انسان کا المیہ ہے کہ یہ
ہٹ دھرمی کے ایسے ایسے انداز اختیار کرتا ہے کہ شیطان بھی چکرا جاتا ہو گا۔
اس کی وجہ تو شیطان ابلیس ہی ہے جو انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا
ہے، ابو جہل اپنے وقت کا فاضل، حکیم، دانا
اور سردار انسان تھا، اہلِ عرب کی گردنیں اس کی تعظیم میں جھکی رہتی اور دل اس کے رعب سے دھبے رہتے تھے مگر عیب سے پاک نبی ﷺ کی عظمت کے انکار نے اس حکیم و دانا انسان کو جہالت کا باپ بنا دیا،
آج دنیا کی اکثریت اس کے اصل نام سے ناواقف ہے اور وہ "ابو جہل" کے نام
سے ہی جانا جاتا ہے۔ وہ سید عالم ﷺ کے
صادق و امین ہونے کا معترف ضرور تھا مگر ہر ممکن کوشش کرتا کہ کوئی رسول اللہ ﷺ کی
ذاتِ ستودہ صفات میں کوئی عیب نظر آئے اور
وہ اسے سرِ محفل بیان کر کے اپنے خبیث من کی تسکین کا سامان کرے، مگر عظمت و
رفعتِ محمدی ﷺ کے اس منکر سمیت ہر ہر
گستاخ کی ناک خاک آلود ہوتی رہی۔
حال ہی میں ایک پاکستانی سابق گانے والے جنید جمشید کا ایک
ویڈیو بیان سامنے آیا جس میں دل
دہلا دینے والے گستاخانہ انداز میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو تمسخر کا نشانہ بنا یا گیا، مزید یہ کہ رسول
اللہ ﷺ کی تربیت پر بھی انگلی اٹھائی گئی۔ العیاذ باللہ تعالٰی۔
جنید جمشید ایک جاہل انسان ہے، یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ وہ
خود اپنے معافی نامے کی ویڈیو میں اعتراف کر چکا ہے اور اس کے استاد تبلیغی مبلغ مولانا طارق جمیل نے بھی اس کی تصدیق کر
دی۔ میرا سوال اور نظریہ سوشل میڈیا پر جاری بحث سے تھوڑا مختلف ہے، اور
اسی پر میں اپنے قارئین کی توجہ چاہتا ہوں کہ جنید جمشید کی اس غلطی کا اصل ذمہ دار کون ہے؟
اس کی ذمہ داری تبلیغی جماعت کی قیادت پر عائد ہوتی ہے
کیونکہ غیر عالم، غیر مستند اور ان پڑھ
مبلغین کی وجہ سے اس طرح کی غلطیاں ماضی میں بھی سرزد ہوتی رہی ہیں۔ خود طارق جمیل صاحب متعدد بار اپنا ذاتی واقعہ بیان کر چکے ہیں کہ سب
سے پہلے تبلیغی دورے میں ان کا امیر انتہائی جاہل انسان تھا۔ ایک ایسا شخص جس نے تبلیغ کو کاروبار اور شہرت
کا ذریعہ بنا رکھا ہے وہ قرآن و حدیث کی درسیات کے مراحل سے گزرے بغیر منبر
کی رونق بننے کی کوشش کر رہا ہے، جس نے فقہ یا اصولِ دین کی تعلیم حاصل نہیں، حدیث کی روایت کی سند اس کے پاس نہیں اور دینیات میں
اس کا کوئی مستند سلسلہ نہیں وہ درسِ
حدیث دینے کا مجاز کیسے بن گیا؟ وہ پچھلے
سترہ سال سے تبلیغی جماعت میں ہے۔ درسِ
نظامی مکمل مع تخصص آٹھ سال میں ہو جاتا ہے، اس کے سترہ سال کہاں گزرے؟ علماء کی باتیں ادب و احترام اور اخلاقیات سے
مالا مال ہوتی ہیں، علماء حقہ کی صحبت ہزار برس کی عبادت سے بہتر ہے، مگر یہ وہ
علماء ہیں جن کی زندگی میں ادب و احترام اور عشق رسول ﷺ کی جھلک نظر آتی ہو، جہاں
شرک و بدعت اور نبی کی برابری کے خیال پروان چڑھیں وہاں سے گستاخیوں کا ہی ظہور ہو
گا۔ جنید جمشید کے درس و بیان میں لطائف، طنز و مزاح اور
بازاری پن کیوں ہے؟ ان تمام باتوں سے یہ
نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ تبلیغی جماعت میں علمی کمی اور خامیاں موجود ہیں، کیونکہ
تبلیغی جماعت میں کوئی مستند تعلیمی ذریعہ موجود نہیں ہے اور جنید جمشید اس کی
زندہ مثال ہے۔ حدیث کا بیان کرنا ہر
کسی کا کام نہیں، جب تک حدیث کی روایت، اس
کی اسناد، شرح اور روایت کا پس منظر معلوم
نہ ہو اس وقت تک حدیث بیان کرنی ہی نہیں
چاہئیے، علماء و محدثین نے اس علم پر باقاعدہ کتب لکھی اور باب باندھے ہیں۔ جنید جمشید نے ذاتی واہ واہ کے حصول کے لئیے اس
حدیث میں اپنی طرف سے اضافہ کیا مثلا اس نے کہا؛
سیدہ عائشہ رضی
اللہ عنہا اکثر بیمار ہر کر لیٹ جاتی تھیں،
ہائے ہائے کہنا شروع کر دیا، ان کی
بیماری کے مصنوعی ہونے کا اشارہ دیا، ،
حضور ﷺ کی بات سن کر سیدہ رضی اللہ عنہا
اٹھ کر بیٹھ گئیں وغیرہ ۔
یہ تمام وہ باتیں ہیں جو سو فیصد جنید جمشید نے اپنی طرف سے
شامل کیں، ان میں سے ایک بھی بات مذکورہ
روایت میں نہیں ہے۔
قارئین کرام! یہاں ہم سب کے لئیے ایک سبق ہے کہ ہماری
اکثریت بھی بغیر کسی حوالہ و علم کے حدیث بیان کرنا شروع کر دیتی ہے، قرآن کی آیات
کو حدیث اور حدیث کو قرآنی آیت کہہ دیتے
ہیں۔ یہ جہالت، اور گناہ کا عمل ہے، حدیث
کو توڑ موڑ کر بیان کرنا بھی توہین رسالت اور پیغمبر اسلام ﷺ پر الزام تراشی ہے۔
فرقہ پرستی سے بالا تر ہو کر تاریخ و مذہب کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے جب میں دیکھتا ہوں تو اس
سے بھی سنگین غلطیاں ماضی میں ہو چکی ہیں، کسی نے نبی کی حیات بعد از وفات پر زبان درازی کی تو کسی نے حسین کو پاگل و دنیا دار قرار دیا، کسی نے
کتے کو شہید اور پاک فوج کے شہداء کی شہادت
برائے دین و ملت کو قبول کرنے سے علی الاعلان انکار کیا۔ عیبوں سے بری نبی ﷺ کی ذات میں نقص تلاش کرنے
کی جاہلانہ سوچ نے نبی کو اپنا بڑا بھائی
قرار دیا، کسی نے اصحابِ رسول اور ان کی خلافت کاصریح انکار کیا تو کسی نے یزید لعین کو خلیفۃ المسلمین کہہ کر اس پر درود
بھیجے۔ ان تمام گستاخیوں کے مرتکب ہونے والے افراد
اپنے مسالک کے ائمہ اور علماء تھے، اگر ان
کی زبان بندی کر دی جاتی تو آج یہ عمل دہرایا نہ جاتا۔ گندگی
کے یہ ڈھیر اور ان پر سے اٹھنے والے اس تعفن کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے
رہا۔ جنید جمشید کی حمایت میں اپنی تما م تر توانائیں صرف کرنے والے لوگوں سے میرا سوال ہے کہ ماضی قریب میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا کی شان میں ایک مبینہ گستاخی پر
دیوبندی بریلوی علماء کے اتحاد نے
راولپنڈی کی ایک عدالت کے ذریعے گستاخی کے
مرتکب شخص کو دس سال کی سزا دلوائی۔ اس
کی معافی کیوں قبول نہ کی گئی؟
جنید جمشید کی اس غلطی کی ذمہ داری ریاست پر بھی عائد ہوتی
ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی
سیاسی قیادت مصلحتوں کا شکار رہی ہے، اپنے
عیبوں پر پردہ ڈالنے کے لئیے وہ
مذہبی گروہوں کے سرغنوں کو بھی خریدتی ہے،
اس لئیے ایک معیوب سیاسی قیادت کبھی بھی
ان اختلافی مسائل پر کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کرے گی۔ ریاست کو چاہئیے کہ ایک آزادانہ پالیسی اختیار
کرے اور اس طرح کے واقعات کا اسلامی آئینی جائزہ لے کر ہمیشہ کے لئیے ایک صحیح راہ کا تعین کر دے۔ تبلیغی جماعت
والوں کو کو چاہئیے کہ ان جہلاء کو
امام نہ بنائیں اور ٹی وی چینلز پر وہی لوگ وعظ و نصیحت کے لئیے جائیں جو سند
رکھتے ہوں۔ ریاست اور تبلیغی جماعت دونوں
اس جرم کے مرتکب ہوئے ہیں اور دونوں ہی
اس تباہی کا راستہ روکنے کے لئیے قرآن و
سنہ کی روشنی میں علماءِ حقہ سے رجوع کریں اور ہمیشہ کے لئیے ان شرارتوں کی راہ بند کریں۔
No comments:
Post a Comment