Monday, 25 May 2015

روزانہ پڑھنے کے لئیے مسنون وظائف

اللہ جل و علا نے اپنے حبیب پاک صاحبِ لولاک علیہ الصلاۃ والسلام کے وسیلہ جلیلہ سے ہمیں  اپنی عبادت اور یاد کی طرف   رغبت دلائی ہے۔   اللہ کریم کے ساتھ قربت  بڑھانے ، اس کی محبت کی لذت و چاشنی پانے اور معرفت حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ    اذکار  اور وظائف ہیں۔   اذکار و وظائف ، سلاسلِ طریقت میں جاری اوراد  روحانی تسکین  و  ذہنی  راحت  کا سبب اور دنیوی و اخروی نجات کا باعث ہیں۔     آپ احباب ہمارے سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف  دنیاوی مسائل اور پریشانیوں سے نجات پانے  کے لئیے وظائف  حاصل کرتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔  ان میں سے اکثر وظائف کا تعلق  وقتی ضروریات سے ہوتا ہے جو کہ علم الاعداد  کی روشنی میں یا قرآن مقدس کی متعلقہ آیات سے لئیے جاتے ہیں،   اور یہ  سائلین کی ضرورت،  مسائل اور پریشانیوں کو سامنے رکھ کر ترتیب دئیے جاتے ہیں۔   تاہم آج کے اس مضمون میں آپ کے لئیے ایسے وظائف پیش کئیے جا رہے ہیں جو فرض نمازوں کے بعد پڑھے جاتے ہیں اور یہ صحیح اسناد سے رسول اللہ ﷺ سے ثابت بھی ہیں  اور  صحابہ کرام علیہم الرضوان  بھی ان کے عامل رہے۔   سبحان اللہ عزوجل۔    یہ وظائف تمام اہلِ  ایمان کو اختیار  کرنے اور حرزِ جان بنانے چاہئیں۔   حضور ﷺ سے منقول کچھ وظائف بمع مختصر وضاحت و  تجاویز   یہاں درج کئیے جا رہے ہیں۔

پانچوں نمازوں کے بعد کے وظائف:

1۔         سب سے اول تسبیحِ فاطمہ رضی اللہ عنہا،  یہ مبارک  ذکر  آقا کریم ﷺ نے  اپنی  شہزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سکھایا۔  
سبحان اللہ تینتیس مرتبہ، الحمد للہ تینتیس مرتبہ، اللہ اکبر چونتیس مرتبہ آخر میں ایک بار    لَا إِلٰهَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَه لَا شَرِيْکَ لَه. لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌ۔
اس دن تمام جہاں میں کسی کا عمل اس کے برابر بلند نہ کیا جائے گا مگر جو اس کے مثل (یعنی یہی عمل یا اس کے برابر کوئی دوسرا عمل) پڑھے۔
(صحیح بخاری)
2۔   ہر نماز  کے بعد یہ استغفار بھی  تین تین  بار پڑھیں۔ (اس میں اسمِ اعظم بھی شامل ہے) ۔ سبحان اللہ عزوجل۔
اَستغِفرُ اللہ الؔذِی لا اِلٰہ الا ھُوَا الحَیُؔ القیوم واتوب الیہ۔
اس کی برکت سے گناہ معاف ہوں گے اگرچہ لشکر سے بھاگا ہوا ہو۔
(جامع ترمذی(
 3۔   ہر فرض نماز کے بعد  پیشانی پر ہاتھ رکھ کر  یہ دعا پڑھیں؛
بسم اللہ الؔذِی لا الہ الا ھو الرحمٰن الرحیم۔ اللھم اَذْھِبْ عَنؔی الْھَمؔ وَالحُزْنَ۔
اس کی برکت سے ہر غم و پریشانی سے بچے گا۔
(مجمع الزوائد، رقم 16971)

صبح و شام کے وظائف

صبح و شام کی تعریف یہ ہے کہ، آدھی رات ڈھلنے  سے سورج  کی پہلی کرن چمکنے تک"  صبح"  ہے ،  اس سارے وقفے میں جو پڑھا جائے گا  اسے صبح میں پڑھنا کہیں گے اور دوپہر  ڈھلے یعنی ابتدائے ظہر سے لے کر  غروبِ آفتاب تک "شام" ہے، اس سارے وقفے میں  جو پڑھا جائے  اسے شام میں  پڑھنا کہیں گے۔  
4۔  سیدِ عالم  حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’دو خصلتیں ایسی ہیں کہ جس مسلمان میں جمع ہو جائیں وہ جنت میں داخل ہوگا: جو شخص سوتے وقت 33 مرتبہ سُبْحَانَ اﷲِ، 33 مرتبہ الْحَمْدُ ِﷲِ، اور 34 مرتبہ اَﷲُ اَکْبَر کہے اور ہر نماز کے بعد یہ تینوں کلمات دس دس مرتبہ کہے۔‘‘
ترمذی، الجامع الصحيح رقم : 410
5۔  تینوں قُل ( سورہ اخلاص،  الفلق، الناس)  تین تین بار صبح شام  شام پڑھ لیں تو ہر بلا سے حفاظت  ہے۔
(ابو داؤد)
6۔  یہ دعا ایک بار صبح شام پڑھ لیں، غم و الم  سے بچے، اور ادائے قرض کے لئیے گیارہ گیارہ بار صبح شام۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوذُبِکَ مِنَ الھَمِّ وَ الحُزنِ وَ العِجزِ وَ الکَسَلِ وَ الجُبنِ وَ البُخلِ وَ ضَلَعِ الدَّینِ وَ غَلبَۃِ الرِّجَالِ
( ابو داؤد)
7۔  بسم اللہ علٰی دینی، بسم اللہ علٰی نَفؔسِیؔ  و َ وُلؔدِیؔ وَ اَھؔلَیؔ و مَالِیؔ۔  
 تین تین بار صبح شام پڑھیں۔ دین و ایمان، جان و مال اور بچے سب محفوظ رہیں۔
(الوظیفۃ الکریمہ)
8۔  دن بھر میں چلتے پھرتے درود و سلام اور استغفار کی کثرت کریں، اس کی برکت سے گناہوں سے نجات اور نیکی کے کام میں دل لگا رہے گا۔   درود شریف تمام وظیفوں کی اصل ہے۔ اگر اللہ تعالٰی توفیق دے تو رات کو سونے سے قبل مدینہ منورہ کی طرف منہ کر کے خود کو روضہ رسول ﷺ کے سامنے تصور میں پیش کر کے  درود و سلام عرض کرنے کی عادت بنا لیجئیے۔  اسی تصوراتی  عالم میں اپنی مناجات و گزارشات پیش کیجئیے،   اگر یہاں دل جم گیا اور رابطہ قائم ہو گیا تو  ایک نئی دنیا   آشکار ہو جائے گی اور پھر کسی وظیفے  و ریاضت کی حاجت ہرگز نہ رہے گی۔ 
9۔ ہر روز نماز فجر کے بعد  فاتحہ  پڑھنے کی عادت بنائیے اور اس کا ثواب ابو البشر سیدنا آدم علٰی نبینا  و علیہ السلام سے لے کر آج تک  اور قیامت تک آنے والے ہر مومن   کے لئیے ، خصوصاً آقا و مولٰی  ﷺ، آپ کے اصحاب و اہلِ بیت، اولیائے امت اور اپنے والدین ، زندہ و فوت شدگان رشتہ دار سب کو ایصالِ ثواب کیجئیے۔  یہ  میرا مجرب وظیفہ ہے کہ جب مرحومین کو ایصالِ ثواب کریں تو اس کے دنیا میں بے شمار فوائد ظاہر ہوتے ہیں۔
 اللہ تعالٰی ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اس کی یاد میں مگن رہیں اور ہم سب کا شمار ذاکرین و عابدین میں فرمائے۔ آمین۔
شرعی و روحانی مسائل و احکام جاننے کے لئیے ہمارا فیس بک پیج لائیک کیجئیے۔
آپ ہمیں ای میل بھی کر سکتے ہیں۔

Wednesday, 20 May 2015

عذابِ قبر کا احادیث کی روشنی میں بیان


اللہ جلا و علا نے تخلیق انسان کی وجہ قرآنِ مقدس میں واضح طور پر بیان کی ہے۔  پھر انسان کے سامنے رشد و ہدایت  کی راہ بھی روشن فرما دی اور اگر وہ نفس و شیطان سے مغلوب ہو کر احکامِ خدواندی سے بغاوت کرے تو جہنم و آگ بھی اس کے لئیے رکھ دی۔  اتباعِ احکام الٰہیہ کی صورت میں بہشت و جنت کی نعمتیں اور  افعالِ حرام و مکروہات کے ارتکاب پر  جہنم میں ڈالے جانے کا انتظام بھی ہے۔
دورِ رواں میں  تعلیماتِ دینیہ سے دوری وسواس کا باعث بن رہی ہے،  لوگ اپنی مرضی سے دینیات کی تشریح کرتے ہیں اور نتیجہ میں گمراہی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ عذابِ قبر بھی ایک ایسا ہی موضوع ہے  جس کی آڑ میں منکرین   و جہلاء انکار  و کلامِ بے سود کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔   عذاب قبر برحق ہے اور قرآن وحدیث میں عذاب قبر کو بڑے واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
اولاً یہ سمجھیں کہ  موت سے قیامت برپا ہونے تک کے عرصے کو "برزخ" کہا جاتا ہے۔ موت کے بعد تمام جن و انس اپنے اعمال کے حساب سے  برزخ میں درجہ پائیں گے۔ برزخ کا تعلق  اِس دنیا سے بھی ہے اور آخرت سے بھی۔  فوت ہو جانے کے بعد ورثاء، اعزاء و اقربا ء کی دعا، صدقات و اعمالِ حسنہ   برزخی زندگی میں  نجات و راحت کا سبب بنتی ہیں اور  یہ قیامت میں ملنے والے انعامات کا ہی ایک حصہ ہے۔ اسی طرح اگر کسی کی قبر میں سختی ہے تو یہ بھی اس کی سزا کا ہی ایک حصہ ہے۔
حق تعالٰی جل شانہ فرماتا ہے؛
"(اور عالم برزخ میں بھی) ان لوگوں کو دوزخ کی آگ کے سامنے صبح و شام لایا جاتا ہے۔‘‘
الغافر، 40 : 46

عذابِ قبر  کے بارے میں متعدد احادیث  موجود ہیں جو  عذاب قبر کے بر حق ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور ان احادیث کی موجودگی میں اس حق کا انکار کرنا کفر  ہے۔
1۔ ’’حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی  پاک ﷺ  گھر سے باہر تشریف لائے جب کہ سورج غروب ہو چکا تھا۔  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (قبرستان میں) ایک آواز سنی تو ارشاد فرمایا :  یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر، 1 : 463، رقم : 1309

 یہ حدیثِ پاک بیک  وقت دو اہم عقائد کی وضاحت کر رہی ہے ، اول یہ کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالٰی   نے  علمِ غیب عطا فرمایا تھا کہ آپ غیب کی خبر دیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ  مردے کو قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔  دوسرا یہ کہ   انسان  کسی بھی مذہب سے تعلق  رکھتا  ہو وہ آخرت میں جزا و سزا کے مرحلے سے لازمی گزرے گا اور یہ  ان باطل عقائد کا رد ہے جو اپنی  جہالت  کی وجہ سے عذابِ قبر و آخرت کا انکار کرتے ہیں۔

2۔ حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ نے  تو واضح طور پر نام لے کر  بیان فرمایا کہ؛
’’ہم عذابِ قبر کے بارے میں شک میں مبتلا رہے حتی کہ سورۃ التکاثر نازل ہوئی۔‘‘
ترمذي، السنن، کتاب تفسير القرآن عن رسول اﷲ ﷺ : 447، رقم : 3355۔

3۔  حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ؛
"نبی کریم ﷺ  نے فرمایا : مردے (کافر، مشرک، منافق) اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں اور ان (کے چیخنے چلانے) کی آوازیں سارے چوپائے سنتے ہیں۔‘‘
طبراني، المعجم الکبير، 10 : 200، رقم : 10459

عذاب قبر کی شدت بھی اعمال کے حساب سے ہو گی۔ احادیثِ رسول ﷺ میں اس کا متعدد مقامات پر ذکر آیا۔  
4۔ ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہماسے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ  ﷺ  نے  (غیب کی خبر دیتے ہوئے ) فرمایا  ،  ان دونوں کو (قبروں میں) عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑے گناہ کی بناء پر نہیں۔  پھر فرمایا ان میں سے ایک چغلی کھاتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب کے قطروں سے احتیاط نہیں کرتا تھا۔  راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ہری شاخ لی اور دو حصوں میں تقسیم کیا، پھر ہر قبر پر اس کا ایک ایک حصہ لگا دیا اور پھر فرمایا : جب تک یہ خشک نہ ہوں ان سے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب عذاب القبر من الغيبة والبول، 1 : 464، رقم : 1312
اللہ اکبر۔۔۔ یہاں بھی علمِ غیب مصطفٰی کریم ﷺ کا زبردست ثبوت اور احوالِ قبر کا بیان کرنا   فکر دلا رہا ہے۔

5۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ؛
"ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر کے کنارے بیٹھ کر رونے لگے، حتی کہ مٹی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنسوؤں سے تر ہو گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے میرے بھائیو! اس (قبر) کے لئے کچھ تیاری کر لو۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب الحزن والبکاء، 2 : 1403، رقم : 4195

قبر میں ہونے والے سوالات کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی احادیث میں رہنمائی فرمائی ہے :
6۔  ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سید المرسلین  ﷺ  نے فرمایا : جب میت دفنائی جاتی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کسی ایک کی میت دفنائی جاتی ہے تو اس کے پاس دو سیاہ رنگ کے، نیلی آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے وہ دونوں میت سے پوچھتے ہیں تم اس شخص (یعنی حضرت محمد ﷺ)  کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے؟ پس (اگر وہ مومن ہو تو) وہ وہی کہتا ہے جو وہ دنیا میں کہا کرتا تھا یعنی وہ اﷲ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔  میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد ﷺ  اﷲ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔  وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں : ہمیں علم ہے کہ تو دنیا میں یہی کہا کرتا تھا۔  پھر اس کے لئے اس کی قبر چاروں طرف سے ستر، ستر گز تک وسیع کر دی جاتی ہے۔  پھر اس کو اس کے لئے روشن کر دیا جاتا ہے۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے :  سو  جا۔  وہ کہتا ہے : میں اپنے گھر والوں کی طرف جاتا ہوں تاکہ انہیں اپنے حالات کی خبر دوں۔  وہ دونوں اس سے کہتے ہیں :  تو اس پہلی رات کی دلہن کی طرح سو جا جس کو اس کے گھروں میں سے صرف اس کا محبوب شوہر ہی جگاتا ہے۔  (وہ اسی حال میں رہے گا)  یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اسے اسی حال میں اس کی قبر سے اٹھاے گا۔  اگر وہ منافق ہو تو وہ (ان کے سوال کے جواب میں)  کہتا ہے :  میں نہیں جانتا میں نے وہی کہا جو میں نے لوگوں کو کہتے سنا :  دونوں فرشتے اسے کہتے ہیں :  ہم جانتے ہیں کہ تو یہی کہا کرتا تھا۔  پھر زمین سے کہا جاتا ہے کہ اس کے لئے سکڑ جا۔  پس زمین اس کے لئے سکڑ جاتی ہے اور اس کے دونوں پہلو ایک دوسرے میں دھنس جاتے ہیں۔  پس وہ اسی حال میں عذاب میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اسے اس کی قبر سے اٹھائے گا۔‘‘
 ترمذي، السنن، کتاب الجنائز عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب ما جاء في عذاب القبر، 3 : 383، رقم : 1071
مزید شرعی  و روحانی رہنمائی کے لئیے ہمارا فیس بک  پیج لائیک کیجئیے۔

https://www.facebook.com/IHR.Official

Monday, 4 May 2015

اختیارات اور حیات رسول کریم ﷺ


محبوب رب العرش  ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
انما انا قاسم والله يعطی.
(بخاری شريف، ج : 1، ص : 16)
اللہ تعالیٰ مجھے دینے والا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں۔
 یہ حدیث پاک مطلق تقسیم کرنے کو بیان کر رہی ہے اور اس میں صرفی و نحوی اعتبار سے بھی زمانہ اور وقت کی کوئی قید نہیں ہے۔  لہٰذا رسول اکریم ﷺ اپنی حیاتِ ظاہری اور بعد از وصال بھی  اپنی امت کے لئیے خیر و رحمت تقسیم کرنے والے ہیں۔ روایتِ مذکورہ میں " والله يعطی"  کہ اللہ تعالٰی دیتا ہے، اب کیا دیتا ہے یہ محبوب و محب کی بات ہے، وہی بہتر جانتے ہیں کہ ان کے خالقِ کریم نے انہیں کون کون سے نعمتیں عطا کی ہیں۔ ، چونکہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے وہ جو چیز بھی کسی کو دیتا ہے تو بدست مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطا کرتا ہے۔
اس حدیثِ پاک میں رسولِ مکرم ﷺ نے خود کو قاسم   فرمایا  اور اللہ تعالٰی کو عطا کرنے والا تو اس ے ثابت ہوا کہ آقا کریم ﷺ کو رب تعالٰی عطا کرتا ہے اور وہ اپنے مالک و مولا کی عطا سے اپنی امت میں انعامات، خیرات و رحمت تقسیم فرماتے ہیں۔  حیاتِ ظاہری میں بکثرت اس کی مثالیں موجود ہیں اور بعد از وصال بھی انوار ورحمت، فضل  و عطا کا یہ سلسلہ جاری ہے اور   ہمیشہ ہمیشہ  امتِ محمدیہ  علٰی صاحبھاالصلاۃ والسلام ان فیوض و برکات سے مالا مال ہوتی رہے گی۔ جہاں تک وصال کے بعد کی عطا کا تعلق ہے تو یہ  احادیث پیشِ خدمت ہیں۔
ان الله حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبياء فنبی الله حی.
(سنن ابی داؤد، ج : 1، ص : 275)
بیشک اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے اجسام کو زمین پر حرام کر دیا ہے پس اللہ کے نبی زندہ ہیں۔
اس حدیث سمیت دیگر متعلقہ روایات پر جمہور اکابرینِ امت کا اتفاق ہے،  محبوب کریم ﷺ اپنی قبرِ مبارکہ میں زندہ  ہیں۔ 
دوسری حدیث پاک میں ہے :
حياتی خير لکم و مماتی خير لکم.
(سنن نسائی، ج : 1، ص : 189)
میری حیات بھی تمہارے لیے بہتر ہے اور میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر ہے۔
حیات کے ساتھ وفات کو بھی بہتر قرار دینا اس بات کا  اعلٰی ثبوت ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام  جس طرح حیاتِ ظاہری میں اپنے غلاموں کو نوازتے تھے ویسے ہی قبرِ منور میں  بھی عطا و کرم کا سلسلہ جاری ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مزید روحانی،  شرعی اور علمی  مواد کے لئیے ہمارے فیس بک پیج پر  تشریف لائیں۔

 https://www.facebook.com/IHR.Official

Monday, 13 April 2015

مسافر کی نماز






اللہ جل و علا نے اپنے محبوب کریم مصطفٰی جان رحمت ﷺ کے ذریعے ہمارے لئیے دین اسلام کو آسان و رحمت بنایا ہے۔  اہلِ اسلام پر  سفر کے دوران آسانی فرماتے ہوئے "قصر" نماز کا حکم لاگو فرمایا۔  قرآنِ مقدس فرماتا ہے؛
 "اور جب تم  زمین  میں سفر کرو تو تم پر گناہ نہیں کہ بعض  نمازیں قصر سے پڑھو۔ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ایذا دیں گے، بے شک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں"۔
(النساء 101)
تاریخِ اسلام کے عظیم مفسر، صدر الافاضل علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ  اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ خوف ِکفار قصر کے لئیے شرط نہیں ہے، حضرت سیدنا یعلٰی بن امیہ رضی اللہ عنہ  نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے  عرض کی کہ ہم تو امن میں ہیں پھر  ہم کیوں قصر کرتے ہیں؟   فرمایا،  اس کا مجھے بھی تعجب ہوا تھا  میں  نے شاہِ کونین ﷺ  سے دریافت کیا،  سید عالم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے لئیے یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے صدقہ ہے تم اُس کا صدقہ قبول کر و۔
(صحیح مسلم ج1 ص 231)
سرکار مکہ و مدینہ ﷺ کی حیات پُر نور  میں مختلف مواقع پر قصر  نماز کا ثبوت ملتا ہے اور یہ آپ کے عمل سے ثابت ہے۔   سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ؛
"  رسول اللہ ﷺ نے نمازِ سفر کی دو رکعات ادا فرمائیں،   اور یہ پوری ہے کم نہیں یعنی اگرچہ  بظاہر دو رکعات کم ہو گئیں مگر ثواب میں دو ہی چار کے برابر ہیں"۔
(سنن ابن ماجہ حدیث 1194)
اب مسافر کی نماز کے بارے شریعت مطہرہ کے مختصر احکام ملاحظہ فرمائیں۔
·        شرعی مسافر وہ شخص (مرد و  عورت) ہے جو ساڑھے ستاون میل یا بانوے (92) کلومیٹر  کے فاصلے تک جانے کے ارادے سے  اپنے مقامِ اقامت  (گھر) سے باہر ہو گیا ہو۔
·        صرف نیت سے ہی مسافر نہیں ہو گا بلکہ  مسافر کا حکم اس وقت ہے کہ بستی کی آبادی سے باہر ہو جائے،  شہر میں ہے  تو شہر سے ،  گاؤں میں ہے تو گاؤں سے اور شہر والے کے لئیے یہ بھی ضروری ہے کہ شہر سے متصل آبادی سے بھی باہر ہو جائے۔
·        آبادی ختم ہونے سے یہ مراد ہے کہ جس طرف جا رہا ہے اس طرف  شہر/گاؤں کی آبادی ختم  ہو جائے۔
·         مسافر کے لئیے  یہ بھی ضروری ہے کہ جہاں سے چلا  وہیں سے   تین دن (بانوے کلومیٹر)   کے سفر کا ارادہ ہو،   اور اگر بانوے کلومیٹر  سے کم سفر کے ارادہ سے نکلا اور راستے میں جا کر مزید سفر کا ارادہ کر لیا جو کہ بانوے کلومیٹر سے کم ہے تو اس طرح پوری  دنیا کا سفر بھی  کر لے تو مسافر شرعی نہ ہوا۔
·        مسافر کے لئیے شرط ہے کہ بانوے کلومیٹر کے متصل/مسلسل سفر کی نیت ہو۔  اگر یہ نیت ہو   کہ  دو دن کی راہ پر  پہنچ کر  قیام کروں گا،  کام نمٹاؤں گا اور پھر وہاں سے مزید سفر کروں گا  تو یہ تین دن (92 کلومیٹر) کا متصل ارادہ نہ ہوا اور نہ ہی یہ شرعی مسافر ہوا۔
·        مسافر اس وقت تک مسافر رہے گا  جب تک واپس اپنی بستی میں نہ لوٹ آئے یا جہاں گیا تھا وہاں پورے پندرہ دن قیام کی نیت نہ کر لے۔
·        اگر تین دن کی مسافت (92 کلومیٹر)  تک پہنچنے سے قبل  ہی واپسی کا ارادہ کر لیا تو اب مسافر نہیں رہا۔
·        مسافر کسی کام کے لئیے  یا احباب کے انتظار میں دو چار روز یا تیرہ چودہ روز کی نیت سے ٹھہرا،  یا یہ ارادہ کہ کام ہو جائے گا تو چلا جاؤں گا، دونوں صورتوں میں اگر آج کل آج کل کرتے برسوں گزر جائیں جب بھی مسافر ہی رہے گا،  نماز قصر پڑھے۔
·        تین رکعات والی نماز مکمل پڑھے گا اس کا نصف/قصر نہیں ہو گا۔  اسی طرح وتر اور سنتیں بھی مکمل ادا کرے البتہ گاڑی نکلنے کا خوف  اور وقت کی قلت ہو تو سنتیں اور نوافل چھوڑ سکتا ہے۔
·        اگر مسافر  جماعت کے ساتھ نماز پڑھے اور امام مقیم ہو تو  مکمل نماز ادا کرے گا۔ مثلاً یہ مسافر ہے اور ظہر کے دو فرض  ادا کرے گا لیکن اگر امام مقیم ہو تو پھر جماعت کے ساتھ چار ہی پڑھے، ہاں  اکیلا ہو تو دو ہی پڑھے گا۔
·        اگر سفر کے دوران نماز قضا ہو جائے تو بعد میں اس کے بدلے دو ہی پڑھے گا، خواہ سفر میں پڑھے یا اپنے گھر واپس پہنچ کر۔
·        مسافر نے قصر  کے بجائے چار کی نیت کر لی اور یاد آنے پر  دو  رکعات ادا کرنے کے بعد سلام پھیر لیا تو نماز ہو گئی۔
·        اگر امام مسافر ہو اور مقتدی مقیم ہوں تو  لازمی ہے مقتدی اپنی نماز بعد از سلام مکمل کریں، یعنی امام دو رکعات کے بعد سلام پھیرے اور مقتدی بقیہ دو رکعات مکمل کرنے کے بعد سلام پھیریں۔

عورت کے لئیے احکام
·        عورت کو بغیر محرم کے تین دن  (تقریبا 92 کلومیٹر)  یا زیادہ جانا  جائز نہیں۔   نابالغ بچہ یا نیم پاگل کے ساتھ بھی سفر نہیں کر سکتی،  ہمراہی میں بالغ محرم یا  شوہر کا ہونا ضروری ہے۔   عورت قریب البلوغ  بیٹے یا محرم  قابل اطمینان کے ساتھ سفر کر سکتی ہے۔
·        عورت بیاہ کر سسرال گئی اور یہیں رہنے لگی تو میکا (یعنی عورت کے والدین کا گھر) اس کے لئیے وطن اصلی نہ رہا یعنی اگر سسرال  بانوے کلومیٹر  پر ہے ،  وہاں سے میکے آئی اور پندرہ روز کے قیام  کی نیت نہ کی تو قصر پڑھے  اور اگر میکے رہنا نہیں چھوڑا بلکہ سسرال عارضی طور پر گئی تو میکے آتے ہی سفر ختم ہو گیا، نماز پوری پڑھے گی۔
·         

وطن کی اقسام
وطن کی دو اقسام ہیں۔   وطن اصلی۔  یعنی وہ جگہ  جہاں اس کی پیدائش ہوئی یا اس کے گھر والے رہتے ہیں یا وہاں رہائش اختیار کر لی اور ارادہ ہے کہ یہاں سے نہ جائے گا۔
وطن اقامت:   یعنی وہ جگہ کہ مسافر نے پندرہ دن یا اس ے زائد وہاں ٹھہرنے کا ارادہ کیا ہو۔
اس مضمون کی تیاری میں فقہ حنفیہ کی کتب عالمگیری، فتاوٰی رضویہ، نور الایضاح، بہار شریعت وغیرہ کی مدد لی گئی۔ 
مزید  اسلامی شرعی، روحانی و معاشرتی مسائل و معلومات کے لئیے ہمارا پیج لائک کیجئیے،  یہاں آپ کے لئیے بیش بہا معلومات کا سامان ہو گا انشاء اللہ۔

ہمارا فیس بک پیج: www.facebook.com/IHR.Official

Saturday, 28 March 2015

سانحہ یوحنا آباد پر چند کلمات



دین کے نام پر فرقے، پھر ان فرقوں میں کوئی مشرک تو کوئی بدعتی ٹھہرا،  کوئی مرتد کہا گیا تو کوئی گستاخی کے نام پر  دیوار میں چُنا گیا۔۔۔   اسلام میں فرقوں کے  جال سے باہر نکلیں تو  پاکستانیت   کا  نا  ختم ہونے والے سیاپا۔ کوئی سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی ، کشمیری،  تو کوئی   سرائیکی کی جنگ لڑ رہا ہے۔  اس شکنجے سے باہر نکلیں تو شہر کے  ہر گوٹھ میں کوئی نہ کوئی دادا گیر ہے جو  تقسیم در تقسیم کے بعد مزید  حساب لگا کر اس زمین کے ٹکڑے کو شمالی و جنوبی اور شرقی و غربی کے حساب سے تقسیم کرنا چاہتا ہے۔  تقسیم کے منصوبوں پر عمل پیرا اس قوم کا ہر پیر و جوان پوری توانائی بلکہ  پوری زندگی  دانستہ و نادانستہ  ایسے ہی گزارے جا رہا ہے اور انجام سے  نِرے بے خبر بلکہ  سماعت، بصارت  اور دردِ دل  سے  یکسر محروم ہیں۔      ہندو  مسلم فسادات   نریندر مودی کے دیس میں ہوا کرتے ہیں، پاک سرزمین ایسے  ناپاک منصوبوں سے مبرا تھی،  عیسائیوں کے  تنازعات کا پس منظر وہی ہے جو  افغانستان کی نزدیکی پہاڑیوں میں بیٹھے بھیڑئے کا ہے۔  کسی شریف النفس پاکستانی  نے کبھی بھی عیسائیوں کو  اقلیت ہونے کا احساس تک نہیں دلایا،  میرے ہم جماعت پیٹر، فلپس،  وارث، شجاع جیسے کئی عیسائی تھے،  گورنمنٹ ہائی سکول نارووال میں ماسٹر مقبول صاحب بھی عیسائی  ہی تھے۔   لاہور میں لگی ہوئی آگ  بہت ساری غلطیوں کا خمیازہ ہے۔   جلنے والے جل گئے،  جل کر بھسم ہو گئے، ہڈیاں راکھ بن گئیں بلکہ   رزقِ ہوا ہو گئیں مگر گورکھ دھندہ ایسا کہ ابھی تک   کوئی حتمی خبر نہیں کہ حقائق کیا ہیں۔ ۔۔ قومی پرچم نذرِ آتش ہونے کی خبریں بھی نشر ہوئیں،  جلائے جانے والے دونوں افراد کی لاشوں کو گھسیٹا گیا،  لٹکایا گیا  اور بعد   میں جشن بھی منایا گیا۔

گوجرہ کے عیسائی ہوں یا کوٹ رادھا کشن کے،  سیالکوٹ کے دو جوان بھائی ہوں یا  خود کش حملوں میں مارے جانے والے بے گناہ افراد  یہ دہشت گردی ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں۔    مگر تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گزرتی  ہوئی اس قوم کے "دلال"  منافقت کا  بہت بڑا "سٹاک" لئیے بیٹھے ہیں۔  پاکستان میں جب کوئی مرتا ہے تو مذہب سے بالا تر ہو کر سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ایک مسلم یا عیسائی کے علاوہ ایک انسان اور پاکستانی بھی تھا۔   لاہور میں جلائے جانے والے دونوں افراد کا اس واقعہ سے کوئی تعلق ابھی تک سامنے نہیں آیا اور وہ بھی عام  مشاہدین کی طرح وہاں موجود تھے،  فرق صرف اتنا ہے کہ وہ وضع قطع سے مسلم لگ رہے تھے تو  عیسائیوں نے ان کو مسلم  اور داڑھی والا ہونے کی وجہ سے دہشت گردا سمجھا اور   انہیں دبوچ لیا۔  اس واقعہ کے بعد کئی دنوں تک  چند ایک تجزیہ کاروں نے   ڈرتے ڈرتے اس کی مذمت کی۔   اصل معاملہ سوشل میڈیا نے اٹھایا۔   اتنے  دن گزر جانے کے بعد ابھی تک ملکی الیکٹرانک میڈیا  اس واقعہ کی مذمت اس طرح نہیں کر رہا جس طرح سلمان تاثیر، رادھا کشن،  گوجرہ  یا اس جیسے ماضی میں ہونے والے واقعات پر سیاست کی گئی۔ پس پردہ وجہ صرف یہی تھی کہ  آقاؤں نے زبان بندی کر رکھی تھی   اور یہاں عیسائیوں نے مارا، مسلم مرے۔ اگر عیسائیوں کے خلاف زبان کھولی گئی تو مغرب ناراض ہو گا۔ 

قادیانیوں کے حقوق، عیسائیوں کے تحفظ اور سلمان تاثیر کے لئیے انصاف چاہنے والے  بڑے بڑے منہ اور جل پریاں منظر سے ہی غائب ہیں۔  سلمان تاثیر   کے ہم پیالہ  ،ملکی سلامتی کو پنکچر لگانے والے اور عالمی سطح پر پاکستانی کی جگ ہنسائی  کے باعث نجم سیٹھی ،   شمالی   پہاڑیوں  میں  "کے ٹو"  کے اس پار ہونے والے ظلم پر چلانے والی فوزیہ سعید،   سمندر کے پانیوں میں پھنسی ہوئی کشتیاں نکالنے والے  انصار برنی ،   بال ٹھاکرے    کی پاکستانی ورژن عاصمہ جہانگیر  سمیت بین الاقوامی  انسانی حقوق کے نمائندے ابھی تک خوابِ خرگوش میں ہیں۔     "چِٹی کلائیوں" والی   سیاسی بازار کی ملکہ  ِ حسن حال ہی میں      "   ذہبی اسنان "کے مالک  ایک شیخ جی کے نام منتقل ہو کر  وجودِ نازنین کو آرام بخشنے کی غرض سے  اسی شہرِ  شورش کے آس پاس  خلوت نشین ہیں، سیاسی ایوان ہو یا ٹی وی چینل  اس موصوفہ کے شرمیلے نینوں کی وجہ سے   پیرانِ وقت و شبابِ ملت  نظارہِ دلربا حسینہ کے بعد انگشت بدنداں و حواس باختہ  نظر آتے ہیں۔    مخملی  بستروں پر  دراز  بعد از فراق  نعمت وصال  پانے والی   اور     رونق میڈیا و بازار کو ابھی تک  خونِ مسلم کے جلنے بلکہ خاک ہونے کی خبر یا تو ملی نہیں یا پھر  لب سی دئیے گئے ہیں۔  

یعنی لاالہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کی اساس پر بننے والے ملک میں عیسائیوں قادیانیوں اور ہندوؤں کے حقوق مقدم ہو گئے؟؟؟  قادیانیوں کی بکری سڑک حادثے میں مر جائے تو خبر یہ لگتی ہے کہ"مسلم ٹرک ڈرائیور نے ایک قادیانی کی بکری کچل ڈالی"۔ مغربی میڈیا  رات کے پچھلے پہر اس خبر کو بریک کرتا ہے۔   آسیہ مسیح توہینِ مذہب کرے  تو  یہ  پانی سے پتلا  اور مخنث مزاج میڈیا اسے ذاتی لڑائی  بنا کر پیش کر دیتا ہے۔   مگر لاہور میں دو کلمہ گو   جلا دئیے جائیں جن کی عظمت کعبۃ اللہ سے زیادہ ہے   تو  میڈیا کو الفاظ ہی نہ ملیں ؟؟؟

میڈیا کے خداؤ!!! یاد رکھو، میرے رب کی ذات  کو بقا ہے، تمہارے  بالا خانوں میں بد شکلوں کو رنگ و روغن کر  کے حسن و جمال کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے،  کلمہ حق کہنے والے کو خاموش کر دیا جاتا ہے،   تمہارے الطافات  و کرامات بر دشمن دین و ملت ہیں۔  ایک وہ ویڈیو ہے جو تم اپنے ٹی وی کی سکرین پر چلاتے ہو اور ایک وہ ویڈیو ہے جو خالق ارضا و سما،  حاکمِ مطلق،  ستار وغفار،  قہار و غفار  رب عزوجل کی جناب میں ریکارڈ ہو رہی ہے،  روزِ محشر   یہ مظلوم بھی ہوں گے،  کل انبیاء کی جماعت بھی ہوگی،  تمہاری وجہ سے لٹ جانے والے غریب بھی ہوں گے اور سید المرسلین  ﷺ بھی وہیں موجود۔۔۔۔ اس وقت چلائی جانے والی  زندگی کی ویڈیو تمہیں ذلیل و رسوا کر دے گی۔

قوم کو تقسیم کرنے والو!!!  تم دیکھ چکے ہو کہ ماضی کی چند دہائیوں میں اس ملک کو لوٹنے والے ایمان سلامت لے کر نہیں گئے،  تفرقوں میں بانٹنے والے فالج و لقوہ، قہر و غضب ، کوڑ و جزام کا شکار ہر کر علالت و مرگ کے بستر پر کروٹ بدلنے سے قاصر ہیں۔  پاکستان اللہ عزوجل کے رازوں میں سے ایک راز ہے، مدینہ طیبہ کی نشانی ہے، اس کا ہر دشمن خاک آلود ہوا ہے اور ہوتا رہے گا۔  اس سرزمین پر ہونے والے ہر اچھے اور برے کام کو حقائق کے مطابق دیکھا اور سنا جائے یہی آوازِ خلق ہے یہی تقاضائے  قوم ہے۔   یہاں بسنے والا ہر سپید  و سیاہ، مسلم و غیر مسلم ایک "پاکستانی" ہے اور یہی شناخت ہمارے وطن کے اتحاد و ترقی کی بنیاد ہے۔  کاش کہ یہ راز نیلی پیلی شکلوں اور بڑے بڑے  میڈیا  ہاؤس چلانے والوں ابناء الوقت کو بھی سمجھ آ جائے ورنہ جان لیں کہ متاعِ دنیا بہت قلیل ہے اور میرے  رب کی نعمت پاکستان کو ان شریروں سے خطرہ ضرور لاحق ہے مگر   "وہ شمع کیا بجھے جسے روشن ہوا کرے"۔
مزید مضامین و علمی مواد کے لئیے ہمارا پیج لائک کیجئیے۔

www.facebook.com/IHR.Official

Saturday, 28 February 2015

متعہ کی مختصر حقیقت


متعہ کے بارے میں شریعتِ مطہرہ کے احکام واضح، مسلؔم اور مصدق ہیں مگر  امت میں تنازعات پیدا کرنے والے وقتاً فوقتاً ایسے معاملات کو اچھالتے رہتے ہیں۔ علمائے کرام اور ہمارے اسلاف کی تعلیمات ہیں کہ ایسے مسائل جو  شرارت و فتنہ کا باعث بنائیں ان پر خاموشی  اختیار کی جائے یا  پھر کم بحث کی جائے۔    زیرِ نظر مختصر مضمون میں کوشش کر رہا ہوں کہ جامع انداز میں اس حوالہ سے کچھ لکھ دوں۔ میری طرف سے  اس کا کافی سمجھا  جائے کہ تحریری انداز میں یا اخبارات و سوشل میڈیا پر  ایسے موضوع کو طول دینا وقت کی  بربادی اور ایمان کی خرابی کا باعث  بنتا ہے، تاہم اگر کسی کو  اپنی تسلی کی ضرورت باقی محسوس ہو تو بالمشافہ  ملے،  ہم ان تمام اعتراضات کا جواب دیں گے۔ انشاء اللہ عزوجل۔

متعہ کو حلال سمجھنے والے گروہ کے ہاں  سب سے اولین و بڑا اعتراض یہ ہے کہ   نبی کریم ﷺ نے متعہ کو حرام قرار نہیں دیا بلکہ حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں متعہ بند کیا گیا۔ اس سے قبل یہ جائز و حلال تھا۔  انہیں سمجھنا چاہئیے کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا منصب نہیں تھا، متعہ دورِ رسالت مآب ﷺ میں ہی حرام قرار دیا جا چکا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے  اپنے دور خلافت میں اس کی حرمت کو مزید واضح فرمایا تھا۔  جہاں تک اس کے حلال ہونے کا تعلق ہے تو یہ  شارعِ اسلام ﷺ کی حیاتِ ظاہری میں ایک خاص وقت تک جائز رہا، مثلاً  جنگ کے ایام میں اسے حلال کیا گیا، اس دور میں جنگی سفر مہینوں کا اور پیدل ہوتا تھا،  سخت گرمی اور پھر وطن سے دوری کی وجہ سے  اسے مباح قرار دیا گیا لیکن  اس کے بعد فتحِ مکہ کے موقع پر رسولِ رحمت ﷺ نے قیامت تک کے لئیے اسے حرام قرار دے دیا۔

قرآنِ حکیم میں نکاح اور  باندیوں کا ذکر ضرور ملتا ہے تاہم کسی ایک آیت کے چھوٹے سے جز  میں  بھی متعہ کے حلال ہونے کا کوئی بیان ہرگز ہر گز نہیں ہے۔
"تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں خوش آئیں دو ۲دو ۲ اور تین۳ تین۳ اور چار ۴چار۴  پھر اگر ڈرو کہ دوبیبیوں کوبرابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی کرو یا کنیزیں جن کے تم مالک ہو " (النساء 4 : 03)

قضاء شہوت کے لئیے اللہ تعالٰی نے مذکورہ آیت میں  فقط دو صورتیں بیان فرما دیں، اگر متعہ حلال ہوتا تو رب تعالٰی اس کا ذکر بھی اسی آیت کریمہ میں فرما دیتا۔  اپنی نفسانی و شہوانی خواہش کے لئیے ایک سے چار تک بیویاں یا خریدی ہوئی باندیاں اور کنیزیں رکھ سکتے ہو۔  یہی تقوٰی اور پرہیزگاری ہے۔  اللہ عالم الغیب ، علیم و حکیم کا یہاں متعہ کا بیان نہ فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ  یہ حرام ہے، اگر حلال ہوتا یا مستقبل میں اس کے حلال ہونے یا اس کی وقتی ضرورت کی گنجائش ہوتی تو رب تعالٰی قرآنِ مقدس میں اس کا بیان فرما دیتا۔ فتح مکہ سے قبل متعہ کی جو صورتیں جائز یا مباح تھیں اس آیت کے بعد وہ بھی منسوخ ہو گئیں۔

   اب ایک عقلی دلیل ملاحظہ فرمائیں کہ جب حق تعالٰی جل شانہ نے دو ایسی صورتیں بیان فرما دی ہیں جن سے ہر کلمہ گو فائدہ اٹھا سکتا ہے تو متعہ کی حاجت ہی کیوں باقی رہے گی؟   متعہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے انسانی حقوق کی پامالی، جسمانی درندگی،  معاشرتی  بے حسی ،  زنا کاری اور اخلاقی اقدار     کی پستی کی راہ  تو ہموار ہو سکتی ہے تاہم اللہ کی رضا اور انسانیت کی بہتری  ہرگز ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی۔   متعہ میں  عورت کے حقوق معین نہیں ہوتے، اس میں طلاق ہے نہ عدت۔   متعہ میں عورت کو میراث، جاگیر اور جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ملتا،  نہ ہی وہ کسی بھی معاملہ میں مرد جس سے وہ متعہ کرتی ہے اس کی وارث بنتی ہے، یہ صرف اور صرف دو جسموں کا کھیل ہے اور شیطان کی رضامندی۔

اس کی ایک مثال حیاتِ مصطفوی ﷺ  کے ظاہری دور سے لیتے ہیں۔
سیدنا  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ایک روایت کا خلاصہ ہے  کہ  ہم امام المجاہدین  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں گئے ہم تثنیۃ الوداع پر اترے  تو  چراغوں کو دیکھا اور عورتوں کو روتے ہوئے دیکھا  جانِ رحمت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے؟ بتایا گیا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جن سے متعہ کیا گیا تھااور وہ رو رہی ہیں  شمعِ بزمِ ہدایت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ نکاح، طلاق، عدت، اور میراث نے متعہ کو حرام کر دیا ہے۔
مسند ابو يعلی، رقم الحديث: 6594

 جب ایک عورت کو آزادی سے نکاح، پھر طلاق یا خلع، عدت اور  پھر شوہر کی میراث میں سے حصہ بھی شریعت نے مقرر فرما دیا تو اب کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ وہ متعہ کرے؟۔ مرد کے لئیے چار بیویاں، پسند نہ آنے کی صورت میں یا کسی شرعی ضرورت کے تحت  طلاق دینے کا حق بھی دیا گیا،  پھر زمانہ قدیم میں لوگ غرباء کی عورتوں کو خرید لیا کرتے تھے، ان کے ساتھ بھی مباشرت جائز قرار دی گئی تو اب ان تمام سہولیات کے باوجود اگر کوئی متعہ جیسی قبیح حرکت کرے تو اس کی عقل کی خرابی ہی ہو سکتی ہے۔ 

جو لوگ متعہ کو حلال جانتے ہیں وہ   حضرت ِ علی رضی اللہ عنہ کو ہی دینِ کل سمجھتے ہیں۔ ان کے لئیے سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی روایت پیشِ خدمت ہے۔
باب العلم، خیبر شکن،  مولا علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں  کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن عورتوں سے متعہ اور پالتو گدھوں کے گوشت کو حرام  قرار دیا۔
صحيح مسلم، حديث نمبر: 1407

متعہ سے ملتی جلتی ایک گھناؤنی رسم آج کل عرب میں بھی رائج ہے۔ خصوصاً  سعودی عرب کے مرد اس لعنت  کا شکار ہیں۔  سعودیوں نے اپنے گھروں میں کام کاج کے لئیے آنے والی مشرقِ بعید، ہندوستان، بنگلہ دیش اور افریقی ممالک کی لڑکیوں کو اپنی  تسکین کا سامان بنایا ہے۔ ہسپتالوں اور دفاتر میں کام کرنے والی عورتوں کو ہفتے کے مخصوص دنوں میں  جنسی تسکین کے لئیے منگوا لیتے ہیں اور ایک طے شدہ  ریٹ پر  ان کا یہ معاملہ  چند ہفتوں سے کئی سالوں تک چلتا ہے۔  اس میں مدت طے کی جاتی ہے اور ماہوار تنخواہ۔  باقی خامیاں وہی ہیں جو متعہ میں پائی جاتی ہیں۔ عربوں کی منافقت دیکھئیے ایک طرف متعہ کرنے والوں پر فتووں کی بارش اور حرام  کاری کے الزام دوسری طرف اپنی خود ساختہ شریعت میں اپنے ہی دیس میں یہ سب حلال۔  اسے مسیار کا نام دیتے ہیں اور عرب میں اسی قانونی و حکومتی تحفظ حاصل ہے۔
وماعلی الا البلاغ المبین