Thursday, 4 December 2014

جنید جمشید کی گستاخی کا ذمہ دار کون؟

انسان کا المیہ ہے کہ یہ  ہٹ دھرمی کے ایسے ایسے انداز اختیار کرتا ہے کہ  شیطان بھی چکرا  جاتا ہو گا۔  اس کی وجہ تو شیطان ابلیس ہی ہے جو انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے،  ابو جہل اپنے وقت کا فاضل، حکیم، دانا اور سردار انسان تھا، اہلِ عرب کی گردنیں اس کی تعظیم میں جھکی رہتی اور  دل اس کے رعب سے دھبے رہتے تھے مگر   عیب سے پاک نبی ﷺ کی عظمت کے انکار نے  اس حکیم و دانا انسان کو جہالت کا باپ بنا دیا، آج دنیا کی اکثریت اس کے اصل نام سے ناواقف ہے اور وہ "ابو جہل" کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔  وہ سید عالم ﷺ کے صادق و امین ہونے کا معترف ضرور تھا مگر ہر ممکن کوشش کرتا کہ کوئی رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات میں کوئی  عیب نظر آئے اور وہ اسے سرِ محفل بیان کر کے اپنے خبیث من کی تسکین کا سامان کرے، مگر عظمت و رفعتِ  محمدی ﷺ کے اس منکر سمیت ہر ہر گستاخ کی ناک خاک آلود ہوتی رہی۔ 

حال ہی میں ایک پاکستانی سابق  گانے والے جنید جمشید   کا ایک  ویڈیو بیان سامنے آیا جس میں  دل دہلا دینے والے گستاخانہ انداز میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا  کو تمسخر کا نشانہ بنا یا گیا، مزید یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی  تربیت پر  بھی انگلی اٹھائی گئی۔ العیاذ باللہ تعالٰی۔

جنید جمشید ایک جاہل انسان ہے، یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ وہ خود اپنے معافی نامے کی ویڈیو میں اعتراف کر چکا ہے اور اس کے استاد تبلیغی مبلغ  مولانا طارق جمیل نے بھی اس کی تصدیق کر دی۔  میرا سوال اور نظریہ  سوشل میڈیا پر جاری بحث سے تھوڑا مختلف ہے، اور اسی پر میں اپنے قارئین کی توجہ چاہتا ہوں کہ جنید جمشید  کی اس غلطی کا اصل ذمہ دار کون ہے؟  

اس کی ذمہ داری تبلیغی جماعت کی قیادت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ  غیر عالم، غیر مستند اور   ان پڑھ مبلغین کی وجہ سے اس طرح کی غلطیاں ماضی میں بھی سرزد ہوتی رہی ہیں۔  خود طارق جمیل صاحب  متعدد بار اپنا ذاتی واقعہ بیان کر چکے ہیں کہ سب سے پہلے تبلیغی دورے میں ان کا امیر انتہائی جاہل انسان تھا۔  ایک ایسا شخص جس نے تبلیغ کو کاروبار اور شہرت کا ذریعہ بنا رکھا ہے وہ قرآن و حدیث کی درسیات کے مراحل سے گزرے  بغیر منبر  کی رونق بننے کی کوشش کر رہا ہے، جس نے فقہ یا  اصولِ دین کی تعلیم حاصل نہیں، حدیث  کی روایت کی سند اس کے پاس نہیں اور دینیات میں اس کا کوئی مستند سلسلہ نہیں وہ   درسِ حدیث دینے کا مجاز کیسے بن گیا؟   وہ پچھلے سترہ سال سے تبلیغی جماعت میں ہے۔  درسِ نظامی مکمل مع تخصص آٹھ سال میں ہو جاتا ہے، اس کے سترہ سال کہاں گزرے؟   علماء کی باتیں ادب و احترام اور اخلاقیات سے مالا مال ہوتی ہیں، علماء حقہ کی صحبت ہزار برس کی عبادت سے بہتر ہے، مگر یہ وہ علماء ہیں جن کی زندگی میں ادب و احترام اور عشق رسول ﷺ کی جھلک نظر آتی ہو، جہاں شرک و بدعت اور نبی کی برابری کے خیال پروان چڑھیں وہاں سے گستاخیوں کا ہی ظہور ہو گا۔  جنید جمشید   کے درس و بیان میں لطائف، طنز و مزاح اور بازاری پن کیوں ہے؟  ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ تبلیغی جماعت میں علمی کمی اور خامیاں موجود ہیں، کیونکہ تبلیغی جماعت میں کوئی مستند تعلیمی ذریعہ موجود نہیں ہے اور جنید جمشید اس کی زندہ مثال ہے۔    حدیث کا بیان کرنا ہر کسی  کا کام نہیں، جب تک حدیث کی روایت، اس کی اسناد،  شرح اور روایت کا پس منظر معلوم نہ ہو اس وقت  تک حدیث بیان کرنی ہی نہیں چاہئیے، علماء و محدثین نے اس علم پر باقاعدہ کتب لکھی اور باب باندھے ہیں۔  جنید جمشید نے ذاتی واہ واہ کے حصول کے لئیے اس حدیث میں اپنی طرف سے اضافہ کیا مثلا اس نے کہا؛
 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اکثر بیمار ہر کر لیٹ جاتی تھیں،  ہائے ہائے کہنا شروع کر دیا،  ان کی بیماری  کے مصنوعی ہونے کا اشارہ دیا، ، حضور ﷺ  کی بات سن کر سیدہ رضی اللہ عنہا اٹھ کر بیٹھ گئیں وغیرہ ۔

یہ تمام وہ باتیں ہیں جو سو فیصد جنید جمشید نے اپنی طرف سے شامل کیں، ان میں سے ایک بھی بات   مذکورہ روایت میں نہیں ہے۔
قارئین کرام! یہاں ہم سب کے لئیے ایک سبق ہے کہ ہماری اکثریت بھی بغیر کسی حوالہ و علم کے حدیث بیان کرنا شروع کر دیتی ہے، قرآن کی آیات کو حدیث اور حدیث کو قرآنی  آیت کہہ دیتے ہیں۔ یہ جہالت،  اور گناہ کا عمل ہے، حدیث کو توڑ موڑ کر بیان کرنا بھی توہین رسالت اور پیغمبر اسلام ﷺ پر الزام تراشی ہے۔

فرقہ پرستی سے بالا تر ہو کر تاریخ و مذہب کے ایک  طالبعلم کی حیثیت سے جب میں دیکھتا ہوں تو اس سے بھی سنگین غلطیاں ماضی میں ہو چکی ہیں، کسی نے نبی کی  حیات بعد از وفات پر زبان درازی کی تو کسی  نے حسین کو پاگل و دنیا دار قرار دیا، کسی نے کتے کو شہید اور پاک فوج کے شہداء  کی شہادت برائے دین و ملت کو قبول کرنے سے علی الاعلان انکار کیا۔    عیبوں سے بری نبی ﷺ کی ذات میں نقص تلاش کرنے کی  جاہلانہ سوچ نے نبی کو اپنا بڑا بھائی قرار دیا،   کسی نے اصحابِ رسول   اور ان کی خلافت کاصریح انکار کیا تو کسی نے  یزید لعین کو خلیفۃ المسلمین کہہ کر اس پر درود بھیجے۔      ان تمام گستاخیوں کے مرتکب ہونے والے افراد اپنے  مسالک کے ائمہ اور علماء تھے، اگر ان کی زبان بندی کر دی جاتی تو آج یہ عمل دہرایا نہ جاتا۔  گندگی  کے یہ ڈھیر اور ان پر سے اٹھنے والے اس تعفن کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔   جنید جمشید کی  حمایت میں اپنی تما م  تر توانائیں صرف کرنے والے لوگوں سے میرا  سوال ہے کہ ماضی قریب میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان میں  ایک مبینہ گستاخی پر دیوبندی بریلوی علماء  کے اتحاد نے راولپنڈی کی ایک عدالت کے ذریعے  گستاخی کے مرتکب شخص کو دس سال کی سزا دلوائی۔   اس کی معافی کیوں قبول نہ کی گئی؟  

جنید جمشید کی اس غلطی کی ذمہ داری ریاست پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ  اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سیاسی قیادت  مصلحتوں کا شکار رہی ہے، اپنے  عیبوں پر پردہ ڈالنے کے لئیے وہ مذہبی  گروہوں کے سرغنوں کو بھی خریدتی ہے، اس لئیے ایک معیوب سیاسی  قیادت کبھی بھی ان اختلافی مسائل پر  کوئی  واضح مؤقف اختیار نہیں کرے گی۔   ریاست کو چاہئیے کہ ایک آزادانہ پالیسی اختیار کرے  اور اس طرح کے واقعات کا  اسلامی آئینی جائزہ لے کر ہمیشہ کے لئیے  ایک صحیح راہ کا تعین کر دے۔  تبلیغی جماعت  والوں کو  کو چاہئیے کہ ان جہلاء کو امام نہ بنائیں اور ٹی وی چینلز پر وہی لوگ وعظ و نصیحت کے لئیے جائیں جو سند رکھتے ہوں۔   ریاست اور تبلیغی جماعت دونوں اس  جرم کے مرتکب ہوئے ہیں اور دونوں ہی اس  تباہی کا راستہ روکنے کے لئیے قرآن و سنہ کی روشنی میں علماءِ حقہ سے رجوع کریں اور ہمیشہ کے لئیے ان شرارتوں کی  راہ بند کریں۔ 

Saturday, 1 November 2014

کیا حسین اور یزید برابر ہیں؟




خلیفہِ اول بلا فصل سیدنا ابو بکر صِدؔیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور سے لے کر  آج تک  امت مسلمہ میں کئی ایسے   فتنے  پیدا ہوئے جنہوں نے  نبی ہونے کا دعوٰی کیا، کسی نے خود کو مہدی کہلوایا تو کوئی  چاند میں اپنی صورت دیکھنے لگا، نبوت   مہدیت،   اور دیگر مراتب و مناقب کے ان تمام دعویداروں کی   فہرست میں آپ کوایک بھی ایسا دعویدار نظر نہیں آئے گا جس نے خود کو "حُسین" کہا ہو۔۔۔کیونکہ حسین  ایک تھا اور ایک ہی رہے گا۔  محمد الرسول اللہﷺ نانا ہوں، علی بابا  اور فاطمہ ماں ہو تو حسین بنے۔۔۔ رضی اللہ تعالٰی عنہم۔  اللہ جل مجدہ الکریم نے حسین کو نسبتیں اور  رشتے ہی ایسے عطا فرما دئیے تھے کہ کائنات میں یہ حسب و نسب کسی اور کو  عطا ہی نہ ہوا کہ وہ حسین ہونے کا دعوٰی کر سکے۔ ۔۔ مگر  اس انفرادی عظمت و مرتبت کے باوجود  اس کائنات میں کچھ ایسے غلیظ ذہن بھی موجود ہیں جو حسین اور یزید کو برابر سمجھتے ہیں۔۔۔ بلکہ بعض نے تو  نمک حرامی اس قدر کی کہ یزید  کو حسین کے برابر شہزادہ کہا،  کربلا کی جنگ کو سیاست  اور اقتدار کی جنگ قرار دیا اور گزشتہ سال  ایک پاکستانی ٹی وی چینل پر  ایک  اسلامی ٹھیکیدار  جماعت کے  وڈیرے نے  اسے دو اصحابِ رسول کے درمیان جنگ قرار دیا۔   العیاذ باللہ تعالٰی۔۔۔    اسی جماعت کے ایک ہم خیال مصنف نے ایک کتاب تحریر کی  جس کے سرورق پر "اللھم صل علٰی یزید" لکھا گیا اور پھر اس کتاب کی تائید میں  یزید سے محبت رکھنے والے متعدد مولویوں نے اپنے دستخط بھی کئیے۔

واہ میرے حسین۔۔۔۔میرے امام تیری عظمت کو سلام۔۔۔۔ تیرے دوست اور دشمن میں فرق کرنے کے لئیے ہمیں کوئی جتن نہیں کرنے پڑتے۔۔۔  یزید تیرا دشمن تھا۔۔۔یزید آج   بھی  بے رونق  اور خوفناک چہرے لئیے بعض  مقامات پر نظر آتا ہے۔۔۔کبھی بلادِ عرب میں یزید کے نام کے مدارس و مساجد تو کبھی یزید کی عظمت میں وعظ و بیان۔۔۔ لیکن حق یہی ہے کہ  حسین لاثانی و بے مثال ہے اور یزید جہنم کی عمیق گہرائیوں میں۔  

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سید الشہداء،  تاجدارِ کربلا،  سبطِ مصطفٰی، جگر  پارہ ِ زہراء جناب ِ حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہم کی عظمت و رفعت پر بہت کچھ لکھا چکا  مگر مقصد یہ ہے کہ  زبان درازی کرنے والوں اور نمک حرامی کرنے والوں کو بتایا جائے کہ  رسول اللہ ﷺ نے  اپنی زبان  نبوت سے  حسین  کی عظمت کو اس انداز میں بیان فرما دیا  ہے کہ  اب اس میں شک کرنے والے  کاذب و  گمراہ  تو ہو سکتا ہے مگر یزید لعین کو جنتی و بے گناہ ثابت نہیں کر سکتا۔   اس سلسلہ میں امام پاک کی عظمت کو بیان کرتی ہوئی چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔  یہ احادیث پڑھنے کے بعد  آپ دل و دماغ کی صحت کے ساتھ حسین کو سلام پیش کریں گے اور یزید اور اس کے   فکری  بیٹوں اور بیٹیوں کو لعنتیں بھیجنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

 حدیث شریف  کا خلاصہ ہے کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے روایت فرمایا کہ   بے مثل و مثال نبی، غیبوں سے واقف  نبی ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں ان کے بارے نہ بتاؤں  جو اپنے نانا،  نانی،  چچا،  پھوپھی،  ماموں،  خالہ  ،   اپنے امی  اور ابو کے لحاظ سے سب  لوگوں سے بہتر ہیں؟  پھر فرمایا وہ حسن اور حسین ہیں۔   ان کے نانا اللہ عزوجل کے رسول،  ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد ،  ان کی  امی فاطمہ بنت رسول اللہ،  ان کے والد علی  بن ابو طالب،    ان کے چچا جعفر بن ابو طالب ،  ان کی پھوپھی اُمؔ ہانی بنت ابو طالب،   ان کے ماموں قاسم بن رسول اللہ  اور ان کی خالہ اللہ عزوجل کے رسول کی بیٹیاں زینب،  رقیہ اور ام کلثوم ہیں۔  رضی اللہ عنہم۔   ان کے نانا ،  نانی،  امی ابو،  چچا ،  پھوپھی،  ماموں،  خالہ سب جنت میں ہوں گے وہ دونوں یعنی حسن و حسین بھی جنت میں ہوں گے۔  رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ 
(طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد)

مندرجہ بالا  حدیث پاک میں  یزید کے گن گانوں والوں  کے تابوت میں ایسا کیل ٹھونک دیا گیا ہے کہ  صبح قیامت  تک اس سے ادنٰی درجے کی روایت بھی یزید کے لئیے نہیں لا سکتے۔  حسین کے نانا  کا اندازِ تکلم دیکھئیے کہ اپنے نواسے کے شجرہ،  خاندان،  تعارف اور  اس کی عظمت کو کس طرح  ایک ایک رشتہ کے ساتھ واضح فرما رہے ہیں۔۔۔   یزید کو جنتی اورشہزادہ کہنے والے کوئی ایک ضعیف حدیث ہی لے آئیں جس میں اس کا تعارف اس انداز میں بیان  کیا گیا ہو۔   یزید کے خون سے بے وفائی کی بو  کے بیان ملیں گے، اس کے فسق و فجور،   افعالِ حرام،   اس کے دور میں خمر و میسر،  زنا و بدکاری ، کعبۃ  اللہ کی  بے حرمتی  اور خوارج  کے فتنوں کی بنیادوں  کے اشارے و اثرات تو ملیں گے مگر حسین جیسی عظمتوں اور رفعتوں کا بیان کہیں نظر نہیں آئے گا۔    یزید کو حسین کے برابر سمجھنے والے  اپنے آقا یزید کے لئیے یہی عظمت اور مناقب لائیں  تو مانیں کے وہ سچے ہیں۔

حسن و حسین رضی اللہ عنہم کائنات کے وہ خوش قسمت ترین نواسے ہیں جن کا عقیقہ  اللہ کے محبوب ﷺ نے کیا۔  سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن و حسین کی پیدائش کے ساتویں دن  ان کی طرف سے دو دو بکریاں ذبح کیں۔
(مصنف عبد الرزاق، ابن حبان)

آج دنیا میں لوگ یزید کا نام احترام سے لینے کو تیار نہیں ہیں اور کوئی اس کے لئیے دعا  کرنے پر راضی نہیں ہے مگر یہ حسین کا مقام ہے  کہ اس کا عقیقہ اللہ عزوجل کے رسول  ﷺ خود کر رہےہیں۔۔۔  
یزیدیو!!!  لاؤ اپنے  آقا  کے لئیے کوئی ایسی مثال۔۔۔۔۔ صبح قیامت طلوع ہو جائے گی  مگر یزید کو لعین تو کہا جا سکتا ہے لیکن  جنتی ثابت نہیں کیا  جا سکتا۔ ۔۔  نہ ہی حسین کے برابر کہا جس سکتا ہے۔

 حضرت ابو سعید اور ابن عمر  رضی اللہ عنہم سے مروی دو روایات کا خلاصہ ہے کہ  جانِ رحمت ﷺ نے فرمایا  حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں اور یہ دونوں دنیا میں سے میرے پھول ہیں۔
(ترمذی،  مسند احمد،  صحیح ابنِ حبان)

 اللہ اکبر۔۔۔۔  یہ  عظمت میرے آقا حسین کی ہے جسے جنتی جوانوں کی سرداری  ان کے نانا سے ملی۔۔۔۔   یہ کیونکر ممکن ہے کہ کربلا کی جنگ کو  سیاسی مفادات کی جنگ مان لیا جائے؟  کیسے ممکن ہے کہ یہ دو شہزادوں کے درمیان جنگ تھی؟  اور میں کیوں مان لوں کے یہ دونوں برابر تھے؟؟؟   
اور اب پیشِ خدمت ہے وہ روایت جو یزید  کے صفائیاں پیش کرنے والوں  کو  اہلِ ایمان کی صف سے ایسے ہی نکال دے گی جیسے دودھ سے بال ۔۔۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا   " جس نے حسن اور حسین سے محبت کی اس نے در حقیقت مجھ سے محبت کی  اور جس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا اس نے درحقیقت مجھ سے بغض رکھا"۔  رضی اللہ تعالٰی عنہم
(ابن ماجہ، طبرانی فی الکبیر)

امام عالی مقام  کی  محبت اور عداوت  کے بیان میں اس حدیث شریف کے بعد صرف اتنا کہا دینا کافی ہو گا کہ  ہمیں حسین سے محبت،  اللہ عزوجل ہمیں حسینی غلاموں کے صف میں شمار فرمائے،  اور جو یزید  کو صحابی،  شہزادہ ،  جنتی اور بر حق مانتے ہیں  اللہ قہار ان کا شمار  یزیدیوں میں فرما کر حشر میں اس کی صف میں اٹھائے۔ 
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز ادا فرما رہے تھے کہ  اس دوران حسن و حسین آپ کی کمر مبارک پر سوار ہو گئے،  لوگوں نے انہیں منع کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ان کو چھوڑ دو،  ان پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، صحیح ابن حبان، طبرانی فی الکبیر)

کروڑوں جانیں قربان اس حسین پر کہ  نبوت کا سر اللہ کی بارگاہ میں جھکے تو خاتم الانبیاء  ﷺ کی کمر ان کی سواری بنے،  لوگ روکیں تو  یہاں تک فرما دیا کہ میرے ماں باپ ان پر قربان ۔۔۔۔ یزید  میں کیسے مان لوں کہ تو میرے حسین کے برابر ہے؟
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم مروی ہیں کہ   رؤف و رحیم آقاﷺ کے سامنے حسن و حسین کُشتی  لڑ رہے تھے اور آپ فرما رہے تھے  "حسن!  جلدی کرو،   سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا نے عرض کی ،  یا رسول اللہﷺ آپ حسن ہی کو  ایسے کیوں فرما رہے ہیں،   نبی غیب دان ﷺ نے فرمایا،  جبریل ِامین   حسین کو ایسا ہی کہہ کر حوصلہ دلا رہے ہیں۔  رضی اللہ عنہم
(اسد الغابہ، الاصابہ)

غیرت و حمیت ہو تو یہ روایت پڑھ کر شاید یزید کے چاہنے والوں کا دل بدل جائے۔۔۔  یہ حسین ہے جس کو لڑنے کا گُر جبریل نے سکھایا تھا، حسین اسلام کے لئیے لڑا تھا نہ کہ اقتدار کے لئیے۔  یزیدیوں کو جان لینا چاہئیے کہ کربلا کو اقتدار اور مفاد کی جنگ کہہ کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دے رہے،  جبریل امین کی توہین اور شانِ رسول میں گستاخی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ رضی اللہ عنہم

 عظمت و رفعت  حسین کے عنوان پر میرے  پاس   اس وقت لگ بھگ چالیس ا یسی احادیث جو مختلف  ثقہ راویان سے منقول ہیں وہ موجود ہیں مگر  مضمون کی طوالت آڑے آ رہی ہے۔     کائنات میں جب کبھی کوئی اپنے ایما ن کو داؤ پر لگا کر یزید کی حمایت کرے گا تو اس کا سر اور نظر جھکی ہوئی ہو گی،    چہرہ شرمندگی سے دوچار ہو گا،  یزید کی حمایت کے بعد لعنتوں کا طوق اس کا پیچھا کرے گا،   چہرے کی رونق اور معاشرے کی عزت جاتی رہے گی،   اہل و عیال اس سے بیزار  ہوں گے،    بظاہر معزز  ہو گا اور حقیقت میں  لوگ چمار سے بد تر  جانیں گے،   مرنے کے بعد کوئی اس کے لئیے دستِ  دعا  دراز نہیں کرے گا،  اور قبر نشانِ عبرت بن جایا کرتی ہے۔    دوسری طرف حُسین، حُسین کے انصار و جانثاران ہیں کہ پورے بہتؔر شہداء کے نام آج بھی  میرے جیسے  تہی دامن کے پاس بھی محفوظ ہیں،  حُسین  کا شاندار مزار،  حُسین کی ماں کی قبر کی پہچان،  حُسین کے بابا   کی نسبت سے نجف کو شرف مل گیا،  حُسین کے بھائی،  چچا،  پھوپھی،  ماموں،  خالہ،   حُسین کی نانی اور حُسین کے نانا  علیہم الصلاہ والسلام  کی قبورِ اَطہار کائنات میں بسنے والے ہر صحیح العقیدہ مسلمان کی محبتوں کے مراکز ہیں۔    آج دنیا کے کروڑوں والدین نے اپنے بچوں کے نام حسین سے موسوم کر رکھے ہیں مگر کوئی  یزید  نام نطر نہیں آئے گا۔  حسین کے نانا کو سلام،  حسین کی نانی،  دادا،  چچا،  ماموں،  خالہ ، پھوپھی اور سب اقرباء کو سلام بھیجے جاتے ہیں،  حسین کا پیغام زندہ ہے،  حسین کا نانا زندہ ہے،  حُسین کی آل    آج بھی موجود ہے ، مگر  یزید واقعی مر کر مٹی میں مل گیا،  یزید کی اولاد کا نام و نشان نہیں،  یزید کی قبر کی خبر نہیں،   یزید کے حواریوں  کا نام نہیں۔۔۔۔   رہتی دنیا تک حسین مینارہ ِ نور بن کر کائنات کو روشن کرتا رہے گا یزید اور یزیدی اپنی  موت مرتے رہے گے۔

اللہ جل مجدہ الکریم   ہمیں دونوں جہانوں میں حسین کے   چاہنے والوں میں شمار فرمائے۔ آمین
اللہم صل وسلم وبارک علٰی سیدنا ومولانا محمد معدن الجود الکرم وعلٰی الہ واصحابہ وبارک وسلم ۔

باغ جنت کے ہیں بہرِ مدح خوان ِاہل بیت
تم کو مژدہ نار کا اے دشمنانِ اہل بیت
ان کے گھر بے اجازت جبریل آتے نہیں
قدر والے جانتے ہیں قدر و شانِ اہل بیت
اہلِ بیتِ پاک سے گستاخیاں بے باکیاں
لعنۃ اللہ علیکم دشمنانِ اہل بیت
بے ادب گستاخ فرقے کو سنا دو اے حسؔن
یوں کہا کرتے ہیں سُنؔی داستانِ اہل بیت
ہمارا فیس بک پیج لائک کیجئیے، خیر و بھلائی کا سامان ہو گا۔ انشاء اللہ عزوجل۔

https://www.facebook.com/IHR.Official

Saturday, 27 September 2014

سرکارِ مدینہ ﷺ کے مبارک پیالے کا استقبال





صلح حدیبیہ کے موقع  پر اہلِ مکہ کی طرف سے عروہ بن مسعود  کو  اہلِ مدینہ ( اہلِ اسلام ) سے مذاکرات کرنے کے لئیے بھجوایا گیا۔ عروہ بن مسعود ایک بلند نگاہ،  رعب و دبدبہ اور  اعلٰی  منصب والی شخصیت  کا حامل انسان  تھا۔  جب حدیبیہ کے مقام پر عروہ بن مسعود  نے   رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا تھا تو اس کی آنکھوں نے آسمان کے نیچے کسی انسان کی عزت و تکریم کا یہ منظر اس سے قبل نہیں دیکھا تھا۔  عروہ بن مسعود  کے ان الفاظ کو محدثین  نے جس انداز میں  نقل کیا ہے اس کی مثال  تاریخ میں نہیں ملتی۔  عروہ نے واپس گروہ ِ کفار میں جا کر بتایا کہ تم اس محمد ﷺ کو شکست دینے کا سوچ رہے ہو جس کے غلام وضو کے دوران اپنے محبوب ﷺ کا استعمال شدہ پانی زمین پر نہیں گرنے دیتے، اپنے نبی کے وضو میں استعمال ہونے والے پانی کے ایک قطرے کے حصول کے لئیے وہ آپس میں جھگڑا کرتے ہیں اور اپنی جان وار کر پانی  کا  ایک ایک قطرہ بطور تبرک و شفاء اپنے پاس محفوظ کرتے ہیں۔ تم اس   محمد ﷺ سے  ٹکر  لے  رہے ہو جس کی داڑھی سے بال ٹوٹے  تو وہ زمین پر نہیں گرتا بلکہ اس کے   عاشق و غلام اس ایک بال  کی عزت و حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کرتے  اور اسے اپنے پاس محفوظ کر لیتے ہیں۔   اس بیان کے بعد عروہ بن مسعود نے اسلام قبول کر لیا۔ صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وبارک وسلم۔
زیرِ نظر ویڈیو میں  رسول اللہ ﷺ کے استعمال میں رہنے والے  ایک مبارک پیالے  کی زیارت کروائی گئی ہے۔ یہ پیالہ  چند سال قبل متحدہ عرب امارات کے ایک  میوزیم سے دنیا بھر کے مختلف  شہروں میں  لے جایا گیا، ہر جگہ اس پیالے کا خوب ادب و احترام   خاطر میں لایا گیا مگر  سلام  ایک غریب و مظلوم ملک چیچنیا اور اس کے عوام کو۔   چیچن صدر نے سرکاری طور  پر ایک جہاز بھجوایا۔  اس جہاز میں اس مبارک پیالے کو  رکھا گیا۔ ائیر پورٹ پر کسی سربراہِ مملکت سے کہیں بڑھ کر استقبالیہ دیا گیا۔  شاہِ کونین  ﷺ کا پیالہ کیا تشریف لایا ہر آنکھ  مرحبا مرحبا یا مصطفٰی  کا مصداق تھی۔ محترم   و مکرم صدر  جناب رمضان قادریوف  نے جہاز کے اندر جا کر  اس  مبارک مہمان پیالے کا استقبال کیا۔   ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں  کے چیچن صدر کے چہرے پر خوشی کے تاثرات ان کے  دل اور عشقِ رسول ﷺ کی ترجمانی کر  رہے تھے۔  جھومتے جھومتے پیالہ کو ادب و احترام سے اٹھا کر جہاز سے باہر لاتے ہوئے چیچن صدر اقوامِ عالم میں بسنے والے کچھ نت نئے عقائد کے حامل مسلم  شیوخ کو دعوتِ فکر دے رہے تھے کہ  عشق و محبت اپنی راہیں خود بنا لیتے ہیں،یہاں سلیقہ و شعار، قانون و اصول اور مصلحت   کی زبان نہیں سمجھی  جاتی بلکہ یہاں فدا ہو جانا ہی  اصل ِ ایمان ہے۔
جہاز سے نیچے آنے کے بعد مختلف  بزرگ ، جوان بوڑھے، سرکاری حکام، ملٹری اور دیگر  اکابرین پیالے کو چومتے ہیں۔ پھر  شہر کی شاہراہوں پر کھڑی   فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بابا کی کنیزیں اپنے آقا و مولا کے اس مقدس پیالے ﷺ پر درود و سلام  کی گجرے نچھاور کرتی ہیں اور پھر وہ    جان فدا  کر دینے کا لمحہ بھی اس ویڈیو میں موجود ہے جب  محترم رمضان قادریوف اس پیالے  کو ہزار ہا افراد کے سامنے  مبارک صندوق سے باہر نکالتے ہیں اور   پھر ہم غریبوں کے آقا ﷺ کے اس پیالے پر نظر پڑتے ہی   زار و قطار رو پڑتے ہیں۔ ان کے ساتھ موجود ہر  ہر فرد اپنی اکھیوں کو مقدس غسل دیتا ہوا نظر آتا ہے۔  عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے الفاظ یہاں مجھے بار بار یاد آ کر رلاتے رہے۔   غریب چیچن باشندے اپنے آقا  ﷺ  کے اس پیالے  کو دیکھ کر آج اس قدر امیر ہو گئے تھے کہ دنیا کی ہر دولت آج ان کے سامنے ہیچ  نظر آ رہی تھی کہ یہی تو اصل دولت ہے۔   ادب و احترام کا یہ منظر کہ   لوگ اس پیالے سے پانی کا ایک قطرہ نوش کرنے کے لئیے مارے مارے پھر رہے تھے۔  یہ تو وہ مختصر مناظر تھے جو کیمرے نے محفوظ کر لئیے نجانے اس مقدس پیالے سے کون کون سی  کرامات  و کرشمات کا ظہور ہوا ہو جو ہم نہیں دیکھ سکے۔  ربِ مصطفٰی ﷺ کی بارگاہ میں دلی دعا ہے کہ یا کریم رب ایک بار موقع دے کہ میں  ان  خوش نصیبوں کے ہاتھ جا کر چوم آؤں جنہوں نے اس مبارک مہمان کو کچھ لمحوں کے لئیے  اپنے ہاتھوں میں رکھا۔
اس ویڈیو کو آپ دیکھیں۔ دوسروں کو بھی ضرور دیکھیں اور یہ ویڈیو دیکھتے ہوئے اگر کسی مقام پر  شاہِ کونین ﷺ کا کرم ہو، اور آپ کی آنکھیں نمدیدہ ہو جائیں تو   گناہوں کی دلدل میں پھنسے ہوئے اس مجرم کی رحم کی اپیل  بھی اپنی دعاؤں میں شال کر لیجئیے کہ یہی ایک احسان میں ہر کسی سے مانگتا ہوں۔ 
میری دعا ہے کہ رب تعالیٰ چیچنیا کے  تمام مسلمانوں پر اپنے آقا و مولا کا خاص سایہ شاملِ حال رکھے۔ آمین
ویڈیو کا یوٹیوب لنک یہ ہے۔http://www.youtube.com/watch?v=KzJe2EcSoB8
مزید معلوماتی، تاریخی، اسلامی اور روحانی مضامین و مواد کے لئیے ہمارا فیس بک پیج لائک فرما لیں۔
صلی اللہ علی النبی الامی والہ واصحابہ وبارک وسلم ۔ صلاۃ وسلاماً علیک یا رسول اللہ۔ 

Saturday, 13 September 2014

نماز کے مختصر شرعی احکام






الحمد للہ  رب العٰلمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین، وعلٰی اٰلہ واصحابہ اجمعین۔

شرائطِ نماز

نماز کی چھ شرطیں ہیں:
1.     طہارت یعنی نمازی کا بدن اور کپڑے پاک ہوں۔
2.     نماز کی جگہ پاک ہو۔
3.     سترِ عورت یعنی بدن کا وہ حصہ جس کا چھپانا فرض ہے وہ چھپا ہوا ہو۔ مردکے لیے ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے اور عورت کے لیے ہاتھوں، پاؤں اور چہرہ کے علاوہ سارا بدن ستر ہے۔
4.     استقبالِ قبلہ یعنی منہ اور سینہ قبلہ کی طرف ہو۔
5.     وقت یعنی نماز کا اپنے وقت پر پڑھنا۔
6.     نیت کرنا . دل کے پکے ارادہ کا نام نیت ہے اگرچہ زبان سے کہنا مستحب ہے۔
نماز شروع کرنے سے پہلے ان شرطوں کا ہونا ضروری ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی.

فرائضِ نماز

نماز کے سات فرائض ہیں:
1.     تکبیرِ تحریمہ یعنی اَﷲُ اَکْبَرُ کہنا۔
2.     قیام یعنی سیدھا کھڑے ہوکر نماز پڑھنا۔فرض، وتر، واجب اور سنت نماز میں قیام فرض ہے، بلاعذرِ صحیح اگر یہ نمازیں بیٹھ کر پڑھے گا تو ادا نہیں ہوں گی. نفل نماز میں قیام فرض نہیں۔
3.     قرآت یعنی مطلقاًایک آیت پڑھنا۔ فرض کی پہلی دو رکعتوں میں اور سنت وتر و نوافل کی ہررکعت میں فرض ہے جب کہ مقتدی کسی نماز میں قرآت نہیں کرے گا۔
4.     رکوع کرنا۔
5.     سجدہ کرنا۔
6.     قعدہ  اخیرہ یعنی نماز پوری کرکے آخرمیں بیٹھنا۔
7.     خروج بصنعِہِ یعنی دونوں طرف سلام پھیرنا۔
اِن فرضوں میں سے ایک بھی رہ جائے تو نماز نہیں ہوتی اگرچہ سجدہ سہو کیا جائے۔

واجباتِ نماز

نماز میں درج ذیل چودہ امور واجبات میں سے ہیں؛
1.     فرض نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں قرآ ت کرنا (یعنی تنہا نماز پڑھنے والے یا باجماعت نماز میں اِمام کے لیے)۔
2.     فرض نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعت کے علاوہ تمام نمازوں کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا۔
3.     فرض نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں اور واجب، سنت اور نفل نمازوں کی تمام رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورت یا بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات پڑھنا۔
4.     سورہ فاتحہ کو کسی اور سورت سے پہلے پڑھنا۔
5.     قرآ ت، رکوع، سجدوں اور رکعتوں میں ترتیب قائم رکھنا۔
6.     قومہ کرنا یعنی رکوع سے اٹھ کر سیدھا کھڑا ہونا۔
7.     جلسہ یعنی دونوں سجدوں کے درمیان سیدھا بیٹھ جانا۔
8.     تعدیلِ ارکان یعنی رکوع، سجدہ وغیرہ کو اطمینان سے اچھی طرح ادا کرنا۔
9.     قعدۂ اُولیٰ یعنی تین، چار رکعت والی نماز میں دو رکعتوں کے بعد تشہد کے برابر بیٹھنا۔
10.دونوں قعدوں میں تشہد پڑھنا۔
11.                        امام کا نمازِ فجر، مغرب، عشاء، عیدین، تراویح اور رمضان المبارک کے وتروں میں بلند آواز سے قرآ ت کرنا اور ظہر و عصر کی نماز میں آہستہ پڑھنا۔
12.اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَۃُ اﷲِ کے ساتھ نماز ختم کرنا۔
13.نمازِ وتر میں قنوت کے لیے تکبیر کہنا اور دعائے قنوت پڑھنا۔
14.عیدین کی نمازوں میں زائد تکبیریں کہنا۔
نماز کے واجبات میں سے اگر کوئی واجب بھولے سے رہ جائے تو سجدہ   سہو کرنے سے نماز درست ہوجائے گی. سجدہ  سہو نہ کرنے اور قصداً تر ک کرنے سے نماز کا لوٹانا واجب ہے۔

سننِ نماز

جو چیزیں نماز میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہیں لیکن ان کی تاکید فرض اور واجب کے برابر نہیں سنن کہلاتی ہیں۔ نماز میں درج ذیل سنن ہیں:
1.     تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھانا۔
2.     دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو معمول کے مطابق کھلی اور قبلہ رخ رکھنا۔
3.     تکبیر کہتے وقت سر کو نہ جھکانا۔
4.     امام کا تکبیر تحریمہ اور ایک رکن سے دوسرے رکن میں جانے کی تمام تکبیریں بلند آواز سے کہنا۔
5.     سیدھے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھنا۔
6.     ثناء پڑھنا۔
7.     تعوذ یعنی اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ پڑھنا۔
8.     تسمیہ یعنی بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ پڑھنا۔
9.     فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنا۔
10.آمین کہنا
11.                        ثنا، تعوذ، تسمیہ اور آمین سب کا آہستہ پڑھنا۔
12.سنت کے مطابق قرآت کرنا یعنی نماز میں جس قدر قرآنِ مجید پڑھنا سنت ہے اتنا پڑھنا۔
13.رکوع اور سجدے میں تین تین بار تسبیح پڑھنا۔
14.رکوع میں سر اور پیٹھ کو ایک سیدھ میں برابر رکھنا اور دونوں ہاتھوں کی کھلی انگلیوں سے گھٹنوں کو پکڑ لینا۔
15.قومہ میں امام کا تسمیع یعنی سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہُ اور مقتدی کا تحمید رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہنا اور منفرد کا تسمیع اور تحمید دونوں کہنا۔
16.سجدے میں جاتے وقت پہلے دونوں گھٹنے، پھر دونوں ہاتھ، پھر ناک، پھر پیشانی رکھنا اور اٹھتے وقت اس کے برعکس عمل کرنا یعنی پہلے پیشانی، پھر ناک، پھر ہاتھ اور اس کے بعد گھٹنے اٹھانا۔
17.جلسہ اور قعدہ میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھنا اور سیدھے پاؤں کو اس طرح کھڑا رکھنا کہ اس کی انگلیوں کے سرے قبلہ رخ ہوں اور دونوں ہاتھ رانوں پر رکھنا۔
18.تشہد میں اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ پر شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا اور اِلَّا اﷲُ پر انگلی گرا دینا۔
19. قعدۂ اخیرہ میں تشہد کے بعد درودِ ابراہیمی پڑھنا۔
20.  درود اِبراہیمی کے بعد دعا پڑھنا۔
21. پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف سلام پھیرنا۔
ان سنتوں میں سے اگر کوئی سنت سہواً رہ جائے یا قصداً ترک کی جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی اور نہ ہی سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے لیکن قصداً چھوڑنے والا گنہگار ہوتا ہے۔

مستحباتِ نماز

نماز میں درج ذیل اُموربجا لانا مستحب ہے:
§       قیام میں سجدہ کی جگہ نگاہ رکھنا۔
§       رکوع میں قدموں پر نظر رکھنا۔
§       سجدہ میں ناک کی نوک پر نظر رکھنا۔
§       قعدہ میں گود پر نظر رکھنا۔
§       سلام پھیرتے وقت دائیں اور بائیں جانب کے کندھے پر نظر رکھنا۔
§       جمائی کو آنے سے روکنا، نہ رکے تو حالتِ قیام میں دائیں ہاتھ سے منہ ڈھانک لیں اور دوسری حالتوں میں بائیں ہاتھ کی پیٹھ سے۔
§       مرد تکبیر تحریمہ کے لیے کپڑے سے ہاتھ باہر نکالیں اور عورتیں اندر رکھیں۔
§       کھانسی روکنے کی کوشش کرنا۔
§       حَيَ عَلَی الْفَلَاحِ پر امام و مقتدی کا کھڑے ہونا۔
§       حالتِ قیام میں دونوں پاؤں کے درمیان کم از کم چار انگلیوں کا فاصلہ ہو۔

مفسداتِ نماز

بعض اعمال کی وجہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اسے لوٹانا ضروری ہو جاتا ہے، انہیں مفسداتِ نماز کہتے ہیں۔ نماز کو فاسد بنانے والے اعمال درج ذیل ہیں:
§       نماز میں بات چیت کرنا۔
§       سلام کرنا۔
§       سلام کا جواب دینا۔
§       درد اور مصیبت کی وجہ سے آہ و بکا کرنا یا اُف کہنا (لیکن جنت و دوزخ کے ذکر پر رونے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔
§       چھینک آنے پر اَلْحَمْدُِﷲِ کہنا۔
§       کسی کی چھینک پر يَرْحَمُکَ اﷲُ یا کسی کے جواب میں يَھْدِيْکُمُ اﷲُ کہنا۔
§       بری خبر پر اِنَّاِﷲِ وَاِنَّا اِلَيْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنا۔
§       اچھی خبر پر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہنا۔
§       دیکھ کر قرآن پڑھنا۔
§       کھانا پینا۔
§       عملِ کثیر یعنی ایسا کام کرنا کہ دیکھنے والا یہ گمان کرے کہ وہ نماز میں نہیں ہے۔
§       نمازی کا اپنے امام کے سوا کسی اور کو لقمہ دینا۔
§       قہقہہ کے ساتھ ہنسنا۔

     مکروہاتِ نماز

بعض امور کی وجہ سے نماز ناقص ہو جاتی ہے یعنی نمازی اَصل اَجر و ثواب اور کمال سے محروم رہتا ہے، انہیں مکروہات کہتے ہیں۔ ان سے اِجتناب کرنا چاہیے۔ نماز کو مکروہ بنانے والے امور درج ذیل ہیں:

§       ہر ایسا کام جو نماز میں اﷲ کی طرف سے توجہ ہٹا دے مکروہ ہے۔
§       داڑھی، بدن یا کپڑوں سے کھیلنا۔
§       اِدھر اُدھر منہ پھیر کر دیکھنا۔
§       آسمان کی طرف دیکھنا۔
§       کمر یا کولہے وغیرہ پر ہاتھ رکھنا۔
§       کپڑا سمیٹنا۔
§       سَدْلِ ثوب یعنی کپڑا لٹکانا مثلاً سر یا کندھوں پر اس طرح ڈالنا کہ دونوں کنارے لٹکتے ہوں۔
§       آستین آدھی کلائی سے زیادہ چڑھی ہوئی رکھنا۔
§       انگلیاں چٹخانا۔
§       بول و براز (پاخانہ / پیشاب) یا ہوا کے غلبے کے وقت نماز ادا کرنا۔ اگر دورانِ نماز میں یہ کیفیت پیدا ہو جائے اور وقت میں بھی گنجائش ہو تو نماز توڑ دینا واجب ہے۔
§       قعدہ یا سجدوں کے درمیان جلسہ میں گھٹنوں کو سینے سے لگانا۔
§       بلاوجہ کھنکارنا۔
§       ناک و منہ کو چھپانا۔
§       جس کپڑے پر جاندار کی تصویر ہو اس کو پہن کر نماز پڑھنا۔
§       کسی کے منہ کے سامنے نماز پڑھنا۔
§       پگڑی یا عمامہ اس طرح باندھنا کہ درمیان سے سر ننگا ہو۔
§       کسی واجب کو ترک کرنا مثلاً رکوع میں کمر سیدھی نہ کرنا، قومہ یا جلسہ میں سیدھے ہونے سے پہلے سجدہ کو چلے جانا۔
§       قیام کے علاوہ اور کسی جگہ پر قرآنِ حکیم پڑھنا۔
§       رکوع میں قرآ ت ختم کرنا۔
§       صرف شلوار یا چادر باندھ کر نماز پڑھنا۔
§       امام سے پہلے رکوع و سجود میں جانا یا اٹھنا۔
§       قیام کے علاوہ نماز میں کسی اور جگہ قرآنِ حکیم پڑھنا۔
§       چلتے ہوئے تکبیر تحریمہ کہنا۔
§       امام کا کسی آنے والے کی خاطر نماز کو بلا وجہ لمبا کرنا۔
§       قبر کے سامنے نماز پڑھنا۔
§       غصب کی ہوئی زمین/مکان/کھیت میں نماز پڑھنا۔
§       الٹا کپڑا پہن/اوڑھ کر نماز پڑھنا۔
§       اچکن وغیرہ کے بٹن کھول کر نماز پڑھنا جبکہ نیچے قمیص نہ ہو۔

نوٹ!!! اس مضمون کی تیاری میں فقہ حنفیہ کی مختلف معتبر کتب سے مواد لیا گیا۔

اللہ تعالٰی ہم سب کے لئیے علمِ دین کا حصول، اس پر عمل اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کی توفیق اور آسانی فرمائے۔ آمین