Saturday, 30 March 2013

جادو، جنّات اور شیطانی اثرات کے اسباب


آج کا مضمون انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ہمارے معاشرے کی ایک خاص تعداد اس مرض اور وہم میں مبتلا ہے۔ یہ سچ بھی ہے اور کسی حد تک ایک وہم بھی۔ اسے جادو یا بد اثرات یا پھر شیطانی اثرات کا نام دیا جاتا ہے۔

ایک  تحقیق جو میری بساط میں تھی وہ اس بارے میں کیا کہتی ہے، آج آپ ملاحظہ فرمائیں گے۔ اس سلسلے میں اساتذہ، علماء اور مشائخ کی مدد بھی حاصل کی۔ خصوصاً علماء حق سے مشاورت کی۔
جادو، بد اثرات یا شیطانی اثرات کیا ہیں؟

میں نے ان تین معاملات کو یکجا اس لئیے کر دیا ہے کہ ان کی علامات اور اثرات ملتے جلتے ہیں اور اس مختصر
 تحریر میں ان کو جامعیت سے بیان کرنا ہی بہتر ہے۔

جب کسی فرد پر جادو ، جنؔات، بد اثرات حاوی ہو جائیں تو اس سے رحمتِ الٰہی بھی اٹھ جاتی ہے۔  الا ماشاء اللہ۔  نماز، قرآن، شرعی احکام، خلوص و وفا، حسنِ سلوک، آدابِ معاشرت، حقوق العباد، تعلیم و تعلم اور فکرِ آخرت اس کے ذہن سے نکل جاتے ہیں۔  جادو ایک شیطانی عمل ہے اس لئیے شیطان اپنے حملے میں کامیاب ہو کر اس انسان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات سے دور کر دیتا ہے۔  جادو کی سب سے بڑی نحوست یہی ہوتی ہے کہ بندہ عبادات اور اچھائی کے کاموں سے دور ہو جاتا ہے اور وہ مزید ایسے عمل کرتا ہے جس سے رحمت کی بجائے اس پر زحمت نازل ہوتی ہے۔  یوں بے برکتی اور نحوست کا یہ سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔  حتٰی کہ اس بندے کو اپنے اوپر کئیے گئے جادو کا احساس بھی نہیں ہوتا اور وہ کفرانِ نعمت کرتا رہتا ہے۔ اگر کوئی اس کو سمجھانے کی کوشش کرے تو وہ الٹا اس کو برا کہے گا اور خود کو درست بتائے گا۔  جادو کی نحوست کی وجہ سے وہ اپنا علاج کروانے کی توفیق سے بھی محروم رہتا ہے اور اس کی یہ نحوست آہستہ آہستہ اہلِ خانہ اور عزیز و اقارب تک بھی جا سکتی ہے۔   جادو کا بنیادی مقصد تو کسی کی زندگی تباہ کرنا، اسے ہلاک کرنا، مصیبت میں مبتلا کرنا، ذہنی سکون چھیننا اور اذیت  و  پریشانیوں میں مبتلا کرنا ہوتا ہے۔
جادو کے اثرات و علامات آپ نے ملاحظہ فرما لیں۔

جادو کیسے ہوتا ہے؟

بہت سارے لوگ جادو یا جنات کا پتہ چلنے کے فوری بعد پہلا سوال یہ کرتے ہیں کہ یہ جادو/جنات کس نے بھیجے ہیں؟ اگر لوگوں کو یہ پتہ چل جائے تو گھروں میں آگ لگ جائے۔ کیونکہ بہت سارے واقعات میں اپنے انتہائی قریبی عزیز ہی ملوّث ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس پر غور  نا کریں کہ یہ حرکت کس نے کی بلکہ اس کے علاج پر توجہ مرکوز کریں۔

اسی طرح ہمارے معاشرے میں موجود جہالت، دین و شریعت سے ناواقفیت کی وجہ سے لوگ مبتلائے مصیبت ہوتے ہیں اور وہ تصور کرتے رہتے ہیں کہ فلاں نے مجھ پر جادو کیا ہے۔  میری اپنی معلومات کے مطابق 75٪  لوگ ایسے ہیں جن پر جادو یا شیطانی اثرات ان کی اپنی غلطیوں، بد اعمالیوں اور شرعی احکام کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

جادو، جنات اور شیطانی اثرات کی چند وجوہات ملاحظہ فرمائیں۔

1- وضو اور غسل کا شرعی طریقہ نا جاننا۔  2- قرآن کریم کو اس کے آداب کے خلاف پڑھنا۔ 3- نماز کی پابندی نا کرنا۔4 - نماز کے احکام، فرائض و واجبات سے ناواقف ہونا۔ 5- غیبت اور چغل خوری کرنا۔  6- لباس گندہ رکھنا۔ 7 - جسم ناپاک رکھنا۔   8- گھر کے اندر ناپاک کپڑوں کو رکھنا، خصوصاً خواتین حیض ونفاس والے کپڑے استعمال کے بعد دیر تک گھر میں رکھتی ہیں- 9 - سب گھر والوں کا ایک ہی کنگھی استعمال کرنا-  10- ایک دوسرے کا لباس پہن لینا- 11 - جھوٹ بولنا- 12- ننگے سر بیت الخلا میں جانا۔ 13- خواتین کا سر کے بال کھلے رکھنا اور ننگے سر گھومنا، ابرو اور بھوئیں بنوانا، علماء نے اسے حرام قرار دیا اور ایسے کرنے والی پر لعنت کی وعید آئی- 14- نیل پالش کا استعمال کرنا کہ اس میں حرام اجزاء ہوتے ہیں اور اس سے وضو اور غسل بھی نہیں ہوتا۔ 15- ازدواجی تعلقات میں غیر فطری طریقہ اختیار کرنا اور غیر شرعی حرکات کرنا۔ 16- خواتین کا گھر سے باہر جاتے ہوئے خوشبو، عطر اور پرفیوم لگانا، ایسی عورت کو حدیث میں بدکارہ اور زانیہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ 17- بیت الخلا میں جا کر گنگنانا اور گفتگو کرنا۔ 18-  سِترِ عورت کی خلاف ورزی اور  بے پردگی کرنا۔ 19- سایہ دار درخت کے نیچے پیشاب کرنا۔ 20- قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے پیشاب کرنا۔ 21- اولیاء، علماء حقہ، اصحابِ رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین اور انبیاء و رسلِ عظام علیہم السلام کی شان میں گستاخی کرنا۔  ایسے شخص کو تو بہ  بھی بمشکل ہی نصیب ہوتی ہے۔ 22- یتیم اور بیوہ کا مال کھانا۔ 23- سود کھانا یا کھلانا۔ 24- رشوت دینا یا دلانا۔ 25- ناجائز منافع خوری۔ 26-  کسی بے گناہ پر تہمت اور الزام لگانا۔ 27-  جھوٹی قسم کھانا۔ 28- قرآن کی تلاوت کے وقت خاموشی اختیار نا کرنا۔ 29-  اوندھے منہ یعنی الٹا لیٹنا کہ یہ اہلِ جہنّم کا طریقہ ہے۔ 30- فجر کے وقت سوتے رہنا۔ 31- قرآن کو بے وضو ہاتھ لگانا۔ 32- والدین کی نافرمانی کرنا۔ 33- گھر میں کتا پالنا- 34- شراب و نشہ۔ 35- جوا کھیلنا۔ 36- حرام غذا کھانا۔ 37- غریب کا حق نا دینا۔ 38- زکوٰہ ادا نا کرنا۔39 -    شرک اور بدعت میں مبتلا ہو جانا، یعنی  کفار و مشرکین کی رسومات میں مبتلا ہو جانا۔ ہمارے دیہاتی معاشرے میں شادی بیاہ، موت اور دیگر مواقع پر بہت ساری خرافات موجود ہیں جو خالصتاً ہندوانہ رسومات ہیں۔ اس طرح حاملہ خواتین کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ یہ تمام امور، جنّات، جادو اور شیطانی اثرات کا راستہ آسان کر دیتے ہیں۔

اب اگر آپ غور فرمائیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ یہ وہ کام ہیں جن سے شریعت نے منع کیا ہے۔ جب بھی کسی کام میں شرعی احکام کی خلاف ورزی ہو گی اسی وقت شیطان کا راستہ صاف ہو جائے گا۔ جب رحمان کی بجائے شیطان کو دعوت دی جائے گی تب ہی تباہی ہو گی۔

ضروری نہیں کہ مذکورہ تمام خامیاں موجود ہوں تو ہی جادو ہوتا ہے، ان میں سے کوئی ایک حرکت بھی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ تاہم جس کو اللہ توبہ کی توفیق دے وہ واپس رحمتِ الٰہی کے دریا میں غوطہ زن ہو جاتا ہے۔

اوپر ذکر کی گئی وجوہات وہ ہیں جو ہماری بد اعمالیوں اور شرعی نافرمانیوں کے نتیجے میں واقع ہوتی ہیں۔ اب کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن پر ان کے رشتہ دار، عزیز یا جاننے والے کسی چیز کا بدلہ لینے یا پھر بلا وجہ گزند اور نقصان پہنچانے کے لئیے بھی  یہ شیطانی عمل کرتے ہیں۔ اس کے بہت سارے محرّکات ہیں۔ بعض اوقات جادو کرنے کے لئیے کپڑا، کنگھی، بستر، کھانا، پانی، مٹھائی، مٹی استعمال کی جاتی ہے تو بعض اوقات بغیر کسی چیز کا سہارا لئیے براہِ راست  شیطانی عمل کے ذریعے حملہ کیا جاتا ہے۔ بے شک جادو ایک خطر ناک عمل ہے اور یہ قبر کی دیواروں تک پہنچا دیتا ہے۔

اگر کسی کے ساتھ ایسا معاملہ ہو تو مخلصانہ مشورہ ہے کہ کسی پر شک نا کریں بلکہ اس کا علاج کریں۔ علاج کروانا ہی مقصد ہونا چاہئیے، جس نے یہ حرکت کی ہوگی وہ خود اذیت میں مبتلا ہو جائے گا۔ انشاء اللہ۔
میں نے پہلے لکھ دیا کہ جادو ، جنات اور شیطانی اثرات میں مبتلا انسان کو سکون نہیں ملتا اور وہ بے چین رہتا ہے اور کبھی یہاں تو کبھی وہاں۔ جو مل جائے اسی سے علاج شروع کروالیا اور نا مکمل علاج چھوڑ کر کسی اور کے پاس بھاگ گیا۔ یہ سب اس جادو ہی کے اثرات ہوتے ہیں کہ وہ شخص اپنا مکمل علاج ہی نہیں کروا پاتا۔ ایک درد مندانہ گذارش ہے کہ توبہ و استغفار کریں اور مکمل علاج کروائیں۔

اللہ کی نافرمانیاں، اس کے حبیب ﷺ کی ناراضگی اور گناہوں کی کثرت ہی اس  مصیبت کی راستے آسان کرتی
 ہے۔ بہت کم ایسے لوگ ہیں جو بلا وجہ یا بے گناہ کسی کے ظلم کا شکار ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو شریعتِ مطہرہ کا پابند بنائے، ان مصیبتوں اور پریشانیوں سے نجات عطا کرے۔ دنیا کے غموں سے پاک کر دے اور غمِ مدینہ عطا کرے۔ بیمارِ کربلا کے صدقے سب کو شفا دے اور  ہم سب کو ایک دوسرے کے لئیے آسانیاں پیدا کرنے والا بنا دے۔ آمین

جادوگر کی سزا کیا ہے؟ اس پر پھر کسی وقت کلام کریں گے۔ یہ ایک مکمل اور جامع بحث ہے۔

رابطہ کے ذرائع:

Email: mi.hasan@outlook.com
Skype: mi.hasan


فیس بک پیج:

Monday, 4 March 2013

میں نے خود کو بدلا ہے--- آپ بھی بدلئیے



کسی چیز کی خواہش کرنا یا خواب دیکھنا ہر انسان کا اختیار اور حق ہے، اس پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتا کہ یہ تو ایک تصوراتی و تخیلاتی معاملہ ہے، فعل سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔  یہ کام میں ایؔام طفولیؔت سے کرتا آرہا ہوں۔  ملٹری میں جانے کے شوق سے لے کر ایک سپیشلسٹ ڈاکٹر بننے تک کا سفر میں نے لوگوں کے برعکس چند لمحات میں طے کر لیا۔  پھر ایک فقیہہ بننے کے ارادے نے بھی دم توڑ دیا مگر جستجو سلامت رہی۔  آخری شوق جو کچھ سال قبل لاحق ہوا  وہ پروفیسری کا تھا مگر یہ بھی فجر کی اذان کے ساتھ ہی   انجام کو پہنچ گیا ۔  جرنلزم کا ماسٹر  بننا چاہتا ہوں مگر کمنجت کوئی جامعہ مجھے اس کے لئیے قبول کرنے کو تیار نہیں  کیونکہ  میری  پوری  سٹوڈنٹ لائف  کا یہ ریکارڈ   ہے کہ میں  نے کبھی بھی کسی  تعلیمی ادارے کے قوانین کی پاسداری نہیں کی بلکہ  اپنی   مرضی مسلط کی۔   شاید یہی وجہ ہے کہ ماسٹروں کی  "بد دعاؤں نے مجھے  با لآخر ایک مارکیٹنگ سپیشلسٹ بنا دیا ہے۔ 

اللہ تعالٰی کا فضل ہے کہ میں نے آج تک تنخواہ پر کسی اخبار یا ادارے کے لئیے نہیں لکھا حالانکہ ایسے مواقع موجود تھے اور ہیں۔  اللہ نے مجھے توفیق بخشی اور مجھے اس کام کے لئیے چن لیا کہ میں ایسے موضوعات پر لکھوں جس سے دارین کی فلاح  ملے اور اللہ کے بندوں کا بھلا ہو۔   میں اپنے مضامین میں زیادہ تر  معاشرتی مسائل پر گفتگو کرتا ہوں جب کہ میرے کئی ہم عصر دوست  شاہوں کے قصیدے لکھنے کے باوجود  غیر مقبول و غیر مؤثر ہیں،  اور  زر کے لالچ میں مارے مارے پھرتے ہیں۔  گذشتہ کچھ دنوں سے میرے مضامین میں ایک واضح تبدیلی آپ نے دیکھی اور مجھے اس کا احساس بھی دلایا گیا۔  جی ہاں ،  میں نے سیاسی معاملات کو نظر انداز کر کے خالصاً معاشرتی و فلاحی مسائل کو موضوع بنایا ہے کیونکہ سیاسی معاملات پر لکھا جانے والا ہر  لفظ فنا ہو جائے گا مگر وہ ایک مضمون یا کالم جس میں کسی انسان کی بھلائی کی راہ نکلے وہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔

فی زمانہ ہماری نوجوان نسل بھٹک رہی ہے، راہ راست سے ہٹ کر شیطانی وسواس کا شکار ہے۔  دین سے دوری کا یہ عالم ہے کہ والدین اپنی ہی پیدا کی ہوئی اولاد سے بیزار ہیں۔  بھائی کو بہن پر اعتماد نہیں اور بہن بھائی کے مظالم کا شکار۔   شادی کے نام پر تجارت اور کاروبار ہو رہا ہے،  میاں بیوی کے رشتے کی شرم و حیا ختم ہو گئی اور یہ مقدس رشتہ اپنی رونقوں اور تابانیوں کی جگہ ایک کمرشل  کنٹریکٹ بن گیا۔  مساجد  ویران،  سینما گھر آباد،   اسلامی و مشرقی روایات دم توڑ گئیں اور مغرب اپنی تمام تر نجاستوں اور غلاظتوں کے ساتھ ہمارے اوپر ہم نے خود ہی مسلط کر لیا۔

اس ساری صورتحال میں اس کو سمجھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔  تو کیا میرا یہ فیصلہ درست نہیں کہ میں اس دنیا  کے بازار میں اپنی شہرہ عام کرنے کی بجائے کچھ ایسا کام کروں جو ان تمام مسائل و برائیوں  کی دلدل میں پھنسے  ہوئے لوگوں کو واپس اپنے مالک و مولا کی طرف لائے؟

ذہنی و قلبی  امراض و پریشانیاں کیوں عام ہو گئیں؟  ہر دوسرا شخص گھریلو ناچاکی،  میاں بیوی کی چپقلش،  والدین اور اولاد کی آپس میں جنگ،  کاروباری پریشانی،  ملازمت  نا ملنا،   ذہنی سکون کی خرابی،  گھر میں برکت نہیں،   دعا قبول نہیں ہوتی،   جوان بیٹیاں گھروں میں بیٹھی ہیں،  جن کی  شادیاں ہو گئیں ان کے گھر اجڑ رہے ہیں الغرض زندگی مسائلستان بن گئی ہے۔

قارئینِ کرام!

ذرا غور کیجئیے کہ ایسا کیوں ہے؟

یہ لوگ اپنے خالق اور مالک سے دور ہو گئے ہیں،  یہ لوگ قابل رحم اور ترس کھانے کے قابل ہیں۔  ان سے نفرت نہیں کرنی بلکہ ان کے اندر موجود برائی اور اس کے اسباب کو دور کرنا ہے۔  ان لوگوں کو دنیاوی شاہوں کے در سے اٹھا کر واپس اس در پر لانا ہے جس کے در سے کوئی خالی نہیں جاتا۔   ان کا رابطہ اللہ سے قائم کرنا ہے اور ان کی سفارش سرکارِ مدینہ، فیضِ گنجینہ، صاحبِ معطر پسینہ،   مرادالمشتاقین، انیس الغریبین، محب الفقرا ءوالغرباء والمساکین ﷺسے کروانی ہے۔  ان بھولے ہوؤں کو سیدھی    راہ دکھانی ہے۔   انہیں بتانا  اور سمجھانا ہے کہ   انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالٰی کی عبادت اور اس کی رضا میں راضی رہنا ہے۔  رزق کا مالک وہ ہے، اور وہ ایسی جگہ سے رزق عطا کرتا ہے جو ہمارے گمان میں بھی نہیں ہوتی۔

میں نے یہ تہیہ اور ارادہ کیا ہے کہ میں  ایسی مفلوک الحال اور اندھیر  نگری میں بسنے والی دنیا کے مکینوں کو اللہ کی طرف واپس بلاؤں گا۔  میں نے اپنی استعداد کے مطابق جتنی میری صحافت یا لکھنے کی صلاحیت ہے اس کو  اسی منزل کی طرف موڑ دیا ہے،  اب ہو سکتا ہے کہ میرے بہت سار ے قاری جو مختلف  فورمز پر مجھے پڑھتے تھے وہ اب میری  تند و تیز تنقیدی تحریروں سے محظوظ نا  ہوں مگر میرے الفاظ اللہ کی مخلوق کی بہتری کا باعث ضرور بنیں گے کیونکہ میں نے اپنے خیالات اور اہداف کو بدلا ہے کیونکہ یہ اٹل حقیقت ہے کہ جب روح کو اللہ کی طرف مائل کر لیا جائے تو باقی معاملات خود بخود سدھر جاتے ہیں۔

میں اپنے تمام دوستوں کو بھی دعوت دیتا ہوں کہ آئیے دنیاوی لذتوں کو ترک کر کے مخلوقِ خدا کی خدمت، اپنے خالق و مالک کی بندگی اور اس کے پیارے حبیبﷺ کی اطاعت کا پکا ارادہ کریں۔  ایسے لوگ جو بھٹکے ہوئے ہیں، جو پریشان ہیں ان کے معاملات سلجھانے میں مدد کریں۔  ان کو ذکر الٰہی، قربِ مصطفیٰﷺ کے نسخے دے کر بالکل ٹھیک ٹھاک کر دیں اور اگر ہماری مدد سے کسی کی پریشانی ختم ہو گئی،  اسے سکون میسر آگیا اور وہ راہ ِ راست پر آگیا تو یہ دنیا و آخرت میں کارِعظیم ہو گا۔

میں نے خود کو اس مقصد کے لئیے بدلا ہے،  میں نے اس روحانی منزل کا تعین کیا ہے تا کہ میں لوگوں کی خدمت کر سکوں،  اجڑے ہوؤں کے گھر بس جائیں، بچھڑے ہوئے مل جائیں،  بے نماز پکے نمازی بن جائیں،  بد کلام خوش کلام بن جائیں،  تنگدست اللہ کی رحمت سے غنی ہو جائیں،  شریر و بدکار صالح ہو جائیں،  جادو ٹونے میں مبتلا کلامِ الٰہی کی برکت سے اچھے ہو جائیں،  والدین، اولاد، بہن بھائی، میاں بیوی، دوست احباب کے رشتوں کی عزت اور قدر ہو۔

اس سارے سلسلے میں مجھے اپنے شیخِ کامل نائبِ محدثِ اعظم، صاحبِ رشد و ہدایت علامہ مفتی پیر ابو محمد، محمد عبد الرشید قادری رضوی رحمۃ اللہ علیہ(آستانہ عالیہ رضویہ سمندری شریف)  کی سرپرستی حاصل ہے۔ اللہ تعالٰی میرے شیخِ کامل کے درجات بلند فرمائے اور سروں پر تا دیرِ قائم رکھے۔

آپ بھی آئیے اور فنا کو چھوڑ کر بقا کی منزل اختیار کیجئیے، اپنی تحریر، قول، فعل اور عمل کا ضائع ہونے سے بچائیے اور اسے ایسے کام کے لئیے استعمال کیجئیے جو کسی کی فلاح، اللہ کی رضا اور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کے زمرے میں آتی ہو۔

خود کو بدل لیجئیے اس سے قبل کے بہت دیر ہو جائے۔

اے اللہ! ہم سب کو حقیقت کا عرفان عطا کر، ہمارے قلوب و اذہان کو اپنی رحمت سے بدل دے، ہمارے سینوں کو عشقِ مصطفیٰﷺ سے  منور فرما دے اور ہماری جبینوں کو  سجدوں سے سجا دے۔  ہمارے گھروں کو امن و سلامتی کے گہوارے بنا دے اور سب کے دامنوں کو خوشیوں سے بھر دے۔ اپنے حبیب ﷺ اور اولیاء کرام کا قرب و معرفت عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین
ہمارا فیس بک پیج: https://www.facebook.com/elaj.roohani

Saturday, 2 March 2013

گجؔر قوم اور کچھ حقائق



اللہ تعالٰی نے انسان کو پیدا فرمایا تو اس کو تعارف بھی بخشا۔  اربوں کی تعداد میں انسان موجود ہیں اور اولادِ آدم نے اپنی اپنی پہچان کے لئیے خود کو قبائل میں تقسیم کر لیا ہے جو کہ ایک درست فعل ہے۔  خود خالق ِارض و سماوات نے قرآن حکیم میں اس بات کی تائید فرمائی ہے کہ قبیلہ یا ذات  تمہارے تعارف اور پہچان کے لئیے ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی ایک مخصوص قبیلے کو کسی دوسرے پر  برتری حاصل ہے بلکہ اس آیت میں یہ بھی واضح فرما دیا کہ اللہ تعالٰی کے ہاں عزت و عظمت اسی کی ہے جو متؔقی و پرہیزگار ہے۔

کچھ دنوں سے گجروں کے بارے میں ایک مضمون گردش کر رہا ہے جو کہ  تمسخر اور فضول گوئی کے زمرے میں آتا ہے۔  میں نے اس کو نظر انداز اس لئیے کر دیا تھا کہ لکھنے والے کی تحریر سے صاف واضح ہو رہا تھا کہ تحریر و تقریر میں اس کا کوئی استاد ہے نا  سند۔   اور اس طرح کے  مضامین پر ردِؔ عمل لکھنا اپنا وقت اور الفاظ ضائع کرنے کے مترادف ہے۔  قبلہ عشرت اقبال وارثی صاحب نے  اس کو آڑھے ہاتھوں لیا اور علمی بنیادوں پر اس کامحاسبہ فرمایا۔  اب میرے لئیے خاموش بیٹھنا مشکل ہو گیا لہٰذا میں نے ارادہ کیا کہ تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ علمی و تحقیقی بنیادوں پر کچھ لکھوں جس سے قارئین کو حقائق سے آگاہی ہو۔  کسی مخصوص قبیلہ کی تشہیر یا مدح سرائی مقصود نہیں بلکہ تمسخر اور مذاق کا جواب دینا مقصد ہے۔  اللہ تعالٰی نے انسان کو احسن تقویم پر تخلیق فرمایا ہے، اب یہ اس کا اپنا اختیار  یا قسمت ہے کہ وہ خود سے کیا کام لیتا ہے۔
گجؔر قبیلہ دنیا کے مختلف ممالک میں موجود ہے اور اس کے ذیلی قبائل  کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔  مثلاً پاکستان ہندوستان میں گجر قبیلہ کے ذیلی قبائل کو چوہان، چیچی، ٹھیکری، پڈانہ، کھٹانہ  وغیرہ۔  گجر قبائل اپنے ناموں کے ساتھ سردار، چوہدری، ملک ، میاں  اور نواب وغیرہ کی اضافتیں  اور خطابات بھی استعمال کرتے ہیں۔
گجروں کے بارے میں ویکیپیڈیا  کہتا ہے؛
”گجر،گرجر یاگوجر دنیاکی ایک اہم ذات ہے۔  اس قبیلے کے لوگ بھارت، پاکستان کشمیر، صومالیہ، برما،چیچنیا ، کرغزستان ، ایران ،چین اورافغانستان میں بڑی تعداد میں آباد ہیں۔  برصغیر کی قدیم ترین آبادی ہے۔  اور اس علاقہ کے آباد کرنے والی یہی قوم ہے۔ اسی وجہ سے کہ برصغیر کے بہت سے اضلاع و علاقے ان کے نام سے موسوم ہیں۔  مثلا پاکستان میں گوجرانوالہ، گجرات ،گوجرخان،گجر گڑھی، پنڈ گجراں،جنھڈاچیچیاں اوربھارت میں صوبہ گجرات اور اس طرح کے بے شمار گاؤں  پاکستان  بھارت میں موجود ہیں جو گجر قوم کے نام سے موسوم ہیں ۔ ہزارہ گزیٹیئر  میں ہزارہ کو آباد کرنے والی قوم گجر ہے۔  جو صدیوں سے آبادچلی آرہی ہے۔ اور ہزارہ کے قدیم باشندے یہی لوگ ہیں "۔

افغانستان کے 45 ٪ قبائل گجر یا گجروں کے ذیلی قبائل سے تعلق رکھتے ہیں، پاکستان اور بھارت دونوں اطراف کے کشمیر میں گجر سب سے بڑا قبیلہ ہیں۔  ہندکو، شینا، بلتی اور گلگتی علاقوں میں گجر بکثرت موجود ہیں۔   گجر واحد قوم ہیں جن کی اپنی "گوجری" زبان ہے جو پاکستان، کشمیر اور ہندوستان کی جامعات میں ایک مکمل مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے۔  ہند و پاک کے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں باقاعدہ گوجری زبان میں خبروں کی نشر و اشاعت  ہوتی ہے۔  جہاں تک دودھ کے کاروبار کو گجروں سے منسوب کیا جاتا ہے تو اس کی حقیقت سے اکثریت نابلد ہے۔   بھینسوں کا پالنا اور دودھ فروشی کے وجہ سے پہچان رکھنا ، یہ امتیاز صرف اور صرف پنجاب با لخصوص ضلع لاہور کے گردو نواح میں ہے اور اس کی وجہ مندرجہ ذیل روایت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سیدنا علی ہجویری المعروف حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے مرشد کریم کے حکم سے جب لاہور تشریف لائے تو اس وقت کفر و شرک اپنے عروج پر تھا۔ مشرک سادھو اور پنڈت لوگوں کے اعمال و افعال، مال و متاع پر مضبوط گرفت رکھتے تھے۔  دریائے راوی کے کنارے گجر قبائل نے ڈھیرے جما رکھے تھے اور  دودھ فروشی کیا کرتے۔  لاہور میں ایک مشرک جادوگر تھا اس نے ہر گھر پر پابندی لگا رکھی تھی کہ وہ اپنے دودھ فروشی کے کاروبار کا ایک مخصوص حصہ اس کے دربار پہنچایا کریں۔  اگر کسی وجہ سے اس کو دودھ کا حصہ نا پہنچ پاتا تو ان کی بھینسیں دودھ دینا بند کر دیتیں اور یہ اس جادوگر کے جادو کہ وجہ سے ہوتا تھا۔   (یہ جادو آج کل آپ کو پاکستان کے مختلف اداروں میں بھی نظر آتا ہے جس کو بھتؔہ مافیا کہا جاتا ہے)۔  حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ولایت و عظمت اور آپ کی لاہور آمد کا چرچا ہو چکا تھا،  ایک درد مند کے ذریعے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو خبر ہوئی کو ہندو جادوگر  کی اس مذموم حرکت کی وجہ سے لوگوں کے مویشی اور کاروبار خراب ہو رہے ہیں۔ آپ نے گجروں کو بلا کر فرمایا آج کے بعد اس جادوگر کو بھتہ دینے کی ضرورت نہیں، اللہ تعالٰی آپ لوگوں کے مال و مویشی کو سلامتی دے گا۔ لوگوں نے اللہ کے ولی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس جادوگر کو دودھ دینا بند کر دیا۔  اس کو تشویش لاحق ہوئی، معلوم ہوا کہ اللہ کا ایک ولی لاہور میں آیا ہے اور اس نے لوگوں کو مجھ سے دور کر دیا ہے۔  جادوگر نے اس بات کو سنجیدگی سے محسوس کیا اور داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا سامنا کرنے کا اعلان کر دیا۔  ملاقات کے لئیے وقت اور جگہ مقرر کی گئی۔  وقت مقررہ پر  حضور داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور جادوگر پہنچ گئے۔  جادوگر نے آپ کی عظمت کو للکارا اور اپنے جادو  اور فن کے ذریعے آپ کو شکست دینے کا اعلان کا۔  آپ رحمۃ اللہ علیہ کو مخاطب کر کے کہنے لگا کہ میں ہوا میں پرواز کر سکتا ہوں۔  آپ نے فرمایا پرواز کر کے دکھاؤ۔  لوگوں نے دیکھا کہ جادوگر محوِ پرواز ہو گیا۔  حاضرین کا یقین کمزور پڑنے لگا کہ اللہ کے ولی نے اپنے جوتے کو حکم دیا کہ ہوا میں پرواز کرے اور اس کافر جادوگر کے سر میں جا  برسے۔  جو اپنی طاقت سے ہوا میں گیا تھا اللہ کے ولی کے جوتوں کی بارش میں واپس زمین پر آگیا اور ہمیشہ کے لئیے فنا ہو گیا۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کی رضا دین پر استقامت میں ہے نا کہ کرامت میں۔

اس دن سے آج تک لاہور کے گجر داتا دربارکی غلامی قبول کئیے ہوئے ہیں اور ہر سال عرس شریف پر تینوں دن دودھ کی سبیل لگاتے ہیں۔ گجروں کے وسیلہ سے ہی اللہ نے لاہور کو  کفر وشرک کے اس سرغنہ سے نجات دلائی۔
موجودہ وقت میں اگر صرف پاکستان کی بات کریں تو  گجر قبائل ملکی تعمیر و ترقی میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ محراب و منبر ، جدید علوم و فنون، سیاست و قیادت، فلاحی و تعمیری میدان ہوں یا پھر بین الاقوامی سطح پر  ملکی و ملؔی خدمات۔۔ گجؔر آپ کو ہر سطح پر نظر آئیں گے۔  اولیاء کی صف میں دیکھا جائے تو ماضی قریب میں کلامِ سیف الملوک کے خالق سراج السالکین میاں محمد بخش عارفِ کھڑی شریف،  خالقِ "پاکستان" چوہدری رحمت علی جیسے بزرگ اسی قبیلے سے تھے۔  جو لوگ گجروں کو   پسماندہ طبقہ سمجھتے ہیں ان کی آنکھیں کھول دینے کے لیئے ڈاکٹر نعمت علی جاوید کی مثال حاضر ہے جو ایٹمی سائنسدان اور اٹامک انرجی کمیشن کے اعلیٰ عہدیدار تھے۔   ٹی وی اینکرز، جید صحافی، علماء اور اساتذہ بھی موجود ہیں۔ سب کا نام یہاں لکھنا مناسب  نہیں اور ممکن بھی نہیں۔ مفتی  اعظم پاکستان حضرت مفتی منیب الرحمٰن  صاحب جیسے عظیم فقیہ کا تعلق بھی گجر خاندان سے ہے۔   تمام بڑے بڑے روحانی مراکز اور آستانے بھی گجر اولیاء سے ہی منسوب ہیں۔   ماضی اور حال میں پاکستان کی اعلٰی سیاسی قیادت، ممبرانِ اسمبلی، سپیکر اسمبلی، اعلٰی جج صاحبان، وکلاء ڈاکٹر، علماء بیورو کریٹ  پاکستان کرکٹ بورڈ  کے چئیرمین اور دیگر انتظامی افسران بھی گجر ہیں۔  میں کئی ایسے گجر حضرات کو جانتا ہوں جو یورپ، مشرقِ وسطیٰ و بعید، امریکہ و آسٹریلیا جیسے ممالک کی بین الاقوامی تجارتی فرموں میں اعلٰی ترین عہدوں  پر فائز ہیں۔

جہاں تک  جھگڑالو اور فسادی رویہ کی بات ہے تو یہ بنی نوعِ انسان کا مشترکہ المیہ ہے نا کہ کسی مخصوص ذات اور قبیلہ کا۔ اچھائی اور برائی  ہر قبیلہ میں  موجود ہے حتٰی کے درِ کعبہ کے قرب و جوار میں بھی اور پاپائے روم کے آستانے کے نواح میں بھی، ہیکلِ سلیمانی کے متلاشیوں میں بھی اور رام کے پجاریوں میں بھی۔

استہزاء اور تمسخر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو سخت ناگوار گزرتا ہے۔  اپنے فن اور فضل کے دکھاوے کے لئیے کسی کا مذاق اڑانا قابلِ مذمت ہے۔  تمام قبائل اور قومیں اپنے ایمان اور تقویٰ کی بنیاد پر قابلِ عزت ہیں، کوئی موچی ہے یا نائی، خاکروب ہے یا تخت نشین، دھوبی ہے یا ٹیکسٹائل مل کا مالک۔۔۔ عزت کا پیمانہ صرف اور صرف ایمان اور تقویٰ ہے۔ آخر میں  اس آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو  اور مسخروں کو اس حکمِ ربانی سے نصیحت پکڑنی چاہئیے۔

ترجمہ؛  "اے ایمان والو! نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے، دور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نا کرو اور ایک دوسرے کے برے نام نا رکھو، کیا ہی برا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں"۔
الحجرات۔ آیت نمبر 49

Sunday, 24 February 2013

جنؔات کا تعارف 2 (جنات کی اقسام، ٹھکانہ و حملہ



"جنؔات کا   تعارف"  پہلا حصہ آپ نے پڑھا۔  بنیادی معلومات اس میں رقم کر دی تھیں۔  اس سلسلے میں کچھ مزید وضاحت حاضر ہے۔
جنؔات کی انواع و اقسام مختلف کتب میں درج ہیں، جو  صحیح  روایات ہیں ان کے مطابق جنؔات کی تین اقسام ہیں۔

نمبر1-  پروں والے جنؔات جو ہوا میں پرواز کرتے ہیں

نمبر2- وہ جنؔات جو پروں اور سانپ کا روپ دھار لیتے ہیں

نمبر3- جو ایک جگہ مقیم ہو جاتے اور پڑاؤ ڈالتے یعنی انسانوں کی طرح بستی قائم کر لیتے ہیں۔ اور  کبھی کوچ بھی کر لیتے ہیں۔

اس کو طبرانی،  مستدرک، بیہقی اور ابنِ حبؔان سے اخذ کیا گیا ہے۔


اس کے علاوہ کتب اس  حقیقت کی بھی تصدیق کرتی ہیں کہ جنؔات کتے، بلی، گائے، گھوڑا، خچر، اونٹ اور گدھے کی صورت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ کبھی انسانوں اور کبھی حیوانوں، کبھی جانوروں، سانپوں اور بچھوؤں کا روپ بھی دھار لیتے ہیں۔


اب ایک ایسا سوال جو کہ عوام الناس کے ذہنوں میں اکثر گھومتا رہتا ہے کہ جنؔات کا بسیرا  اور ٹھکانہ کہاں ہوتا ہے۔  ایک بات ذہن میں اچھی طرح سے بٹھا لیجئیے کہ ان مضامین میں آپ جو کچھ پڑھ رہے ہیں  یہ خالصتاً  آپ کی اصلاح اور جنؔات کے بارے حقائق کو سامنے لانے کی غرض سے لکھا جا رہا ہے تا کہ لوگوں کے اذہان میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکے۔


سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنؔات نے   رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ویرانے میں ملاقات کی،  اور آپ ﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ ( مسلم شریف)


اس سے ثابت ہوا کہ جنات ویرانے، کھنڈرات، جنگلات اور گھاٹیوں وغیرہ میں رہتے ہیں۔


ایک اور روایت  جو کہ مسند امام احمد اور ابنِ ماجہ میں موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا  بیت الخلا میں جنات موجود ہوتے ہیں۔   شیطان اور شریر جنؔات ہمیشہ گندگی کی جگہوں پر پائے جاتے ہیں۔  اسی لئیے بیت الخلا میں جانے سے پہلے دعا پڑھنے کی تاکید کی گئی۔   کوڑا کرکٹ، لید پھینکنے کی جگہ،  گوبر، ہڈیوں اور گندی آلائشوں کی جگہ پر بھی موجود ہوتے ہیں۔   سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بلوں میں پیشاب کرنے کی ممانعت اس لئیے ہے کہ یہاں جنؔات موجود ہوتے ہیں۔  جنؔات کا ایک اور پسندیدہ ٹھکانا قبرستان بھی ہے۔  آلاتِ موسیقی اور ناچنے والیوں کے ساتھ بھی شیطان جن ہوتے ہیں۔  سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  روای ہیں کہ رسولِ برحق ﷺ نے فرمایا تم میں سے جو کوئی بھی سو کر اٹھے وہ تین بار ناک صاف کرے کیونکہ ناک کے نتھنوں پر شیطان رات گزارتا ہے ۔ یعنی شریر جن انسان کے ناک کے ساتھ ہوتا ہے۔


مندرجہ بالا روایات سے یہ واضح ہو گیا کہ جنات کہاں کہاں پائے جاتے ہیں اب جنات کی نسل وغیرہ کے بارے میں پڑھئیے۔

جس طرح انسانوں کی شادیاں ہوتی ہیں اسی طرح جنؔات بھی شادی بیاہ کرتے ہیں۔  ان میں بھی مرد و عورت ہوتے ہیں۔ اس کا ثبوت سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ملتا ہے جس میں انہوں نے حدیث نقل فرمائی کہ اللہ کے رسولﷺ بیت الخلا میں داخل ہونے سے قبل یہ دعا پڑھتے " اے اللہ! میں شیطان مردوں اور شیطان عورتوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں"۔  ابنِ کثیر نے روایت کیا ہے کہ جنؔات داخلِ جنت بھی کئیے جائیں گے اور ان کے وہاں جنؔیوں کے ساتھ نکاح بھی کئیے جائیں گے۔

جنات کی شرح پیدائش انسانوں کی نسبت بہت زیادہ ہے ۔  انسان ایک پیدا ہو تو جنات کے ہاں نو بچے پیدا ہوتے ہیں۔(مستدرک الحاکم)۔


جنؔات کی شادی کا ایک واقعہ اور ثبوت میرے گھر میں موجود ہے۔  میرے دادا بزرگوار  رحمہ اللہ     نے ہمیں  ایک واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ وہ پاکستان اور ہندوستان کی مشرقی سرحد پر واقع ایک گاؤں میں موجود تھے۔   اپنے ایک دوست جن کا نام فیروز بتایا،   کے ساتھ علی الصبح اٹھ کر وہ شکر گڑھ کے لئیے روانہ ہوئے۔  پرانے وقتوں کی بات ہے اور وہ اکثر و بیشتر پیدل سفر کیا کرتے تھے۔  صبح کاذب تھی ،    جموں کے علاقے سے پاکستان میں داخل ہونے والے دریائے راوی کےکنارے پہنچے تو اپنے سر کی آنکھوں سے ایک عجیب منظر دیکھا کہ دریا کنارے کو قمقموں سے سجایا گیا ہے اور شادیانے بج رہے ہیں،  مرد و خواتین کا اجتماع تھا،  دادا ابؔو کا ہمراہی گھبرا گیا۔  یہ جنؔات کی شادی کا اجتماع تھا۔  جب یہ دونوں بزرگ جنؔوں کے درمیان سے گزرے تو ایک خوبصورت  و جوان قامت والے جن نے آگے بڑھ کر دادا ابو کو  اس شادی میں   شرکت کی دعوت دی۔   تاہم انہوں نے انکار کر دیا اور آگے چل دئیے پھر جنات نے پیچھا کیا اور انہیں کھانے کے لئیے کچھ پیش کیا کہ ہماری شادی کی دعوت میں یہ سب کچھ پکایا گیا ہے، آپ بھی کھا لیجیے،  دادا ابو نے پھر انکار کر دیا اور اپنی راہ لی۔  مگر دادا حضور کا ہمراہی  فیروز   پِٹ گیا۔  اس نے دیکھا کہ میرے دوست کے ساتھ یہ بہت بے تکلف ہو رہے ہیں تو اس کو جنات کی دعوت قبول کر لینی چاہئیے۔ اسی اثنا میں ایک جن آگے بڑھا اور کھانے کا وہ سارا سامان فیروز کو تھما دیا اور اس نے قبول  بھی کر لیا،  ساتھ ہی جن نے نصیحت کی اس کو سورج طلوع ہونے کے بعد ناشتہ میں کھائیے گا۔  کافی سفر پیدل طے کر لینے کے بعد ایک مقام پر پہنچ کر یہ لوگ رک گئے۔  فیروز اس لمحے کا شدت سے منتظر تھا جب یہ کھانا کھل کر اس کے سامنے آجائے گویا وہ اس کو کوئی خفیہ خزانہ سمجھ رہا تھا۔  جب انہوں نے اس لفافے کو کھولا تو اس میں نجاست و غلاظت بھری ہوئی تھی۔

حاصلِ داستان یہ کہ وہ ایک لالچ تھا،  دادا ابو نے انکار کیا تو فیروز کو بھی یہ لفافہ قبول نہیں کرنا چاہئیے تھا۔  اعتقاد اور ایمان کی کمزوری اسی کا نام ہے۔  دوسری بات کہ وہ جنات مسلمان نہیں تھے بلکہ مشرکین و کفار   میں سے   تھے۔


کمزور ایمان،  دین سے دور ، بے نمازی گھرانہ،   موسیقی اور رقص میں مشغول لوگ،  نا پاک، طہارت کا خیال نا رکھنے والے،   پیشاب وغیرہ کے بعد استنجا  نا  کرنے والے،  نا پاک لباس والے، غسلِ جنابت میں تاخیر کرنے والےِ ،    حیض و نفاس سے فراغت کے بعد  غسل میں تاخیر کرنے والی خواتین،   درختوں کے سائے میں پیشاب کرنے والے، بیت الخلا میں جا کر باتیں کرنے والے،    گالی گلوچ کرنے والے،     جس گھر میں کتؔا ہو،  نازیبا تصاویر والا گھر،   حیض و نفاس میں استعمال ہونے والے کپڑوں کو گھر میں ہی رکھنا اور ان کپڑوں کو بار بار استعمال کرنا،  استنجا کا خیال نا کرنا،  پیشاب کے چھینٹے وغیرہ وغیرہ ایسی وجوہات و اسباب ہیں جو شیطان اور کافر جنؔات کا حملہ آسان کر دیتی ہیں۔ اگر ان تمام وجوہات و اسباب کا ردؔ کر دیا جائے تو اس مصیبت سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔


ایک اور حقیقت یہ ہے کہ جنؔات ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ نیک لوگوں کے ساتھ نیک اور بدکاروں کے ساتھ بدکار۔ ان سے ڈرنے کی ضرورت اس کو ہے جو شریعت مطہرہ سے دور ہیں۔  نیک جنات ہماری دعاؤں میں ہمارے شریک ہوتے ہیں ۔   اگلے مضمون میں جنؔات کے حملوں سے بچاؤ ،  اس کے علاج،  مختلف کیفیات اور کچھ دیگر حقائق بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔  یہ بہت طویل موضوع ہے اور اس کا  یہاں مکمل بیان کرنا ناممکن ہے۔ عوام الناس کو آگاہی فراہم کرنا مقصد تھا۔ اللہ ہم سب کو حقیقت سے آشکار کر دے۔


اپنے تمام روحانی مسائل کے حل اور علاج کے لئیے ہمارے فیس بک پیج اور بلاگ کے ذریعے رابطہ کیجئیے۔   واقفِ رموزِ حقیقت حضرت عشرت اقبال وارثی صاحب اور والد گرامی کی سرپرستی میں آپ کے تمام مسائل فی سبیل اللہ حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ انشاء اللہ


اللہ تعالٰی سید انس و جان ﷺ کی بارگاہ عالیہ کے صدقے  میں تمام پریشان مومنین و مومنات کو تمام زمین و آسمانی بلاؤں اور وباؤں سے حفاظت عطا کرے۔ آمین


فیس بک پیج: https://www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi