Wednesday, 20 May 2015

عذابِ قبر کا احادیث کی روشنی میں بیان


اللہ جلا و علا نے تخلیق انسان کی وجہ قرآنِ مقدس میں واضح طور پر بیان کی ہے۔  پھر انسان کے سامنے رشد و ہدایت  کی راہ بھی روشن فرما دی اور اگر وہ نفس و شیطان سے مغلوب ہو کر احکامِ خدواندی سے بغاوت کرے تو جہنم و آگ بھی اس کے لئیے رکھ دی۔  اتباعِ احکام الٰہیہ کی صورت میں بہشت و جنت کی نعمتیں اور  افعالِ حرام و مکروہات کے ارتکاب پر  جہنم میں ڈالے جانے کا انتظام بھی ہے۔
دورِ رواں میں  تعلیماتِ دینیہ سے دوری وسواس کا باعث بن رہی ہے،  لوگ اپنی مرضی سے دینیات کی تشریح کرتے ہیں اور نتیجہ میں گمراہی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ عذابِ قبر بھی ایک ایسا ہی موضوع ہے  جس کی آڑ میں منکرین   و جہلاء انکار  و کلامِ بے سود کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔   عذاب قبر برحق ہے اور قرآن وحدیث میں عذاب قبر کو بڑے واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
اولاً یہ سمجھیں کہ  موت سے قیامت برپا ہونے تک کے عرصے کو "برزخ" کہا جاتا ہے۔ موت کے بعد تمام جن و انس اپنے اعمال کے حساب سے  برزخ میں درجہ پائیں گے۔ برزخ کا تعلق  اِس دنیا سے بھی ہے اور آخرت سے بھی۔  فوت ہو جانے کے بعد ورثاء، اعزاء و اقربا ء کی دعا، صدقات و اعمالِ حسنہ   برزخی زندگی میں  نجات و راحت کا سبب بنتی ہیں اور  یہ قیامت میں ملنے والے انعامات کا ہی ایک حصہ ہے۔ اسی طرح اگر کسی کی قبر میں سختی ہے تو یہ بھی اس کی سزا کا ہی ایک حصہ ہے۔
حق تعالٰی جل شانہ فرماتا ہے؛
"(اور عالم برزخ میں بھی) ان لوگوں کو دوزخ کی آگ کے سامنے صبح و شام لایا جاتا ہے۔‘‘
الغافر، 40 : 46

عذابِ قبر  کے بارے میں متعدد احادیث  موجود ہیں جو  عذاب قبر کے بر حق ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور ان احادیث کی موجودگی میں اس حق کا انکار کرنا کفر  ہے۔
1۔ ’’حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی  پاک ﷺ  گھر سے باہر تشریف لائے جب کہ سورج غروب ہو چکا تھا۔  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (قبرستان میں) ایک آواز سنی تو ارشاد فرمایا :  یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر، 1 : 463، رقم : 1309

 یہ حدیثِ پاک بیک  وقت دو اہم عقائد کی وضاحت کر رہی ہے ، اول یہ کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالٰی   نے  علمِ غیب عطا فرمایا تھا کہ آپ غیب کی خبر دیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ  مردے کو قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔  دوسرا یہ کہ   انسان  کسی بھی مذہب سے تعلق  رکھتا  ہو وہ آخرت میں جزا و سزا کے مرحلے سے لازمی گزرے گا اور یہ  ان باطل عقائد کا رد ہے جو اپنی  جہالت  کی وجہ سے عذابِ قبر و آخرت کا انکار کرتے ہیں۔

2۔ حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ نے  تو واضح طور پر نام لے کر  بیان فرمایا کہ؛
’’ہم عذابِ قبر کے بارے میں شک میں مبتلا رہے حتی کہ سورۃ التکاثر نازل ہوئی۔‘‘
ترمذي، السنن، کتاب تفسير القرآن عن رسول اﷲ ﷺ : 447، رقم : 3355۔

3۔  حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ؛
"نبی کریم ﷺ  نے فرمایا : مردے (کافر، مشرک، منافق) اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں اور ان (کے چیخنے چلانے) کی آوازیں سارے چوپائے سنتے ہیں۔‘‘
طبراني، المعجم الکبير، 10 : 200، رقم : 10459

عذاب قبر کی شدت بھی اعمال کے حساب سے ہو گی۔ احادیثِ رسول ﷺ میں اس کا متعدد مقامات پر ذکر آیا۔  
4۔ ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہماسے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ  ﷺ  نے  (غیب کی خبر دیتے ہوئے ) فرمایا  ،  ان دونوں کو (قبروں میں) عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑے گناہ کی بناء پر نہیں۔  پھر فرمایا ان میں سے ایک چغلی کھاتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب کے قطروں سے احتیاط نہیں کرتا تھا۔  راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ہری شاخ لی اور دو حصوں میں تقسیم کیا، پھر ہر قبر پر اس کا ایک ایک حصہ لگا دیا اور پھر فرمایا : جب تک یہ خشک نہ ہوں ان سے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب عذاب القبر من الغيبة والبول، 1 : 464، رقم : 1312
اللہ اکبر۔۔۔ یہاں بھی علمِ غیب مصطفٰی کریم ﷺ کا زبردست ثبوت اور احوالِ قبر کا بیان کرنا   فکر دلا رہا ہے۔

5۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ؛
"ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر کے کنارے بیٹھ کر رونے لگے، حتی کہ مٹی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنسوؤں سے تر ہو گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے میرے بھائیو! اس (قبر) کے لئے کچھ تیاری کر لو۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب الحزن والبکاء، 2 : 1403، رقم : 4195

قبر میں ہونے والے سوالات کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی احادیث میں رہنمائی فرمائی ہے :
6۔  ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سید المرسلین  ﷺ  نے فرمایا : جب میت دفنائی جاتی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کسی ایک کی میت دفنائی جاتی ہے تو اس کے پاس دو سیاہ رنگ کے، نیلی آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے وہ دونوں میت سے پوچھتے ہیں تم اس شخص (یعنی حضرت محمد ﷺ)  کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے؟ پس (اگر وہ مومن ہو تو) وہ وہی کہتا ہے جو وہ دنیا میں کہا کرتا تھا یعنی وہ اﷲ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔  میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد ﷺ  اﷲ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔  وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں : ہمیں علم ہے کہ تو دنیا میں یہی کہا کرتا تھا۔  پھر اس کے لئے اس کی قبر چاروں طرف سے ستر، ستر گز تک وسیع کر دی جاتی ہے۔  پھر اس کو اس کے لئے روشن کر دیا جاتا ہے۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے :  سو  جا۔  وہ کہتا ہے : میں اپنے گھر والوں کی طرف جاتا ہوں تاکہ انہیں اپنے حالات کی خبر دوں۔  وہ دونوں اس سے کہتے ہیں :  تو اس پہلی رات کی دلہن کی طرح سو جا جس کو اس کے گھروں میں سے صرف اس کا محبوب شوہر ہی جگاتا ہے۔  (وہ اسی حال میں رہے گا)  یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اسے اسی حال میں اس کی قبر سے اٹھاے گا۔  اگر وہ منافق ہو تو وہ (ان کے سوال کے جواب میں)  کہتا ہے :  میں نہیں جانتا میں نے وہی کہا جو میں نے لوگوں کو کہتے سنا :  دونوں فرشتے اسے کہتے ہیں :  ہم جانتے ہیں کہ تو یہی کہا کرتا تھا۔  پھر زمین سے کہا جاتا ہے کہ اس کے لئے سکڑ جا۔  پس زمین اس کے لئے سکڑ جاتی ہے اور اس کے دونوں پہلو ایک دوسرے میں دھنس جاتے ہیں۔  پس وہ اسی حال میں عذاب میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اسے اس کی قبر سے اٹھائے گا۔‘‘
 ترمذي، السنن، کتاب الجنائز عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب ما جاء في عذاب القبر، 3 : 383، رقم : 1071
مزید شرعی  و روحانی رہنمائی کے لئیے ہمارا فیس بک  پیج لائیک کیجئیے۔

https://www.facebook.com/IHR.Official

Monday, 4 May 2015

اختیارات اور حیات رسول کریم ﷺ


محبوب رب العرش  ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
انما انا قاسم والله يعطی.
(بخاری شريف، ج : 1، ص : 16)
اللہ تعالیٰ مجھے دینے والا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں۔
 یہ حدیث پاک مطلق تقسیم کرنے کو بیان کر رہی ہے اور اس میں صرفی و نحوی اعتبار سے بھی زمانہ اور وقت کی کوئی قید نہیں ہے۔  لہٰذا رسول اکریم ﷺ اپنی حیاتِ ظاہری اور بعد از وصال بھی  اپنی امت کے لئیے خیر و رحمت تقسیم کرنے والے ہیں۔ روایتِ مذکورہ میں " والله يعطی"  کہ اللہ تعالٰی دیتا ہے، اب کیا دیتا ہے یہ محبوب و محب کی بات ہے، وہی بہتر جانتے ہیں کہ ان کے خالقِ کریم نے انہیں کون کون سے نعمتیں عطا کی ہیں۔ ، چونکہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے وہ جو چیز بھی کسی کو دیتا ہے تو بدست مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطا کرتا ہے۔
اس حدیثِ پاک میں رسولِ مکرم ﷺ نے خود کو قاسم   فرمایا  اور اللہ تعالٰی کو عطا کرنے والا تو اس ے ثابت ہوا کہ آقا کریم ﷺ کو رب تعالٰی عطا کرتا ہے اور وہ اپنے مالک و مولا کی عطا سے اپنی امت میں انعامات، خیرات و رحمت تقسیم فرماتے ہیں۔  حیاتِ ظاہری میں بکثرت اس کی مثالیں موجود ہیں اور بعد از وصال بھی انوار ورحمت، فضل  و عطا کا یہ سلسلہ جاری ہے اور   ہمیشہ ہمیشہ  امتِ محمدیہ  علٰی صاحبھاالصلاۃ والسلام ان فیوض و برکات سے مالا مال ہوتی رہے گی۔ جہاں تک وصال کے بعد کی عطا کا تعلق ہے تو یہ  احادیث پیشِ خدمت ہیں۔
ان الله حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبياء فنبی الله حی.
(سنن ابی داؤد، ج : 1، ص : 275)
بیشک اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے اجسام کو زمین پر حرام کر دیا ہے پس اللہ کے نبی زندہ ہیں۔
اس حدیث سمیت دیگر متعلقہ روایات پر جمہور اکابرینِ امت کا اتفاق ہے،  محبوب کریم ﷺ اپنی قبرِ مبارکہ میں زندہ  ہیں۔ 
دوسری حدیث پاک میں ہے :
حياتی خير لکم و مماتی خير لکم.
(سنن نسائی، ج : 1، ص : 189)
میری حیات بھی تمہارے لیے بہتر ہے اور میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر ہے۔
حیات کے ساتھ وفات کو بھی بہتر قرار دینا اس بات کا  اعلٰی ثبوت ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام  جس طرح حیاتِ ظاہری میں اپنے غلاموں کو نوازتے تھے ویسے ہی قبرِ منور میں  بھی عطا و کرم کا سلسلہ جاری ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مزید روحانی،  شرعی اور علمی  مواد کے لئیے ہمارے فیس بک پیج پر  تشریف لائیں۔

 https://www.facebook.com/IHR.Official

Monday, 13 April 2015

مسافر کی نماز






اللہ جل و علا نے اپنے محبوب کریم مصطفٰی جان رحمت ﷺ کے ذریعے ہمارے لئیے دین اسلام کو آسان و رحمت بنایا ہے۔  اہلِ اسلام پر  سفر کے دوران آسانی فرماتے ہوئے "قصر" نماز کا حکم لاگو فرمایا۔  قرآنِ مقدس فرماتا ہے؛
 "اور جب تم  زمین  میں سفر کرو تو تم پر گناہ نہیں کہ بعض  نمازیں قصر سے پڑھو۔ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ایذا دیں گے، بے شک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں"۔
(النساء 101)
تاریخِ اسلام کے عظیم مفسر، صدر الافاضل علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ  اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ خوف ِکفار قصر کے لئیے شرط نہیں ہے، حضرت سیدنا یعلٰی بن امیہ رضی اللہ عنہ  نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے  عرض کی کہ ہم تو امن میں ہیں پھر  ہم کیوں قصر کرتے ہیں؟   فرمایا،  اس کا مجھے بھی تعجب ہوا تھا  میں  نے شاہِ کونین ﷺ  سے دریافت کیا،  سید عالم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے لئیے یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے صدقہ ہے تم اُس کا صدقہ قبول کر و۔
(صحیح مسلم ج1 ص 231)
سرکار مکہ و مدینہ ﷺ کی حیات پُر نور  میں مختلف مواقع پر قصر  نماز کا ثبوت ملتا ہے اور یہ آپ کے عمل سے ثابت ہے۔   سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ؛
"  رسول اللہ ﷺ نے نمازِ سفر کی دو رکعات ادا فرمائیں،   اور یہ پوری ہے کم نہیں یعنی اگرچہ  بظاہر دو رکعات کم ہو گئیں مگر ثواب میں دو ہی چار کے برابر ہیں"۔
(سنن ابن ماجہ حدیث 1194)
اب مسافر کی نماز کے بارے شریعت مطہرہ کے مختصر احکام ملاحظہ فرمائیں۔
·        شرعی مسافر وہ شخص (مرد و  عورت) ہے جو ساڑھے ستاون میل یا بانوے (92) کلومیٹر  کے فاصلے تک جانے کے ارادے سے  اپنے مقامِ اقامت  (گھر) سے باہر ہو گیا ہو۔
·        صرف نیت سے ہی مسافر نہیں ہو گا بلکہ  مسافر کا حکم اس وقت ہے کہ بستی کی آبادی سے باہر ہو جائے،  شہر میں ہے  تو شہر سے ،  گاؤں میں ہے تو گاؤں سے اور شہر والے کے لئیے یہ بھی ضروری ہے کہ شہر سے متصل آبادی سے بھی باہر ہو جائے۔
·        آبادی ختم ہونے سے یہ مراد ہے کہ جس طرف جا رہا ہے اس طرف  شہر/گاؤں کی آبادی ختم  ہو جائے۔
·         مسافر کے لئیے  یہ بھی ضروری ہے کہ جہاں سے چلا  وہیں سے   تین دن (بانوے کلومیٹر)   کے سفر کا ارادہ ہو،   اور اگر بانوے کلومیٹر  سے کم سفر کے ارادہ سے نکلا اور راستے میں جا کر مزید سفر کا ارادہ کر لیا جو کہ بانوے کلومیٹر سے کم ہے تو اس طرح پوری  دنیا کا سفر بھی  کر لے تو مسافر شرعی نہ ہوا۔
·        مسافر کے لئیے شرط ہے کہ بانوے کلومیٹر کے متصل/مسلسل سفر کی نیت ہو۔  اگر یہ نیت ہو   کہ  دو دن کی راہ پر  پہنچ کر  قیام کروں گا،  کام نمٹاؤں گا اور پھر وہاں سے مزید سفر کروں گا  تو یہ تین دن (92 کلومیٹر) کا متصل ارادہ نہ ہوا اور نہ ہی یہ شرعی مسافر ہوا۔
·        مسافر اس وقت تک مسافر رہے گا  جب تک واپس اپنی بستی میں نہ لوٹ آئے یا جہاں گیا تھا وہاں پورے پندرہ دن قیام کی نیت نہ کر لے۔
·        اگر تین دن کی مسافت (92 کلومیٹر)  تک پہنچنے سے قبل  ہی واپسی کا ارادہ کر لیا تو اب مسافر نہیں رہا۔
·        مسافر کسی کام کے لئیے  یا احباب کے انتظار میں دو چار روز یا تیرہ چودہ روز کی نیت سے ٹھہرا،  یا یہ ارادہ کہ کام ہو جائے گا تو چلا جاؤں گا، دونوں صورتوں میں اگر آج کل آج کل کرتے برسوں گزر جائیں جب بھی مسافر ہی رہے گا،  نماز قصر پڑھے۔
·        تین رکعات والی نماز مکمل پڑھے گا اس کا نصف/قصر نہیں ہو گا۔  اسی طرح وتر اور سنتیں بھی مکمل ادا کرے البتہ گاڑی نکلنے کا خوف  اور وقت کی قلت ہو تو سنتیں اور نوافل چھوڑ سکتا ہے۔
·        اگر مسافر  جماعت کے ساتھ نماز پڑھے اور امام مقیم ہو تو  مکمل نماز ادا کرے گا۔ مثلاً یہ مسافر ہے اور ظہر کے دو فرض  ادا کرے گا لیکن اگر امام مقیم ہو تو پھر جماعت کے ساتھ چار ہی پڑھے، ہاں  اکیلا ہو تو دو ہی پڑھے گا۔
·        اگر سفر کے دوران نماز قضا ہو جائے تو بعد میں اس کے بدلے دو ہی پڑھے گا، خواہ سفر میں پڑھے یا اپنے گھر واپس پہنچ کر۔
·        مسافر نے قصر  کے بجائے چار کی نیت کر لی اور یاد آنے پر  دو  رکعات ادا کرنے کے بعد سلام پھیر لیا تو نماز ہو گئی۔
·        اگر امام مسافر ہو اور مقتدی مقیم ہوں تو  لازمی ہے مقتدی اپنی نماز بعد از سلام مکمل کریں، یعنی امام دو رکعات کے بعد سلام پھیرے اور مقتدی بقیہ دو رکعات مکمل کرنے کے بعد سلام پھیریں۔

عورت کے لئیے احکام
·        عورت کو بغیر محرم کے تین دن  (تقریبا 92 کلومیٹر)  یا زیادہ جانا  جائز نہیں۔   نابالغ بچہ یا نیم پاگل کے ساتھ بھی سفر نہیں کر سکتی،  ہمراہی میں بالغ محرم یا  شوہر کا ہونا ضروری ہے۔   عورت قریب البلوغ  بیٹے یا محرم  قابل اطمینان کے ساتھ سفر کر سکتی ہے۔
·        عورت بیاہ کر سسرال گئی اور یہیں رہنے لگی تو میکا (یعنی عورت کے والدین کا گھر) اس کے لئیے وطن اصلی نہ رہا یعنی اگر سسرال  بانوے کلومیٹر  پر ہے ،  وہاں سے میکے آئی اور پندرہ روز کے قیام  کی نیت نہ کی تو قصر پڑھے  اور اگر میکے رہنا نہیں چھوڑا بلکہ سسرال عارضی طور پر گئی تو میکے آتے ہی سفر ختم ہو گیا، نماز پوری پڑھے گی۔
·         

وطن کی اقسام
وطن کی دو اقسام ہیں۔   وطن اصلی۔  یعنی وہ جگہ  جہاں اس کی پیدائش ہوئی یا اس کے گھر والے رہتے ہیں یا وہاں رہائش اختیار کر لی اور ارادہ ہے کہ یہاں سے نہ جائے گا۔
وطن اقامت:   یعنی وہ جگہ کہ مسافر نے پندرہ دن یا اس ے زائد وہاں ٹھہرنے کا ارادہ کیا ہو۔
اس مضمون کی تیاری میں فقہ حنفیہ کی کتب عالمگیری، فتاوٰی رضویہ، نور الایضاح، بہار شریعت وغیرہ کی مدد لی گئی۔ 
مزید  اسلامی شرعی، روحانی و معاشرتی مسائل و معلومات کے لئیے ہمارا پیج لائک کیجئیے،  یہاں آپ کے لئیے بیش بہا معلومات کا سامان ہو گا انشاء اللہ۔

ہمارا فیس بک پیج: www.facebook.com/IHR.Official

Saturday, 28 March 2015

سانحہ یوحنا آباد پر چند کلمات



دین کے نام پر فرقے، پھر ان فرقوں میں کوئی مشرک تو کوئی بدعتی ٹھہرا،  کوئی مرتد کہا گیا تو کوئی گستاخی کے نام پر  دیوار میں چُنا گیا۔۔۔   اسلام میں فرقوں کے  جال سے باہر نکلیں تو  پاکستانیت   کا  نا  ختم ہونے والے سیاپا۔ کوئی سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی ، کشمیری،  تو کوئی   سرائیکی کی جنگ لڑ رہا ہے۔  اس شکنجے سے باہر نکلیں تو شہر کے  ہر گوٹھ میں کوئی نہ کوئی دادا گیر ہے جو  تقسیم در تقسیم کے بعد مزید  حساب لگا کر اس زمین کے ٹکڑے کو شمالی و جنوبی اور شرقی و غربی کے حساب سے تقسیم کرنا چاہتا ہے۔  تقسیم کے منصوبوں پر عمل پیرا اس قوم کا ہر پیر و جوان پوری توانائی بلکہ  پوری زندگی  دانستہ و نادانستہ  ایسے ہی گزارے جا رہا ہے اور انجام سے  نِرے بے خبر بلکہ  سماعت، بصارت  اور دردِ دل  سے  یکسر محروم ہیں۔      ہندو  مسلم فسادات   نریندر مودی کے دیس میں ہوا کرتے ہیں، پاک سرزمین ایسے  ناپاک منصوبوں سے مبرا تھی،  عیسائیوں کے  تنازعات کا پس منظر وہی ہے جو  افغانستان کی نزدیکی پہاڑیوں میں بیٹھے بھیڑئے کا ہے۔  کسی شریف النفس پاکستانی  نے کبھی بھی عیسائیوں کو  اقلیت ہونے کا احساس تک نہیں دلایا،  میرے ہم جماعت پیٹر، فلپس،  وارث، شجاع جیسے کئی عیسائی تھے،  گورنمنٹ ہائی سکول نارووال میں ماسٹر مقبول صاحب بھی عیسائی  ہی تھے۔   لاہور میں لگی ہوئی آگ  بہت ساری غلطیوں کا خمیازہ ہے۔   جلنے والے جل گئے،  جل کر بھسم ہو گئے، ہڈیاں راکھ بن گئیں بلکہ   رزقِ ہوا ہو گئیں مگر گورکھ دھندہ ایسا کہ ابھی تک   کوئی حتمی خبر نہیں کہ حقائق کیا ہیں۔ ۔۔ قومی پرچم نذرِ آتش ہونے کی خبریں بھی نشر ہوئیں،  جلائے جانے والے دونوں افراد کی لاشوں کو گھسیٹا گیا،  لٹکایا گیا  اور بعد   میں جشن بھی منایا گیا۔

گوجرہ کے عیسائی ہوں یا کوٹ رادھا کشن کے،  سیالکوٹ کے دو جوان بھائی ہوں یا  خود کش حملوں میں مارے جانے والے بے گناہ افراد  یہ دہشت گردی ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں۔    مگر تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گزرتی  ہوئی اس قوم کے "دلال"  منافقت کا  بہت بڑا "سٹاک" لئیے بیٹھے ہیں۔  پاکستان میں جب کوئی مرتا ہے تو مذہب سے بالا تر ہو کر سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ایک مسلم یا عیسائی کے علاوہ ایک انسان اور پاکستانی بھی تھا۔   لاہور میں جلائے جانے والے دونوں افراد کا اس واقعہ سے کوئی تعلق ابھی تک سامنے نہیں آیا اور وہ بھی عام  مشاہدین کی طرح وہاں موجود تھے،  فرق صرف اتنا ہے کہ وہ وضع قطع سے مسلم لگ رہے تھے تو  عیسائیوں نے ان کو مسلم  اور داڑھی والا ہونے کی وجہ سے دہشت گردا سمجھا اور   انہیں دبوچ لیا۔  اس واقعہ کے بعد کئی دنوں تک  چند ایک تجزیہ کاروں نے   ڈرتے ڈرتے اس کی مذمت کی۔   اصل معاملہ سوشل میڈیا نے اٹھایا۔   اتنے  دن گزر جانے کے بعد ابھی تک ملکی الیکٹرانک میڈیا  اس واقعہ کی مذمت اس طرح نہیں کر رہا جس طرح سلمان تاثیر، رادھا کشن،  گوجرہ  یا اس جیسے ماضی میں ہونے والے واقعات پر سیاست کی گئی۔ پس پردہ وجہ صرف یہی تھی کہ  آقاؤں نے زبان بندی کر رکھی تھی   اور یہاں عیسائیوں نے مارا، مسلم مرے۔ اگر عیسائیوں کے خلاف زبان کھولی گئی تو مغرب ناراض ہو گا۔ 

قادیانیوں کے حقوق، عیسائیوں کے تحفظ اور سلمان تاثیر کے لئیے انصاف چاہنے والے  بڑے بڑے منہ اور جل پریاں منظر سے ہی غائب ہیں۔  سلمان تاثیر   کے ہم پیالہ  ،ملکی سلامتی کو پنکچر لگانے والے اور عالمی سطح پر پاکستانی کی جگ ہنسائی  کے باعث نجم سیٹھی ،   شمالی   پہاڑیوں  میں  "کے ٹو"  کے اس پار ہونے والے ظلم پر چلانے والی فوزیہ سعید،   سمندر کے پانیوں میں پھنسی ہوئی کشتیاں نکالنے والے  انصار برنی ،   بال ٹھاکرے    کی پاکستانی ورژن عاصمہ جہانگیر  سمیت بین الاقوامی  انسانی حقوق کے نمائندے ابھی تک خوابِ خرگوش میں ہیں۔     "چِٹی کلائیوں" والی   سیاسی بازار کی ملکہ  ِ حسن حال ہی میں      "   ذہبی اسنان "کے مالک  ایک شیخ جی کے نام منتقل ہو کر  وجودِ نازنین کو آرام بخشنے کی غرض سے  اسی شہرِ  شورش کے آس پاس  خلوت نشین ہیں، سیاسی ایوان ہو یا ٹی وی چینل  اس موصوفہ کے شرمیلے نینوں کی وجہ سے   پیرانِ وقت و شبابِ ملت  نظارہِ دلربا حسینہ کے بعد انگشت بدنداں و حواس باختہ  نظر آتے ہیں۔    مخملی  بستروں پر  دراز  بعد از فراق  نعمت وصال  پانے والی   اور     رونق میڈیا و بازار کو ابھی تک  خونِ مسلم کے جلنے بلکہ خاک ہونے کی خبر یا تو ملی نہیں یا پھر  لب سی دئیے گئے ہیں۔  

یعنی لاالہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کی اساس پر بننے والے ملک میں عیسائیوں قادیانیوں اور ہندوؤں کے حقوق مقدم ہو گئے؟؟؟  قادیانیوں کی بکری سڑک حادثے میں مر جائے تو خبر یہ لگتی ہے کہ"مسلم ٹرک ڈرائیور نے ایک قادیانی کی بکری کچل ڈالی"۔ مغربی میڈیا  رات کے پچھلے پہر اس خبر کو بریک کرتا ہے۔   آسیہ مسیح توہینِ مذہب کرے  تو  یہ  پانی سے پتلا  اور مخنث مزاج میڈیا اسے ذاتی لڑائی  بنا کر پیش کر دیتا ہے۔   مگر لاہور میں دو کلمہ گو   جلا دئیے جائیں جن کی عظمت کعبۃ اللہ سے زیادہ ہے   تو  میڈیا کو الفاظ ہی نہ ملیں ؟؟؟

میڈیا کے خداؤ!!! یاد رکھو، میرے رب کی ذات  کو بقا ہے، تمہارے  بالا خانوں میں بد شکلوں کو رنگ و روغن کر  کے حسن و جمال کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے،  کلمہ حق کہنے والے کو خاموش کر دیا جاتا ہے،   تمہارے الطافات  و کرامات بر دشمن دین و ملت ہیں۔  ایک وہ ویڈیو ہے جو تم اپنے ٹی وی کی سکرین پر چلاتے ہو اور ایک وہ ویڈیو ہے جو خالق ارضا و سما،  حاکمِ مطلق،  ستار وغفار،  قہار و غفار  رب عزوجل کی جناب میں ریکارڈ ہو رہی ہے،  روزِ محشر   یہ مظلوم بھی ہوں گے،  کل انبیاء کی جماعت بھی ہوگی،  تمہاری وجہ سے لٹ جانے والے غریب بھی ہوں گے اور سید المرسلین  ﷺ بھی وہیں موجود۔۔۔۔ اس وقت چلائی جانے والی  زندگی کی ویڈیو تمہیں ذلیل و رسوا کر دے گی۔

قوم کو تقسیم کرنے والو!!!  تم دیکھ چکے ہو کہ ماضی کی چند دہائیوں میں اس ملک کو لوٹنے والے ایمان سلامت لے کر نہیں گئے،  تفرقوں میں بانٹنے والے فالج و لقوہ، قہر و غضب ، کوڑ و جزام کا شکار ہر کر علالت و مرگ کے بستر پر کروٹ بدلنے سے قاصر ہیں۔  پاکستان اللہ عزوجل کے رازوں میں سے ایک راز ہے، مدینہ طیبہ کی نشانی ہے، اس کا ہر دشمن خاک آلود ہوا ہے اور ہوتا رہے گا۔  اس سرزمین پر ہونے والے ہر اچھے اور برے کام کو حقائق کے مطابق دیکھا اور سنا جائے یہی آوازِ خلق ہے یہی تقاضائے  قوم ہے۔   یہاں بسنے والا ہر سپید  و سیاہ، مسلم و غیر مسلم ایک "پاکستانی" ہے اور یہی شناخت ہمارے وطن کے اتحاد و ترقی کی بنیاد ہے۔  کاش کہ یہ راز نیلی پیلی شکلوں اور بڑے بڑے  میڈیا  ہاؤس چلانے والوں ابناء الوقت کو بھی سمجھ آ جائے ورنہ جان لیں کہ متاعِ دنیا بہت قلیل ہے اور میرے  رب کی نعمت پاکستان کو ان شریروں سے خطرہ ضرور لاحق ہے مگر   "وہ شمع کیا بجھے جسے روشن ہوا کرے"۔
مزید مضامین و علمی مواد کے لئیے ہمارا پیج لائک کیجئیے۔

www.facebook.com/IHR.Official

Saturday, 28 February 2015

متعہ کی مختصر حقیقت


متعہ کے بارے میں شریعتِ مطہرہ کے احکام واضح، مسلؔم اور مصدق ہیں مگر  امت میں تنازعات پیدا کرنے والے وقتاً فوقتاً ایسے معاملات کو اچھالتے رہتے ہیں۔ علمائے کرام اور ہمارے اسلاف کی تعلیمات ہیں کہ ایسے مسائل جو  شرارت و فتنہ کا باعث بنائیں ان پر خاموشی  اختیار کی جائے یا  پھر کم بحث کی جائے۔    زیرِ نظر مختصر مضمون میں کوشش کر رہا ہوں کہ جامع انداز میں اس حوالہ سے کچھ لکھ دوں۔ میری طرف سے  اس کا کافی سمجھا  جائے کہ تحریری انداز میں یا اخبارات و سوشل میڈیا پر  ایسے موضوع کو طول دینا وقت کی  بربادی اور ایمان کی خرابی کا باعث  بنتا ہے، تاہم اگر کسی کو  اپنی تسلی کی ضرورت باقی محسوس ہو تو بالمشافہ  ملے،  ہم ان تمام اعتراضات کا جواب دیں گے۔ انشاء اللہ عزوجل۔

متعہ کو حلال سمجھنے والے گروہ کے ہاں  سب سے اولین و بڑا اعتراض یہ ہے کہ   نبی کریم ﷺ نے متعہ کو حرام قرار نہیں دیا بلکہ حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں متعہ بند کیا گیا۔ اس سے قبل یہ جائز و حلال تھا۔  انہیں سمجھنا چاہئیے کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا منصب نہیں تھا، متعہ دورِ رسالت مآب ﷺ میں ہی حرام قرار دیا جا چکا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے  اپنے دور خلافت میں اس کی حرمت کو مزید واضح فرمایا تھا۔  جہاں تک اس کے حلال ہونے کا تعلق ہے تو یہ  شارعِ اسلام ﷺ کی حیاتِ ظاہری میں ایک خاص وقت تک جائز رہا، مثلاً  جنگ کے ایام میں اسے حلال کیا گیا، اس دور میں جنگی سفر مہینوں کا اور پیدل ہوتا تھا،  سخت گرمی اور پھر وطن سے دوری کی وجہ سے  اسے مباح قرار دیا گیا لیکن  اس کے بعد فتحِ مکہ کے موقع پر رسولِ رحمت ﷺ نے قیامت تک کے لئیے اسے حرام قرار دے دیا۔

قرآنِ حکیم میں نکاح اور  باندیوں کا ذکر ضرور ملتا ہے تاہم کسی ایک آیت کے چھوٹے سے جز  میں  بھی متعہ کے حلال ہونے کا کوئی بیان ہرگز ہر گز نہیں ہے۔
"تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں خوش آئیں دو ۲دو ۲ اور تین۳ تین۳ اور چار ۴چار۴  پھر اگر ڈرو کہ دوبیبیوں کوبرابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی کرو یا کنیزیں جن کے تم مالک ہو " (النساء 4 : 03)

قضاء شہوت کے لئیے اللہ تعالٰی نے مذکورہ آیت میں  فقط دو صورتیں بیان فرما دیں، اگر متعہ حلال ہوتا تو رب تعالٰی اس کا ذکر بھی اسی آیت کریمہ میں فرما دیتا۔  اپنی نفسانی و شہوانی خواہش کے لئیے ایک سے چار تک بیویاں یا خریدی ہوئی باندیاں اور کنیزیں رکھ سکتے ہو۔  یہی تقوٰی اور پرہیزگاری ہے۔  اللہ عالم الغیب ، علیم و حکیم کا یہاں متعہ کا بیان نہ فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ  یہ حرام ہے، اگر حلال ہوتا یا مستقبل میں اس کے حلال ہونے یا اس کی وقتی ضرورت کی گنجائش ہوتی تو رب تعالٰی قرآنِ مقدس میں اس کا بیان فرما دیتا۔ فتح مکہ سے قبل متعہ کی جو صورتیں جائز یا مباح تھیں اس آیت کے بعد وہ بھی منسوخ ہو گئیں۔

   اب ایک عقلی دلیل ملاحظہ فرمائیں کہ جب حق تعالٰی جل شانہ نے دو ایسی صورتیں بیان فرما دی ہیں جن سے ہر کلمہ گو فائدہ اٹھا سکتا ہے تو متعہ کی حاجت ہی کیوں باقی رہے گی؟   متعہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے انسانی حقوق کی پامالی، جسمانی درندگی،  معاشرتی  بے حسی ،  زنا کاری اور اخلاقی اقدار     کی پستی کی راہ  تو ہموار ہو سکتی ہے تاہم اللہ کی رضا اور انسانیت کی بہتری  ہرگز ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی۔   متعہ میں  عورت کے حقوق معین نہیں ہوتے، اس میں طلاق ہے نہ عدت۔   متعہ میں عورت کو میراث، جاگیر اور جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ملتا،  نہ ہی وہ کسی بھی معاملہ میں مرد جس سے وہ متعہ کرتی ہے اس کی وارث بنتی ہے، یہ صرف اور صرف دو جسموں کا کھیل ہے اور شیطان کی رضامندی۔

اس کی ایک مثال حیاتِ مصطفوی ﷺ  کے ظاہری دور سے لیتے ہیں۔
سیدنا  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ایک روایت کا خلاصہ ہے  کہ  ہم امام المجاہدین  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں گئے ہم تثنیۃ الوداع پر اترے  تو  چراغوں کو دیکھا اور عورتوں کو روتے ہوئے دیکھا  جانِ رحمت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے؟ بتایا گیا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جن سے متعہ کیا گیا تھااور وہ رو رہی ہیں  شمعِ بزمِ ہدایت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ نکاح، طلاق، عدت، اور میراث نے متعہ کو حرام کر دیا ہے۔
مسند ابو يعلی، رقم الحديث: 6594

 جب ایک عورت کو آزادی سے نکاح، پھر طلاق یا خلع، عدت اور  پھر شوہر کی میراث میں سے حصہ بھی شریعت نے مقرر فرما دیا تو اب کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ وہ متعہ کرے؟۔ مرد کے لئیے چار بیویاں، پسند نہ آنے کی صورت میں یا کسی شرعی ضرورت کے تحت  طلاق دینے کا حق بھی دیا گیا،  پھر زمانہ قدیم میں لوگ غرباء کی عورتوں کو خرید لیا کرتے تھے، ان کے ساتھ بھی مباشرت جائز قرار دی گئی تو اب ان تمام سہولیات کے باوجود اگر کوئی متعہ جیسی قبیح حرکت کرے تو اس کی عقل کی خرابی ہی ہو سکتی ہے۔ 

جو لوگ متعہ کو حلال جانتے ہیں وہ   حضرت ِ علی رضی اللہ عنہ کو ہی دینِ کل سمجھتے ہیں۔ ان کے لئیے سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی روایت پیشِ خدمت ہے۔
باب العلم، خیبر شکن،  مولا علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں  کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن عورتوں سے متعہ اور پالتو گدھوں کے گوشت کو حرام  قرار دیا۔
صحيح مسلم، حديث نمبر: 1407

متعہ سے ملتی جلتی ایک گھناؤنی رسم آج کل عرب میں بھی رائج ہے۔ خصوصاً  سعودی عرب کے مرد اس لعنت  کا شکار ہیں۔  سعودیوں نے اپنے گھروں میں کام کاج کے لئیے آنے والی مشرقِ بعید، ہندوستان، بنگلہ دیش اور افریقی ممالک کی لڑکیوں کو اپنی  تسکین کا سامان بنایا ہے۔ ہسپتالوں اور دفاتر میں کام کرنے والی عورتوں کو ہفتے کے مخصوص دنوں میں  جنسی تسکین کے لئیے منگوا لیتے ہیں اور ایک طے شدہ  ریٹ پر  ان کا یہ معاملہ  چند ہفتوں سے کئی سالوں تک چلتا ہے۔  اس میں مدت طے کی جاتی ہے اور ماہوار تنخواہ۔  باقی خامیاں وہی ہیں جو متعہ میں پائی جاتی ہیں۔ عربوں کی منافقت دیکھئیے ایک طرف متعہ کرنے والوں پر فتووں کی بارش اور حرام  کاری کے الزام دوسری طرف اپنی خود ساختہ شریعت میں اپنے ہی دیس میں یہ سب حلال۔  اسے مسیار کا نام دیتے ہیں اور عرب میں اسی قانونی و حکومتی تحفظ حاصل ہے۔
وماعلی الا البلاغ المبین


Thursday, 19 February 2015

آزربائیجان کے سفر کی مختصر داستان

مشرقی یورپ اور   مغربی  ایشیاء کی سرحدوں کو ملانے والے ملک  آذربائیجان   کے  حقائق سے عوام  کم ہی آگاہ ہیں۔    تواریخِ عالم  میں 1918 عیسوی کے اعداد و شمار کے مطابق یہ پہلا مسلم اکثریتی ملک تھا  جس میں  جدید علوم کی جامعات  کے ساتھ مغربی تھیٹر وغیرہ بھی قائم تھے۔  اس کے شمال میں روس، شمال مغرب میں  جارجیا،  مغرب میں آرمینیا اور جنوب میں ایران واقع ہے۔  شمال مغرب میں  ترکی  بھی واقع ہے اور ایک مختصر زمینی حدود بھی دونوں ممالک کے درمیان واقع ہے ۔  اس زمینی حدود کے ذریعے تجارت یا سفر تاحال ممکن نہیں ہے۔  آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ایک ساڑھے پانچ ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ "نخچیون " متنازعہ ہے،  جس پر کئی  بار محاذ آرائی بھی ہو  چکی ہے۔
آذربائیجان 1920 میں سوویت یونین کا حصہ بنا اور اکتوبر 1991 میں سوویت یونین کی تقسیم کے بعد ایک الگ اور خود مختار  ریاست کی شکل میں دنیا کے نقشے پر آیا۔  "باکو" ملک کا دارالحکومت اور واحد بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے۔  تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک کا سمند ر پانیوں کے ساتھ ساتھ تیل بھی اگلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  باکو شہر کے نواح  کا سفر کرتے ہوئے   یا پھر شہر سے باہر نکل کر دیگر علاقوں کی طرف جائیں تو  سمندر میں لگی ہوئی کرینیں  نظر آئیں گی۔ یہ مشینیں تیل کی تلاش کا کام کرتی ہیں۔ 
آذربائیجان میں  بھی آمرانہ نظامِ حکومت ہے  الہام علیوف ملک کے صدر ہیں اور یہ حکمرانی انہوں نے خاندانی طور پر حاصل کی ہے۔  پرویز مشرف کے انداز پر کروائے گئے ریفرنڈم میں وہ کامیاب ہوئے تھے اور اب نہ جانے وہ کب تک  منصبِ صدارت پر متمکن رہیں گے۔  حزبِ اختلاف کے  سرکردہ  قائدین ملک بدر ہیں اور اگر کوئی واپسی کی کوشش کرے تو ائیر پورٹ سے ہی واپس کر دیا جاتا ہے۔ آمرانہ  نظام کی وجہ سے ملک کے اکثر ادارے بد عنوانی  کا شکار ہیں  ۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2012 میں یورپ کے تحقیقاتی اداروں نےآزری صدر کو  "سال کی سب سے بڑی بد عنوان شخصیت" قرار دیا تھا۔  رشوت خوری کا یہ حال ہے کہ باکو کے  انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر  امیگریشن حکام  پاسپورٹ دیکھ کر تعین کرتے ہیں کہ اس سے کتنے ڈالر مانگے جائیں، آپ کے پاس تمام کوائف و کاغذات درست ہونے کی صورت میں  بھی سو  دو  سو  ڈالر یا پھر حسب توفیق پانچ ڈالر دے کر بھی جان چھڑوانا پڑتی ہے۔ اگر آپ کے پاس مغربی پاسپورٹ ہو تو صورتحال اس کے برعکس ہو گی۔   میرے نزدیک اس  رشوت کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان و پاکستان کے نوجوان یورپ جانے  کے چکر میں آذربائیجان جاتے ہیں پھر وہاں سے یورپ نکلنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ آذری حکام جانتے ہیں کہ یہ لوگ کیوں آرہے ہیں، ان کی اس خواہش اور ویزہ کے حصول  میں غلط بیانی ان لوگوں کی کمزوری بن جاتی اور یوں انہیں رشوت دینا لازم ہوتا ہے۔ میرے ساتھ باکو ائیر پورٹ پر  جب اس طرح  سلوک ہونے لگا تو میں نے اپنا تعارفی کارڈ پیش کیا، اس پر امیگریشن  افسر نے خوش اسلوبی  سے نہ صرف  مہر لگائی بلکہ  ادب سے سلام  بھی کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ  اگر ہمارے اپنے معاملے درست ہوں تو ایسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
آذربائیجان اور اس کی ہمسایہ  روس سے آزاد ریاستوں میں  تقریباً ایک صدی تک اسلام اور اہل اسلام      کو مغلوب رکھا گیا ہے، اس کی وجہ وہاں عیسائیوں اور یہودیوں  کا تسلط اور مغرب و روس کی طاقت ہے۔  یہی وجہ ہے کہ آزربائیجان کے کسی بھی باشندے کو آپ ملیں تو اس کی وضع و قطع،  گفت و شنید سے آپ کو مسلم ہونے کا تاثر نہیں ملے گا۔  لوگوں کی اکثریت آذری زبان کے ساتھ ساتھ روسی اور فارسی زبان  بھی  سمجھتی ہے۔   یہ ایک شیعہ اکثریتی ملک ہے اور ایران کے ساتھ انتہائی قریبی عوامی تعلقات ہیں۔ آپ کو سنیؔ مسجد   چراغ لے کر ڈھونڈنی  پڑیں  گی۔   میرے وہاں کے مختصر قیام کے دوران ایک جمعہ آیا، جس کے لئیے مسجد کی تلاش میں مارے  مارے شہر کے ایک علاقے میں پہنچے تو معلوم ہوا اس مسجد میں دھماکہ ہوا تھا، جس پر حکومت نے مسجد کو تالا لگا دیا تھا۔  بعد ازاں یہ خبر بھی ہوئی کہ یہ ایک منصوبہ تھا کہ اہلِ سنت کی مسجد میں ایسی تخریب کاری کی جائے اور یہ ایک مسجد بھی ہمیشہ کے لئیے بند ہو جائے۔
روسی اور مغربی کلچر کے مظہر اس ملک میں  عملاً اسلام دور دور تک نطر نہیں آتا۔  شہر کے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے یا زیرِ زمین میٹرو ٹرین کے سٹیشنز پر جاتے  ہوئے آپ کو جگہ جگہ شراب  کے ٹھیلے نظر آئیں گے،  یہاں شرب پانی کے بھاؤ بکتی ہے اور سرِ بازار کھلے آسمان  تلے رقص و سرود   کا انتظام ہوتا ہے۔    فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ واقع شراب خانوں میں نوجوان لڑکیوں کا ناچنا ایک مکمل انڈسڑی ہے ۔       باکو کے ساحلی علاقوں میں  حیا کے چیتھڑے اڑتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں ۔  یہ مناظر دیکھ کر مجھے بنکاک،  تائیوان، کوالالمپور ،  ہانگ کانگ ،    نیدر لینڈ اور یورپ کے حرام  کاری کے بازار  کم نظر آنے لگے۔   کچھ ایسے پاکستانی بھی نطر آئے جو ماؤں اور بہنوں کا زیور بیچ کر تو کوئی زمین کے ٹکڑے اور مال مویشی بیچ کر وہاں اس لئیے بھیجے گئے تھے کہ رزقِ حلال کما کر لائیں گے مگر انہیں بھی وہاں کی  حسیناؤں کی زلفوں کا اسیر  دیکھا، کچھ تو ایسے تھے جو دن بھر کی کمائی شام کو ان بدن فروشوں پر نچھاور کر دیتے۔   نوجوان لڑکیاں اور لڑکے کسی بھی مغربی ملک سے کہیں زیادہ مادر پدر آزاد اور بے راہ روی کا شکار نظر آئے۔   میری بے چین  روح مجھے اس ملک کا مذہبی جائزہ لینے کے لئیے  کہہ رہی تھی،  مساجد کا  جائزہ لیا تو یہاں کی مساجد کو اسلامی تعلیمات سے عاری پایا،  مرد و زن کا اختلاط،  ادب و احترام  نام کا نہیں اور نمازی   بھی چیدہ  چیدہ۔     باکو شہر میں ایک قبرستان دیکھنے کا اتفاق ہوا،  ہر قبر پر کتبہ کے ساتھ ساتھ قدِ آدم کے برابر مدفون کی تصویر بھی ماربل میں منقش تھی۔   مرنے والی  خوبرو جوان لڑکیوں کی تصاویر نسبتاً زیادہ اہتمام   کے ساتھ  ان کی قبور پر دیکھنے کو ملیں۔   قبور پر تصاویر کا یہ رواج انہوں نے روسیوں سے پایا تھا۔  اس قبرستان سے صرف چند میٹر کے فاصلے پر ایک کسینو، ڈسکو اور   شراب خانہ بھی واقع تھے۔
داڑھی خوف کی علامت ہے،  یہی وجہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں مقیم ایک ادھیڑ عمر خاتون نے میری داڑھی  سے خوفزدہ ہر کر میرے میزبان کو  متنبؔہ بھی کیا۔  میٹرو میں سفر کرتے ہوئے یا بازار میں گھومتے ہوئے سورج اتنی توجہ نہیں پاتا جتنی نظریں آپ کی داڑھی پر جاتی ہیں۔  داڑھی کی شرح میرے مطابق پانچ سو میں ایک ہو گی۔   خواتین دکانیں چلاتی اور کاروبار کرتی ہیں۔  کھانا پینا اور  طرزِ زندگی سو فیصد روسیوں والا ہے۔  باکو ائیر پورٹ  دارالحکومت میں واقع ہے مگر اس سے پاکستان کا ڈیرہ غازیخان ائیر پورٹ اچھا ہے۔  یہاں بنیادی سہولتیں بدحالی کا شکار ہیں۔  بین الاقوامی ائیر لائنز کم ہی جاتی ہیں۔ ترک ائیر لائن، ازبک ائیر لائن، امارات ائیر لائین  اور آزربائیجان کی قومی ائیر لائن  (جو کہ پرانے جہازوں کی وجہ سے بدنام ہے) کی فلائیٹس دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ روسی ائیر لائن "ایرو فلوٹ" بھی چلتی ہے۔  زیادہ تر تجارت استنبول، روس، ایران اور چین کے علاقہ "ارمچی" سے ہوتی ہے۔
حال ہی میں کچھ عرب تجار اور معمار اداروں نے وہاں کاروبار شروع کیا ہے جس سے امید کی جا سکتی ہے کہ رئیل سٹیٹ اور تعمیراتی  صنعت پھلے گی۔ بوسنیا کی کچھ کمپنیوں  نے آذر بائیجان کی سرکاری عمارات اور اداروں کی تعمیر کے ٹھیکے لئیے ہیں۔ ملک میں روزگار، صنعتی  کارخانوں کا فقدان ہے ، خصوصاً غیر ملکیوں کے لئیے  ملازمتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔    شہر میں زیرِ زمین  ریل کا  نظام پہلے سے موجود ہے اور اسے مزید وسعت دی جا رہی ہے۔   آذری کرنسی کا نام "منات" ہے جو تقریباً ایک سو اٹھائیس روپے کے برابر ہے یعنی یہ ڈالر سے بھی زیادہ مستحکم ہے۔ 

Wednesday, 31 December 2014

Permissibility of Celebrating Mawlid from Qur'an al-Karim & Ahadith!!



Permissibility of Celebrating Mawlidfrom Qur'an al-Karim & Ahadith!!
https://scontent-b-mxp.xx.fbcdn.net/hphotos-xfa1/v/t1.0-9/s720x720/419876_10150500545790334_448403389_n.jpg?oh=5d89e8f84bbeafeab9a14b1ebee19cdb&oe=55034848
All Praises is due to Almighty Allah, Peace and Blessings be upon the most perfect of creations, His Beloved Habib, Sayyiduna Rasoolullah (SallAllahu Alayhi wa Sallam) and his Noble Family and the Illustrious Sahaba and all the pious servants of Almighty Allah!!
In the present era, we are suffering from sects and so-called scholars who baselessly impose verdicts of Shirk and Bid’ah on those who celebrate Mawlid an-Nabi (SallAllahu Alayhi wa Sallam) with great enthusiasm and integrity and due to which the gullible and simple people, who are less in knowledge of Quran and Hadith get nervous whether they are following the right path or not.
Here are ample proofs from Qur'an al-Kareem and Ahadith of Beloved Prophet (Peace and Blessings of Allah be Upon Him) which shows beyond a shadow of a doubt that Celebrating Milad-un-Nabi (SallAllahu Alayhi wa Sallam) is absolutely lawful and commendable.
https://fbcdn-sphotos-g-a.akamaihd.net/hphotos-ak-xpa1/t31.0-8/s720x720/1540395_10151879219590334_243440026_o.jpg
..:: The Holy Qur’an Says ::..
قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَEisa, the son of Maryam, said, “O Allah, O our Lord! Send down to us a table spread from heaven, so that it may become a day of celebration for us – for our former and latter people - and a sign from You; and give us sustenance - and You are the Best Provider Of Sustenance.” [Surah Al-Ma’idah, Verse 114]
The day when food is sent from skies is day of rejoicing (EID); then the day when soul of universe (Peace be with him) was born must be the delight for the day of rejoicing.
Look what Allah has said:
وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْAnd abundantly proclaim the favours of your Lord. [Surah Al-Duha, Verse 11]
Allah Himself commemorating Milad in Holy Qar’an as we do in our gatherings, Allah (SubHanuhu wa Ta’ala) says in the Holy Qur’an:
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللهِ شَهِيدًاIt is He Who has sent His Noble Messenger with the guidance and the true religion, in order to make it prevail over all other religions; and Allah is sufficient as a Witness. [Surah Al-Fatha, Verse 28]
وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌAnd remember when Eisa the son of Maryam said, “O Descendants of Israel! Indeed I am Allah’s Noble Messenger towards you, confirming the Book Torah which was before me, and heralding glad tidings of the Noble Messenger who will come after me – his name is Ahmed (the Praised One)”; so when Ahmed came to them with clear proofs, they said, “This is an obvious magic.” [Surah As-Saf, Verse 6]
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌIndeed there has come to you a Noble Messenger from among you - your falling into hardship aggrieves him, most concerned for your well being, for the Muslims most compassionate, most merciful. [Surah Tauba, Verse 128]
لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُّبِينٍAllah has indeed bestowed a great favour upon the Muslims, in that He sent to them a Noble Messenger (Prophet Mohammed - peace and blessings be upon him) from among them, who recites to them His verses, and purifies them, and teaches them the Book and wisdom; and before it, they were definitely in open error. [Surah Aal-e-Imran, Verse 164]
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۔۔۔ قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَO mankind! The advice has come to you from your Lord and a cure for the hearts - and guidance and mercy for believers. Say, “Upon Allah’s munificence and upon His mercy - upon these should the people rejoice”; that is better than all their wealth and possessions. [Surah Al-Yunus, Verse 57/58]
And this is what we do, we celebrate; we rejoice; we do spend our money to show gratitude to Allah Almighty on his greatest mercy and Blessing i.e. celebrations of Milad-un-Nabi (SallAllahu Alayhi wa Sallam) because Qur’an Says:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَAnd We did not send you (O dear Prophet Mohammed - peace and blessings be upon him) except as a mercy for the entire world. [Surah Al-Anbiya, Verse 107]
https://scontent-a-mxp.xx.fbcdn.net/hphotos-xaf1/v/t1.0-9/p180x540/425346_10150500570610334_1933790326_n.jpg?oh=1312184cd7bc85bbcae2c6bd83fa0537&oe=553AFE2F
..:: See in the light of Ahadith ::..
Let us have the opinions of Prophet (Peace be with him) who himself celebrated his Birthday. See Muslim Sharif:
عَنْ أَبِى قَتَادَةَ الأَنْصَارِىِّ رضى الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- سُئِلَ عَنْ صَوْمِ الاِثْنَيْنِ فَقَالَ « فِيهِ وُلِدْتُ وَفِيهِ أُنْزِلَ عَلَىَّAbi Qatada Ansari (may Allah be pleased with him) reported that Allah's Messenger (may Peace and Blessings of Allah be Upon Him) was asked about fasting on Monday, whereupon he said: It is (the day) when I was born and revelation was sent down to me.
References:
1. Sahih Muslim, Book of Fasting, Vol. 7, Page 323, Hadith 28072. Musannaf Abd ar-Razzaq, Vol. 4, Page 296, Hadith 78653. Sunan Abi Dawood, Vol. 7, Page 255, Hadith 24284. Musnad Ahmad, Vol. 49, Page 195, Hadith 232005. Sunan al-Kubra lil Bayhaqi, Vol. 4, Page 2866. Usd ul-Gaabba fi Ma’arfat as-Sahaba, Vol. 1, Page 21-22, published in Lahore 1987
When beloved Prophet (Peace and Blessings be Upon him) is commemorating his birthday not yearly but every Monday then how can it be labelled as Shirk or Bid’ah? Is it not a Sunnah of the Beloved Prophet (SallAllahu Alayhi wa Sallam)?
Beloved Prophet Muhammad SallAllaho Alaihi wa Sallam himself commemorated about his birth in numerous Ahadith. Few of them are presented below.
ورأت أمي حين حملت بى أنه خرج منها نور أضاء له قصور بصرى من أرض الشامHoly Prophet (Peace and Blessings of Allah be Upon Him) said: “When my mother gave birth to me she saw a light proceeding from her which showed her the castles of Syria”
References:
1. Ibn Hisham; Tafsir Ibn Kathir, Vol. 4, Page 3602. Bayhaqi, Dala’il an-Nubuwwah, Vol. 1, Page 1103. Haythami, Zawa’i, Vol. 8, Page 2214. Ibn al-Jawzi ‘al-Wafa’5. Qadi Iyad, ‘al-Shifa’6. Musnad Ahmad Vol. 4, Page 127
أول ما خلق الله تعالى نوريThe Holy Prophet Muhammad (SallAllahu Alaihi wa Sallam) has stated, "The very first thing which Almighty Allah SubHanuhu wa Ta’ala created was my Noor."
References:
1. Tafseer Nashyapuri, Page 55, Vol. 82. Tafseer Araa'is ul Bayaan, Page 238, Vol. 13. Tafseer Roohul Bayaan, Page 548, Vol. 14. Zirkaani ala al-Mawahib, Page 37, Vol. 15. Madarij an-Nabuwwah, Page 6, Vol. 26. Bayaan al-Miladun Nabi li Ibn Jauzi, Page 24
Sharih al-Bukhari Imam Ahmad Qastalani (Radi Allahu Ta’ala Anhu) states in his most distinguished work "Mawahib al-Ladunniyyah" that narration has been made by Hadrat Imam Zaynul Abedeen (Radi Allahu Ta’ala Anhu) who narrates from His father Hadrat Imam Husain (Radi Allahu Ta’ala Anhu) who narrates from His father Hadrat Ali Mushkil Kusha (Radi Allahu Ta’ala Anhu) that the Holy Prophet (SallAllahu Alaihi wa Sallam) has stated,
كنت نورا بين يدى ربى قبل خلق آدم باربعة عشر ألف عام“I was a Noor (Light) by my creator 14000 years before the creation of Hadrat Adam (Alaihis Salaam)"
References:
1. Muwahib al-Laduniyah, Page 10, Vol. 12. Zirkani ala al-Mawahib, Page 49, Vol. 13. Jawahir al-Bihar, Page 7744. Anwaar al-Muhammadiya, Page 95. Tafseer Rooh al-Bayan, Page 370, Vol. 26. Hujjatullahi Ala al-Alameenhttps://fbcdn-sphotos-g-a.akamaihd.net/hphotos-ak-xaf1/v/t1.0-9/p180x540/431574_10150500571855334_1604095613_n.jpg?oh=252c08856027f304c968a56e6868207c&oe=54F915C8&__gda__=1425820025_239e6c61848191e9715494b301fe24de
Pupil of Imam Malik and the teacher of Imam Ahmed Bin Hanbal and Hafizul Hadith Abdul Razzak Abu Bakr Bin Hamman, the teacher of the teachers of Imam Bukhari and Imam Muslim, in his Book "Musannaf", has narrated from Hadrat Jabir bin Abdullah Ansari and his son (Radi Allahu Ta’ala Anhum), that he asked the Holy Messenger of Allah (Peace and Blessings of Allah be Upon Him)
روى عبد الرزاق -فيما قيل- عن جابر رضي الله عنه قال: "قلت: يا رسول الله بأبي أنت وأمّي أخبرني عن أول شىء خلقه الله تعالى قبل الأشياء؟ قال: يا جابر إن الله تعالى خلق قبل الأشياء نور نبيّك من نوره فجعل ذلك النور يدور بالقدرة حيث شاء الله ولم يكن في ذلك الوقت لوح ولا قلم ولا جنّة ولا نار ولا ملك ولا سماء ولا أرض ولا شمس ولا قمر ولا جني ولا إنسي، فلما أراد الله أن يخلق الخلق قسّم ذلك النور أربعة أجزاء فخلق من الجزء الأول القلم، ومن الثاني اللوح، ومن الثالث العرش، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء فخلق من الجزء الأول حملة العرش، ومن الثاني الكرسي، ومن الثالث باقي الملائكة، ثم قسّم الرابع أربعة أجزاء فخلق من الأول السموات، ومن الثاني الأرضين، ومن الثالث الجنّة والنار، ثم قسم الرابع أربعة أجزاء فخلق من الأول نور أبصار المؤمنين، ومن الثاني نور قلوبهم وهي المعرفة بالله، ومن الثالث نور أنسهم وهو التوحيد لا إله إلا الله محمّد رسول الله...."O Prophet of Allah! My parents be sacrificed upon you, what did the Almighty Allah SubHanuhu wa Ta'ala first create?" The Prophet (SallAllahu Alaihi wa Sallam) replied: "Allah first created my Noor (Light) of His Noor. This Noor traveled about according to the Will of Allah. At that time, there was no Heaven, Hell, Lawh (Divine Tablet), Pen, Earth, Skies, Sun, Moon, Jinn or Human Beings. When He decided to create, He divided that Noor into four parts. From one part He created the Pen, from the second, the Lawh and from the third, he made the Arsh (Throne). He divided the fourth part into a further four parts. From one, He created those Angels who carry the Arsh, from the second, the Kursi (Divine Chair) and from the third, He created the Angels. He again divided the remaining parts into a further four parts. From one, He created the skies. The second was used in creating the planets. From the third, Heaven and Earth were created. Once again, He divided the fourth part into a further four parts. From one part He created the power with which the believers see. From the second, He created in the hearts of the Believers the Noor of Marifat. From the third, He created Noor in the tongues of the Believers, so that they can read the Kalima of Tawheed.
References:
1. Muwahib al-Ladunniyah,Vol.1, Page 92. Zarqani ala al-Mawahib, Vol. 1, Page 463. Seerate al-Halabia, Vol. 1, Page 37
4. Mataali al-Masarraat Sharah Dalail Khayrat, Page 610
5. Afdal al-Qura by Imam Ibn Hajr Makki
6. Hujatullahu ala al-Alameen, Page 68
7. Anwaar al-Muhammadiya, Page 9
8. Aqidat ash-Shuhada, Page 100
9. Fatawa Hadithia, Page 51
10. Dalaa'il an-Nubuwwah By Imam Baihaqi
11. Khamees by Allama Dayar Bakri
12. Madarij an-Nabuwwat by Skaykh Abdul Haq Muhaddith Dehlvi

Abu Lahab was an uncle to the Prophet (SallAllahu Alaihi wa Sallam). The event, which Imaam Qastalaani has referred to, is this. When a maid of Abu Lahab (Abdul 'Uzza) named Thuwaibah informed him of a son being born to his brother Abdullah (may Allah be pleased with him), he (Abu Lahab) was so delighted at herring this that he pointed his finger to her in a manner which signified her emancipation for carrying the good news to him But when the holy Prophet (SallAllahu Alaihi wa Sallam) declared his Prophet hood, he (Abu Lahab) did not accept him as a Prophet but became a most severe enemy to him and remained so all his life. In condemnation of him a whole Surah of the Holy Qur’an descended.
4. Mataali al-Masarraat Sharah Dalail Khayrat, Page 6105. Afdal al-Qura by Imam Ibn Hajr Makki6. Hujatullahu ala al-Alameen, Page 687. Anwaar al-Muhammadiya, Page 98. Aqidat ash-Shuhada, Page 1009. Fatawa Hadithia, Page 5110. Dalaa'il an-Nubuwwah By Imam Baihaqi11. Khamees by Allama Dayar Bakri12. Madarij an-Nabuwwat by Skaykh Abdul Haq Muhaddith Dehlvi
Abu Lahab was an uncle to the Prophet (SallAllahu Alaihi wa Sallam). The event, which Imaam Qastalaani has referred to, is this. When a maid of Abu Lahab (Abdul 'Uzza) named Thuwaibah informed him of a son being born to his brother Abdullah (may Allah be pleased with him), he (Abu Lahab) was so delighted at herring this that he pointed his finger to her in a manner which signified her emancipation for carrying the good news to him But when the holy Prophet (SallAllahu Alaihi wa Sallam) declared his Prophet hood, he (Abu Lahab) did not accept him as a Prophet but became a most severe enemy to him and remained so all his life. In condemnation of him a whole Surah of the Holy Qur’an descended.
لَمَّا مَاتَ أَبُو لَهَب رَأَيْته فِي مَنَامِي بَعْد حَوْل فِي شَرّ حَال فَقَالَ : مَا لَقِيت بَعْدكُمْ رَاحَة ، إِلَّا أَنَّ الْعَذَاب يُخَفَّف عَنِّي كُلّ يَوْم اِثْنَيْنِ ، قَالَ : وَذَلِكَ أَنَّ النَّبِيّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وُلِدَ يَوْم الِاثْنَيْنِ ، وَكَانَتْ ثُوَيْبَة بَشَّرَتْ أَبَا لَهَب بِمَوْلِدِهِ فَأَعْتَقَهَاAfter his death, people of Abu Lahab's household saw him in a dream, and asked him how he had fared. To this, Abu Lahab said that after departing from them he did not meet with any good but was being given water every Monday from the finger with which he had indicated the emancipation of Thuwaibah, and this water lessened his torment.
References:
1. Sahih Bukhari, Vol. 1, Page 153, Hadith 5101, Kitaabun Nikah, Publisher: Darul Fikr – Beirut.2. Fathul Baari Sharha Sahih al-Bukhari, Vol. 9, Page 118 by Imam Ibn Hajr Asqalani3. Musannaf of Imam Abdur Razzaq San'ani, Vol. 9, Page 9, Hadith 166614. Umdatul Qari Sharha Sahih al-Bukhari, Vol. 14, Page 44, Hadith 5101 by Allamah Badruddin Ayni
Allama Muhammad Bin Alawai al-Maliki have stated in his work, Houl al-Ihtifal bi Zikri Mawlid an-Nabawi Ash-Sharif:
Prophet SallAllahu Alaihi wa Sallam after announcing his prophet hood, did his Aqeeqa, not only this, he also stood on his mim’ber sharif (pulpit) and recited his Shajrah (Ancestral Tree), commemorated the birth of Hadrat Adam and Status of Hadrat Ibrahim, Hadrat Esa, Hadrat Moosa Alaihimus Salam. He ordered few of his companions to recite his praise; Many of the Companions offered poems in the prominence and praise of Syyiduna Rasoolullah, He was delighted hearing this and prayed for his companions. [Houl al-ih’tifal bi Zikri Mawlid an-Nabawi Ash-Sharif, Published in Lahore 1987]
https://scontent-a-mxp.xx.fbcdn.net/hphotos-xaf1/v/t1.0-9/p180x540/420745_10150500569980334_2132166916_n.jpg?oh=228e656b8644e2d8f97009d3ee55680e&oe=54FE12E5
— — —May we be sacrificed at this Merriment O blessed month of Rabi' al-Awwal!Your joys surpass thousands of 'Eids; All in the world are rejoicing, except Shaytan

Special Thanks to: www.rehmat-e-alam.com