Monday, 4 March 2013

میں نے خود کو بدلا ہے--- آپ بھی بدلئیے



کسی چیز کی خواہش کرنا یا خواب دیکھنا ہر انسان کا اختیار اور حق ہے، اس پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتا کہ یہ تو ایک تصوراتی و تخیلاتی معاملہ ہے، فعل سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔  یہ کام میں ایؔام طفولیؔت سے کرتا آرہا ہوں۔  ملٹری میں جانے کے شوق سے لے کر ایک سپیشلسٹ ڈاکٹر بننے تک کا سفر میں نے لوگوں کے برعکس چند لمحات میں طے کر لیا۔  پھر ایک فقیہہ بننے کے ارادے نے بھی دم توڑ دیا مگر جستجو سلامت رہی۔  آخری شوق جو کچھ سال قبل لاحق ہوا  وہ پروفیسری کا تھا مگر یہ بھی فجر کی اذان کے ساتھ ہی   انجام کو پہنچ گیا ۔  جرنلزم کا ماسٹر  بننا چاہتا ہوں مگر کمنجت کوئی جامعہ مجھے اس کے لئیے قبول کرنے کو تیار نہیں  کیونکہ  میری  پوری  سٹوڈنٹ لائف  کا یہ ریکارڈ   ہے کہ میں  نے کبھی بھی کسی  تعلیمی ادارے کے قوانین کی پاسداری نہیں کی بلکہ  اپنی   مرضی مسلط کی۔   شاید یہی وجہ ہے کہ ماسٹروں کی  "بد دعاؤں نے مجھے  با لآخر ایک مارکیٹنگ سپیشلسٹ بنا دیا ہے۔ 

اللہ تعالٰی کا فضل ہے کہ میں نے آج تک تنخواہ پر کسی اخبار یا ادارے کے لئیے نہیں لکھا حالانکہ ایسے مواقع موجود تھے اور ہیں۔  اللہ نے مجھے توفیق بخشی اور مجھے اس کام کے لئیے چن لیا کہ میں ایسے موضوعات پر لکھوں جس سے دارین کی فلاح  ملے اور اللہ کے بندوں کا بھلا ہو۔   میں اپنے مضامین میں زیادہ تر  معاشرتی مسائل پر گفتگو کرتا ہوں جب کہ میرے کئی ہم عصر دوست  شاہوں کے قصیدے لکھنے کے باوجود  غیر مقبول و غیر مؤثر ہیں،  اور  زر کے لالچ میں مارے مارے پھرتے ہیں۔  گذشتہ کچھ دنوں سے میرے مضامین میں ایک واضح تبدیلی آپ نے دیکھی اور مجھے اس کا احساس بھی دلایا گیا۔  جی ہاں ،  میں نے سیاسی معاملات کو نظر انداز کر کے خالصاً معاشرتی و فلاحی مسائل کو موضوع بنایا ہے کیونکہ سیاسی معاملات پر لکھا جانے والا ہر  لفظ فنا ہو جائے گا مگر وہ ایک مضمون یا کالم جس میں کسی انسان کی بھلائی کی راہ نکلے وہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔

فی زمانہ ہماری نوجوان نسل بھٹک رہی ہے، راہ راست سے ہٹ کر شیطانی وسواس کا شکار ہے۔  دین سے دوری کا یہ عالم ہے کہ والدین اپنی ہی پیدا کی ہوئی اولاد سے بیزار ہیں۔  بھائی کو بہن پر اعتماد نہیں اور بہن بھائی کے مظالم کا شکار۔   شادی کے نام پر تجارت اور کاروبار ہو رہا ہے،  میاں بیوی کے رشتے کی شرم و حیا ختم ہو گئی اور یہ مقدس رشتہ اپنی رونقوں اور تابانیوں کی جگہ ایک کمرشل  کنٹریکٹ بن گیا۔  مساجد  ویران،  سینما گھر آباد،   اسلامی و مشرقی روایات دم توڑ گئیں اور مغرب اپنی تمام تر نجاستوں اور غلاظتوں کے ساتھ ہمارے اوپر ہم نے خود ہی مسلط کر لیا۔

اس ساری صورتحال میں اس کو سمجھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔  تو کیا میرا یہ فیصلہ درست نہیں کہ میں اس دنیا  کے بازار میں اپنی شہرہ عام کرنے کی بجائے کچھ ایسا کام کروں جو ان تمام مسائل و برائیوں  کی دلدل میں پھنسے  ہوئے لوگوں کو واپس اپنے مالک و مولا کی طرف لائے؟

ذہنی و قلبی  امراض و پریشانیاں کیوں عام ہو گئیں؟  ہر دوسرا شخص گھریلو ناچاکی،  میاں بیوی کی چپقلش،  والدین اور اولاد کی آپس میں جنگ،  کاروباری پریشانی،  ملازمت  نا ملنا،   ذہنی سکون کی خرابی،  گھر میں برکت نہیں،   دعا قبول نہیں ہوتی،   جوان بیٹیاں گھروں میں بیٹھی ہیں،  جن کی  شادیاں ہو گئیں ان کے گھر اجڑ رہے ہیں الغرض زندگی مسائلستان بن گئی ہے۔

قارئینِ کرام!

ذرا غور کیجئیے کہ ایسا کیوں ہے؟

یہ لوگ اپنے خالق اور مالک سے دور ہو گئے ہیں،  یہ لوگ قابل رحم اور ترس کھانے کے قابل ہیں۔  ان سے نفرت نہیں کرنی بلکہ ان کے اندر موجود برائی اور اس کے اسباب کو دور کرنا ہے۔  ان لوگوں کو دنیاوی شاہوں کے در سے اٹھا کر واپس اس در پر لانا ہے جس کے در سے کوئی خالی نہیں جاتا۔   ان کا رابطہ اللہ سے قائم کرنا ہے اور ان کی سفارش سرکارِ مدینہ، فیضِ گنجینہ، صاحبِ معطر پسینہ،   مرادالمشتاقین، انیس الغریبین، محب الفقرا ءوالغرباء والمساکین ﷺسے کروانی ہے۔  ان بھولے ہوؤں کو سیدھی    راہ دکھانی ہے۔   انہیں بتانا  اور سمجھانا ہے کہ   انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالٰی کی عبادت اور اس کی رضا میں راضی رہنا ہے۔  رزق کا مالک وہ ہے، اور وہ ایسی جگہ سے رزق عطا کرتا ہے جو ہمارے گمان میں بھی نہیں ہوتی۔

میں نے یہ تہیہ اور ارادہ کیا ہے کہ میں  ایسی مفلوک الحال اور اندھیر  نگری میں بسنے والی دنیا کے مکینوں کو اللہ کی طرف واپس بلاؤں گا۔  میں نے اپنی استعداد کے مطابق جتنی میری صحافت یا لکھنے کی صلاحیت ہے اس کو  اسی منزل کی طرف موڑ دیا ہے،  اب ہو سکتا ہے کہ میرے بہت سار ے قاری جو مختلف  فورمز پر مجھے پڑھتے تھے وہ اب میری  تند و تیز تنقیدی تحریروں سے محظوظ نا  ہوں مگر میرے الفاظ اللہ کی مخلوق کی بہتری کا باعث ضرور بنیں گے کیونکہ میں نے اپنے خیالات اور اہداف کو بدلا ہے کیونکہ یہ اٹل حقیقت ہے کہ جب روح کو اللہ کی طرف مائل کر لیا جائے تو باقی معاملات خود بخود سدھر جاتے ہیں۔

میں اپنے تمام دوستوں کو بھی دعوت دیتا ہوں کہ آئیے دنیاوی لذتوں کو ترک کر کے مخلوقِ خدا کی خدمت، اپنے خالق و مالک کی بندگی اور اس کے پیارے حبیبﷺ کی اطاعت کا پکا ارادہ کریں۔  ایسے لوگ جو بھٹکے ہوئے ہیں، جو پریشان ہیں ان کے معاملات سلجھانے میں مدد کریں۔  ان کو ذکر الٰہی، قربِ مصطفیٰﷺ کے نسخے دے کر بالکل ٹھیک ٹھاک کر دیں اور اگر ہماری مدد سے کسی کی پریشانی ختم ہو گئی،  اسے سکون میسر آگیا اور وہ راہ ِ راست پر آگیا تو یہ دنیا و آخرت میں کارِعظیم ہو گا۔

میں نے خود کو اس مقصد کے لئیے بدلا ہے،  میں نے اس روحانی منزل کا تعین کیا ہے تا کہ میں لوگوں کی خدمت کر سکوں،  اجڑے ہوؤں کے گھر بس جائیں، بچھڑے ہوئے مل جائیں،  بے نماز پکے نمازی بن جائیں،  بد کلام خوش کلام بن جائیں،  تنگدست اللہ کی رحمت سے غنی ہو جائیں،  شریر و بدکار صالح ہو جائیں،  جادو ٹونے میں مبتلا کلامِ الٰہی کی برکت سے اچھے ہو جائیں،  والدین، اولاد، بہن بھائی، میاں بیوی، دوست احباب کے رشتوں کی عزت اور قدر ہو۔

اس سارے سلسلے میں مجھے اپنے شیخِ کامل نائبِ محدثِ اعظم، صاحبِ رشد و ہدایت علامہ مفتی پیر ابو محمد، محمد عبد الرشید قادری رضوی رحمۃ اللہ علیہ(آستانہ عالیہ رضویہ سمندری شریف)  کی سرپرستی حاصل ہے۔ اللہ تعالٰی میرے شیخِ کامل کے درجات بلند فرمائے اور سروں پر تا دیرِ قائم رکھے۔

آپ بھی آئیے اور فنا کو چھوڑ کر بقا کی منزل اختیار کیجئیے، اپنی تحریر، قول، فعل اور عمل کا ضائع ہونے سے بچائیے اور اسے ایسے کام کے لئیے استعمال کیجئیے جو کسی کی فلاح، اللہ کی رضا اور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کے زمرے میں آتی ہو۔

خود کو بدل لیجئیے اس سے قبل کے بہت دیر ہو جائے۔

اے اللہ! ہم سب کو حقیقت کا عرفان عطا کر، ہمارے قلوب و اذہان کو اپنی رحمت سے بدل دے، ہمارے سینوں کو عشقِ مصطفیٰﷺ سے  منور فرما دے اور ہماری جبینوں کو  سجدوں سے سجا دے۔  ہمارے گھروں کو امن و سلامتی کے گہوارے بنا دے اور سب کے دامنوں کو خوشیوں سے بھر دے۔ اپنے حبیب ﷺ اور اولیاء کرام کا قرب و معرفت عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین
ہمارا فیس بک پیج: https://www.facebook.com/elaj.roohani

No comments:

Post a Comment