں کے سفر کا موقع ملا۔ ان میں سے بیشتر ایسی ریاستیں ہیں جن کے ناموں کے درست تلفظ بھی ہمارے پاکستانی نہی جانتے۔ وہ پسماندہ اور بعید از کائنات سمجھی جانے والی ریاستیں اپنی علاقائی اور ریاستی زبانوں میں ہی ترقی کر رہی ہیں۔ حتیٰ کہ کمپییوٹر کے تمام سوفٹ ویئر بھی انہوں نے اپنی زبانوں میں ہی بنا رکھے ہیں۔ جس سے ان کی قومی سلامتی کو مزید تقویت ملتی ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک چین کے صدر اور وزیر اعظم پڑھے لکھے اور زہین و فطین اشخاص ہیں۔ آپ نے کبھی بھی ان کو کسی غیر ملکی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے نہی سنا ہو گا، حالانکہ وہ بخوبی انگریزی سے واقف ہیں۔ پورا عرب اور اس کی قیادت اپنی زبان میں ہی کلام کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ طب، ہندسہ، ارضیات، صحافت، معاشرت، مذہب، سیاسیات اور قانون کے علوم کے حصول کا ذریعہ بھی قومی زبان ہی ہے۔ یہ ممالک کس لحاظ سے پیچھے ہیں؟ دنیا مین تیل کی پچھہتر فیصد ضرورت عرب سے ہی پوری ہوتی ہے۔ 

پاکستان میں صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے۔ صدر مملکت، آئیندہ قربانی کے لئیے تیار جناب وزیر اعظم، اراکین اسمبلی سمیت دیگر بڑے عہدوں پہ متمکن اشراف اردو سے نا بلد ہیں۔ انگریزی کو باعث عزت سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اردو سے تو نا واقف ہوتے ہیں وہ اپنا رعب و مرتبہ بڑھانے کے لئیے انگریزی کی بھی "تیتی پھیتی" اڑا دیتے ہیں۔ ان پاکستانیوں کی انگریزی بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسے افغانستان سے ہجرت کر پاکستان آنے والے پختونوں کی اردو ہوتی تھی۔ اردو کو بگاڑنے اور اس کو پیچھے دھکیلنے میں سب سے اہم کردار برقی صحافت کا ہے۔ صبح سویرے انگریزی لباس میں ملبوس خواتین میزبان منہ بگاڑ بگاڑ کر اردو کا جو حال کرتی ہیں اس سے بالیقین اردو کے پیٹ میں شدید "وٹ" پڑھتے اور "مروڑ" اٹھتے ہوں گے۔ اخبارات، رسائل، جرائد اور دیگر تحریری مواد میں بھی لسانیات کے قواعد کی خلاف ورزی نے اردو کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ تعلیمی نظام، عدالت، صحافت، معاشرہ اور ریاست کو زبانوں کے اس نا مناسب استعمال کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کے پاکستانی اردو ٹھیک طرح سے سمجھتے ہیں اور نا ہی انگریزی۔ 

اب پیغام رسانی کا نیا زریعہ جو اب قدرے پرانا ہو چکا جس کو ایس ایم ایس کہتے ہیں اس نے تو اردو کو اور بھی کمزور کر دیا ہے۔ نستعلیق کی جگہ رومن اردو نے لے لی ہے۔ بلکہ اقبال کے کئی ایسے شاہین ہیں جو خالص اردو میں لکھی ہوئی عبارت کو سمجھنے کے لئیے اسے رومن اردو میں لکھ کر پڑھتے ہیں۔ حاکمانِ وقت کو چاہیئے کہ اردو زبان کو بالاتفاق بطور قومی زبان نافذ کریں۔ تمام سرکاری معاملات میں اردو رائج کی جائے۔ اس سے باہمی اتفاق اور یگانگت ہیدا ہو گی۔ 

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بین الاقوامی سطح پہ انگریزی کی اہمیت مسلمہ ہے۔ حصول روزگار و کاروبار کے لئیے، تعلیم و فن کے فروغ کے لئیے عالمی سطح پہ ہمیں انگریزی کی ضرورت بہر کیف ہے۔ تا ہم اپنی ثقافت و تشخص، اقدار و تاریخ کا دفاع اور فروغ صرف اور صرف اردو ہی میں کر سکتے ہیں۔ اسلامی علوم کا عظیم و ضخیم ذخیرہ جتنا عربی زبان میں تھا اتنا ہی آج اردو میں دستیاب ہے۔ فصاحت و بلاغت کی اس شاہکار زبان کو اپنا کر ہی ہم اپنے تشخص کو مجروح ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ 

 https://www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi

Thursday, 16 May 2013

میری ماں جھوٹی تھی



میری ماں جھوٹی تھی

میری ماں جھوٹی تھی۔۔۔ جی وہ جھوٹی تھی۔۔۔ اس کے جھوٹ کا درجہ کیا تھا؟ بس وہ جھوٹی تھی۔۔۔ یہی پتہ ہے۔۔۔ جھوٹ تو اللہ کو پسند نہیں مگر ماں کا جھوٹ  اس زمرے میں داخل نہیں۔  ماں جھوٹی تھی اس کا احساس تو مجھے  اسی دن ہو گیا تھا جب اس کا سایہ اٹھا  تھا  کہ اس کے بنے ہوئے سارے خواب  وہ ساتھ لے گئی تھی۔ میری اب تک کی زندگی کا سب سے بڑا سچ، سب سے بڑی تلخی، سب سے کربناک کہانی، اور غم و آلام کے پہاڑوں تلے دفن داستان    یہی "جھوٹی" ماں ہی ہے۔  یہ وہ موضوع ہے جس پر لکھتے وقت میرا قلم  معذور ہو جاتا، آنکھیں دھندلا جاتیں، ہاتھوں میں رعشہ اور دماغ میں موجود تمام مواد    منجمند  ہو جاتا ہے۔   اس عنوان کی ترغیب مجھے ایک دوست کی تحریر سے ملی۔  اور میں نے اپنے دل کا غبار نکالنے کا ارادہ کیا۔   ایک لکھاری، شاعر یا مصنف کے ہر کام کے پسِ پردہ کوئی نا کوئی راز ہوتا ہے جو اسے مثبت، منفی، تعمیری یا تنقیدی  سوچ کو ورق پر منتقل کرنے کا جذبہ دیتا ہے۔  لکھنے والوں کی اکثریت اپنے گھر میں بے قدری،  بے عزتی اور  "دال برابر"  والی  صف میں شمار ہوتی ہے۔    اعصابی و ذہنی ، معاشرتی و روحانی طور پر  مجروح یہ طبقہ  لکھنے کے سوا کر بھی کیا سکتا ہے۔  اپنی تلخیوں کو الفاظ کی مالا میں پرو کر دوسروں کے لئیے فرحت و مسرت کا باعث بن جاتے ہیں، کسی کی تفریح کا سامان ہو جاتا ہے اور کسی کو اپنے غم تازہ کرنے کو موقع میسر آتا ہے۔ اللہ میرے الفاظ کو بھی کسی کے لئیے تسکینِ قلب و روح کا ذریعہ کر دے۔ آمین

پہلا جھوٹ اس دن  بولا   جب  سوا نیزے پر موجود سورج بھر پور آگ برسا رہا تھا، زمین کی چھاتی سے   آگ کے بگولے اٹھ رہے تھے اور انسانی آنکھیں اس  قدر تیز دھوپ میں زمین پر جمتی نہیں تھیں۔    اتنا یاد ہے کہ ایک دکان پر لے کر گئی،  وہاں سے جوتے خرید کر دیے،  میری ضد تھی کہ میں اپنی پسند کے جوتے خریدنا چاہتا ہوں مگر اس نے  کہا کہ تیری پسند اچھی نہیں،  جو جوتے میں پسند کر رہی ہوں وہ زیادہ اچھے ہیں۔   جبکہ یہ جھوٹ تھا۔  شاید اپنے گھر  کے بجٹ کی حدود میں رہنا چاہتی تھی یا پھر کوئی اور مجبوری۔ لیکن جھوٹ بول کر  مجھے خوش کر لیا۔ جوتے بھی خرید کر دئیے اور خود کو سخت احتساب سے بھی بچانے کی کوشش کی۔ (یہ نہیں  معلوم کہ وہ احتساب سے بچ پائی یا نہیں)۔

 پھر ایک بار سردیوں کی رات میں  ننھیال سے ددھیال کے سفر میں اس نے جھوٹ بولا۔  افرا تفری اور "ہنگامی بنیادوں" پر   سفر کے ملنے والے اس حکم کی وجہ سے وہ گرم کپڑوں کا بھی انتظام نہ کر سکی۔ میری بد قسمتی کہیں یا لا چاری کہ میں اس کی ترجمانی کے قابل نہیں تھا۔  ٹھٹھرتی رات میں اس نے اپنی چادر میں مجھے لپیٹا تو میں نے کہا تو خود کو ڈھانپ لے مجھے چادر کی ضرورت نہیں۔ اس پر وہ بولی " نہیں میرا بچہ تو چادر اوڑھ لے، مجھے سردی نہیں لگتی"۔ یہ بھی ایک جھوٹ تھا۔

جب میرے شفیق و کریم چچا مجھے اپنے ساتھ کشمیر لے جانے کے لئیے آئے تو وہ گھر پر موجود نہیں تھی۔  شاید کسی جرم کی سزا بھگتنے کے لئیے ننھیال میں تھی۔  چچا جی مجھے اپنے ساتھ کشمیر لے گئے۔  کچھ عرصہ بعد میں گاؤں واپس آیا تو سب ہی بہت محبتوں سے ملے۔   ہر کوئی مثلِ گلاب  پکڑتا، چومتا اور  مجھے اپنے پیار کا احساس دلاتا۔  شاید رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور وہ گاؤں کی دیگر نمازی خواتین کے ساتھ تسبیح نماز میں مشغول تھی۔    نماز سے فارغ ہو کر آئی تو مجھے زمین سے اٹھا کر گلے لگا کر خوب بھینچا۔   ماتھا چومنے کے بعد پھر گلے سے لپٹی رہی۔ دیر تک۔۔۔ اور  پھر جب گلے سے لگاتے ہوئے میں اس کا چہرا نہیں دیکھ پا رہا تھا تو باتیں کرتے کرتے اس کی آواز بھرا گئی۔۔۔ میں سمجھ گیا کہ ماں نمدیدہ ہو چکی ہے۔۔۔ کچھ لمحات بعد مجھے نیچے اتارا تو فوراً  منہ  دوسری طرف پھیر لیا۔   میں اپنی طرف مخاطب کرتا تو وہ رخ بدل لیتی۔   چند لمحات بعد پھر مجھے گود لیا میں نے دیکھا کہ آنکھوں میں سرخی تھی۔  میں نے پوچھا ماں تو رو رہی ہے ،  کیا میرے بغیر اداس ہو گئی تھی؟؟؟  تو بولی نہ ہی اداس ہوں اور نہ ہی روئی ہوں۔  میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔  جب کہ عین اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر خود کو روکنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔   اس کے ان الفاظ میں بھی جھوٹ موجود تھا۔   اس کی صحت ٹھیک نہیں تھی۔ ایک سنجیدہ قسم کے آپریشن  کے بعد وہ  بیمار تھی۔  اور میری عدم موجودگی میں میرا ایک چھوٹا بھائی بھی دنیا سے جا چکا تھا۔  اس نے تمام غموں اور تکلیفوں پر پردہ ڈالا اور خود کو  خوش  ظاہر کیا۔۔۔۔ مگر یہ جھوٹ تھا۔

جان لیوا  گرم لو چل رہی تھی موسم گرما کی  چھٹیاں تھیں، میری کسی شرارت پر غصہ ہو گئی،  میں ڈر کا مارا گھر سے بھاگا،   ایک کمرے پر مشتمل سرکاری پرائمری سکول کی دیوار کے عقب میں چھپ گیا۔   محلے کے کسی بچے سے  میری خبر پا کر وہاں پہنچی،  میں نے تپتی زمین پر ماں کو خوب گھمایا۔  آوازیں دیتی رہے کہ گرمی بہت ہے،  دھوپ تیز ہے،  تجھے بخار ہو جائے گا،  تو بیمار پڑ  جائے گا،  تو نے جوتے بھی نہیں پہنے ہوئے،  تیرا سر ننگا ہے۔  میں تجھے نہیں ماروں گی بلکہ میں تجھے گھر لے جانے کے لئیے آئی ہوں۔  لیکن میں نے اس گلی گلی گھمایا،  خوب پریشان کیا،  اپنی بیماری کی وجہ سے تھک گئی اور مجبور ہو کر گھر چلی گئی۔   دادا ابو سے شکایت کر دی،   ماں سے تو بچ نکلا مگر دادا جی کے  فوجی   حملے نے مجھے کہیں بھاگنے نہ  دیا۔   گھر لے جا کر مجھے ایک چار پائی پر "نلکی کے دھاگے" سے باندھ دیا۔  کیا خوب نفسیاتی قید کیا۔  تھوڑی دیر کے بعد چھوٹی بہن کے ہاتھوں  شکر کا ٹھنڈا شربت بھجوایا۔  میں نے پینے  سے انکار کیا تو بہن کہنے لگی امی نے بنا کر دیا ہے۔  تیرے بھائی کو پیاس لگی ہو گی۔  پھر تھوڑی دیر کے بعد خود آئی۔  سر پہ ہاتھ رکھ کر بولی "ظالما تیرے سر سے آگ نکل رہی ہے، کہیں تو بیمار تو نہیں پڑ گیا"۔   تب پتہ چلا کہ پچھلے کئی گھنٹوں سے وہ  جو  اپنا غصہ دکھا رہی تھی وہ بھی جھوٹ ہی تھا۔

جس دن راہیِ عدم ہونا تھا اس روز  ہمارے سمیت گھر کو خوب سنوارا،    غیر معمولی طور پر  اقرباء و اعزاء سے ملی۔  چہرے پر غیر معمولی خوشی کے تاثرات تھے اور رات میں دیر تک جاگتی رہی۔  اگلی صبح یہ احساس ہوا کہ مالک الملک کا بلاوا تھا،   اپنے چمن کے اجڑنے کے  غم،  موقع اور احساس کو بانپتے ہوئے وہ تبسم و اطمینان کا جو احساس دلا رہی تھی  وہ بھی ایک جھوٹ ہی تھا۔

اولاد کو خوش دیکھنا،  ان کا مستقبل ہرا بھرا دیکھنا،  اپنے گھر کو پر امن و سلامت دیکھنا اس کا خواب تھا۔  اس کا ہر ہر خواب  ایک بار نہیں ہزار بار ٹوٹا،  ٹوٹ کے  بکھرا،  ان کرچیوں کو جمع کرتے ہوئے کئی بار ہمارے ہاتھ زخمی ہوئے ۔  یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور قدرت کے کارخانے میں آزمائشوں اور تجربوں کی بنیاد پر  تعمیر حیات  جاری ہے۔  عزم   و وفا، بقا اور ارتقاء کی  راہیں دشوار ضرور مگر اسی  کی تربت سے ہو کر آنے والی ہوائیں ہمارے لئیے آکسیجن کا کام کر رہی ہیں۔

ایک تازہ ترین جھوٹ یہ ہے کہ گزشتہ صبح فجر کے بعد وہ مجھے ملنے آگئی۔     کسی اجڑے ہوئے  گلستان میں بیٹھی،  چہرے پر اداسی اور نقاہت کے وہی اثرات جو اس کی آخری زندگی میں بھی نمایاں رہے۔   میری زباں تو کند رہی مگر اس نے بھی کلام کا تکلف نہ کیا۔   جب قریب جا کر کچھ عرض کرنے کا  قصد کیا  تو  پھر بچھڑ گئی۔  میری بد قسمتی کہئیے یا مجبوری کہ میں اس کی تربت سے دور ہوں۔  بہت دیر  تک  وجدانی کیفیت رہی ،  روحانی طور پر احساسات کا آنا جانا رہا،   پھر میں نے  ہر لحاظ سے اسی کی مثل و مثال  اس کی بیٹی کو فون کر  کے  فاتحہ و ایصالِ ثواب کے لئیے کہا۔   عین اگلے  لمحے آ کر بتا گئی میں تم لوگوں سے خوش ہوں۔ تب سمجھ آئی ۔۔۔ اس کا مطلب کل جو ناراضگی دکھائی تھی وہ بھی جھوٹ تھا۔۔۔

تیری     ناراضگی کتنی عارضی ہوتی ہے۔   جو اللہ تیرے جیسی ستّر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے  وہ  فردوس  کے بلند درجات میں تجھے  عزتیں اور عظمتیں بخشے۔  جب تو ہمارے پاس تھی تب راضی و ناراضی کے معیار کو ہم سمجھتے نہیں تھے۔   اب تیری رضا صرف ایک دعا میں ہے۔  تیری تربت پہ کروڑوں رحمتیں ہوں۔  تیری نسلوں میں حمیت و غیرت موجود رہے۔   جب تو یہاں موجود تھی  اس وقت کے آنسو تو ہمیں یاد نہیں، اور جو یاد ہیں وہ تو پونچھ لیا کرتی تھی۔۔۔ اب جو  آنکھوں سے  برس رہے انہیں کس کا آنچل  آکر پونچھے گا؟؟؟  اللہ تیرے جھوٹوں کا صدقہ ہمارے حال پر رحم کرے۔۔۔۔

Friday, 10 May 2013

وضو کا طریقہ بمع سنن و فرائض






وضو کا طریقہ مع سنن و فرائض




الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين وعلٰی الہ واصحابہ اجمعین

کچھ دن قبل وضو کی برکتیں آپ پڑھ چکے۔ روحانی تسکین  کا ایک خزانہ اس وضو میں پوشیدہ ہے۔ وضو کے فضائل و برکات پر مزید گفتگو کئیے بغیر آج آپ وضو کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں گے۔ کوشش کیجئیے اس پورے مضمون کو اوّل تا آخر مکمل پڑھ  لیجئیے۔  بہت ساری غلطیوں کی نشاندہی ہو جائے گی۔ انشاء اللہ۔ اگر آپ کا وضو ٹھیک ہو گیا تو عبادت میں دل بھی لگے گا، قبول بھی ہو گی اور روحانی سکون بھی میسر آئے گا انشاء اللہ۔ وضو تمام عبادتوں کی بنیاد اور کنجی ہے۔ وضو ٹھیک ہے تو پھر اللہ کی رحمت کے سہارے یہ امید اور یقین کیا جا سکتا ہے کہ عبادات درجہ قبولیت کو پہنچیں گی۔ انشاء اللہ


سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے والد گرامی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے وضو کا پانی طلب فرمایا۔ میں نے وضو کا پانی لا کر حاضر خدمت کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے وضو فرمانا شروع کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے قبل دونوں ہاتھوں کو تین دفعہ دھویا۔ اس کے بعد تین مرتبہ کلی فرمائی اور تین دفعہ ناک صاف فرمائی بعد ازاں آپ نے منہ کو تین دفعہ دھویا پھر آپ نے دائیں ہاتھ کو کہنی تک تین مرتبہ دھویا پھر بائیں ہاتھ کو اسی طرح دھویا پھر آپ نے اپنے سر مبارک پر ایک دفعہ مسح فرمایا۔ اس کے بعد دائیں پاؤں کو ٹخنوں تک تین دفعہ دھویا پھر ایسے ہی بائیں کو اس کے بعد آپ نے کھڑے ہو کر پانی لانے کا حکم صادر فرمایا۔ میں نے برتن جس میں وضو کا بچا ہوا پانی تھا، حاضر خدمت کیا تو آپ نے کھڑے کھڑے اس سے پانی پی لیا۔ میں حیران ہوا تو پھر آپ نے مجھے دیکھ کر ارشاد فرمایا : ’’حیران نہ ہوں کیونکہ میں نے آپ کے نانا جان کو ایسے ہی کرتے ہوئے دیکھا جیسے تم مجھے کرتا دیکھ رہے ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح وضو فرماتے اور آپ وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پیتے تھے۔‘‘
نسائی، السنن، کتاب الطهارة، باب صفة الوضوء، 1 : 51، 52، رقم : 95

اس وضو کے کیا کہنے جو شہنشاہِ ولایتِ علم و حکمت کی سلطنت کے بادشاہ جناب حیدرِ کرار 
علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی اولادِ پاک کو سکھایا۔  اور اس طرح سے بیان فرمایا کہ ہر کسی کو با آسانی سمجھ آجائے۔  اللہ تعالٰی اپنے ان پیاروں کے صدقے ہمیں شرعی احکام کو اچھی طرح سے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے۔آمین۔


وضو کی کچھ مزید تشریح و تفصیل حاضر ہے۔

وضو کے فرائض:

وضو کے چار فرائض ہیں :
1.     چہرے کا دھونا : چہرے کی گولائی، لمبائی کے حدِ طول کے لحاظ سے پیشانی کی سطح کے شروع ہونے کی جگہ سے لے کر ٹھوڑی کے نیچے تک ہے اور عرض (چوڑائی) کے لحاظ سے وہ تمام حصہ جو دونوں کانوں کی لَو کے درمیان ہے۔
2.     دونوں ہاتھوں کا کہنیوں تک دھونا
3.     چوتھائی سر کا مسح کرنا
4.     پاؤں کا ٹخنوں سمیت دھونا
مسلم، الصحيح، کتاب الطهارة، باب استحباب اطالة الغرة والتحجيل فی الوضو، 1 : 216، رقم : 246

مذکورہ چاروں فرائض میں سے کوئی ایک بھی چھوٹ گیا تو وضو مکمل نہیں ہو گا۔


وضو کی سنتیں:

وضو میں سولہ چیزیں سنت ہیں (1) وضو کی نیت کرنی (2) بسم اللہ پڑھنا (3) پہلے دونوں ہاتھوں کو تین دفعہ دھونا (4) مسواک کرنا (5) داہنے ہاتھ سے تین مرتبہ کلی کرنا (6) داہنے ہاتھ سے تین مرتبہ ناک میں پانی چڑھانا (7) بائیں ہاتھ سے ناک صاف کرنا  ( 8 ) داڑھی کا انگلیوں سے خلال کرنا  (9) ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا  (10) ہر عضو کو تین تین بار دھونا  (11) پورے سر کا ایک بار مسح کرنا  (12) ترتیب سے وضو کرنا  (13) داڑھی کے جو بال منہ کے دائرہ کے نیچے ہیں ان پر گیلا ہاتھ پھیرا لینا (14) اعضاء کو لگاتار دھونا کہ ایک عضو سوکھنے سے پہلے ہی دوسرے عضو کو دھولے (15) کانوں کا مسح کرنا  (16) ہر مکروہ بات سے بچنا۔
( عالمگیری و بہار شریعت)

وضو کا عملی طریقہ:

مسنون طریقہ تو یہی ہے کہ کسی مٹی کے برتن میں پانی لے کر وضو کیا جائے مگر فی زمانہ یہ سنت  نبھانا مشکل ہو رہا ہے۔ تاہم عشاقانِ رسول ﷺ تو اپنے آقا ﷺ کی ہر سنت کی اتباع کا بھر پور اہتمام کرتے ہیں۔  قبلہ رخ ہو کر بیٹھیں، اگر واش بیسن پر ہوں تو پھر بھی کوشش کریں کہ قبلہ رو  ہو جائیں ۔ وضو کا پانی پاک جگہ گرائیں اور وضو کرنے سے پہلے بسم اللہ شریف پڑھ لیں۔ پھر دونوں ہاتھ پہنچوں تک تین بار دھوئیں اور اس کا خیال رکھیں کہ انگلیوں کی گھائیاں اور کروٹیں پانی بنے سے تر ہو جائیں  ورنہ  وضو نہ ہوگا۔ پھر تین مرتبہ مسواک کریں، پھر تین بار اس طرح کلی کریں کہ منہ کی تمام جڑوں اور دانتوں کی سب کھڑکیوں میں غرض ہر بار منہ کے اندر اور ہر پرزہ پر پانی بہہ جائے اور روزہ نہ ہو تو غرغرہ کریں اور کلی یا غرغرہ داہنے ہاتھ سے پانی لے کر کریں۔  پھر بائیں ہاتھ کی چھنگلی ناک میں ڈال کر ناک صاف کریں اور تین چلو سے تین بار ناک میں پانی چڑھائیں کہ جہاں تک نرم گوشت ہوتا ہے ہر بار اس پر پانی بہہ جائے۔  اور روزہ نہ ہو تو ناک کی جڑ تک پانی پہنچائیں۔  یہ کام داہنے ہاتھ سے کریں۔  پھر منہ دھونے کےلئے دونوں ہاتھوں سے ماتھے کے سرے پر ایسا پھیلا کر پانی ڈالیں کہ اوپر کا بھی کچھ حصہ دھل جائے اور دونوں رخسار ساتھ ہی ساتھ دھوئیں اور منہ پر پانی لمبائی میں پیشانی کے بالوں کی جڑوں سے تھوڑی کے نیچے تک اور چوڑائی میں ایک کان سے دوسرے کان تک بہائیں۔  پھر پہلے داہنا پھر بایاں، دونوں ہاتھ کہنیوں تک اس طرح دھوئیں کہ پانی کی دھار ناخنوں سے کہنیوں تک برابر پڑتی چلی جائے اور اس کا خیال رکھیں کہ ایک رونگٹا بھی خشک نہ رہے۔  اگر پانی کسی بال کی جڑ کو تر کرتا ہوا بہہ گیا اور اوپری حصہ خشک رہ گیا تو وضو نہ ہوگا۔  تمام اعضاء پر پانی بہانے کے بعد خوب مل لیں اور یقین کر لیں کہ اعضاء اچھی طرح گیلے ہو گئے ہیں۔ پھر پورے سرکا مسح کریں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کا انگوٹھا اور کلمہ کی انگلی چھوڑ کر ایک ہاتھ کی باقی انگلیوں کا سرا دوسرے ہاتھ کی تینوں انگلیوں کے سرے سے ملائیں اور پیشانی کے بال پر رکھ کر گدی تک اس طرح کھینچتے ہوئے لے جائیں کہ ہتھیلیاں سر سے جدا رہیں۔  وہاں سے ہتھیلیوں سے مسح کرتے ہوئے پیشانی تک واپس لائیں اور کلمہ کی انگلی کے پیٹ سے کانوں کے پیٹ کا اور انگوٹھوں کے پیٹ سے کانوں کی پشت کا اور انگلیوں کی پشت سے 
گردن کا مسح کریں۔  

پھر تین تین بار پہلے دایاں، پھر بایاں، دونوں پاؤں ٹخنے کے اوپر نصف پنڈلی تک دھوئیں اور دھونے میں ہر بار پانی پاؤں کے ناخنوں کی طرف سے گٹوں کے اوپر تک لائیں کہ سنت یہی ہے اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے کریں۔ وضو کے بعد بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر قبلہ کی طرف منہ کر پی لیں کہ اس میں شفاء ہوتی ہے۔

وضو، غسل ، نماز اور دیگر بنیادی شرعی و فقہی مسائل سے آگاہی کے لئیے مکتبۃ المدینہ (دعوتِ اسلامی)  کی  شائع کر دہ کتاب "نماز کے احکام" دورِ حاضر کے اردو زبان میں بہترین کتاب ہے۔  تمام قارئین سے گذارش ہے کہ یہ کتاب گھر میں ضرور رکھیں۔   اس کے علاوہ   صدر الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم تصنیف "بہارِ شریعت" فقہی علوم کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی میں پیش آنے والے تمام فقہی و شرعی مسائل کا حل اس کتاب میں موجود ہے۔ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے  مکتبۃ المدینہ نے "بہارِ شریعت" کو آسان اردو، بہترین کتابت اور جلد میں شائع کیا ہے۔ پاکستان، ہندوستان میں یہ کتب با آسانی دستیاب ہیں۔ دیگر مختلف زبانوں میں بھی ان کا ترجمہ کیا جاچکا ہے۔ یہ کتب دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے ڈاؤنلوڈ بھی کی جا سکتی ہیں اس کے لئیے آپ کے کمپیوٹر میں پی ڈی ایف اور ایڈوب ایکروبیٹ کے سافٹ وئیر انسٹال کرنا ضروری ہیں۔



اگر کسی جگہ پر کوئی غلطی نظر آئے تو ضرور مطلع فرمائیں، میں اصلاح کرنے پر آپ کا مشکور بھی ہوں گا اور ڈھیروں دعاؤں کا تحفہ بھی ارسال کروں گا۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو احکامِ شریعت سیکھنے، سمجھنے اور عام لوگوں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس عملِ خیر کے صدقے میں ہماری مشکلات آسان فرمائے اور گناہوں سے نجات عطا کرے۔ آمین  ۔

سبحانک اللھم وبحمدک اشہد الا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک.


رابطہ کے ذرائع

Email: iftikhar.abu.hasaan@gmail.com

Skype: mi.hasan