Thursday, 22 August 2013

امراضِ معدہ، اسباب اور علاج

انسانی جسم ایک خود کار مشین ہے، قدرت نے اس طرز پر بنایا ہے کہ ہر عضو اپنا کردار اور کام اپنی حدود میں بغیر کسی مزاحمت کے کرتا ہے۔  جب انسان اپنی غلطی، غفلت اور  مسائل کی وجہ سے ان اعضأ  اور جسم کی ضروریات کے مطابق ان کا خیال نہیں رکھتا تو پریشانیاں اور بیماریاں جنم لیتی ہیں۔  معدہ انسانی جسم کا ایک اہم حصہ ہے۔  انسانی جسم میں توانائی، حرکت اور نشو و نما کی بنیادیں اسی میں ہوتی ہیں۔ انسان جو کچھ کھاتا ہے، اسے کھا کر چبانا، ہضم کرنا اور پھر سے جسم انسانی کا حصہ بنانا یہ سب کام معدہ  اور اس کے معاون اعضا ہی کرتے  ہیں۔   نشاستے، لحمیات، حیاتین  اور معدنیات  انسان کی خوارک کا حصہ ہیں، ان اجزأ کا ایک فیصد استعمال ہوتا ہے اور باقی  ناقابلِ ہضم اجزأ معدہ جسم سے خارج کرتا ہے۔   خوراک ہضم کرنے میں لعاب کا اہم کردار ہوتا ہے۔  اگر لعاب  ٹھیک نہ ہو تو نظامِ انہضام میں خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

اس مضمون میں کوشش ہے کہ اسے عام فہم انداز میں پیش کروں تا کہ ہر پڑھنے والے کو فائدہ پہنچے اور اسے اپنے معدہ کی اصلاح میں مدد ملے۔    معدہ  کی  تکالیف  میں عمومی طور پر ورمِ معدہ،   نظامِ ہضم کی خرابیاں،   بھوک نہ لگنا،  پیٹ میں ریاح ،   گیس، تبخیر،  انتڑیوں کا سکڑ جانا اور السر یعنی معدہ کے زخم وغیرہ شامل ہیں۔     معدہ کا ورم جب حادّ ہو جائے تو  معدہ کا داخلی  حصہ اور دیواریں سرخ اور سوجی ہوئی حالت میں تبدیل ہو جاتی ہیں ، اس سے معدہ کا درد،   قے،   متلی،  سینہ کی جلن سمیت کئی  پریشان کن علامات  کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔   معدہ کی ان بیماریوں کی وجہ سے انسان کا پورا جسم متاثر ہوتا ہے اور مزید کئی بیماریوں کے اسباب پیدا ہوتے ہیں۔  سر کا درد،  آدھے سر کا درد، نظر کی کمزوری،  جگر  کا تازہ خون کی پیدائش روک دینا،  ہڈیوں کا درد،  گردوں میں خرابیاں،  وزن میں کمی،   مردوں میں احتلام و جریان،  خواتین میں لیکوریا اور  ماہواری کی خرابیاں،  نیند میں خرابی اور ذہنی انتشا ر و تناؤ۔۔  یہ سب وہ مسائل ہیں جن کا  بالواسطہ یا بلاواسطہ معدہ سے  لازمی تعلق ہے۔

معدہ کی بیماریوں کے اسباب:

معدہ کی  بیماریوں میں معدہ کا ورم اور السر نمایاں ہیں۔  اس کی بنیادی وجہ فاسٹ فوڈ،  غیر مسلم ممالک میں خنزیر جیسے جانور کا حرام گوشت،    زیادہ تیل اور گرم کھانا،   بازاری اچاری کھانے،   سگریٹ نوشی،  شراب و الکوحل ،  بروقت نہ کھانا،  جنسی عمل میں زیادتی،   سوئے تغذیہ  ( غذائی کمی یا لازمی غذائی اجزاء کا جذب نہ ہونا)  عفونت  جراثیمی،   جیسے کہ ایچ پائلوری انفکشن،  آنتوں کی عفونت،  نمونیا،  مسمومیت غذائی،  اینٹی بائیوٹک ادویات کا   غلط استعمال،   دافع درد انگریزی ادویات    (ڈکلوفینک سوڈئیم،  ڈکلوفینک پوٹاشئیم،   آئیبو پروفین،  انڈو میتھاسون،  فینائل  بیٹازون،  کوٹیزون، اسپرین) اور کیمو تھراپی کے لئیے استعمال ہونے والی ادویات۔   انگریزی ڈاکٹر صاحبان دافع درد ادویات کے ساتھ احتیاطاً  رینیٹیڈین،  زینیٹیڈین اور اومپرازول استعمال کرواتے ہیں اس کا مقصد مریض کو ان ادویات کہ ممکنہ خطرات سے بچانا ہوتا ہے جو کہ معدہ  کی تکایف کی صورت میں ہوتا ہے۔ ۔ جنسی ہارمون اور  کورٹی سون کا استعمال السر پیدا کرسکتا ہے۔

شراب نوشی‘  تمباکونوشی اور تفکرات کے علاوہ صدمات بھی السر پیدا کرتے ہیں۔  جیسے کہ خطرناک نوعیت کے حادثاتآپریشن‘ جل جانے اور دل کے دورہ کے بعد اکثر لوگوں کو السر ہوجاتا ہے۔ میں خود اس حالت میں مبتلا رہ چکا ہوں۔    اس کی توضیح یہ ہے کہ صدمات چوٹ اور دہشت کے دوران جسم میں ایک ہنگامی مرکب ہسٹامین پیدا ہوتا ہے یہ وہی عنصر ہے جو جلد پر حساسیت کا باعث ہوتا ہے۔  یقین کیا جارہا ہے کہ اس کی موجودگی یا زیادتی معدہ میں السر کا باعث ہوتی ہے۔  اسی مفروضہ پر عمل کرتے ہوئے السر کی جدید دواؤں میں سے سیمیٹیڈٰن  بنیادی طور پر ہسٹامین  کو بیکار کرتی ہے اور یہی اس کی افادیت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ ایسی خوراک جس میں ریشہ نہ ہو۔  جیسے کہ خوب گلا ہوا گوشت۔  چھنے ہوئے سفید آٹے کی روٹی السر کی غذائی اسباب ہیں۔

اکثر اوقات السر خاندانی بیماری کے طور پر  بھی  ظاہر ہوتا ہے۔ آپس میں خونی رشتہ رکھنے والے متعدد افراد اس میں بیک وقت مبتلا ہوجاتے ہیں۔  اس کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ ان میں تکلیف وراثت میں منتقل ہوتی ہے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے بودوباش کا اسلوب‘  کھانا پینا یا عادات ایک جیسی تھیں۔  اس لیے ان کو السر ہونے کے امکانات دوسروں سے زیادہ رہے50فیصدی مریضوں کو السر معدہ کے اوپر والے منہ کے قریب ہوتا ہے وہ اسباب جو معدہ میں زخم پیدا کرتے ہیں وہ بیک وقت ایک سے زیادہ السر بھی بنا سکتے ہیں لیکن 90فیصدی مریضوں میں صرف ایک ہی السر ہوتا ہے۔  جبکہ 10-15فیصدی میں ایک سے زیادہ ہوسکتے ہیں۔

اس پر حکمأ اور معالجین متفق ہیں کہ السر کے متعدد اقسام جلد یا بدیر کینسر میں تبدیل ہو جاتی ہیں کیونکہ اس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ بروقت علاج نہ ہونے پر یہ پھٹ جاتا ہے،  عموماً مریض کو اس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب قے کے ساتھ خون آنا شروع ہو جاتا ہے۔  اس کے پھٹنے میں  شراب نوشی،  سگریٹ نوشی  اور دافع درد ادویات  کا اہم کردار ہوتا ہے۔

السر کی تمام پیچیدگیاں خطرناک ہوتی ہیں،  ان میں سے کوئی بھی علامت یا پیچیدگی جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ السر کا مریض زندگی سے مایوس،  پریشان و بے چین اور اعصابی تناؤ کا شکار رہتا ہے،  میرا ذاتی تجربہ ہے کہ لمبی چوڑی تنخواہوں اور وی آئی پی کلچر میں رہنے والوں کو جب یہ بیماری لاحق ہوئی تو صحت کے ساتھ ساتھ  سب کچھ برباد اور تباہ ہو گیا۔  اس مختصر مضمون میں معدہ کے امراض کے اسباب و علاج    مکمل لکھنا ممکن نہیں،  آگہی اور علاج میں معاونت مقصود ہے۔   جس کسی  کو بھی یہ تکلیف محسوس ہو اسے چاہیئے  کہ فی الفور کسی مستند طبیب سے رجوع کرے۔  آپ کے آس پاس میں بہت سارے نیم حکیم آپ کو ملیں گے،  تعویذ اور دم والوں کی بھی بھرمار ہو گی  مگر یاد رکھیں علاج کروانے کی ترغیب ہمیں اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ نے دی ہے۔    اس علاج میں  کچھ   میڈیکل ٹیسٹ بھی کروانے پڑتے ہیں۔  اس لئیے کسی منجھے ہوئے حکیم یا ڈاکٹر سے  مشورہ کریں،  دم اور تعویذ کے چکر میں پڑ کر اپنا وقت برباد نہ کریں ۔  اولیأ کاملین کی دعا اثرات سے بھرپور ہوتی ہے اور اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔

امراض معدہ کا  آسان علاج:
میری عادت ہے کہ میں انٹرنیٹ یا اخباری مضامین میں کوئی نسخہ یا علاج نہیں لکھتا کیونکہ اگر پڑھنے والے کی سمجھ میں نہ آئے تو نسخہ کی ترکیب و استعمال کے غلط ہو جانے سے زبردست نقصان کا اندیشہ موجود ہوتا ہے۔ عمومی طور پر میں میڈیا کے ذریعہ  نسخہ جات کی بجائے خواراک سے علاج کو ترجیح دیتا ہوں۔    یہاں کچھ علامات کے ساتھ آسان علاج پیش کرتا ہوں تاہم گذارش ہے کہ اگر کسی کی سمجھ میں نہ آئے  تو اس وقت تک استعمال نہ کرے جب تک مجھ سے یا کسی اچھے طبیب سے مشاورت نہ کر لیں۔

نسخہ نمبر1:
اگر سر میں درد رہتا ہے، پاخانہ وقتِ مقررہ یا معمول میں نہیں ہے، نیند کی زیادتی ہے تو  کسی اچھے دواخانے کی بنی ہوئی اطریفل زمانی    ناشتہ کے بعد  ایک چھوٹا چمچ پانی کے ساتھ  کھائیں۔ رات سونے سے قبل چار عدد انجیر نیم گرم دودھ کے ساتھ۔  صبح نہار منہ زیادہ سے زیادہ تازہ پانی پئیں۔

نسخہ نمبر 2:
  اگر سر میں درد، جسم میں تھکاوٹ کمزوری، قبض اور پاخانہ درد  وجلن کے ساتھ ہو یعنی بواسیر کی علامات ظاہر ہو رہی ہوں یا پاخانہ میں خون خارج ہوتا ہو تو جوارش جالینوس  ایک چھوٹا  چمچ  رات کے کھانے کے بعد پانی کے ساتھ، جوارش کمونی  ناشتہ کے بعد ایک چھوٹا چمچ پانی کے ساتھ۔  چار عدد انجیر دوپہر کے کھانے کے بعد نیم گرم دودھ کے ساتھ۔ مدت علاج  دو مہینے۔
نسخہ نمبر 3:
معدہ کی تکالیف کی وجہ سے نظر اور دماغ کمزور ہو گیا ہو، قبض کا احساس ہو اور کھانا    ہضم نہ ہوتا ہو، سر میں درد، چکر ، آدھے سر کا درد ہو تو ایسی علامات میں شربتِ فولاد  دو چمچ صبح شام،  اطریفل اسطخودوس رات میں ایک چھوٹا چمچ،  مربہ ہریڑ  چار عدد نیم گرم دودھ کے ساتھ رات میں۔   مدت علاج دو ماہ۔
نسخہ نمبر 4:
 اگر سینہ میں جلن، تبخیر،  قے اور  معدہ میں درد کا احساس ہو تو یہ علامات بنیادی طور پر السر کی طرف اشارہ کر رہی ہیں اس کی تشخیص براہِ راست مشاورت اور چیک اپ کے بغیر نا ممکن ہے۔ اس لئیے اپنے طبیب سے ضرور ملیں۔  کچھ مفید   تراکیب و علاج یہ ہیں   کہ ایسے مریض کو   ہلدی کے زیرو سائز کیپسول بنا کر دیں،  دو کیپسول صبح شام پانی کے ساتھ۔   زیادہ سے زیادہ مائع خوراک بشکل دودھ،  جوس اور  صاف پانی دیں۔  میٹھا اور ترش  چیزوں سے پرہیز۔

پرہیز:
معدہ کی بیماریوں میں مبتلا تمام مرد و عورتیں ہر قسم کی ترش کھٹی ، گھی، مرچ مسالہ، گوشت اور بازاری خوارک سے بچیں۔ فاسٹ فوڈ کو خود کے لئیے حرام سمجھیں۔ سگریٹ نوشی کسی زہرِ قاتل سے کم نہیں۔  شادی شدہ خواتین و حضرات جنسی عمل میں اعتدال برتیں۔
خوراک:
نہار منہ صاف تازہ پانی،  ٹھنڈا دودھ، جوس، پھل، ہرے پتے والی سبزی،  ریشہ دار غذائیں،   انجیر اور ہریڑ کا استعمال کریں۔  
مشاورت کے لئیے ان ذرائع سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ای میل: mi.hasan@outlook.com

سکائپ کال:  mi.hasan

Saturday, 17 August 2013

دو قومی نظریہ کیا ہے؟













دو قومی نظریہ پاکستان کی اساس  ہے۔۔۔  مگر۔۔۔ اس کی موجودہ حیثیت  ایک ضرب المثل سے زیادہ نہیں ہے کیونکہ  پاکستان کے اہلِ قلم دانشور طبقہ، سیاسی آقاؤں اور فیصلہ ساز اداروں نے اس نظریہ کی بقا، ترقی اور نفاذ کا حق ادا نہیں کیا۔  موجودہ نسل کی اکثریت اس نظریہ کے پس منظر سے واقف نہیں ہے، اس کی اہمیت و ضرورت اور  اس  نظریہ پر ہونے والے حملوں سے آگاہی   نہیں بخشی گئی۔ کیونکہ ایسے تمام ذرائع جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں موجود قوم کی منزل اور سمت کا تعین کرتے ہیں ان کا رخ دہلی اور بمبئی کی طرف موڑ دیا گیا ہے، جہاں سے بندے ماترم کا فیضان گھر گھر پہنچ رہا ہے۔

میں   اپنے نوجوانوں  کو تاریخی  حقائق کی روشنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ  جس دو قومی نظریہ کا ذکر   پاکستان میں   سنا جاتا  ہے اس کی حقیقت کیا ہے۔   دو قومی نظریہ    محمد الرسول اللہ ﷺ نے اپنے اعلانِ نبوت کے ساتھ ہی عطا فرما دیا تھا۔   ہمارے آقا و مولا ﷺ کی تعلیمات کے مطابق  اس دنیا میں صرف دو  قومیں ہیں۔  ایک قوم کا نام مسلم اور دوسری کا نام   قومِ کفار ہے۔  جی ہاں۔۔۔  ہندو، عیسائی، یہودی، بدھ مت، مجوسی،  سورج، و آگ کے پجاری،   یا  پھر  تصورِ   الٰہ  کے منکر۔۔۔  یہ سب ایک قوم ہے کیونکہ اللہ کے سچے رسول ﷺ کا فرمان ہے  کفار ملتِ واحدہ ہیں،   ان سب کا  ایک ہی ہدف ہے اور وہ ملت اسلامیہ ہے۔   فلسطین میں  مسلمان   یہودیوں سے بر سرِ پیکار،  افغانستان،  عراق،  بوسینیا،  شام،  چیچنیا،  مصر اور دیگر کئی محاذوں پر عیسائی   افواج و حکومتیں مسلمانوں کا خون بہا رہی ہیں،  کشمیر میں ہندو اور برما میں بدھ مت کے پیروکار مسلمانوں کے دشمن۔   الغرض پوری ملتِ کفار کا مشترکہ اور واحد ہدف اسلام اور مسلمان۔

دو قومی نظریہ کو بنیادی قوت قرآنِ حکیم بخشتا ہے جہاں رب تعالٰی فرماتا ہے مشرکین پلید ہیں،       اگر مسلم اور غیر مسلم ایک ہی معاشرہ میں رہ سکتے تو طائف کی گلیوں میں پتھر کھا کر لہولہان ہونے کی ضرورت نہیں تھی،  کائنات  کے سب سے حسین،  صادق و امین  انسان ﷺ کو جادو گر،  کاہن،  جھوٹا اور  غدار کا طعنہ نہ سننا پڑتا، ا پنی جنم دھرتی مکہ چھوڑ کر مدینہ نہ جانا پڑتا۔  یہ طرزِ معاشرت،  قوانین و شریعت،   امور و احکام،  تہذیب و ثقافت  اور نظریات  کا فرق ہی تھا جس نے  بدر و حنین،  احد و خندک  میں کئی مقدس ہستیوں کا خون پیا۔    دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی سلطنتِ اسلامیہ  کے   حاکم و شارع ﷺ کے ظاہری وصال کے بعد اٹھنے والے فتنوں  نے اس   نظریہ کو خطرہ میں ڈالنے کی کوشش کی تو پھر صدیق و عمر،  عثمان و علی  رضوان اللہ علیہم اجمعین  نے کسی مصلحت  کے بغیر سیفِ جلی  کو لہرایا،   ہر گندے کیڑے مکوڑے اور  دجال کو کچل ڈالا،    اسی  دو قومی نظریہ  نے  کربلا میں بہتّر  صالحین طیبین کا خون پیا   اور اپنی بقا  کو امر کر دیا۔

برصغیر میں دو قومی نظریہ  اتنا ہی پرانا ہے جتنی  تاریخِ اسلام پرانی ہے ۔    ملکِ ہند میں دو قومی نظریہ کے خلاف پہلی سازش     اللہ اور اس کے رسول کے غدّار جلال الدین اکبر نے کی  جسے اللہ کے ایک ولی سیدنا مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ  نے پوری استقامت و کرامت سے دفن کر دیا۔   سر سید احمد خان جس کی لمبی داڑھی کی وجہ سے لوگ  آج اسے تحریک پاکستان اور اسلام کا  علمبردار سمجھتے ہیں  در حقیقت دو قومی نظریہ  میں دراڑ ڈالنے والا انسان تھا، اس شخص نے بھی  دو قومی نظریہ کو مٹانے کی کوشش کی،  انگریز  سرکار سے تنخواہیں لیں،   انگریزی میں تعلیم کا راگ الاپا،   جب کہ اسلام تو سارے کا سارا عربی،  فارسی اور اردو میں تھا،    ولی دکنی،  میر تقی میر،  غالب و اقبال اور مرأۃ العروس بھی اردو میں ہی تھی،  قرآن کا ترجمہ،  احادیث کا ذخیرہ،  تفاسیر کا مجموعہ اور ذرائع ابلاغ بھی اردو میں ہی تھے ،  مگر   مسٹر اور سر کا خطاب پانے کے لئیے سید احمد خان نے انگریز آقاؤں سے وفاداری نبھائی، خوش قسمتی سے  اسلام کے علمبرداروں نے یہ سازش بھی ناکام بنا دی اور  نظریہ زندہ رکھا۔۔۔ دو قومی نظریہ کو فکری  قوت دینے والے    درویش ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو   انگریزوں نے  سر کا خطاب   خود پیش کیا تھا کیونکہ وہ  دو قومی  نظریہ کا سچا محافظ تھا اس کے بر عکس سید احمد خان نے چاپلوسی کر کے یہ خطاب پایا تھا۔  
 بظاہر ایک دنیا دار  اور سیکولر خاندان سے تعلق رکھنے والے محمد علی جناح نے اس نظریہ کو   ایک وجود بخشا،  جب انگریز  مسلم لیگ کے پلیٹ فارم  پر  متحد مسلم صوفیأ،  علمأ اور عوام کی طاقت کے سامنے پٹنے لگا تو ایک سازش کے تحت   پورے ہندوستان کو ہندو جماعت  کانگریس کے حوالے کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔    عین اس وقت جب  یہ کھچڑی پک رہی تھی دوسری طرف کانگریسی ٹوپیوں والے علمأ سؤ   ملت کا سودا کرنے میں مصروف تھے،  کسی نے پاکستان کو کافرستان کہا  ( آج ان کی اولاد پاکستان کی سیاست کی ٹھیکیدار ہے اور ڈیزل سے لے کر کشمیر تک ہر معاملے پر  اپنی باطنی خباثت کی وجہ سے بدنام ہے)،  کسی نے قائدِ اعظم کو کافرِ اعظم قرار دیا،  کوئی پاکستان کی پ  تک نہ بننے کے خواب دیکھنے لگا   تو کسی  نے پاکستان کے وجود کو  جہنم سے تعبیر کیا۔    اس وقت سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری،  پیر صاحب مانکی شریف،  پیر آف زکوڑی شریف،  پیر  سید  مہر علی شاہ،   آستانہ عالیہ سیال شریف،  درگاہ کچھوچھہ شریف  اور  تمام صوفی خانقاہوں نے دو قومی نظریہ کی تکمیل کے لئیے محمد علی جناح اور مسلم لیگ  کی غیر مشروط حمایت کی۔  پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پچاس  سال قبل  امام المسلمین سیدنا امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے یہود وہنود  کے خفیہ ایجنٹوں  کو بے نقاب کیا،  کفر کی سازشوں سے پردہ اٹھایا،  ملت میں فساد و فتنہ برپا کرنے والوں  کا قلمی تعاقب کی اور دو قومی نظریہ کو بھرپور  تقویت پہنچائی۔   دو  قومی  نظریہ  کے نام،  وجود،   اور تصور کے دشمنوں  اور  منافقوں پر امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے حملے اس قدر  شدید تھے کہ آج تک  وہ اپنے زخم چاٹ رہے ہیں۔   ان اولیائے کاملین کی روحانی و عملی مدد اور تاجدارِ مدینہ ﷺ کے فیضان سے 1947 میں پاکستان وجود میں آیا اور اللہ کے ایک ولی محمد علی جناح کو مسلمانانِ ہند کا قائدِ اعظم بننے کا شرف ملا۔  

ہندوستان میں  دو قومی نظریہ کے تحت پاکستان بنا کہ ہندو معاشرے کی گندی  رسومات،  رواجات اور ثقافت اسلام سے متصادم تھی اور ہے۔  جس معاشرے میں انسان کے درجات قبائل کی بنیاد پر ہوں،  جہاں کا نظام طبقاتی ہو،  جہاں شوہر کے مر جانے کی صورت میں  اس کے بھائی کے ساتھ شادی کو مذہبی  حیثیت حاصل ہو،   سائنسی ترقی اور علمی عروج کے دور میں بھی اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کی پوجا کی جاتی ہو،   گائے کا پیشاب برکت کا باعث ہو،  مرتے وقت گاؤ موتر بطور شفأ  و  آسانیِ  نزع کے  لئیے     استعمال ہو،   گنگا جمنا میں مرد و زن کے مخلوط اجتماع میں نہایا جائے،   جو اپنے مُردوں کو  اس لئیے جلا دے کہ اسے بعدِ مرگ حساب نہ چکانا پڑے،   جہاں درخت مقدسات میں شامل ہوں،    جنم کنڈلیوں پر زندگی ترتیب دی جائے،   کسی مخصوص جگہ رشتہ کرنا مقصود ہو  تو اس کی نحوست زائل کرنے کے لئیے بندر،  کتا اور درخت سے  حفاظتی شادیا ں کی جائیں،  جہاں  مذہبی رسوم  کے رہنما    ننگے بیٹھے ہوئے پنڈت خوبرو خواتین  پر   جنسی   غلاظت نکالیں اور جہاں  زندگی کا ہر ہر کام وہم اور خیالات پر مبنی ہو وہاں اسلام اور مسلمان نہیں رہ سکتا۔


اسلام اپنے  قوانین،  شریعت اور ثقافت کے ساتھ  دنیا میں موجود ہے۔  دو قومی نظریہ ایک آفاقی نظریہ ہے۔  اسلام دنیا کے ہر کونے میں پہنچ چکا ہے۔   اہل کتاب  مشرکین ضرور ہیں مگر ان پر شریعتیں آئیں اور انبیأ بھی تشریف لائے،  انہوں نے انبیأ   کا انکار کیا، کتب میں ترمین کی  مگر وہ اہلِ شریعت ضرور ٹھہرے۔  پوری دنیا میں ایک ہندوستان ایسا ملک ہے جہاں آج تک بتوّں کی پوجا ہو رہی ہے۔  وہ وقت دور نہیں جب اس خطے میں موجود ہر بت پاش پاش ہو جائے گا اور پھر  کلہاڑی بڑے بت کے کندھے پر رکھ دی جائے گا۔۔۔۔ وہی دن  دو قومی نظریہ  کی تکمیل کا دن ہو گا۔۔۔ انشأ اللہ۔۔۔۔ دو قومی نظریہ ہر مسلمان کے دل و دماغ میں موجود ہے، کفر و شرک اور اور ان کی ثقافت سے بیزاری و نفرت اس نظریہ پر عمل کا بہترین ثبوت ہے۔  دو قومی نظریہ ہر اس جگہ موجود ہے جہاں مسلمان موجود ہے۔   آفاقی نظریہ پورے آفاق میں سفر کر ہا ہے ۔۔۔ مسلمان بد عمل ہو سکتا ہے۔۔۔ سست،  غافل ہو سکتا ہے۔۔۔ مگر بے غیرت نہیں ہو سکتا ہے۔۔۔۔ کیونکہ اس نظریہ کی خاطر ہم نے  مدینہِ  اور حبشہ کی ہجرت کی۔۔۔ اس نظریہ کی خاطر تاریخِ انسانیت کی سب سے بڑی ہجرت ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہوئی۔۔۔ اس نظریہ کی  بقا کے لئیے  آج تک  لاکھوں ماؤں کی گود خالی ہوئی،  سہاگ اجڑے،   بچے یتیم ہوئے،   املاک لٹ گئیں،   پورے  پورے خاندان اجڑ گئے۔۔۔اور۔۔۔۔ رسولِ رحمت ﷺ کے جگر پارے  حسین ابن علی رضی اللہ عنہم نے کربلا پر ڈیرے ڈالے اور۔۔۔  آخر میں یہ بھی یاد رکھئیے کہ اسی نظریہ  کو بچانے کے لئیے 1947 میں   ہماری ماؤں اور بہنوں   کی چھاتیاں کاٹی گئیں،  انہیں زبردستی حاملہ کیا گیا اور آج ان عصمت و عزت والی ماؤں کے بطن سے پیدا ہونے والے سینکڑوں ہزاروں  بچوں کے نام ہندو اور سکھ ولدیت کے ساتھ شنکر،  رام،  دیپک،  کلونت،   پرکاش،   ونود،  اتم  اور   سنگھ  سے موسوم  ہیں۔   اس  دو قومی نظریہ پر مہر حق اس وقت ثبت ہو جاتی  ہے جب  ہم  دنیا میں آنے والے  اپنے  ہر بچے کے کان میں محبت سے سرگوشی کرتے ہوئے اسے اشہد الا الٰہ الا اللہ و اشہد انّ محمد الرسول اللہ کا کلمہ حق سنا کر  باطل کے سینے میں خنجر گھونپ  دیتے ہیں۔ یہ نظریہ صبحِ قیامت تک زندہ رہے گا اور ہم اس نظریہ کی حفاظت کے لئیے سر بکفن ہیں۔ انشأللہ۔

https://www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi
Email: mi.hasan@outlook.com

Tuesday, 13 August 2013

عید اور رمضان میں میڈیا کی فکری یتیمی

اب کے عید یوں آئی کہ  بس لمحہ بھر کا احساس ہی ٹھہرا،  رمضان المبارک کی ستائیسویں  شب  کی عشاٗٔ حرم مکہ میں ادا کی اور  طلوع فجر کے لمحات وادی بطحا میں  میسر آئے۔

؎ یہ تو کرم ہے ان کا ورنہ مجھ میں تو ایسی بات نہیں
جتنا دیا سرکار نے مجھ کو اتنی میری اوقات نہیں

حرمین طیبین کی اس حاضری کی خاص بات یہ تھی کہ  برادرم   وقار الحسن بھی میرے ساتھ تھا جو کہ عمان سے عمرہ کی غرض سے طویل مسافت طے کر کہ پہنچا تھا۔ پیغمبروں کی ماں سیدہ ہاجرہ سلام اللہ علیہا  کی دوڑنے کی جگہ اللہ سے دعا مانگی تھی  کہ میرا بھائی یہاں آئے جو کہ حق تعالٰی نے قبول فرمائی۔ الحمدللہ علیٰ احسانہ و فضلہ

عید  کا دن عرب شریف میں ہی گزرا، پاکستانی میڈیا سے  بے خبری رہی، شام کے وقت سوشل میڈیا الیکٹرانک میڈیا کو ننگا کرتا پایا گیا۔  پھر اپنے من کی تسکین کی خاطر اور تحقیق و جستجو کی نیت سے تمام ذرائع کھنگال  ڈالے۔  ویسے تو اس بار رمضان المبارک میں بھی مذہب کے نام پر خوب تجارت ہوئی، پروگراموں کے میزبان فیشن ماڈل بن کر پیش ہوتے رہے،  سال بھر جو رقص و سرود کی محفلوں کی زینت بنتے ہیں، مورننگ شو کرتے ہیں اور مختلف ڈرامے کرتے ہیں وہ رمضان میں مسلمانوں کی ایمان مضبوط کرنے اور گناہ بخشوانے کے سلسلے کے  رہبر بن جاتے ہیں۔ دین میں نرمی اور اپنی مرضی کے احکام کے متلاشی کھلے دل سے ان کی اتباع بھی کرتے ہیں اور وکالت بھی۔  اکثر سکالر بھی دین سے دور بلکہ بہت دور، خواتین نعت خوان بھی اسلامی حدود کا جنازہ نکالتی نظر آتی ہیں کہ اگر ایک خاتون ٹی وی پر نعت سنائے اور ہر غیر محرم اسے سن سکتا ہے  اور اس کا قیمتی سکارف ، لال رخسار،  لپ اسٹک سے مزین ہونٹ  اور لباس دیکھ کر دل   بھڑک اٹھتا ہے  تو پھر گانا گاتی ہوئی خاتون کیونکر گناہگار ٹھہری؟  پاکستانی میڈیا اپنا احتساب کرے کہ رمضان کے مہینے میں انہوں نے  اسلام کی کیا خدمت کی؟ چھیل چھبیلے لڑکے اور لڑکیوں  کی رنگین محفلوں کے سوا کیا دیا؟   سحری اور افطاری کے پروگراموں میں دین کے نام پر تجارت ہوئی مگر۔۔۔۔ کتنے لوگوں نے وضو کا طریقہ سیکھا، غسل کیسے ہوتا ہے؟  نماز کے احکام کیا ہیں؟  نمازِ جنازہ کیسے ہوتی ہے؟   روزہ کے احکام، مکروہات، مفسدات اور متعلقات کیا ہیں؟    آپ کو ان سوالوں کا جواب نہیں ملے گا کیونکہ یہ چینلز  تو اپنی ریٹنگ بڑھانے کے  چکر میں تھے۔


عید پر بھی ان  چینلز  نے  اپنے فکری آقاؤں کی بھرپور ترجمانی کی،   عید اللہ تعالیٰ کی طرف سے  عطا کردہ خوشی ہے،  اس خوشی کا منانے کا سلیقہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمایا ہے۔   عربوں کی عیاشی، فضول خرچی، حقوق انسانی کی پامالی اپنی جگہ  مگر شھر مبارک کے آتے ہی جگہ جگہ دستر خوان لگتے ہیں،  غربأ اور  مستحقین کی خدمت کی جاتی ہے،  عبادات اور قیام الیل کا اہتمام ( یہ الگ بات ہے کہ اس قیام الیل اور عبادات کی آڑ میں   شرک اور بدعت  کے فتووں کی تربیت دی جاتی ہے) دنیا کی ہر مصروفیت کی حیثیت ثانوی  ہو جاتی ہے،  مگر پاکستان میں اسلام در در ٹھوکریں کھاتا نظر آتا ہے، ٹی وی پر رمضان کی آڑ میں ایسی ایسی واہیات بکی جاتی ہیں کہ الامان والحفیظ۔  اسلام کے نام پر وجود آنے والی اس  مملکت  کے ٹی وی چینلز نے اس رمضان میں ہم جنس  پرستوں ، عقل و شعور سے  بے نیاز،  فلمی و تفریحی  مخنثوں سمیت  دیگر کئی بے حیا کرداروں کو خوب خوب  تشہیر دی۔    اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کم اور ہندو بنئیے کا نظریہ و فکر زیادہ نظر آئے۔   جس انداز میں پاکستانیوں نے رمضان  کو نیا رنگ دیا ہے  اس سے محسوس ہوتا ہے کہ اگلے بیس سال کے بعد رمضان اور عید ایک فیشن تہوار   بن کر رہ جائے گا۔   عید جس کو یوم الجزا کہا گیا اسے بے حیائی اور بے غیرتی کا مظہر بنا دیا گیا۔   اسلام کو اپنے ہی دیس میں  پردیسی بنایا جا رہا ہے۔  اسلام کے نام لیوا اسلام کو لوٹ رہے ہیں،  اسلام  کے منبر پر  کم ظرف،  کم عقل،   نااہل اور جاہل سکالروں کا قبضہ  مضبوط  ہو رہا ہے اور یہی اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔


عید کے موقع پر اکثر ٹی وی چینلز  تفریحی و مذاحیہ پروگرام پیش کرتے ہیں،  ان پروگراموں میں شوہر اور بیوی کے نام پر مشاعرے اور پھر ان مشاعروں میں ان مقدس رشتوں کو اپنی واہ واہ کے حصول کا ذریعہ بنا کر اس قدر پامال کیا جاتا ہے کہ گویا یہ فقط ایک افسانوی کردار ہی ہے حقیقتِ حال بھی کوئی مختلف نہیں کہ ان چینلز کے ڈرامے دیکھ کر عصرِ حاضر کے میاں بیوی تقدس نام سے واقف نہیں رہے۔  اسلامی جمہوریہ پاکستان کے  ٹی وی چینل اس قدر فکری  یتیم ہیں کہ خبر نامہ کے آخر میں جب تک بھارتی سورماؤں اور اپنے  ہندو آقاؤں کی بمبئی نگری کی مصنوعی چِٹی رنڈیوں کو نیم عریاں حالت میں نہ دکھا لیں ان کی شیطانی روحیں  تسکیں نہیں پاتیں۔   اذان نشر کرنے کے لئیے دو منٹ کا وقت میسر نہیں آتا مگر   اپنے ہندو آقا کے ساتھ پرانے خاندانی رشتہ کو نبھانے خاطر  بھارتی فلموں کی تشہیر میں پورا بلیٹن صرف کر دیں گے۔  بد بختی یہ ہے کہ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بچوں کو  مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد قبا اور بیت المقدس کی پہچان تو نہیں ہے تاہم  بندے ماترم،  امن کی آشا، بمبئی کی بدبودار گلیوں سے کسی خطا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی رقاصاؤں اور گویوں کی آوازوں اور شکلوں سے خوب خوب واقفیت ہے۔
 

کوئی شک نہیں کہ یہ فتنہ رکنے والا نہیں کہ قیامت کو بھی وجود پانا ہے،  مگر پاکستانی مسلمانو یاد رکھو،  جس بے حیائی کو اپنے گھروں میں جگہ دے رہے ہو یہ وبال جان بن جائے گی، کل کو ہم نہ رہیں گے اور یہ اولاد اس میڈیا سے اس قدر متاثر ہو جائے گی کہ فاتحہ و جنازہ تک بھول جائے گی، یہی بھارتی   ہندؤں کا اصل مقصد ہے۔    رمضان ہمارا ہے،  عید ہماری ہے اس میں بھارتی فلموں کی تقلید کیوں؟   کیا کبھی  کسی ہندو نے  دیوالی کے موقع پر قرآن پڑھا؟   کیا کبھی ہندو بنئیے  نے  اپنی کسی رسم میں اسلام  کو رواج دیا؟  یا پھر کبھی کرسمس پر  کسی عیسائی کو اسلامی لباس اور وضع قطع اختیار کرتے پایا؟
 

اسلام کو اپنے گھر اور دل میں جگہ دیجئیے ایسا نہ ہو کہ آج جس اسلام کو ہم نے ٹی وی اور میڈیا تک محدود کر دیا ہے کل یہ اسلام میدانِ حشر میں ہمیں پہچاننے سے انکار کر دے۔  اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو وہ بہت ذلت اور رسوائی کا لمحہ ہو گا اور اس وقت پچھتانے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔

اپنی  ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی  

Wednesday, 31 July 2013

تکے باز اسلامی سکالر


سوشل میڈیا پر ایک جملہ گردش کر رہا ہے مسلمانوتُکا لگاؤ ۔۔۔ جب سنا تو ایک جملہ ِمہمل سمجھ کر نظر انداز کر دیا تاہم چند ہی لمحات میں
اس کی بھرمار اور پھر پاکستان کے ایک بڑے میڈیا گروپ   کے وائس پریذیڈنٹ اور   خود ساختہ اسلامی سکالر   عامر لیاقت  کی زبانی یہ جملہ سن کر بہت تشویش ہوئی۔   ان صاحب کی پہچان بھی  کچھ متنازعہ ہے کہ  دین و سنت میں ان کا  کوئی استاد  نہ مرشد۔ ۔۔اور  بے استاد ا  اپنے اندر موجود جہالت اکثر خارج کرتا رہتا ہے،  اس کی جہالت اس کے قول ، فعل، عمل اور شکل سے ٹپکتی ہے۔  لوگ کہتے ہیں کہ یہ صاحب بنیادی طور پر  اپنے ایک فکری بھائی  جو کہ اپنی مخنثانہ حرکتوں سے معروف ہیں کہ نقش قدم پر چلتے ہوئے  ادکاری ہی کرنا چاہتے تھے مگر  کسی پروڈیوسر نہ ان کی پشت پر ہاتھ نہ رکھا،  نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لاحقہ بھی لگا رکھا تھا،  جسمانی مریضوں کو لوٹنے میں کامیاب نہ ہوئے    مذہبی طور پر کمزور ذہن کے مالک سادہ لوح لوگوں کا شکار کیا،  کچھ برس قبل   تک ان کا منہ بطرف لندن  شریف ہوا کرتا تھا ۔ جوشِ خطابت لے ڈوبا اور   ملعون سلمان رشدی کے خلاف  کچھ سچ کہہ دیا،  غالب گمان یہی ہے کہ  یہ واہ واہ کے حصول کا ایک ذریعہ ہی تھا (میں  گمان کے شرعی احکام کو سمجھ کر  لکھ رہا ہوں، لہٰذا مفتیانِ کرام اپنا فتوٰی ضائع نہ کیجئیے)۔  اس پر ان کے آقا اور بڑے بھائی   کی برق برسی اور ان کو ہر طرح کی منقولہ و غیر منقولہ   جائیداد سے عاق کر دیا گیا۔  آج کا دن آتا ہے یہ صاحب خود کو عشاقِ رسول ﷺ کا ترجمان،  تحفظِ ختم نبوت کا سپاہی، عزت رسول ﷺ پر وزارت کو قربان کرنے  کا  اعزاز اپنی جھولی میں بار بار خود ہی ڈال رہے ہیں۔  جب کہ حقیقت یہی ہے کہ نائن زیرو کے کوچے سے بہت رسوا ہو کر نکلے تھے۔  اس قربانی کے بعد کئی ٹوپیاں بدلیں ، ایک موقع پر تو ان کے باطن میں چھپی مغلظات خوب  ظاہر ہوئیں،   عوام کی اکثریت اسے درست سمجھتی ہے کہ اگر جھوٹ ہی تھا تو تھوک کر کیوں چاٹ لیا؟؟؟   جس کی جبلت میں  لالچ اور جھوٹ ہو وہ عزت کی پرواہ نہیں کیا کرتا۔ موصوف  نے دوبارہ اسی  گھر کا  منہ دیکھا جہاں سے رات کے اندھیرے میں نکلے تھے۔

یہی وہ صاحب ہیں جنہوں نے رمضان کو بھی تجارت بنا دیا ہے۔  اب ان کے خربوزے کو دیکھتے ہوئے دیگر ککڑیوں نے بھی رنگ پکڑ لیا ہے اور ان کی پیدا کی ہوئی برائی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔  کہاں وہ رمضان جس میں صرف اور صرف رحمان  عزوجل اور اس کے سچے رسول ﷺ کے احکام کا پرچار ہوتا تھا، لوگ سحر ی میں تہجد ادا کرتے، تلاوتِ قرآن کا اہتما م  ہوتا، افطاری میں پورا خاندان جمع ہوتا، توبہ و استغفار مقصود ہوتا،  ادب واحترام   پایا جاتا تھا،  اب ان صاحب کے پھیلائی ہوئی وبا کی ہولناکیوں کی وجہ سے  ماں باپ  دستر خوان پر بیٹھ کر آوازیں دیتے ہیں مگر جوان بیٹیاں اپنے اس شیطان صفت بھائی کا پروگرام دیکھ رہی ہوتی ہیں۔  اب سحر اور افطار میں قرآن کے نغموں کی بجائے مرد و زن کی  مخلوط تالیاں  ، نوجوان  لڑکیوں کی لہلہاتی زلفیں، بن ٹھن کی بیٹھی خواتین،  بھارتی موسیقی پر  سرور،  چند ٹکوں کے کھوٹے تحائف اور شور و غل  کا ایک نہ تھمنے والا سیلاب نظر آتا ہے۔ نوجوان خواتین  کی کال سنتے وقت، اور  لائیو شو میں ان   کو تحائف دیتے ہوئے  ہوئے موصوف کی حالت پانی سے زیادہ پتلی ہوتی ہے۔  عالِم او عالَم کا ڈرامہ رچانا بھی انہیں آتا ہے، کوئی  میری یہ بات ان تک پہنچا دے کہ اگر آپ خود کو عالم سمجھتے ہیں تو جان لیجئیے آپ شریعت محمدی کے عالم نہیں کہ خلیفہ دوم امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں اعلان فرما دیا  تھا کہ  مدینہ منورہ کی مارکیٹ میں تجارت کی اجازت صرف اسی کو ہو گی جو فقہہ اسلامی  جانتا  ہو گا۔   جو تجارت، کاروبار اور خدمات آپ سرانجام دے رہے ہیں  یہ اسلامی نہیں البتہ امن کے تماشے کے طور پر آپ اپنے بھارتی آقاؤں کو خوب خوش کر رہے ہیں۔ آپ نے  توہینِ رسالت کے نام پر وزارت قربان کی تھی تو توہین پاکستان کے نام پر  گندگی کے اس ڈھیر سے اٹھ جائیے جس پر آپ جنت کا لیبل لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔  ویسے آپ کا جنت یا شریعت سے کوئی تعلق مجھے تو سمجھ نہیں آتا کہ آپ وہی صاحب ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے  محترم و محتشم داماد سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ پر بھی  اپنی زبان درازکر  چکے ہیں، شاید اس لئیے کہ جب آپ کی خطابت جوش پر ہوتی ہے اس وقت آپ کا دماغ   سننے والوں کے چہروں پر مرکوز ہوتا ہے اور پھر  آپ کا نصب العین تو واہ واہ کا حصول ہے،   اس وقت آپ کا دماغ   ساتھ نہیں دے رہا ہوتا، ویسے اس گستاخی نے آپ کے سامنے بیٹھے آپ کے فکری  دوستوں کو کافی خوش کیا تھا مگر جنت البقیع میں مدفون محسنِ اسلامِ  کامل الحیا والایمان سیدنا عثمان ابنِ عفان رضی اللہ عنہ کو تکلیف ضرور پہنچائی بلکہ مکین ِ گنبدِ خضرا ﷺ کو بھی ناراض کیا، حتٰی کے میرا وجدان کہتا ہے آپ نے حسنین کریمین رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اذیت پہنچائی کے وہ وقت شہادت  درِ عثمان پر پہرہ دار تھے۔ آپ کی اس گستاخی پر معافی آج تک منظرِ عام پر نہیں آئی، لہٰذا  جس ملعون رشدی  کو برا بھلا کہتے ہوئے آپ کی وزارت گئی اس میں اور آپ میں یہ قدر و صفت مشترک پائی جاتی ہے کہ رشدی نے گستاخیِ رسول کی اور آپ نے گستاخی ِصحابی رسول کی۔

آپ کے لئیے میرا ایک اصلاحی اور درمندانہ پیغام ہے کہ توبہ کا در کھلا ہے، جو بیماری آپ نے ہمارے معاشرے میں پھیلا دی ہے اب اس
 روکئیے کہ آپ کی وجہ سے  اکثر ٹی وی چینلز رمضان اور اسلام کے نام پر تجارت کر رہے ہیں۔  مرد کو مرد ہی نظر آنا چاہئیے ، تیسری صفت انسان کو نہیں جچتی، گوٹے، مالا، کڑھائی، شیروانیاں اور رنگ برنگے عمامے اسلام کے ترجمان نہیں، آپ نے تو نعت کو بھی کاروبار  بنا دیا ہے۔ آپ جیسے   رنگ برنگوں کی تعلیمات اسلام کا چہری بگاڑ رہی ہیں،   یہی وجہ ہے کہ درباروں، مزاروں اور آستانوں پر قوالیوں اور  کلاموں پر ڈھول، دھمال اور رقص عام ہو رہا ہے،  ملنگ اور ملنگنیاں  آپ کے  بتائے ہوئے دین کا خوب جنازہ نکالتے ہیں۔  اسلام غریبوں نے پھیلایا تھا، غریب میں ہی ہے، غریب ہی بچائیں گے۔ آپ جیسے سیون سٹار سکالر،  وی آئی پی  نعت خوان اور  بائیسویں سکیل کے مقرر صرف آنکھوں کو ہی بھاتے ہیں، دل میں اترنے کے لئیے جنید و بصری،    خواجہ و فرید، اجمیر و گولڑہ  والوں کی راہ اختیار کرنی پڑے گی،  وہ سنورتے نہیں تھے بلکہ سنوارتے تھے،  وہ  ظاہر نہیں باطن کے طبیب تھے،  ان کی ایک نگاہ فقر لاکھوں کو پکا مؤمن کرتی تھی اور آپ  مؤمنوں کا  بچا کھچا ایمان بھی  برباد کر رہے ہیں۔  پہلے اپنی شکل کو  مؤمنانہ بنائیے تاکہ لوگ کم از کم آپ کے فیشن کی وجہ سے پیسہ برباد  نہ کریں۔ اپنے قول اور فعل میں  توازن  قائم کیجئیے، جو کہتے ہیں پہلے  اپنی ذات پر اس کا اطلاق کیجئیے۔ 

میں آپ کی ڈگری پر بات نہیں کروں گا کہ الفاظ کا ضیاع ہے، مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ اصلی ہیں یا نقلی تاہم گذشتہ روز کسی
 دل جلے نے کہا ہے کہ ڈگریاں اصلی  ہیں بندہ دو نمبر ہے۔  میں ان کی آدھی بات سے اتفاق ہےکیونکہ  آپ سو فیصد ہیں۔۔۔ ویسے معتوب بابر اعوان بھی آپ ہی کے ہم مکتب تو نہیں تھے؟؟؟  سپین کی جس یونیورسٹی   سے انہوں نے ڈاکٹریٹ  خریدی تھی وہ یونیورسٹی بھی گم ہو چکی ہے اور آپ کے ساتھ بھی کہیں  یہی ہاتھ تو نہیں ہوا۔۔ ویسے آپ کو اپنے مغربی اور مشرک آقاؤں سے بھی  کمال لگاؤ ہے کہ ایسی یونیورسٹی سے  ڈگری لی  جس کا نام  ہی  اسلام سے متصادم ہے ۔ خیر آپ کو  ڈگری مطلوب تھی  بے شک وہ  مظفر گڑھ سے دستی لے لیتے 
یا بذریعہ ڈاک منگوا لیتے ، سپین کاہے کو گئے صاحب۔۔۔ٹماٹروں سے زرد کر دینے والی سرزمین پر۔

اب مزید تکے لگانا چھوڑئیے،  کیونکہ اسلام تکوں پر نہیں چلتا، اسلام ایک حقیقت ہے، ایک نظام ہے، شریعت ہے، دستور ہے، منشور ہے اور یہ کام تکوں سے نہیں ہوتا، اس کی حدود و قیود ہیں۔  یہ کالم پڑھ کر تو ویسے بھی آپ  کے  تکے فیل ہو جائیں گے۔ ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی سے باز آجائیے ورنہ ہم فقیر آپ کی جان نہیں چھوڑیں گے۔ بوری تیار کرنا تو ہمیں نہیں آتا کہ یہ آپ کے سابقہ قبلہ میں ہوا کرتا ہے، ہم زبانی اور قلمی جہاد کریں گے اور بلاخوف کریں گے اور جب تک آپ کے سارے تکے فیل نہ ہو جائیں یہ جہاد جاری رہے گا۔ انشاٗ  اللہ
  

Monday, 29 July 2013

طوائف سے بہن تک کا سفر

یہ داستان میری لکھی ہوئی نہیں ہے،  اور مجھے اس کے  لکھاری کا نام  بھی نہیں معلوم، مصنف، مرتب یا اس کے خالق کا تعارف نہیں مل سکا۔ اصلاحِ معاشرہ کی  نیت سے شائع کر رہا ہوں۔ کہانی کا  نام میں نے تجویز کیا ہے۔

مجھے اس کا مجرا دیکھتے ہوئے مسلسل دسواں دن تھا۔ کیا غضب کی نئی چیز ہیرا منڈی میں آئی تھی۔ اس کا نام بلبل تھا۔ جب وہ ناچتی اور تھرکتی تھی تو جیسے سب تماش بین محو ہو جاتے۔ روزانہ اس کو ناچتا دیکھ کے میری شیطانی ہوس مزید پیاسی ہوتی جاتی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس سے ضرور ملوں گا۔ میں ہر قیمت پر اسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔اس دن مجرا کے دوران وہ بجھی بجھی سی دکھائی دے رہی تھی ۔ اس کے ناچ میں وہ روانی بھی نہیں تھی لیکن مجھے اس سے ملنا تھا، بات کرنی تھی اور معاملات طے کرنے تھے۔ مجرے کے اختتام پہ جب سب تماش بین چلے گئے تو میں بھی اٹھا۔ وہ کوٹھے کی بالکنی میں اپنی نائیکہ کے ساتھ کسی بات پر الجھ رہی تھی۔ دروازہ کے تھوڑا سا قریب ہوا تو میں نے سنا کہ وہ اس سے رو رو کر کچھ مزید رقم کا مطالبہ کر رہی تھی۔ مگر نائیکہ اسکو دھتکار رہی تھی اور آخر میں غصے میں وہ بلبل کو اگلے دن وقت پہ آنے کا کہ کر وہاں سے بڑبڑاتی ہوئی نکل گئی۔بلبل کو پیسوں کی اشد ضرورت ہے، یہ جان کے میرے اندر خوشی کی اک لہر دوڑ گئی۔ چہرے پر شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی کہ وہ ضرورت پوری کر کے میں اس کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہوں۔ میں اس کی جانب بڑھا، اس کا چہرہ دوسری طرف تھا اور وہ برقعہ پہن رہی تھی۔ پاس جا کر جب میں نے اسے پکارا تو وہ میری طرف مڑی۔ اسکا چہرہ آنسووں سے تر اور برف کی مانند ایسے سفید تھا جیسے کسی نے اس کا سارا خون نکال لیا ہو۔
اس کی یہ حالت دیکھ کر میں چکرا سا گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ وہ ایسے کیوں رو رہی ہے؟
میری طرف دیکھتے ہوئے وہ چند لمحے خاموش رہی اور میرے دوبارہ پوچھنے پر گھٹی گھٹی آواز میں بولی "ماں مر گئی۔"
"کیا؟"
جب مجھے اسکی سمجھ نہیں آئی تو وہ بے اختیار روتے ہوئے دوبارہ بولی کہ "آج میری ماں مر گئی۔"
اس جواب سے جیسے میرے منہ کو تالا لگ گیا۔ میری شیطانی ہوس، جس کو پورا کرنے کے لیے میں اس کی جانب آیا تھا، مجھ سے میلوں دور بھاگ گئی۔
"تو تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" میں نے غصے اور حیرت سے اس سے پوچھا۔
" کفن دفن کے پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔ اس لئے میں مجرا کرنے آئی تھی۔ مگر نائیکہ آج پیسے ہی نہیں دے رہی۔ کہتی ہے بہت مندی ہے۔ تماش بین کوٹھے پر نہیں آتے۔ جو آتے ہیں وہ پہلے کی طرح کچھ لٹاتے نہیں۔ وہ کہہ رہی ہے کہ ایدھی والوں سے اپنی ماں کے کفن دفن کا انتظام کروا لو۔"
اتنا کہہ کے وہ برقعہ پہن کر کوٹھے سے باہر نکل آئی۔
میں بھی اسکے پیچھے چل پڑا،"میں تمھاری ماں کے کفن و دفن کا بندوبست کرتا ہوں۔"
وہ چند لمحے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتی رہی اور پھر خاموشی سے میرے ساتھ بیٹھ گئی۔ گاڑی ٹیکسالی سے باہر نکالتے ہوئے میں نے بلبل سے اس کے گھر کا پتہ پوچھا۔ وہ علاقہ میرے لیے نیا نہیں تھا کئی بار میں وہاں سے گزرا ہوا تھا۔ میں نے گاڑی اس طرف موڑ دی۔ سارا راستہ وہ خاموشی سے روتی رہی۔ میرے پاس اسکو تسلی دینے کے لیے الفاظ بھی نہیں تھے۔کچھ دیر میں ہم بلبل کے گھر پہنچ گئے۔ یہ چھوٹا سا ایک کمرے کا گھر تھا۔ صحن کے بیچ میں چارپائی پر اسکی ماں کی لاش ایک گدلے کمبل میں لپٹی پڑی تھی۔ صحن میں بلب کی پیلی روشنی وہاں بسنے والوں اور گھر کی حالت چیخ چیخ کر عیاں کر رہی تھی۔ چارپائی کے پاس دو بوڑھی عورتیں بیٹھی تھی ۔ ایک کی گود میں سات آٹھ ماہ کا بڑا گول مٹول اور پیارا سا بچہ کھیل رہا تھا۔ آدھی رات ہونے کو آئی تھی۔ جیسے ہی بلبل گھر میں داخل ہوئی، وہ بوڑھی عورتیں بچہ اسے سونپتے اور دیر آنے کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئیں۔ بلبل بچے کو لے کر کمرے کی طرف گئی۔ بچہ بہت بے قرار تھا اور پھر وہ اسکی چھاتی سے لپٹ گیا جیسے صبح سے بھوکا ہو۔
"کیا یہ بلبل کا بچہ ہے؟" یہ ایک نیا انکشاف تھا کہ بلبل شادی شدہ بھی ہے۔چند لمحوں بعد وہ کمرے سے باہر آئی مجھے یونہی کھڑا دیکھ کر پھر کمرے میں گئی اور اک پرانی کرسی اٹھا لائی۔
"سیٹھ جی! معذرت۔ میرے گھر میں آپ کو بیٹھانے کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔" وہ کرسی رکھتے ہوئے شرمندگی سے بولی۔میں سر ہلاتے ہوئے اس کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہاں سے شروع کروں۔
"تمھارا اصل نام کیا ہے بلبل؟" بالآخر میں نے اس سے پوچھا ۔وہ چپ رہی شاید بتانا نہیں چاہ رہی تھی
افشاں"۔ میرے دوبارہ پوچھنے پر اس نے آہستہ سے کہا۔
" بہت افسوس ہوا تمھاری ماں کی وفات کا۔"
وہ خاموش رہی۔
"تمھارا باپ، بھائی کوئی ہے ؟"
اس نے خاموشی سے "نہیں" میں سر ہلایا۔
"یہ بچہ تمھارا ہے ؟"
اس نے پھر خاموشی سے "ہاں "میں سر ہلایا۔
"تمھارا شوہر کہاں ہے؟"
چند لمحوں بعد وہ بولی "چھوڑ گیا۔"
"تم ہیرا منڈی کیسے گئی تم مجھے ناچنے گانے والی تو نہیں لگتی؟"
اب وہ نظریں اٹھا کر مجھے دیکھتی ہوئی بولی، "سیٹھ جی قسمت وہاں لے گئی۔ گھر میں کوئی مرد نہیں تھا۔ ایک بیمار ماں اور بچے کی ذمہ داری تھی۔ کہیں اور کام نہیں ملا تو ناچاہتے ہوئے بھی مجبورا"یہ راستہ اختیار کرنا پڑا۔ کچھ عرصے تک نائیکہ نے ناچ گانا سکھایا اور پھر دھندے پر بیٹھا دیا۔۔ وہ مجھے مجرا کرنے کے روزانہ دو سو روپے دیتی ہے اور ساتھ میں تماش بینوں کا بچا کھچا کھانا، جو میں گھر لا کے اپنی ماں کو کھلاتی ہوں اور خود بھی کھاتی ہوں۔ برقعے میں آتی جاتی ہوں جس سے محلے میں کسی کو پتہ نہیں چلتا اور اک بھرم قائم ہے۔ سیٹھ جی، ایسی کتنی ہی بے سہارا گمنام لڑکیاں معاشی حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کوٹھوں پر ناچنے پر مجبور ہیں۔ آپ لوگوں کو کیا پتہ وہ کتنی مجبور ہو کر یہ قدم اٹھاتی ہیں ۔ کوئی لڑکی اپنی خوشی سے یوں سب کے سامنے اپنا جسم، اپنی عزت نیلام نہیں کرتی۔ جو لڑکیاں اک بار اس دلدل میں گر پڑتی ہیں پھر وہ دھنستی ہی چلی جاتی ہیں ۔ اور پھر اس میں ہمیشہ کے لیے ڈوب جاتی ہیں۔" یہ سب کچھ بتاتے ہوئے افشاں کے لہجے میں بے بسی اور بے چارگی تھی جیسے وہ کسی ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہو۔میں کچھ دیر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ پھر پرس سے چند نوٹ نکالے اور اسکے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا "کل اپنی ماں کی تدفین کروا لینا اور بچے کے لیے کچھ خوارک اور گھر کے لیے راشن پانی لے لینا۔"
وہ اتنے سارے نوٹ ایک ساتھ دیکھ کر حیران ہو گئی۔
"کیا ہوا؟" میں نے اس کو یوں چپ دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"سیٹھ جی مجھے ان روپوں کے بدلے کیا کرنا ہو گا؟" وہ ڈرتے ڈرتے پوچھ رہی تھی۔ شاید یہ سوچ رہی تھی کہ ان نوٹوں کے بدلے سیٹھ پتہ نہیں کب تک اس کا جسم نوچے گا؟ کب تک اس کو سیٹھ کی رکھیل بن کر رہنا پڑے گا؟
اس کی بات سن کر مجھے اپنے آپ سے اتنی نفرت ہوئی کہ میں خواہش کرنے لگا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔ مجھے احساس ہوا کہ میں ذلت اور اپنے کردار کی پستی کی آخری حد کو چھو رہا تھا۔ میں اس بے حس معاشرہ میں ایک تنہا اور بے سہارا لڑکی کی مدد کر رہا تھا مگر وہ اس کو بھی ایک ڈیل کے طور پر سمجھ رہی تھی۔ شاید جہاں سے میں اٹھ کر آیا تھا وہاں پر جانے والے لوگوں سے بغیر کسی وجہ کے مدد کی توقع نہیں کی جاتی۔
میں نے لرزتی آواز میں جواب دیا، "تمھیں کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔ اور تم اب کوٹھے پر مجرا کرنے نہیں جاؤ گی۔ اپنے گھر میں رہو گی۔ ہر مہینے تمھیں منی آرڈر مل جایا کرے گا۔ تم نے کرنا بس یہ ہے کہ یہ جو بچہ تمھاری گود میں ہے اس کی تربیت ایسے کرو کہ یہ اک دن بڑا ہو کر تمھارا سہارا بن سکے ۔ یہ جو رقم میں بجھواؤں گا یہ تم پر قرض ہے اور جب تمھارا بیٹا جوان ہو جائے گا، ایک قابل انسان بن جائے گا تو تم مجھے واپس کر دینا۔افشاں حیران پریشان کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس انسان کو جس کے سامنے ابھی وہ ناچ کر آئی تھی وہ اس سے ایسی باتیں کر رہا تھا۔ پھر وہ بے آواز رو پڑی۔ مجھے سے وہاں رکا نہیں گیا۔ میں نے افشاں کے گھر کا پتہ لیا اور اس کو اپنا کیا وعدہ یاد دلا کر وہاں سے رخصت ہو گیا۔
سارے راستے میں یہی سوچتا رہا۔ "مجھے تم سے کچھ نہیں چاہے۔ مجھے تم سے کچھ نہیں چاہئے افشاں۔جو تم نے مجھے دیا ہے میں اس کا احسان ساری عمر نہیں اتار پاؤں گا۔ تم نے مجھ میں دفن اس انسانیت کو جگا دیا جو میں دولت اور شیطانی ہوس کے نیچے دبا کر مار چکا تھا۔ تم نے مجھے پھر سے انسان بنایا ہے افشاں۔"اس واقعے کے بعد میں ان تمام برے کاموں سے توبہ کر کے اس کی بارگاہ میں گناہوں کا بوجھ لیے حاضر ہوا۔ ہر روز اس کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا، اس سے معافی کی درخواست کرتا۔میں باقاعدگی سے ہر ماہ "افشاں" کو منی آڈر بجھواتا رہا۔ کئی دفعہ دل کیا میں اس مسیحا کو مل کر آؤں جس کی وجہ سے مجھے ان تمام گناہوں اور بدکاریوں سے نجات ملی۔ مگر ہر دفعہ اک شرمندگی آڑے آتی رہی کہ کبھی میں اپنی شیطانی ہوس کے لیے اس کا پیاسا تھا۔ اور پھر وقت گزرتا چلا گیا دن مہینوں میں بدلنے لگے اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے گئے۔ مگر میں افشاں کو بھولا نہیں تھا۔ وہ بھی میری طرح بوڑھی ہو گئی ہو گی۔ اور اس کا بیٹا بھی جوان ہو گیا ہو گا۔ پتہ نہیں کسی قابل بنا ہو گا۔ اپنی ماں کا سہارا بنا ہو گا کہ نہیں؟
میرے بچے جوان ہو گئے تھے۔ زندگی اتار چڑھاؤ کے ساتھ مسلسل چل رہی تھی۔ ایک شام چھٹی کے دن جب میں اپنے گھر میں موجود تھا تو ملازم نے آکر مجھے بتایا کہ ایک عورت اور اسکے ساتھ ایک جوان لڑکا آپ سے ملنے آئے ہیں۔
"کون ہیں؟"
"معلوم نہیں صاحب پہلی بار ان کو دیکھا ہے۔" ملازم نے مودبانہ لہجے میں جواب دیا۔
"اچھا انہیں ڈرائینگ روم میں بٹھاؤ میں آرہا ہوں۔"
کون ہو سکتا ہے یہی سوچتے ہوئے میں ڈرائینگ روم کی طرف بڑھا۔
ایک عورت پرنور چہرہ کے ساتھ سفید بڑی چادر میں خود کو چھپائے ہوئے ہاتھ میں ایک پرانی سی ڈائری لیے کھڑی تھی۔ اور اس کے ساتھ اچھے کپڑوں میں ملبوس ایک بڑا ہینڈسم نوجوان کھڑا تھا۔ اس لڑکے کو میں جانتا تھا وہ ہمارے علاقے کا نیا ڈی ایس پی احمد تھا۔
"سلام سیٹھ جی میں افشاں ہوں اور یہ میرا بیٹا احمد ۔"
جونہی اس نے افشاں کا نام لیا میرے ذہن میں اسکا ماضی کا چہرہ گھوم گیا۔ اور پھر مجھے پہچاننے میں دیر نہیں لگی کہ وہ افشاں تھی۔
" آپ مجھے پہچان گئے ناں؟"
میں نے سر ہلاتے ہوئے "ہاں" میں جواب دیا اور ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔افشاں پھر اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر بولی۔ "احمد بیٹا یہی ہیں میرے مسیحا جن کی بدولت تمھاری ماں گندگی کی دلدل میں گرتے گرتے نکلی اور یہی ہیں جو تمھاری پڑھائی کا تمھیں یہاں اس مقام تک لانے کا ذریعہ ہیں ۔"
" میں انکو جانتا ہوں امی جان ان کا شمار علاقے کے معزز ترین افراد میں ہوتا ہے ۔ مگر میں یہ نہیں جانتا تھا کہ مجھے اس مقام پر لانے میں انکا کردار سب سے اہم ہے۔"
"سیٹھ صاحب جس طرح آپ ہم بے سہارا اور بے کس لوگوں کی زندگی میں مسیحا بن کر آئے اس کا احسان ہم کبھی نہیں بھولیں گے ۔" احمد بڑی مشکور نظروں سے دیکھتا ہوا بڑی عاجزی سے بول رہا تھا۔
"ایسے کہہ کر آپ لوگ مجھے شرمندہ مت کریں۔"
میں نے افشاں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ آج اسکو پکارتے ہوئے بے اختیار میرے منہ سے افشاں بہن نکل گیا۔ میں خود حیران تھا مگر یہ سچ تھا۔افشاں صوفے سے اٹھی اور آگے بڑھ کر پرانی سی ڈائری مجھے تھماتے ہوئے کہنے لگی، "سیٹھ جی اس میں وہ تمام حساب درج ہے ۔۔ میری ماں کی تدفین سے لے کر آپ کے آخری منی آڈر تک۔ میں نے اک اک پائی کا حساب رکھا۔ آپ کے دیے پیسوں کا امانت کے طور پر استعمال کیا۔ اپنے بیٹے کو ایک قابل انسان بنایا۔ آپ نے مجھے بائیس سال پہلے کہا تھا کہ یہ قرض ہے اور یہ تب واپس کرنا جب تمھارا بیٹا ایک قابل انسان بن جائے۔"
کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد افشاں پھر سے بولی، "سیٹھ جی آج وہ وقت آگیا ہے۔ میں آپ کے احسانوں کا بوجھ تو میں نہیں اتار سکتی مگر جو پیسے آپ نے مجھے دئیے تھے میرا بیٹا وہ ضرور اتارے گا۔ اور آپ سے درخواست ہے آپ انکار مت کریں۔"میں افشاں کو بڑی تحسین نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ آخر اس نے وہ کر ہی دکھایا۔ یقیناً قول و قرار کو نبھانا، وعدہ پر قائم رہنا اک اچھے کردار کے حامل انسان کی بڑی نشانی ہے۔ یہ سب سن کر میرے دل میں اسکی عزت اور احترام اور بڑھ گیا۔
"میں نے تم کو بہن کہا ہے افشاں بہن۔ اور میں کیسے تم سے یہ پیسے واپس لے سکتا ہوں۔ مجھے یوں شرمندہ مت کرو۔"
میرے رکے رکے الفاظ میں پیسے نہ لینے کی معذرت چھپی تھی۔ مگر وہ بضد تھی۔ مجھے اس کے سامنے ہار ماننا پڑی اور وہ تمام پیسے جو میں اسکو منی آڈر کی صورت میں بھیجتا تھا اس کو واپس لینے کی حامی بھرنی پڑی۔ پھر وہ دونوں مجھے اپنے نئے گھر کا پتہ دے کر اور آنے کی تاکید کر کے وہاں سے چلے گئے۔
"ارم میں نے تمہیں کسی سے ملوانا ہے میرے ساتھ چلو گی۔؟ " شام کو میں نے اپنی بیگم سے کہا۔
"کیوں نہیں چلوں گی۔ مگر کون ہے؟ اور کس سلسلے میں ملنا ہے؟" بیگم نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔
"میں نے روبی بیٹی کے لیے ایک لڑکا پسند کیا ہے ۔ تم مل لو اگر تم کو پسند آجائے تو پھر اس کے بعد روبی سے بات کر لینا۔" میں نے مختصر لفظوں میں اسے وجہ بتائی۔
اگلے دن میں اور میری بیگم ارم ناز افشاں کے گھر میں تھے۔ ارم کو بھی احمد بہت پسند آیا۔ ہم نے پھر افشاں سے احمد اور روبی کے رشتے کی بات کی۔ افشاں کو بھلا اس سے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ وہ پھولے سے نہیں سما رہی تھی۔ اور یوں میری بیٹی کا رشتہ افشاں کے بیٹے احمد سے طے ہو گیا۔ وہ تعلق جو اک طوائف اور تماش بین جیسے گندے رشتے سے شروع ہوا تھا اس کا اختتام ایک نہایت مہذب رشتے کی شکل میں ہوا۔یہ سچ ہے کہ ہر انسان کو قدرت سدھرنے کا موقعہ ضرور دیتی ہے۔ کبھی گندگی کے ڈھیر سے اس کو ایسا سبق سیکھا دیتی ہے، کبھی دو بھٹکے لوگوں ملا کر سیدھے راہ پر لے آتی ہے اور انسان ساری زندگی اسی کے مطابق گزارنے کو فخر محسوس کرتا ہے۔ کبھی وہ طوائف اور میں تماش بین تھا۔ مگر آج وہ میری منہ بولی بہن اور اس کا بیٹا میری بیٹی کا شوہر ہے۔ اور مجھے ان دونوں رشتوں پر فخر ہے۔

Tuesday, 23 July 2013

سر کے بالوں کی بیماریوں کا علاج














                                                                                                                                                       سر کے بالوں کی بیماریوں کا علاج

گذشتہ کئی ہفتوں سے  لکھنے کا سلسلہ تعطل کا شکار  ہے، ذاتی مصروفیات اور پھر رمضان المبارک کی آمد بھی  معمولات میں خرابی  کا ذریعہ بنی۔  قارئینِ کرام کی
 طرف سے بھجوائی جانے والی تجاویز کے پیش نظر بہت سارے عنوانات زیرِ غور تھے، اس کے ساتھ ساتھ حالاتِ حاضرہ اور میری اپنی دلچسپی کے عنوانات  بھی اشاعت کے منتظر ہیں۔  اب اسے حسنِ اتفاق کہئیے یا ایک فطری ردِ عمل کے جب سے میں نے انٹرنیٹ پر مضامین شائع کرنا شروع کئیے ہیں تب سے اس بات کا احساس ہوا کہ خواتین قارئین کی تعداد زیادہ ہے اور انہیں خواتین نے میرا قلم سیاست، معاشرت اور مذہبی مضامین سے ہٹا کر صحت کے مضامین کی طرف موڑ 
دیا ہے۔

خواتین کا ایک عام مسئلہ سر کے بالوں کا ہے،  بالوں کا ٹوٹنا، کمزور ہونا، بالوں کا گرنا، جھڑنا، نشو و نما میں رکاوٹ،  جلدی سفید ہو جانا  اور لمبے نہ ہونا وغیرہ
 وغیرہ۔
سر کے بال نسوانی حسن و شخصیت کا اہم حصہ اور جز ہیں۔  اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ نے عورتوں کو سر کے لمبے بالوں سے اور مردوں کو داڑھیوں سے زینت بخشی ہے۔  اسی طرح تاریخِ انسانی میں ہر دور کے افراد نے اپنے اپنے ذوق، علم اور فن کے ذریعے بالوں کا تذکرہ کیا ہے۔ معصیت میں مبتلا شعرا نے اپنے کلام میں نسوانی زلفوں کے ذریعے اپنے کلام  کی تشہیر  کا راستہ نکالا اور کسی نے اپنے افسانے و ناول کا مرکزی خیال بالوں کو بنایا۔ الغرض زمانہ قدیم سے بالوں کے حسن کو اہمیت حاصل رہی ہے ۔   ایک تاریخی حقیقت  جسے آپ لاکھ کوششوں کی باوجود جھٹلا نہیں پائیں گے کہ   سر کے بالوں کی جو حفاظت اسلامی معاشرے میں ہوئی وہ  مغربی اور غیر مسلم معاشرے میں نظر نہیں آتی۔  مغربی اور  غیر مسلم معاشرے میں  متعدد خواتین کے سر کے بال  مردوں  جیسے ہی ہوتے ہیں،  اور وہ خواتین باقاعدگی سے ہر ہفتے بال کٹواتی ہیں، لہٰذا انہیں بالوں کے حسن اور ان کی افزائش سے کوئی خاص لگاؤ نہیں ہوتا۔  اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ننگے سر رکھنے کی وجہ سے ان کے سر میں مٹی، گرد و غبار پڑھتا ہے اور وہ وہ لمبے بالوں کی حفاظت نہ کر پانے کی وجہ سے بال کٹوا دیتی ہیں۔ اس کے بر عکس اسلام میں پردہ کا اہتما م ہوتا ہے، خواتین سر پر دوپٹہ اوڑھتی ہیں، اسلام نے باقاعدہ کنگھی کے احکام سکھائے ہیں، طریقہ اور سلیقہ بتایا ہے کہ کیسے کنگھی کی جائے۔  تیل کیسے لگایا جائے وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ پردہ دار خواتین کے بال دراز  اور خوبصورت ہوتے ہیں۔
آج سے  بیس پچیس سال پہلے  بہت کم خواتین ایسی تھیں جو سر میں شیمپو کا استعمال کرتی ہوں، وقت گزرتا گیا اور یورپ سے شیمپو کی صورت میں زہر ہمارے سروں میں پہنچتا گیا۔ آج حالت یہ ہے کہ گھر میں کھانے کو دال بے شک نہ ملے  سر دھونے  کو شیمپو ضروری ہو چکا۔
بالوں کی حفاظت کے لئیے چند تراکیب پیش کر رہا ہوں۔ اگر بخوبی عمل کریں گے تو  شیمپو اور دیگر مہنگی چیزوں سے نجات مل جائے گی۔ انشا أللہ۔

سکری اور خشکی کا علاج:

تین چار لیموں کا رس نکال لیں، بالوں کی جڑوں تک اس کا مساج کریں اور کوشش کریں کہ سر کے ساری جلد تک لیموں کا رس پہنچے۔  آدھے گھنٹے کے بعد خالص سرسوں کے تیل سے سر کی مالش کریں، بعد ازاں باریک کنگھی سے ساری سکری اور خشکی باہر نکال دیں۔ اگر بال دو مونہے ہوں تو  سرسوں کے تیل میں لیموں  کا رس ملا کر بالوں کے منہ کو دونوں ہاتھوں  سے مالش کریں، اس سے دومونہے بال جلد ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔  اس عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ سر کی اندررونی جلد میں موجود خون کی باریک شریانوں میں قوت اور سرعت پیدا ہو گی جس سے سر کے تمام بالوں کو خون کی فراہمی شروع ہو جائے گی، جب تازہ خون  بالوں کی جڑوں تک پہنچے گا تو خشکی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بالوں میں جان پیدا ہو گی اور یہ بالوں کے ٹوٹنے کا سلسلہ بھی رکے گا۔ انشاأللہ۔

قدرتی شیمپو خود بنائیں:

بازار میں دستیاب شیمپو کسی نہ کسی لحاظ سے ضرور نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کا کم از کم نقصان تو مہنگا ہونا ہے۔  پھر مختلف مضر صحت اجزا ،کیمکل اور   مختلف جلدی امراض کا سبب بننے  والے شیمپو، ان کی کوالٹی، تیاری کا طریقہ کار، اس میں موجود نسخہ کا معیار اور بے شمار سوالات، ویسے بھی ہندوستان اور پاکستان میں کاسمیٹکس انڈسٹری  کا معیار قابلِ اعتماد نہیں۔

جو نسخہ میں درج کر رہا ہوں مجھے اس پر سو فیصد یقین ہے کہ یہ آپ کے سر کے بالوں کی تمام بیماریوں کے لئیے اکسیر ہے۔ کیونکہ اس میں سو فیصد خالص اجزا 
ہیں۔ بالوں کا ٹوٹنا، گرنا، کمزور ہونا، لمبے نہ ہونا، دو مونہے ہونا اور اس سے متعلقہ تمام مسائل کا حل ہے۔ انشاأ اللہ
انڈا ایک عدد،  روغن بادام  5ملی لیٹر، لیموں کا رس 5 ملی لیٹر، آملہ دو عدد۔
یہ چاروں اجزا ملا لیں، ایک پیسٹ یا مائع کی شکل میں تیار ہو جائے گا۔ پانچ منٹ تک سر میں لگا ئے رکھیں۔ اس کے بعد  سر دھو لیں۔  اس کے ساتھ خشکی اور  سکری کے خاتمہ والے  نسخہ بھی استعمال کریں۔ یہ دونوں نسخے دیکھنے میں بہت سادہ، عام اور سستے محسوس ہوں گے مگر اللہ کی رحمت کے سہارے میں دعویٰ سے کہتے ہوں کہ یہ نسخے  گیارہ دن مسلسل استعمال کر لیں، پھر دیکھیئے قدرت کے کارخانے میں کتنے سستے علاج ہیں۔

پانی سے علاج

صبح نہار منہ کم از کم سوا لیٹر پانی پینے کا معمول بنائیں۔ ایک گلاس سے شروع کریں اور آہستہ آہستہ  چار پانچ گلاس تک لے جائیں، معدہ، گردہ، مثانہ اور انتڑیاں صاف ہوں گی، تازہ خون پیدا ہو گا اور بالوں کو صاف خون کی فراہمی ہو گی، اس  سے آپ کی مجموعی صحت بہتر ہو گی اور بالوں کو قوت ملے گی۔
خواتین اپنے لباس اور خصوصاً سر کا پردہ اسلامی احکام کے مطابق کریں اس  کی برکتیں بھی آپ پر منکشف ہو جائیں گی۔ انشاأللہ

مزید طبی و روحانی مشاورت کے لئیے ہمارا فیس بک پیج لائک کریں۔
https://www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi


Saturday, 15 June 2013

دعوتِ اسلامی کی روحانی علاج خدمات



فیضانِ دعوت اسلامی





دعوتِ اسلامی کی روحانی علاج خدمات


"دعوتِ اسلامی"  کا تعارف لکھنے کی حاجت نہیں ہے۔  ایک غیر سیاسی اور تبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر تحریک ہے۔ سو کے قریب ممالک میں  دعوتِ اسلامی کا کام موجود ہے۔  امیرِ دعوتِ اسلامی حضرت مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم القدسیہ عصرِ حاضر  کے چند ایسے اولیاء و بزرگانِ دین میں سے ہیں جن کی بات حجت کا درجہ رکھتی ہے۔ کروڑں دلوں کا چین اور قرار ہیں۔ ان کی عاجزی، انکساری اور عشقِ رسول ﷺ  کا یہ حال ہے کہ مدنی چینل پر لاکھوں لوگ انہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنی روایتی سادگی، اتباعِ سنت اور  درویشانہ رویہ میں تبدیلی نہیں آنے دیتے۔ یہ کوئی تصنّع نہیں بلکہ  ایک حقیقت ہے۔

دعوتِ اسلامی  نے زبانی تبلیغ کے ساتھ ساتھ دورِ جدید کے ہر محاذ پر کام کیا۔ نئی ٹیکنالوجی اور میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔  دعوتِ اسلامی اس وقت  دنیا کی واحدجماعت ہے جس کا نظم و ضبط اور  انتظام و انصرام جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔   ہر ہر شعبہ میں مستند و ماہر اسلامی بھائیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔  تبلیغ، تحقیق، تفتیش، فقہ ، حدیث، تفسیر، سائنس، گونگے بہرے لوگوں کے مراکز، جیل خانہ جات میں تربیت، تعلیمِ بالغاں، اسلامی بہنوں کے مراکز، ہسپتال و شفاء خانے، غرباء و مستحقین کی خدمت،  اسلامی  مدنی یونیورسٹی کا قیام،  جدید خطوط پر طباعت و اشاعت کا کام،  پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں مدنی چینل  جیسے سارے کام  دعوتِ اسلامی کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔  

انہیں خدمات میں سے ایک اہم خدمت جو وقت اور معاشرہ کی ضرورت ہے وہ  "روحانی علاج" ہے ۔   دعوت ِ اسلامی نے اس کام کو جدید اور مربوط انداز میں پیش کیا ہے۔  یہ روحانی علاج کا سلسلہ اپنی مثال آپ ہے۔  دنیا بھر میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔   امتِ مسلمہ اپنے ہاتھوں کئیے ہوئے گناہوں کی وجہ سے مبتلائے مصیبت ہے۔  کوئی بیمار لاچار ، کوئی اولاد کے ہاتھوں بیزار، کوئی صحت کی وجہ سے پریشان اور کوئی کاروبار  میں نقصان کی وجہ سے سکون کھو بیٹھا ہے۔ دعوتِ اسلامی  کے امیر قبلہ  شیخِ طریقت مولانا محمد الیاس قادری حفظہ اللہ تعالٰی  کو متعدد مشائخ و بزرگان نے اجازت و خلافت سے نوازا تاہم آپ طریقت میں سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ  کے مبارک خاندان  ہی کی تعلیمات پر عمل فرماتے ہیں۔   پاکستان کے ہر ضلع اور تحصیل کی سطح پر "تعویذاتِ عطاریہ" کے نام سے  بستے/سٹال قائم ہیں جہاں عمومی طور پر  سوائے جمعۃ المبارک  روزانہ عصر تا مغرب روحانی علاج کی خدمات پیش کی جاتی ہیں۔ اس سلسلہ میں قطعاً کوئی  فیس یا پیسہ وصول نہیں کیا جاتا۔  دعوتِ اسلامی کے مراکز میں صرف اسلامی بھائیوں کو ہی روحانی علاج کے لئیے جانے کی اجازت ہے۔ اسلامی بہنیں یہ خدمت اپنے کسی محرم کو بھجوا کر حاصل کر سکتی ہیں۔   میں چشم دید گواہ ہوں میری گلی میں رہنے والا ایک لڑکا جو پیدائشی گونگا اور بہرہ تھا اللہ تعالٰی نے اسے دعوتِ اسلامی کی برکت سے سننے اور بولنے پر قدرت عطا فرما دی۔  الحمدللہ علٰی احسانہ۔ 

دعوتِ اسلامی کی یہ خدمت آنلائن بھی دستیاب ہے۔ اس سے اسلامی بہنیں بھی فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ آنلائن خدمت کے ذریعے آپ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ پر جا کر فارم پر کرکے بھجوا دیں، مرکز والے آپ کو ای میل کے ذریعے روحانی علاج ارسال کر دیں گے۔ اس میں کچھ تاخیر بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ہزاروں ای میلز کا جواب دینا آسان کام نہیں ہوتا۔
دعوتِ اسلامی کی آنلائن  روحانی خدمات کے حصول کے لئیے  اس لنک پر رابطہ کریں۔

اسی طرح روزانہ صبح نو بجے تا اگلی صبح پانچ بجے تک (پاکستان ٹائم) ٹیلی فون پر بھی استخارہ کیا جاتا ہے۔ اسلامی بہنیں کال نہ کریں بلکہ اپنے کسی محرم کے ذریعے کال کریں۔ ٹیلی فون  پر استخارہ کے لئیے  دعوتِ اسلامی کراچی مرکز کے اس نمبر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے: 00922134858711

یہ   لنک اور نمبر میں نے اس لئیے   لکھ دئیے کہ بہت سارے اسلامی بھائی اور بہنیں روحانی علاج کے لئیے جب مجھ سے رابطہ کرتے ہیں تو  وہ ملاقات  کا وقت مانگتے ہیں، یا رابطہ نمبر مانگتے ہیں۔ میں پاکستان سے باہر مقیم ہوں۔ اس لئیے نہ ہی ملاقات ممکن ہوتی ہے اور نہ ہی رابطہ نمبر عام کیا  جاسکتا ہے۔ لہٰذا میں نے دعوتِ اسلامی  سے رابطہ کی تفاصیل یہاں درج کر دیں۔ کیونکہ میرا  بھی اسی روحانی خاندان سے تعلق ہے جس سے دعوتِ اسلامی فیض  تقسیم کر رہی ہے۔ مقصد بھی ایک ہے۔ وہ بھی فی سبیل اللہ اور رضائے الٰہی کے حصول کے لئیے کام کر رہے ہیں اور میرے مرشد کریم رحمۃ اللہ علیہ کی بھی یہی تعلیمات ہیں۔

ایک انتہائی اہم بات  واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں دعوتِ اسلامی کی کسی مجلس کا رکن نہیں تاہم  میرے شیخِ کریم نائبِ محدثِ اعظم پاکستان، شیخِ الحدیث التفسیر  ، صاحبِ رشد و ہدایت پیر مفتی علامہ محمد عبد الرشید قادری رضوی رحمۃ اللہ علیہ  دعوتِ اسلامی اور امیرِ دعوتِ اسلامی سے بہت بہت محبت فرمایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ملتان شریف کے اجتماع میں امیرِ دعوتِ اسلامی  انہیں محبت سے بیان کرنے کی دعوت دیتے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ وہاں بیان فرماتے اور امیرِ دعوتِ اسلامی بھی آپ سے محبت فرماتے۔  حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دارلعلوم غوثیہ رضویہ مظہر ِ اسلام سمندی شریف میں  نوٹس بورڈ پر واضح حروف میں حکماً لکھوایا تھا کہ  مدرسہ کے تمام طلباء   اپنی زندگی دعوتِ اسلامی کی مدنی ماحول میں گزاریں۔  اپنے شیخِ کریم کے حکم کی تعمیل میں آج ہم بھی دعوتِ اسلامی سے محبت کا یہ رشتہ نبھا رہے ہیں۔

دعوتِ اسلامی یا امیرِ دعوتِ اسلامی کی طرف سے کسی  کو روحانی علاج کی اجازت نہیں ہوتی۔ صرف مخصوص مراکز پر دعوتِ اسلامی کے تعینات کردہ اسلامی بھائی ہی یہ کام کرتے ہیں۔  دعوتِ اسلامی میں نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی کوئی گنجائش نہیں۔ کچھ لوگ خود کو مولانا  محمد الیاس قادری صاحب کا مرید، دعوتِ اسلامی کا رکن وغیرہ وغیرہ بتا کر  کام کر رہے ہیں۔  یہ مثالیں پاکستان اور بیرونِ پاکستان موجود ہیں۔ یہ بات با لکل واضح ہے کہ جو کوئی دعوتِ اسلامی کے  ماحول اور نظم و ضبط سے ہٹ کر کام کرنے کی کوشش کرے  اس سے دعوتِ اسلامی بیزار ہے۔ پاکستان کے اعلٰی درجے کے نعت خوان اور کئی مفتیانِ کرام  دعوتِ اسلامی کے مراکز سے ہی فارغ التحصیل ہیں مگر جب انہوں نے وضع قطع، لباس اور معاملات میں دعوتِ اسلامی کے طریقہ کی خلاف ورزی کی تو انہیں بغیر کسی خوف اور لالچ کے فارغ کر دیا گیا۔  اب وہ لوگ اپنے کاموں میں دعوتِ اسلامی کا نام استعمال نہیں کر سکتے۔

اسی طرح  اس بات کا یقین کر لیں کہ شیخِ طریقت مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کی طرف سے کسی  ایسے بندے کو جس کے لباس، وضع قطع اور زندگی میں دعوتِ اسلامی کے نظم و ضبط  کی پاسداری نہ ہو اسے دعوتِ اسلامی کا کوئی کام بشمول روحانی علاج کرنے کی اجازت نہیں ہے۔    میں جو روحانی علاج کی خدمات پیش کر رہا ہوں اس میں مجھے اپنے پیر خانہ اور بزرگوں کی تائید حاصل ہے۔ مجھے بھی دعوتِ اسلامی کے مرکز کی طرف سے  اجازت نہیں ، نہ میں نے حاصل کرنے کی کوشش کی اور  نہ ہی میں کسی بھی جگہ پر دعوتِ اسلامی کا نام استعمال کرتاہوں۔ باقی  بہت سارے بزرگانِ دین کے آستانے موجود ہیں جہاں وہ اپنے اپنے طریقے کے مطابق دین  وسنت کی خدمت 
کے ساتھ ساتھ لوگوں کی روحانی تربیت بھی کر رہےہیں۔

مجھ فقیر کی استطاعت میں جو ہے وہ اپنے شیخِ کریم کے قدموں کی دھول کا صدقہ پیش کر رہا ہوں، اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں کی تعداد میں  احباب کا رابطہ ہوتا ہے۔ ای میلز  اور فیس بک  پیغامات کے جواب دینےمیں بعض اوقات تاخیر ہو جاتی ہے۔ اس پر میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔ صبر کا دامن تھامے رکھیں تاکہ یہ فی سبیل اللہ خدمت جاری رہے۔   سکائپ  پر مفت کال ہوتی ہے۔ اس کے ذریعہ رابطہ جلدی اور مسئلہ کی آسانی سے سمجھ بھی آجاتی ہے۔ میری رابطہ تفاصیل  یہ ہیں۔
Email: mi.hasan@outlook.com
Skype: mi.hasan